آسماں پر اک ستارہ شام سے بیتاب ہے
آسماں پر اک ستارہ شام سے بیتاب ہے
میری آنکھوں میں تمہارا غم نہیں ہے خواب ہے
رات دریا آئنے میں اس طرح آیا کہ میں
یہ سمجھ کر سو گیا دریا نہیں اک خواب ہے
کامنی صورت میں بھی اک آرزو ہے محو خواب
سانولی رنگت میں بھی اک وصل کا کمخواب ہے
میری خاطر کچھ سنہری سانولی مٹی بھی تھی
ورنہ اس کا جسم سارا روشنی کا خواب ہے
آسماں اک بستر سنجاب لگتا ہے مجھے
اور یہ قوس قزح جیسے کوئی محراب ہے
کس کے استقبال کو اٹھے تھے دیوانوں کے ہاتھ
کس کے ماتم کو یہاں یہ مجمع احباب ہے
یا الہ آباد میں رہیے جہاں سنگم بھی ہو
یا بنارس میں جہاں ہر گھاٹ پر سیلاب ہے
اس نہنگ تشنہ سے زور آزما ہو کر جمیلؔ
بھول مت جانا کہ آگے بھی وہی گرداب ہے
- کتاب : chhaar khvaab (Pg. 115)
- Author : qamar jameel
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.