اک دریچے کی تمنا مجھے دوبھر ہوئی ہے
اک دریچے کی تمنا مجھے دوبھر ہوئی ہے
وہ گھٹن ہی مری سانسوں پہ مقرر ہوئی ہے
آج رکھے ہیں قدم اس نے مری چوکھٹ پر
آج دہلیز مری چھت کے برابر ہوئی ہے
نیند نے نیند سے چونکا کے اٹھایا مجھ کو
خواب میں خواب کی تعبیر اجاگر ہوئی ہے
اس نے راتوں کے تقدس کو کیا ہے مجروح
ایک مٹھی بھی جسے دھوپ میسر ہوئی ہے
جب سے سیکھا ہے ہنر شیشہ گری کا میں نے
بس اسی دن سے یہ دنیا ہے کہ پتھر ہوئی ہے
اب زمینوں کو بچھائے کہ فلک کو اوڑھے
مفلسی تو بھری برسات میں بے گھر ہوئی ہے
ایک مدت سے جو صحرائے مسرت تھی سلیمؔ
غم کے چھوتے ہی وہی چشم سمندر ہوئی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.