آگ ہے آگ تری تیغ ادا کا پانی
آگ ہے آگ تری تیغ ادا کا پانی
ایسے پانی کو میں ہرگز نہ کہوں گا پانی
نہ رہے آنکھ میں بھی دل سے نکل کر آنسو
جا بجا ان کو لیے پھرتا ہے دانا پانی
حال پوچھو نہ مرے گریۂ غم کا مجھ سے
اس کے کہنے سے بھی ہوتا ہے کلیجا پانی
سوز غم ہی سے مری آنکھ میں آنسو آئے
سوچتا ہوں کہ اسے آگ کہوں یا پانی
ترک مے خانہ گوارا نہ کروں گا ہرگز
راس ہے میری طبیعت کو یہاں کا پانی
کر دیا سب کو ترے تیر نظر نے سیراب
جس کے سینے پہ لگا اس نے نہ مانگا پانی
عیش دم بھر کا بھی دیکھا نہیں جاتا اس سے
چرخ کم بخت کی آنکھوں میں نہ اترا پانی
تیرے ہی جلوے سے ہے باغ تمنا کی بہار
یہی تنویر ہے آئینہ دل کا پانی
خلش غم سے کئے جاؤں کہاں تک نالے
میری قسمت میں تو ہر روز یہ ایذا پانی
ڈوب جاتے ہیں امیدوں کے سفینے اس میں
میں نہ مانوں گا کہ آنسو ہے ذرا سا پانی
ضبط گریہ سے بڑھی اور مصیبت اے جوشؔ
دل یہ کہتا ہے کہ اب سر سے ہے اونچا پانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.