دلی میں ایک بازار ہے، بازار سیتا رام۔ محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں وہاں ساہو سیتا رام رہا کرتے تھے۔ ساہو سیتا محمد شاہ رنگیلے کے شاہی خزانچی تھے اور لاکھوں کروڑوں کے مالک بھی۔ انہیں کے نام پر بازارسیتا رام آباد ہوا۔ ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ شادی بیاہ کے موقع پر ہندو گھرانے میں گنڈوڑے بانٹنے کا چلن تھا۔ یہ چلن آج بھی ہے۔ ان دنوں جب بیٹے کی شادی ہوتی تھی تو گنڈوڑے چاندی کے کٹوروں میں بانٹے جاتے تھے گنڈوڑوں کے اوپر کچھ لگایا جاتا تھا۔ رئیسوں میں ایک دوسرے سے بازی مار لینے کی ایک دوڑ سی لگی رہتی تھی۔
لالہ سیتا رام جی اس سوچ میں بیٹھے تھے۔ گنڈوڑوں پر کیا لگایا جائے۔ اپنی ساکھ دیکھ کر وہ طرح طرح کی چیزوں کے متعلق سوچتے رہے۔ پھر دل میں فیصلہ کر کے وہ اپنی ماں کے پاس گئے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سےخاندان کے خزانے میں اضافہ کیا تھا۔ ہلکا سا فخر کا احساس بھی ان کے جسم میں سننی پیدا کر رہا تھا۔
وہ بہت سنبھل کر بولے۔ ’’اماں سوچ رہا ہوں کہ گنڈوڑوں کے سروں پر اشرفی لگا دی جائے‘‘۔
لالہ سیتا رام کے چہرے پر فخر کی ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ان کی ماں یہ سن کر حیران رہ جائےگی کہ اس کے بیٹے کی آج اتنی شان و شوکت ہے کہ وہ گنڈوڑوں پر اشرفیاں چپکا کر برادری میں تقسیم کرائےگا۔
لالہ سیتا رام بھونچکے سے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئے اور بوڑھی ماں اندر چلی گئی۔ لالہ سیتارام بے قراری کے عالم میں بیٹھے یہی سوچتے رہے۔ ’’ماں اندر کیوں چلی گئی؟ کیا اسے میری بات اچھی نہیں لگی! کہیں وہ یہ تو نہیں سوچ رہی کہ گھر کی نہ جانے کتنی اشرفیاں گنڈوڑوں کے ساتھ بٹ جائیں گی۔ وہ ایک عجیب سی ادھیڑ بن میں بیٹھے رہے۔ تقریباً دس پندرہ منٹ بعد ان کی ماں باہر آئی۔ ہاتھ میں سونے کا ایک بڑا تھال تھا۔ جس میں پانچ چھ گنڈوڑے رکھے تھے۔ گنڈوڑے بہت پرانے تھے۔ بالکل پتھر کی طرح سخت!‘‘
ماں نے گنڈوڑے لالہ سیتا رام کے سامنے رکھ دیئے اور کہا۔ ’’ہمارے خاندان کے بزرگ اتنی طرح کے گنڈوڑے پہلے ہی تقسیم کرا چکے ہیں۔ اب کوئی نئی بات سوچی جائے تو ہم دونوں بیٹھ کر صلاح کرتے ہیں۔ لالہ سیتا رام نے پرانے گنڈوڑوں کو اٹھا کر دیکھا۔ کسی میں موتی جڑے تھے تو کسی میں دیگر جواہرات۔ چند ایک میں سونے کی پرانی اشرفیاں اور مہریں لگی تھیں۔
ماں ٹکٹکی لگائے لالہ سیتا رام کی طرف دیکھتی رہی۔ لالہ سیتا رام کی انا کی دیوار ایک جھٹکے سے گر پڑی۔ انہیں پتہ لگا کہ ان سے بھی بڑھ کر امیر و کبیر تھے۔ وہ سٹپٹاتے ہوئے ماں کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کی ماں اچانک مسکرا اٹھی۔ بولی۔ ’’بیٹا! تمہیں تو کوئی ایسی چیز گنڈوڑوں پر لگانی چاہئے کہ دلی والے ہمیشہ تمہیں یاد رکھیں‘‘۔ لالہ سیتا رام نے سوکھے گلے سے کہا۔ ’’تمہیں بتلاؤ، ماں اب کیا کیا جائے‘‘۔
بوڑھی ماں نے قریب آکر لالہ سیتارام کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! امیروں کی اس دوڑ میں درمیانے لوگ ناحق پس جاتے ہیں۔ ہمیں جھوٹی عزت اور کھوکھلے اہنکار کا ڈھونگ بھی کھائے جاتا ہے اور اپنی حیثیت سے باہر بھی کام کر جاتے ہیں میری صلاح یہ ہے کہ تم اس بار گنڈوڑوں پر کشمش لگاؤ۔ سوکھے میوے کا پکھراج ہی تو ہے۔ چھوٹے بڑے سب دم سادھے بیٹھے ہیں کہ دیکھو اب کی بار لالہ سیتا رام گنڈوڑوں پر کیا ٹانکتے ہیں اور تمہاری آج کی کرنی ہی کل کے رواج کی لکشمن ریکھا بن جائےگی۔‘‘
لالہ سیتا رام کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ ماں نے کہا۔ ’’اس میں تمہارا بڑا پن ہوگا بیٹا! آج سے یہ دوڑ بھی ختم ہو جائےگی۔ دلی کے امیر اور غریب سب سکھ کا سانس لیں گے اور تمہاری ہمیشہ واہ واہ ہوگی۔
لالہ سیتا رام نے گنڈوڑوں پر کشمش ہی لگوائی۔ جب گنڈوڑے بانٹے گئے تو لالہ سیتا رام نے یہ آواز بلند کہا۔ ’’میں نے گنڈوڑوں پر قدرت کا بیش قیمت جواہر لگوایا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قدرت کی گود میں چھوٹے بڑے سب برابر ہیں‘‘۔
لالہ سیتا رام کے رواج کا آج بھی دلی میں چلن ہے۔ امیر غریب سب گنڈوڑوں پر کشمش ہی ٹانک کر بانٹتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.