بادشاہی ہو کہ دریوزہ گری کا موسم
بادشاہی ہو کہ دریوزہ گری کا موسم
بھولتا ہی نہیں وہ ہم سفری کا موسم
کھیتیاں چھالوں کی ہوتی تھیں لہو اگتے تھے
کتنا زرخیز تھا وہ در بدری کا موسم
حرز جاں ٹھہرے جو صحرا میں ٹھکانہ مل جائے
بستیوں میں تو ہے آشفتہ سری کا موسم
آؤ زخموں سے پھر اک بار لپٹ کر رو لیں
ورنہ آنے کو ہے اب بخیہ گری کا موسم
روز اول سے ہے چھایا ہوا مجھ پر اب تک
کرچیاں ہونے کا شق ابشری کا موسم
اب کبھی لوٹ کر آئے گا نہ شاید عاجزؔ
ڈوب کر پینے کا دامن کی تری کا موسم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.