بدن سراب نہ دریائے جاں سے ملتا ہے
بدن سراب نہ دریائے جاں سے ملتا ہے
تو پھر یہ خواب کنارہ کہاں سے ملتا ہے
یہ دھوپ چھاؤں سلامت رہے کہ تیرا سراغ
ہمیں تو سایۂ ابر رواں سے ملتا ہے
ہم اہل درد جہاں بھی ہیں سلسلہ سب کا
تمہارے شہر کے آشفتگاں سے ملتا ہے
جہاں سے کچھ نہ ملے تو بھی فائدے ہیں بہت
ہمیں یہ نقد اسی آستاں سے ملتا ہے
فضا ہی ساری ہوئی سرخ رو تو حیرت کیا
کہ آج رنگ ہوا گل رخاں سے ملتا ہے
بچھڑ کے خاک ہوئے ہم تو کیا ذرا دیکھو
غبار جا کے اسی کارواں سے ملتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.