بہار بن کے خزاں کو نہ یوں دلاسا دے
بہار بن کے خزاں کو نہ یوں دلاسا دے
نگاہیں پھیر لے اپنی نہ خود کو دھوکا دے
مصاف زیست ہے بھر دے لہو سے جام مرا
نہ مسکرا کے مجھے ساغر تمنا دے
کھڑا ہوا ہوں سر راہ منتظر کب سے
کہ کوئی گزرے تو غم کا یہ بوجھ اٹھوا دے
وہ آنکھ تھی کہ بدن کو جھلس گئی قربت
مگر وہ شعلہ نہیں روح کو جو گرما دے
ہجوم غم وہ رہا عمر بھر در دل پر
خوشی اسی میں رہی یہ ہجوم رستا دے
لکھا ہے کیا مرے چہرے پہ تو جو شرمایا
زبان سے نہ بتا آئنا ہی دکھلا دے
میں لڑکھڑا سا گیا ہوں وفا کے وعدے پر
پکڑ کے ہاتھ مجھے گھر تلک تو پہونچا دے
سکوت انجم و مہ نے چھپا لیا ہے جسے
جھکی نظر نہ کسی کو وہ راز بتلا دے
ہر ایک درد کا درماں ہے لوگ کہتے ہیں
مگر وہ درد نعیمیؔ جو خود مسیحا دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.