اک سمندر کے حوالے سارے خط کرتا رہا
اک سمندر کے حوالے سارے خط کرتا رہا
وہ ہمارے ساتھ اپنے غم غلط کرتا رہا
کیا کسی بدلاؤ سے یہ زندگی بدلی کبھی
کیوں نئی وہ روز اپنی شخصیت کرتا رہا
اس کی تنہائی کا عالم دوستو مت پوچھیے
گھر کی ہر دیوار سے وہ مصلحت کرتا رہا
تھی خبر اب اپنے حق میں کچھ نہیں باقی رہا
جان کر میں کاغذوں پر دستخط کرتا رہا
ہاں اسے شاعر زمانہ کہہ رہا ہے ان دنوں
جو دوانہ اپنے غم کی تربیت کرتا رہا
آج سمجھا ٹھوکروں کے بعد بھی ہے زندگی
کیوں عطا مجھ کو مسافرؔ یہ صفت کرتا رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.