دادی اماں کی کہانی
دادی اماں سونے سے پہلے سب بچوں کو کہانی سنایا کرتی تھیں۔ ہمارے گھر میں ان کی کہانی سننے کے لئے محلے کے دوسرے بچے بھی آجاتے۔ ہر روز رات کو ہم ان سے کہانی سنتے۔ ان کی کہانیاں بہت مزیدار ہوتیں۔ ہم انہیں مزے لے لے کر سنتے۔ آخر میں دادی اماں کہانی ختم کر کے سب کو دعائیں دیتیں۔
اس رات بھی سب بچے ان کے گرد جمع تھے۔ دادی اماں نے کہانی اس طرح شروع کی:
ننھے منے پھول جیسے نازک بچو! کہانیاں تو تم نے نہ جانے کتنی سنی ہوں گی۔ ان میں جنّوں، دیوؤں، بھوتوں پریوں، بادشاہوں اور شہزادوں، سبھی قسم کی کہانیاں تم نے سنی ہوں گی، لیکن آج میں جو کہانی سنانے والی ہوں، وہ نہ کسی جنّ دیو کی ہے، نہ بادشاہ یا شہزادے کی، بلکہ آج کی کہانی یک عورت اور اس کے بیٹے کی ہے۔
’’بھلا یہ کیا کہانی ہوسکتی ہے دادی امّاں!‘‘ ایک بچے نے حیران ہو کر کہا۔ دادی اماں مسکرائیں اور پھر کہنے لگیں:
’’پہلے سن تو لو۔ ہاں تو اس عورت کا ایک چھوٹا سا بیٹا تھا۔ ابھی اس کی عمر چار سال کی تھی کہ اس عورت کا خاوند بس کے نیچے آکر مرگیا۔ وہ بہت غریب آدمی تھا۔ اس کے مرنے کے بعد گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ آخراس نے محلے کے گھروں میں کام کرنا شروع کردیا۔ لوگوں کے برتن دھوئے، کپڑے دھوئے، سلائی کا کام کیا اور اس طرح وہ اتنے پیسے کمانے کے قابل ہوگئی کہ اپنی اور اپنے بچے کی گزر بسر کر سکے۔ ان ہی حالات میں بچہ چھ سال کا ہوگیا تو اس نے اسے سکول میں داخل کرادیا۔ بچہ بہت ذہین تھا۔ کلاس میں اس نے نمایاں مقام حاصل کر لیا۔ پہلی جماعت میں اوّل آیا تو ماں کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ بچہ دل لگا کر پڑھتا رہا۔ اس نے دن رات محنت کی۔ ہر سال جماعت میں اوّل آتا رہا۔ دراصل اسے اس بات کا بہت دکھ تھا کہ اس کی ماں کو لوگوں کے گھروں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ سوچا کرتا کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک دن بڑا آدمی بنے گا اور اپنی ماں کی خدمت کرے گا۔ ساری عمر اسے کوئی کام نہ کرنے دے گا۔
دن گزرتے گئے۔ آخر اس نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کر لیا۔ اس بار اس نے اپنی محنت کی کہ ماں فکرمند ہوگئی کہ کہیں وہ بیمار نہ ہوجائے۔ لیکن وہ محنت کرنے سے باز نہ آیا۔ نتیجہ نکلا تو اخبار کے پہلے صفحے پر اس کی تصویر چھپی۔ وہ ضلع بھر میں اوّل آیا تھا۔
ماں کی خوشی کا کیا پوچھنا۔ اس دن دونوں خوشی کے مارے سو نہ سکے۔ محلے والے تمام دن مبارکباد دینے آتے رہے۔ رات کو بیٹے نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔ ’’امی جان! اب میں آگے نہیں پڑھوں گا۔‘‘ ماں اس کی بات سن کر چونک اٹھی۔ اس نے کہا۔ ’’بیٹا! یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ اگر پڑھوگے نہیں تو بڑے آدمی کیسے بنوگے۔ ابھی تو تمہیں بہت پڑھنا ہے۔‘‘
’’لیکن امی جان! میں آپ کو کام کرتے نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے میں کوئی ملازمت ڈھونڈ لیتا ہوں۔‘‘
’’بیٹا! تم میری امیدوں پر پانی نہ پھیرو۔ اس خیال کو فوراً دل سے نکال دو۔ مجھے تمہاری اس بات سے بہت تکلیف پہنچی ہے۔ آئندہ ایسی بات نہ کہنا۔‘‘
بچے نے ماں کی بات سن کر خاموشی اختیار کر لی اور کالج میں داخل ہوگیا۔ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ محنت کرنے لگا۔ اس کی ماں بھی پہلے کی نسبت زیادہ گھروں میں کام کرنے لگی۔ کیونکہ اب اسے بیٹے کی کالج کی فیس ادا کرنی پڑتی تھی اور اس کے دوسرے اخراجات بھی۔ کرنا خدا کا کیا ہوا۔ وہ ہر سال اچھے نمبروں سے پاس ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے فارغ ہو گیا۔ اب چونکہ اس نے ہر سال نمایاں کامیابی حاصل کی تھی اور میٹرک میں تو ضلع بھر میں اوّل آیا تھا۔ اس لیے اسے فوراً ہی ایک سرکاری دفتر میں ملازمت مل گئی۔ جس دن اسے ملازمت ملی، وہ دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور اپنی ماں سے لپٹ گیا اور اسے اٹھا کر چکر لگانے لگا:
’’بس امی! آج کے بعد آپ کسی گھر میں کام نہیں کریں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹا! اس دن کے انتظار میں تو میری ساری جوانی گزر گئی۔ اب خدا کے فضل سے تم کسی قابل ہو گئے ہو تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ دوسروں کے گھروں میں کام کروں۔ اب تو میں اپنے بیٹے کے لیے چاند سی دلہن لاؤں گی۔‘‘
ماں نے اسی دن سے بیٹے کے لیے رشتہ تلاش کرنا شروع کردیا۔ بہت جلد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی اور اس نے اپنے بیٹے کی شادی کر دی۔ شادی کے چھ سال بعد ملک کی سرحدوں پر جنگ چھڑ گئی۔ اس وقت تک اس کے بیٹے کے ہاں تین بچے پیدا ہوچکے تھے۔ یہ دو لڑکے اور ایک لڑکی تھے۔ دشمن ملک نے اعلان کے بغیر ہمارے ملک پر حملہ کیا تھا۔ اس لیے سب غصے میں آگئے۔ ہزاروں شہری جنگ کی تربیت لینے لگے ۔ ان میں اس عورت کا بیٹا بھی تھا۔ وہ بھی کسی سے پیچھے رہنا نہیں چاہتا تھا۔ تربیت لینے لگا۔ ایک دن اسے بھی پچھلے مورچوں پر بھیج دیا گیا۔ ماں نے اسے خوشی خوشی رخصت کیا۔ جب وہ لڑائی پر جارہا تھا تو اس کے بچے اس سے لپٹ لپٹ گئے۔ اس کی بیوی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ جنگ پندرہ دن تک جاری رہی۔ پندرھویں دن شہر کے محاذ پر کچھ زیادہ ہی زور تھا۔ توپ کا ایک گولہ پچھلے مورچوں پر آکر گرا اور کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ اس عورت کا بیٹا بھی شہید ہوگیا۔ اس کی لاش گھر لائی گئی تو بچے اس سے لپٹ کر رونے لگے۔ بیوی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ ایک ماں تھی جس نے آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ نکلنے دیا۔ بس وہ لاش کو تکتی رہی۔
ایک بار پھر وہی دوسروں کے گھروں کے کام تھے اور وہ تھی۔ پہلے وہ اپنے بیٹے کے لئے کام کرتی تھی۔ اب اپنے پوتوں کے لئے اور بیٹے کی بیوی کے لئے۔ بچو جانتے ہو اب وہ اپنے پوتوں کو کیا نصیحت کرتی ہے۔ وہ انہیں خوب پڑھنے لکھنے کی نصیحت کرتی ہے، تاکہ وہ ایک دن بڑے افسر بن سکیں اور اگر ملک کو ان کی ضرورت پڑجائے تو اس کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادیں۔ اتنا کہہ کر دادی امّاں خاموش ہو گئیں۔
سب بچے ٹکر ٹکر ان کے منہ کی طرف دیکھنے لگے:
’’آگے سنائیے نادادی امّاں۔‘‘
’’بس بچو۔ کہانی تو ختم ہوگئی۔‘‘
کیا۔ کہانی ختم ہوگئی!‘‘
’’ہاں بچو! کہانی ختم بھی ہوگئی اور نہیں بھی ہوئی۔ ختم اس طرح کہ اس کا بیٹا شہید ہوگیا اور ابھی ختم اس طرح نہیں ہوئی کہ اب وہ اپنے بیٹے کے بیٹوں کو پڑھا رہی ہے۔ جب وہ بڑے ہوجائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ کسی دن پھر جنگ چھڑ جائے اور انہیں اپنی جانیں قربان کرنے کا موقع مل جائے۔ اس طرح بھلا یہ کہانی ختم کیسے ہوسکتی ہے۔ اس کے پوتے زندہ ہیں اور وہ ایک بار پھر انہیں وطن کے لئے تیار کر رہی ہے۔ مجھ سے وعدہ کرو بچو کہ تم بھی اپنے وطن کی ہر طرح خدمت کروگے، اس کے لیے جان تک دوگے۔‘‘
’’دادی اماں! ہم وعدہ کرتے ہیں۔‘‘ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔
’’دادی امّاں! آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ وہ عورت کون ہے، کہاں رہتی ہے، اس کا کیا نام ہے۔‘‘
اچانک دادی امّاں کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے، پھر وہ روتے روتے مسکرائیں اور بولیں: ’’پیارے پیارے بچو! وہ عورت میں ہی ہوں۔ میرا ہی بیٹا شہید ہوا تھا اور اب میں تم تینوں کو پال رہی ہوں۔‘‘ انہوں نے میری، میرے چھوٹے بھائی اور بہن کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
بچے حیران ہو کر ہمیں دیکھنے لگے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.