اپنی تنہائی کا سامان اٹھا لائے ہیں
اپنی تنہائی کا سامان اٹھا لائے ہیں
آج ہم میرؔ کا دیوان اٹھا لائے ہیں
ان دنوں اپنی بھی وحشت کا عجب عالم ہے
گھر میں ہم دشت و بیابان اٹھا لائے ہیں
وسعت حلقۂ زنجیر کی آواز کے ساتھ
ہم وہ قیدی ہیں کہ زندان اٹھا لائے ہیں
میرے سانسوں میں کوئی گھولتا رہتا ہے الاؤ
اپنے سینے میں وہ طوفان اٹھا لائے ہیں
اک نئے طرز پہ آباد کریں گے اس کو
ہم ترے شہر کی پہچان اٹھا لائے ہیں
زندگی خود سے مکرنے نہیں دیں گے تجھ کو
اپنے ہونے کے سب امکان اٹھا لائے ہیں
ہم نے نقصان میں امکان کو رکھا ہی نہیں
جتنے ممکن تھے وہ نقصان اٹھا لائے ہیں
کچھ تو شاہدؔ کو بھی نسبت رہی ہوگی اس سے
وہ جو ٹوٹا ہوا گلدان اٹھا لائے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.