ایک بھوت دو جِن
ثاقب بہت ہی محنتی لڑکا تھا۔ وہ اپنے اسکول کا کام دل لگا کر کرتا اور شام کو اپنے غریب باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیے دکان پر بیٹھ جاتا۔ اس نے ایک خوب صورت مینا پال رکھی تھی۔ یہ مینا اس سے بڑی میٹھی میٹھی، پیاری پیاری باتیں کرتی۔ ثاقب اپنی بھولی مینا سے کہتا ’’میں تمھیں ایک نہ ایک دن دُنیا کی سیر کراؤں گا۔‘‘ ثاقب کے دل کی خواہش تھی کہ گھر اور دکان کے علاوہ دُنیا کی اور چیزیں بھی اُسے دیکھنے کو ملیں ۔ آخر ایک دن اسی ارادے سے وہ اپنی مینا کو ساتھ لے کر نکل کھڑا ہوا۔ اس نے تھوڑا سا پنیر بھی لے لیا، تاکہ سفر کے دوران کام آجائے ۔ وہ اپنی مینا کے پنجرے کو اُٹھائے دُور بہت دُور تک نکل گیا۔
شام ہوئی، تو ثاقب کو رات گزار نےکا خیال آیا ۔ اس نے پہاڑ پر ایک جھونپڑی دیکھی ۔ وہ بڑی مشکل سے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا۔ جوں ہی وہ جھونپڑی میں داخل ہوا، اس کی ملاقات ایک بھوت سے ہو گئی۔ یہ جھونپڑی اسی بُھوت کی تھی ۔
ثاقب کو نئے نئے دوست بنانے کا بہت شوق تھا۔ اُس نے دوستانہ لہجے میں اس لمبے تڑنگے بھوت سے کہا ’’آداب عرض کرتا ہوں ۔ میں ذرا سیر کو نکلا ہوں، آئیے آپ بھی میرے ساتھ چلیے۔‘‘ بھوت گرجدار آواز میں بولا چل بے او، کمزور اور دبلے پتلے انسان، میں کیوں تمہارے ساتھ جاؤں۔‘‘
ثاقب نے کہا:’’میں دیکھنے میں دبلا پتلا ضرور ہوں ، مگر اتنا بھی کمزور نہیں، جتنا تم سمجھ رہے ہو۔‘‘
اس پر بھوت ہنسا اُس نے ایک بھاری پتھر اٹھایا اور اپنے بڑے بڑے ہاتھوں میں پکڑ کر اس زور سے بھینچا کہ اس میں سے پانی نکلنے لگا۔ پھر اُس نے ثاقب سے سوال کیا ۔
’’ کیوں بے چیونٹے ، تو بھی ایسا کرسکتا ہے؟‘‘
ثاقب ہنس پڑا اور بولا ’’واہ بھلا یہ بھی کوئی مشکل کام ہے ۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘‘ اس کے بعد ثاقب نے اپنے تھیلے میں سے پنیر نکالا اور اسے آہستہ سے دبایا، تو اس میں سے کافی سے زیادہ چھاچھ بہنے لگی۔ اس نے بھوت سے پوچھا ۔’’تمھارے اتنے بڑے پتھر سے تو منوں پانی نکل سکتا تھا ، پر نکلا صرف تین چار بوندیں، میرے اس چھوٹے سے ٹکڑے کو دیکھو کتنا پانی نکلا ہے۔‘‘
بھوت یہ سُن کر تاؤ میں آگیا ۔ اس نے ایک ویسا ہی پتھر اٹھایا اور اتنا اُونچا پھینکا کہ نظروں سے اوجھل ہونے کے بہت دیر بعد واپس زمین پر پہنچا۔
ثاقب پھر ہنسا اور کہنے لگا :
’’یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کرتب ہے۔ دیکھنا میرا کمال بھی، ایسی چیز ہوا میں چھوڑوں گا کہ بس آسمان پر ہی پہنچ جائے گی اور زمین پر واپس نہیں آئے گی‘‘
یہ کہہ کر اُس نے پنجرے سے مینا نکالی اور اُسے ہوا میں چھوڑ دیا۔
مینا اپنی آزادی پر اتنی خوش ہوئی کہ اوپر ہی اوپر اڑتی چلی گئی اور نظروں سے غائب ہو گئی ۔ بھوت یہ دیکھ کر بہت شرمندہ ہوا اور بولا :
’’ چلو آج سے میں تمھارا دوست ہوں‘‘ پھر اُس نے ثاقب کو رات جھونپڑی ہی میں رکھا۔ طرح طرح کے کھانوں سے اس کی خاطر تواضع کی اور جاتےدفعہ تحفے بھی دیے۔
ثاقب اپنی کامیابی پر پھولے نہ سما رہا تھا۔ وہ فخر سے سینہ پھلاتا ہوا بادشاہ کے پاس پہنچا اور بولا:
’’جہاں پناہ ! کب سے میں اس کوشش میں تھا کہ آپ کے نیاز حاصل ہوں۔کوئی میرے لائق خدمت ہو تو حکم کیجئے۔‘‘
بادشاہ نے حیرانگی سے ثاقب کو سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا اور کہا:
’’تم آگے ہی ادھ موئے ہو، ہمارے کس کام آسکتے ہو؟‘‘
ثاقب نے جواب دیا:
’’آپ کوئی حکم تو دیجئے۔‘‘
بادشاہ نے کہا کہ اس ملک میں دو جنوں نے لوگوں کو تنگ کر رکھا ہے۔ اگر تم ان جِنوں کے سرکاٹ کے لے آؤ ، تو آدھی سلطنت تمھاری اور میں اپنی بیٹی کی شادی بھی تم سے کر دوں گا۔ ثاقب نے تھوڑی دیر کے لیے کچھ سوچا اور پھر بولا : میں یہ کام ضرور کروں گا۔‘‘
ثاقب نے تھوڑی دیر کے لئے کچھ سوچا اور پھر بولا۔ ’’میں یہ کام ضرور کروں گا۔‘‘
بادشاہ نے کہا: ’’تمھیں جتنی فوج چاہیے، لے جا سکتے ہو؟‘‘
ثاقب نے کہا۔ ’’نہیں نہیں، مجھے فوج کی ضرورت نہیں، فوج کی ضرورت صرف جنوں کے سر اٹھانے کے لیے پڑے گی‘‘
یہ وعدہ کر کے ثاقب اپنے دوست بھوت کے پاس آیا ۔ بھوت نے کہا کہ جنوں کے سر لانا کوئی مشکل کام نہیں، بس کوئی ترکیب سوچنا ہو گی۔ اس کے بعد ثاقب اور بھوت دونوں اس قلعے میں پہنچے، جہاں جِنّ رہتے تھے۔ بھوت نے ثاقب کو اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور ہوا میں اُڑتا ہوا، قلعے کے باغ میں چلا آیا۔ دونوں جن برگد کے درخت کے نیچے سوئے ہوئے تھے۔ ثاقب نے بھوت کے کہنے پر کنکریاں جیب میں ڈال لیں۔ بھوت نے بڑی بڑی اینٹیں اُٹھا لیں اور دونوں ایک درخت پر چڑھ گئے ۔ ثاقب نے ہولے ہولے ایک ایک کر کے جنوں کو کنکریاں مارنا شروع کیں ۔ جنوں نے مکھیاں سمجھ کر کوئی پرواہ نہ کی ۔ اس کے بعد بھوت نے اپنا کام دکھایا ۔ اُس نے بڑی بڑی اینٹیں اُٹھا کر جِنّوں پر برسانا شروع کر دیں۔ ایک جن سمجھا کہ دوسرا جن بار بار ہاتھ مار کر اسے ستا رہا ہے۔ ادھر دوسرے جن کو بھی یہی غلط فہمی ہوتی ۔ دونوں جن اب ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھے اور غُرَّا غُرَّا کر آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ درختوں سے ہتھیار کا کام لیا ۔ اسی مار دھاڑ میں بُری طرح زخمی ہوئے اور مر گئے۔ بھوت اور ثاقب خوشی سے ناچتےہوئے درخت سے نیچے اُترے اور تلوار سے دونوں جنوں کے سر تن سے جدا کر دیے۔ ثاقب بھاگا بھاگا بادشاہ کے محل میں پہنچا اور فوج کی امداد طلب کی ۔
فوج نے جنوں کے سروں کو ایک بہت بڑی توپ پر رکھا اور اسے گھسیٹ کر شاہی محل تک لایا گیا ۔ بادشاہ یہ منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔ اُس نے ثاقب کو آدھی سلطنت دینے کی پیش کش کی، لیکن بیٹی کے ساتھ شادی کرنے کے وعدے سے مُکر گیا ۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی خوب صورت شہزادے سے اپنی بیٹی کی شادی کرے ۔ ثاقب کا دل ٹوٹ گیا۔ اُس نے آدھی سلطنت کو ٹھکرا دیا اور اپنے دوست بھوت کے ساتھ جھونپڑی میں رہنے لگا اُسے شہزادی کی یاد ہر وقت ستاتی رہتی تھی۔
اُدھر بادشاہ کی بیٹی کو جب یہ معلوم ہوا، تو وہ بیمار رہنے لگی ۔ بادشاہ نے بہتیرے علاج کرائے، مگر اسے آرام نہ آیا ۔ آخر کار اُس نے اپنی بیٹی کو ایک مینا خرید دی ۔ یہ مینا ہر وقت اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتی ۔ نجومیوں نے بادشاہ کو بتایا کہ شہزادی کی شادی ثاقب سے کر دی جائے تو وہ ٹھیک ہو سکتی ہے، ورنہ نہیں۔ بادشاہ کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ۔ اُس نے ثاقب کا پتہ کروایا، لیکن کامیابی نہ ہوئی۔
ایک دن مینا نے شہزادی سے کہا کہ میں ثاقب کو تلاش کرتی ہوں۔ وہ اُڑتی ہوئی بھوت کی جھونپڑی پر آبیٹھی ثاقب نے دیکھا ، یہ وہی مینا تھی، جو اُس نے ہوا میں چھوڑی تھی۔ مینا نے ثاقب کو شہزادی کا پیغام دیا۔ اور کہا کہ بادشاہ نے بھی تمھیں یاد کیا ہے۔ ثاقب یہ سُن کر سیدھا بادشاہ کے محل میں آیا ۔ اس کے بعد شہزادی سے اس کی شادی ہوگئی۔
بادشاہ نے اسے صبر اور بہادری کے انعام میں آدھی تو کیا ، ساری سلطنت دے دی ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.