اک پل کی دوڑ دھوپ میں ایسا تھکا بدن
اک پل کی دوڑ دھوپ میں ایسا تھکا بدن
میں خود تو جاگتا ہوں مگر سو گیا بدن
بچہ بھی دیکھ لے تو ہمک کر لپک پڑے
ایسی ہی ایک چیز ہے وہ دودھیا بدن
جی چاہتا ہے ہاتھ لگا کر بھی دیکھ لیں
اس کا بدن قبا ہے کہ اس کی قبا بدن
جب سے چلا ہے تنگ قمیصوں کا یہ رواج
نا آشنا بدن بھی لگے آشنا بدن
گنگا کے پانیوں سا پوتر کہیں جسے
آنکھوں کے تٹ پہ تیرتا ہے جو گیا بدن
بستر پہ تیرے میرے سوا اور کون ہے
محسوس ہو رہا ہے کوئی تیسرا بدن
دھرتی نے موسموں کا اثر کر لیا قبول
رت پھر گئی تو ہو گیا اس کا ہرا بدن
اس کو کہاں کہاں سے رفو کیجیے نظرؔ
بہتر یہی ہے اوڑھیے اب دوسرا بدن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.