Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

پھولوں کی سیج

بھگوان چندر گپت

پھولوں کی سیج

بھگوان چندر گپت

MORE BYبھگوان چندر گپت

    دلچسپ معلومات

    متھلا کی لوک کہانی

    کسی نگر میں ایک راجہ راج کرتا تھا۔ اس کی ایک رانی تھی۔ اس رانی کوکپڑے اورگہنے کابہت زیادہ شوق تھا۔ اسے کبھی سونے کاکرن پھول چاہئے، کبھی ہیرے کا ہار تو کبھی موتیوں کی مالا۔ کپڑوں کی توبات ہی نہ پوچھئے۔ بھاگل پوری ٹسراور ڈھاکے کی ململ اوررات کوسونے کے لئے پھولوں کی سیج پھول بھی کھلے ہوئے نہیں۔ بلکہ ادھ کلیاں جورات بھر میں آہستہ آہستہ کھلیں۔ ہرروز نوکرادھ کھلی کلیاں چن چن کر لاتے اورباندی سیج لگاتی۔ اسی طرح اتفاق سے ایک دن ادھ کھلی کلیوں کے ساتھ کچھ کھلی ہوئی کلیاں بھی سیج پر آ گئیں۔ اب تورانی کو بہت ہی بےچینی ہوئی۔

    رانی کو نیند کہاں؟ کھلی کلیاں چبھ رہی تھیں۔ دیپک دیو (دیا) جواپنی روشنی پھیلاcرہے تھے۔ ان سے نہ رہا گیا۔vوہ بولے :۔’’رانی! اگر تمہیں مکان بناتے وقت راج گیروں کوتسلے ڈھوڈھوکر گارا اور چونا دینا پڑے تو کیا ہو؟ کیا تسلوں کا ڈھونا ان کلیوں سے بھی زیادہ برا لگےگا؟‘‘ رانی نے سوال کا کوئی جواب نہ دیا وہ لاجواب ہو گئی۔ راجہ بھی جاگ رہے تھے۔ انہوں نے ساری باتیں سن لیں۔

    راجہ نے رانی سے سوال کیا۔ ’’دیپک دیو کے سوال کی آزماش کرکے دیکھو نا؟ ان کا حکم نہ ماننا اچھا نہیں‘‘ رانی راضی ہو گئی۔ راجہ نے کاٹھ کا ایک کٹہرا بنوایا اس میں رانی کو بند کروا دیا اور پاس بہنے والی ندی میں بہا دیا۔ وہ کٹہرا بہتے بہتے ایک دوسرے رجواڑے کے کنارے جا لگا۔ وہ راجہ کے بہنوئی کے راج میں تھا۔ گھاٹ والوں نے کٹہرے کو پکڑکر کنارے لگایا۔ کھولا تو اس میں ایک خوبصورت عورت نکلی۔ رانی کے زیور اور قیمتی کپڑے پہلے ہی اتار لئے گئے تھے وہ معمولی پھٹے چیتھڑے پہنے ہوئے تھی مگر خوبصورت تھی۔ راجہ اسے نہ پہچان سکا اور نہ رانی نے ہی اپنا صحیح پتہ بتایا۔ کیونکہ دیپک دیوکی بات کا امتحان بھی تو لینا تھا۔ راجہ کا ایک نیا محل بن رہا تھا۔ اس لئے راجہ کو مزدوروں کی ضرورت تھی اس نے پوچھا۔ ’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘

    رانی نے اپنی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا ’’مکان بنانے میں تسلا ڈھونے کا کام۔‘‘

    راجہ نے اس رانی کو تسلا ڈھونے کے کام پر لگا دیا۔ رانی دن بھر تسلا ڈھوتی اور مزددوری کے تھوڑے پیسوں سے اپنی گزر کرتی۔ دن بھر کی سخت محنت کے بعد جو روکھا سوکھا کھانا ملتا وہ اسے بہت ہی میٹھا اور لذیذمعلوم ہوتا اور رات بھر کھردری چٹائی پر خراٹے لے لے کر خوب سوتی۔ منہ اندھیرے اٹھتی اور نہانے دھونے سے فارغ ہوکر دل میں امنگ اور حوصلے کے ساتھ اپنے کام میں لگ جاتی۔

    اسی طرح رانی کوکام کرتے کرتے بہت دن گزر گئے۔ایک دفعہ رانی کا خاوند اپنے بہنوئی کے ہاں کسی کام سے آیا۔ خاص کر دل بہلانے کے خیال سے۔کیوں کہ بغیر رانی کے راجہ کیا؟ اکیلے راج کام میں اس کا جی نہیں لگتا تھا۔ اس طرح راجہ نے رانی کو وہاں اچانک دیکھ لیا۔ دیکھتے ہی راجہ رانی کو پہچان گئے۔ ہاں محنت مزدوری کرنے سے رانی کچھ سانوی سلونی سی ہو گئی تھی اور کچھ موٹی تازی بھی۔ رانی بھی راجہ کو پہچان گئی۔

    پھر راجہ نے پوچھ ہی لیا۔ ’’کہو تسلوں کا ڈھونا تمہیں پسند آیا؟‘‘

    رانی مسکراتی ہوئی بولی۔ ’’کلیاں چبھتی تھیں مگر تسلے نہیں چبھتے۔‘‘

    راجہ کے بہنوئی دونوں کی بات چیت سن کرحیران ہوئے۔ انہوں نے بھید جاننا چاہا۔ راجہ نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ بہنوئی راجہ کی بات سن کر مست ہو گئے۔ انہوں نے رانی کو کام سے سبکدوش کرکے اس کے آرام سے رہنے اور کھانے پینے کا انتظام کر دیا۔

    کچھ دنوں کے بعدرانی سے راجہ نے پوچھا۔’’کہو اب کیا حال ہو۔‘‘

    رانی نے کہا۔ ’’وہ لطف کہاں؟ کاہلی اپنی حکومت قائم کرنی چاہئے ہے۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کلیاں پھر سے چبھنے نہ لگیں۔‘‘راجہ نے اپنی رائے ظاہر کی۔’’توایک کام کرو ہم دونوں مل کر دن بھر مزدوری کیا کریں اور رات کو کلیوں کی سیج پر سوئیں۔‘‘

    رانی نے اپنا تجربہ بتاکر کہا۔’’تو پھر کلیوں کی ضرورت ہی نہ رہےگی۔ ویسے ہی گہری نیند آ جایا کرےگی۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے