Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دوبھائی

ایم ایس ناز

دوبھائی

ایم ایس ناز

MORE BYایم ایس ناز

    کافی دنوں کی بات ہے۔ ایک شہر میں دو بھائی رہتے تھے۔ ان کا قد ایک جیسا تھا، البتہ رنگت ایک جیسی نہیں تھی۔ ایک گورا چٹا تھا اور دوسرا سانولے رنگ کا۔

    گورے بھائی کا نام اشفاق اور سانولے بھائی کا نام شفیق تھا۔ دونوں بھائیوں کی عادات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اشفاق بہت محنتی اور وقت کا پابند تھا۔ جب کہ شفیق بہت سست تھا۔ اشفاق میں اخلاقی خوبیاں بھی تھیں۔ وہ کسی کے احسان پر اس کا شکریہ ادا کرنا نہ بھولتا تھا، اور شفیق اکثر ایسی باتوں سے کنی کتراتا تھا۔ اشفاق اسے اس عادت پر ٹوکتا اور کہتا کہ ’’جب لوگ تمہارے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں، تو تمہارا بھی فرض ہے کہ ان لوگوں کا شکریہ ادا کرو۔‘‘

    شفیق اس پر جھنجھلا کر رہ جاتا اور کہتا:

    ’’بس بس چپ رہو۔ میں شکریہ ادا کردیا کروں گا۔‘‘

    اور پھر عادت کے مطابق بھول جاتا۔ امی بھی شفیق کو اس کی عادت پر جھڑک دیتیں، مگر وہ خاموش رہتا اور کبھی کبھی فقط اتنا کہہ دیتا:

    ’’امی، میرے پاس وقت نہیں ہوتا، کون لوگوں کا شکریہ ادا کرتا رہے۔‘‘

    عید سے چند روز پہلے اشفاق اور شفیق کو دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف سے تحفے وصول ہوئے۔ انہیں ایک ہی جیسے تحائف کے پارسل وصول ہوئے، کیوں کہ ان کے دادا دادی اور چچا دوسرے شہر میں رہتے تھے۔

    چچا نے انہیں ایک ایک ننھی منی ریل گاڑی، آنٹی نے انہیں ایک ایک لڈو اور دادا اور دادی اماں نے انہیں ٹافیوں اور مٹھائیوں کے پیکٹ بھیجے۔

    امی یہ تحائف دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور کہا:

    ’’اشفاق اور شفیق، تم دونوں بہت خوش قسمت ہو۔ تمہیں اتنے ڈھیر سارے کھلونے اور تحفے ملے ہیں، تمہیں چاہئے کہ انہیں سنبھال کر رکھو۔‘‘

    اشفاق نے کہا: ’’امی میں نے تو پچھلی عید کے تحفے بھی سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

    امی نے مسکراتے ہوئے کہا:

    ’’مگر میں تمہیں نہیں کہہ رہی۔ میں تو شفیق سے کہہ رہی ہوں جو اپنے کھلونے جلد ہی توڑ دیتا ہے۔‘‘

    تھوڑی دیر کے بعد امی نے کہا:

    ’’تم دونوں بھائیوں کا فرض ہے کہ جس جس نے تمہیں تحفے ارسال کیے ہیں، انہیں تم شکریے کے خط لکھو۔‘‘

    شفیق فوراً بول پڑا: ’’امی، شکریے کے خط لکھنے کا فائدہ؟‘‘

    یہ بات سن کر امی نے کہا:

    ’’بیٹے شکریہ ادا کرنے سے انسان کے اخلاق کا پتا چلتا ہے۔ شکریہ کے خط لکھنے کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ دوسرے آدمی کو علم ہوجاتا ہے کہ اس کے بھیجے ہوئے تحفے تمہیں مل گئے ہیں اور دوسرے یہ کہ تم بڑے بااخلاق ہو۔‘‘

    امی کی بات سن کر شفیق لاجواب ہوگیا۔ پھر دونوں بھائی یہ وعدہ کر کے چلے گئے کہ وہ عید کے تحفے بھیجنے والوں کو شکریہ کے خط لکھیں گے۔

    شام ہو چکی تھی۔ کھانا تیار ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ اشفاق نے سوچا:

    ’’کیوں نا اس وقت شکریہ کے خط ہی لکھ دیے جائیں۔‘‘

    وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور تحفے بھیجنے والوں کو خط لکھنے لگا۔ سب سے پہلے اس نے چچا کو شکریے کا خط لکھا۔ پھر آنٹی کو اور آخر میں دادا اور دادی اماں کو پیار اور محبت بھرے خط لکھے وہ خط لکھ ہی رہا تھا کہ شفیق کمرے میں آگیا۔ اشفاق نے اس سے کہا:

    ’’تم بھی خط لکھ دو۔‘‘

    شفیق بھنّا کے بولا:

    ’’میں اس وقت بیڈمنٹن کھیلنے جارہا ہوں۔ شکریے کے خط واپسی پر لکھوں گا۔‘‘

    شفیق کھیل کر واپس آیا تو بہت تھکا ہوا تھا۔ اس نے کھانا کھایا اور بستر پر لیٹ گیا۔ اسے جلدی ہی نیند آگئی۔ دوسرے دن صبح اٹھا، تو اشفاق کے لکھے ہوئے خط امی کے سامنے پڑے تھے۔ امی نے شفیق کی طرف دیکھا تو وہ جان چھڑانے کے انداز میں بولا:

    ’’امی، میں یہ خط ا سکول سے واپسی پر ضرور لکھ دوں گا۔‘‘

    سکول سے چھٹی کے بعد شفیق کچھ دیر کے لئے سو گیا۔ پھر جاگا، تو سہ پہر بیت رہی تھی۔ وہ منہ ہاتھ دھوکر کھیلنے کے لیے گراؤنڈ میں چلا گیا اور اس رات بھی بڑے مزے سے سو رہا۔

    امی نے اشفاق کے لکھے ہوئے خط پوسٹ کروا دیے تھے۔ اگلے دن یہ خط چچا، آنٹی، دادا اور دادی اماں کووصول ہوگئے۔ وہ یہ خط پڑھ کر بہت خوش ہوئے۔ ایک بات کی انہیں حیرانی بھی تھی کہ شفیق نے انہیں کوئی خط نہیں لکھا تھا۔ ادھر شفیق یہ خط لکھنے بھول گیا تھا، کیونکہ کہ وہ وقت پر کام کا عادی نہیں تھا۔

    اسی دوران اشفاق اور شفیق کی سالگرہ کا دن آگیا۔ 22 مارچ کی صبح ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اشفاق اور شفیق رات کی پارٹی کے منتظر تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ شفیق نے بڑھ کر دروازہ کھولا، تو سامنے ڈاکیہ کھڑا تھا اس نے شفیق سے کہا:

    ’’اشفاق کے نام تحفوں کے کچھ پارسل آئے ہیں۔‘‘

    ’’کیا میرا بھی کوئی تحفہ آیا ہے؟‘‘

    شفیق نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوال کیا، اور ڈاکیے کے انکار پر وہ خاموشی سے اندر چلا گیا اور اشفاق کو بھیج دیا۔ ڈاکیے نے اشفاق کو سالگرہ کی مبارکباد دی اور کہا:

    ’’کیا اس بار اکیلے آپ کی سالگرہ منائی جارہی ہے؟‘‘

    اشفاق نے کہا۔ ’’نہیں تو۔‘‘

    ڈاکیے نے کہا۔ ’’آج صرف آپ کے نام تحفے آئے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکیے نے سارے پارسل اشفاق کے ہاتھوں میں تھما دیے۔ اشفاق خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ وہ تحفے لے کر سیدھا امی کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ ’’میرے نام بہت سے تحفے آئے ہیں۔‘‘

    امی نے پوچھا: ’’شفیق کے لیے کوئی تحفہ نہیں آیا؟‘‘

    اشفاق نے جواب دیا:

    ’’امی، سب پارسلوں پر تو میرا نام لکھا ہوا ہے۔ میں انہیں کھول کر دیکھتا ہوں شاید ان میں شفیق کے لیے بھی تحفے رکھے گئے ہوں۔‘‘

    اشفاق نے جو پارسل کھولے، تو کوئی بھی تحفہ شفیق کے لیے نہیں تھا۔ ان تحائف کے ساتھ ساتھ ایک خط بھی تھا، جس میں لکھا تھا، کہ تمہاری طرف سے شکریے کا خط ملا۔ تم بہت اچھے لڑکے ہو۔ اس بار اپنی سالگرہ پر یہ تحفے قبول کرو۔‘‘

    یہ الفاظ سن کر شفیق کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ امی نے اسے یاد دلایا اور کہا۔ ’’تم نے شکریے کے خط نہیں لکھے تھے۔ ممکن ہے چچا، آنٹی، دادا اور دادی اماں نے سوچا ہو کہ تمہیں ان کے تحفے پسند نہیں آئے۔‘‘

    ’’نہیں نہیں امی، یہ بات نہیں۔‘‘ شفیق نے کہا اور چپکے سے اپنے کمرے میں چلا آیا اور سب کو شکریہ کے خطوں میں لکھا اور خط دیر سے لکھنے کی معافی بھی مانگی۔

    چند روز بعد اسے بھی ویسے ہی خوبصورت تحفے وصول ہوئے۔ یہ تحفے شفیق نے امی کو دکھائے اور اس روز دونوں بھائیوں کی سالگرہ دوبارہ منائی گئی۔

    ان کی امی نے دعوت کے وقت مہمانوں سے کہا:

    ’’آج سے شفیق اور اشفاق دونوں اچھے بچے بن گئے ہیں۔‘‘

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے