بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
نہیں مرتے ہیں تو ایذا نہیں جھیلی جاتی
اور مرتے ہیں تو پیماں شکنی ہوتی ہے
دن کو اک نور برستا ہے مری تربت پر
رات کو چادر مہتاب تنی ہوتی ہے
تم بچھڑتے ہو جو اب کرب نہ ہو وہ کم ہے
دم نکلتا ہے تو اعضا شکنی ہوتی ہے
زندہ در گور ہم ایسے جو ہیں مرنے والے
جیتے جی ان کے گلے میں کفنی ہوتی ہے
رت بدلتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری
جب بہار آتی ہے توبہ شکنی ہوتی ہے
غیر کے بس میں تمہیں سن کے یہ کہہ اٹھتا ہوں
ایسی تقدیر بھی اللہ غنی ہوتی ہے
نہ بڑھے بات اگر کھل کے کریں وہ باتیں
باعث طول سخن کم سخنی ہوتی ہے
لٹ گیا وہ ترے کوچے میں دھرا جس نے قدم
اس طرح کی بھی کہیں راہزنی ہوتی ہے
حسن والوں کو ضد آ جائے خدا یہ نہ کرے
کر گزرتے ہیں جو کچھ جی میں ٹھنی ہوتی ہے
ہجر میں زہر ہے ساغر کا لگانا منہ سے
مے کی جو بوند ہے ہیرے کی کنی ہوتی ہے
مے کشوں کو نہ کبھی فکر کم و بیش رہی
ایسے لوگوں کی طبیعت بھی غنی ہوتی ہے
ہوک اٹھتی ہے اگر ضبط فغاں کرتا ہوں
سانس رکتی ہے تو برچھی کی انی ہوتی ہے
عکس کی ان پہ نظر آئنہ پہ ان کی نگاہ
دو کماں داروں میں ناوک فگنی ہوتی ہے
پی لو دو گھونٹ کہ ساقی کی رہے بات حفیظؔ
صاف انکار سے خاطر شکنی ہوتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.