دھند میں ڈوبی ساری فضا تھی اس کے بال بھی گیلے تھے
دلچسپ معلومات
تیسرے شعر میں مشہور شاعر مصطفیٰ زیدی اور ان کی محبوبہ شہناز کی طرف اشارہ ہے ، مصطفیٰ زیدی ایک روز اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے
دھند میں ڈوبی ساری فضا تھی اس کے بال بھی گیلے تھے
جس کی آنکھیں جھیلوں جیسی جس کے ہونٹ رسیلے تھے
جس کو کھو کر خاک ہوئے ہم آج اسے بھی دیکھا تو
ہنستی آنکھیں افسردہ تھیں ہونٹ بھی نیلے نیلے تھے
جن کو چھو کر کتنے زیدیؔ اپنی جان گنوا بیٹھے
میرے عہد کی شہنازوںؔ کے جسم بڑے زہریلے تھے
آخر آخر ایسا ہوا کہ تیرا نام بھی بھول گئے
اول اول عشق میں جاناں ہم کتنے جوشیلے تھے
آنکھیں بجھا کے خود کو بھلا کے آج شناسؔ میں آیا ہوں
تلخ تھیں لہجوں کی برساتیں رنگ بھی کڑوے کسیلے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.