نیکی کا راستہ
رات کا وقت تھا۔ اندھیرا پھیل چکا تھا کہ حویلی کے دروازے پر کسی نے زور زور سے دستک دی۔ ایک بزرگ نے دروازہ کھولا تو باہر ایک نوجوان بے ہوش پڑا تھا۔ بزرگ نے اسے اٹھایا اور نرم گدگدے بستر پر لاکر لٹا دیا۔ نوجوان کو ہوش آیا تو اس کے سامنے سفید داڑھی والے ایک بزرگ بیٹھے تھے۔ انہوں نے محبت اور شفقت بھرے لہجے میں سوال کیا:
’’کیوں بیٹا، تم کس مصیبت میں پھنسے ہوئے ہو؟‘‘
نوجوان نے لجاجت سے بزرگ کے دونوں ہاتھ تھام لیے اور کہا ’’خدا کے لئے مجھے اپنی پناہ میں لے لیجئے۔‘‘
بزرگ نے کچھ اور پوچھنا مناسب نہ سمجھا اور کہا:
’’وہ سامنے والا کمرہ خالی ہے۔ تم شوق سے اس میں رہو۔ تم میرے مہمان ہو اور میں تمہاری پوری پوری حفاظت کروں گا۔‘‘
نوجوان یہاں آرام سے رہنےلگا۔ بزرگ روزانہ صبح سویرے اسے کھانا دے کر کہیں باہر چلے جاتے اور شام ہوتے تھکے ہارے پریشان حالت میں واپس آجاتے۔ ان کے چہرے کی دھول سے ایسا لگتا جیسے کوئی شکاری دن بھر شکار کی تلاش میں گھوم پھر کر رات کو مایوس گھر لوٹا ہو۔
نوجوان کو یہ معلوم نہ تھا کہ بزرگ ہر روز کہاں جاتے ہیں؟
ایک روز رات کو بزرگ اکیلے بیٹھے تھے۔ نوجوان ان کے قریب پہنچا اور کہنے لگا۔ ’’آپ نے مجھے مہمان بنا کر اور میری حفاظت کا وعدہ کر کے مجھ پر بے حد احسان کیا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی اس مہربانی کے صلے میں آپ کے کسی کام آؤں۔ آپ ہر روز صبح سویرے کہاں جاتے ہیں اور شام کو پریشان اور غمگین کیوں واپس آتے ہیں؟‘‘
یہ سن کر بزرگ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ انہوں نے کہا:
’’بیٹے، یہ کہانی بڑی دردناک ہے۔ تم اسے نہ ہی سنو تو اچھا ہے۔‘‘
نوجوان نے اصرار کیا۔ ’’نہیں بابا، میں آپ کی کہانی ضرور سنوں گا۔‘‘
بزرگ بولے۔ اچھا تم ضد کرتے ہو تو سنو۔ اس شہر کے گورنر کا نام ابراہیم ہے۔ اس نے میرے اکلوتے بھائی کو جان سے مار ڈالا ہے۔ میرا بھائی بے گناہ تھا۔ میں ابراہیم کے خون کا پیاسا ہوں۔ وہ گورنری چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ پولیس اس کی تلاش میں چھاپے مار رہی ہے۔ خلیفہ نے اس کی گرفتاری کا انعام چالیس ہزار درہم مقرر کر رکھا ہے لوگ کہتے ہیں کہ وہ اسی شہر میں کہیں چھپا ہوا ہے۔ میں ہر روز اسے ڈھونڈنے نکلتا ہوں۔ مگر وہ میرے ہاتھ نہیں آتا۔ ایک بار اسے پکڑ لوں، تو انعام بھی پاؤں، اور اپنے بھائی کے خون کا بدلہ بھی چکاؤں۔‘‘
یہ سنتے ہی نوجوان پر جیسے بجلی گر پڑی۔ وہ سوچنے لگا:
میں سانپ سے بچنے کے لئے گویا شیر کے بھٹ میں پہنچ گیا ہوں میرے میزبان نے میری جان بچائی ہے۔ میری خاطر تواضع کی ہے۔ میں اس کا شکر گزار ہوں، مگر اب نظر آرہا ہے کہ میں زیادہ دن اپنی جان نہیں بچا سکوں گا۔ اس کے بعد نوجوان نے دل میں ٹھان لی کہ اپنی کم بخت زندگی کو بچانے کی اور کوشش نہ کروں گا۔ وہ کئی مہینوں سے اپنی جان بچانے کے لئے مارا مارا پھر رہا تھا۔ پولیس اسے تلاش کرتی ہوئی ایک گاؤں میں پہنچتی، تو وہ دوسرے گاؤں میں بھاگ جاتا۔ اب اس کے سامنے کوئی اور راستہ نہ تھا کہ وہ پولیس سے بچنے کے لئے گاؤں سے نکل کر شہر چلا جائے۔ کیونکہ شہر میں لوگ بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اتنے لوگوں کی آبادی میں اسے پہچانے جانے کا ڈر بہت کم تھا۔
ایک رات وہ چھپتا چھپاتا اسی حویلی کے سامنے پہنچ گیا، جہاں یہ بزرگ رہتے تھے۔ اسی بزرگ کے بھائی کا اس نے ناحق قتل کرا دیا تھا آج وہ اسی بزرگ کے سامنے بیٹھا ان کی دردناک کہانی سن رہا تھا۔ بزرگ کی زبانی یہ کہانی سن کر نوجوان دل کڑا کر کے بول اٹھا:
’’میرے بزرگ، میں ہی گورنر ابراہیم ہوں۔ میں نے ہی آپ کے بھائی کا خون کیا ہے۔‘‘
بزرگ یہ سن کر مسکرائے اور بولے: ’’معلوم ہوتا ہے، تم اس جوانی کے عالم میں زندگی سے مایوس ہو چکے ہو جبھی تم اپنے آپ کو ابراہیم ظاہر کررہے ہو۔‘‘
نوجوان نے کہا۔ ’’نہیں نہیں بابا، میں اصلی ابراہیم ہوں۔ یقین نہ آئے تو بے شک پولیس کو بلا لیجئے۔‘‘
بزرگ بولے ’’تم اس وقت میرے مہمان ہو اور میری پناہ میں ہو۔ اسلام کا حکم ہے کہ اپنے مہمان کی حفاظت کرو اور اسے کوئی تکلیف نہ آنے دو۔ اس لیے بہتر ہے کہ اب تم روپوؤں کی یہ تھیلی لے لو اور یہاں سے چلے جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا خون کھولنے لگے اور میں انتقام کے جذبے میں تمہیں قتل کردوں یا خلیفہ کے حوالے کر دوں۔‘‘
اس کے بعد بزرگ نے روپوؤں کی تھیلی پیش کرتے ہوئے نوجوان سے کہا۔ ’’تم جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘
نوجوان نے کہا۔ ’’بابا، اب میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ آپ بہت نیک اور رحم دل انسان ہیں۔ مجھ سے غلطی ہو گئی کہ میں نے آپ کے بھائی کا خون کیا۔ اسلام میں خون کی سزا خون ہی ہے۔ میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ آپ مجھے پکڑ کر خلیفہ کے سامنے پیش کردیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے جلد سے جلد پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جائے۔‘‘
بزرگ کا دل یہ باتیں سن کر رحم کے جذبے سے بھر گیا۔ انہوں نے کہا ’’اسلام میں اس شخص کی بڑائی اور تعریف بیان کی گئی ہے، جو رحم دل اور نیک ہو اور اپنے دشمن کو معاف کردے۔‘‘
بزرگ کی اس بات پر نوجوان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ ان کی طرف التجا بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ بزرگ فوراً بول اٹھے۔ ’’جاؤ میں نے تمہیں معاف کردیا۔‘‘
نوجوان یہ سن کر بزرگ سے لپٹ گیا۔ انہوں نے اسے پیار سے تھپکی دی اور پھر اسے ساتھ لے کر خلیفہ کے محل کی طرف چل پڑے۔ شام ہو چکی تھی۔ جب وہ خلیفہ کے محل میں پہنچے، اس وقت خلیفہ محل کے چمن میں اپنے وزیروں کے ساتھ ٹہل رہا تھا۔ ابراہیم کے چہرے کو دیکھتے ہی اسے غصہ آگیا، مگر بزرگ نے سرجھکاتے ہوئے سلام کیا اور کہنے لگے۔ ’’حضور، میں نے اپنے بھائی کے قتل کو معاف کردیا ہے۔‘‘ اس کے بعد ابراہیم نے آگے بڑھ کر خلیفۂ وقت کے ہاتھ چوم لیے اوران سے وعدہ کیا کہ آئندہ زندگی میں وہ کبھی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ خلیفۂ وقت نے بزرگ کے کہنے پر ابراہیم کو معاف کردیا اور اسے دوبارہ کوفے شہر کا گورنر بنا دیا۔ کہتے ہیں کہ گورنر ابراہیم نے باقی ساری عمر اللہ کی یاد میں گزاری، اور غریبوں کی بڑی خدمت کی۔
جانتے ہو بچو! اس خلیفہ کا کیا نام تھا؟ اس کا نام تھا ’’سفاح‘‘ وہ بغداد کا خلیفہ تھا، جو کہا کرتا تھا کہ غریبوں سے انصاف کرو۔ انصاف کا ہمیشہ بول بالا ہوتا ہے۔
پیارے بچو!
اگر ہم بھی ایسی نیک باتوں پر عمل کریں، تو دنیا ہم کو کبھی نہ بھولے گی۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.