بس کہ اک لمس کی امید پہ وارے ہوئے ہیں
بس کہ اک لمس کی امید پہ وارے ہوئے ہیں
سو ترے سامنے یہ خاک پسارے ہوئے ہیں
جانے کب ان کو بجھا بیٹھے کوئی باد الم
سر مژگان تمنا جو ستارے ہوئے ہیں
زندگی تو بھی ہمیں ویسے ہی اک روز گزار
جس طرح ہم تجھے برسوں سے گزارے ہوئے ہیں
نت نئے نقش کریں اس پہ اذیت کے رقم
آ کہ ہم تختیٔ دل اپنی پچارے ہوئے ہیں
کب کچل جائیں کسی پاؤں سے ہم برگ وجود
وقت کی دھوپ میں ویسے ہی کرارے ہوئے ہیں
جانتے ہیں کہ تو ہی عشق بدن کو ہے لباس
ہم ترا روپ جو آشفتگی دھارے ہوئے ہیں
اپنی جرأت کی ستائش ہو کہ ہم چوب مزاج
ربط رکھتے ہیں سدا ان سے جو آرے ہوئے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.