اک انوکھی رسم کو زندہ رکھا ہے
خون ہی نے خون کو پسپا رکھا ہے
اب جنون خود نمائی میں تو ہم نے
وحشتوں کا اک دریچہ وا رکھا ہے
شہر کیسے اب حقیقت آشنا ہو
آگہی پر ذات کا پہرہ رکھا ہے
تیرگی کی کیا عجب ترکیب ہے یہ
اب ہوا کے دوش پر دیوا رکھا ہے
تم چراغوں کو بجھانے پر تلے ہو
ہم نے سورج کو بھی اب اپنا رکھا ہے
تم ہمارے خون کی قیمت نہ پوچھو
اس میں اپنے ظرف کا عرصہ رکھا ہے
شہر کی اس بھیڑ میں چل تو رہا ہوں
ذہن میں پر گاؤں کا نقشہ رکھا ہے
یہ عظیمؔ اپنا کمال ظرف ہے جو
دشمنوں کے عیب پر پردہ رکھا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.