ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا
ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا
وہ زندگی کو یہ کیسا عذاب دے کے گیا
نہ دے سکا مجھے وسعت سمندروں کی مگر
سمندروں کا مجھے اضطراب دے کے گیا
وہ کس لیے مرا دشمن تھا جانے کون تھا وہ
جو آنکھ آنکھ مسلسل سراب دے کے گیا
خلا کے نام عطا کر کے چھاؤں کی میراث
مجھے وہ جلتا ہوا آفتاب دے کے گیا
وہ پیڑ اونچی چٹانوں پہ اب بھی تنہا ہیں
انہی کو ساری متاع سحاب دے کے گیا
ہر ایک لفظ میں رکھ کر سراب معنی کا
ہر ایک ہاتھ میں وہ اک کتاب دے کے گیا
میں کل ہوں اور تو جز میں بھی کل ہے اے منظورؔ
بچھڑتے وقت مجھے یہ خطاب دے کے گیا
- کتاب : Natamam (Pg. 25)
- Author : Hakeem Manzoor
- مطبع : Samt Publication 2/48 Rajendar Nagar New Delhi-110060 (1977)
- اشاعت : 1977
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.