بندریا بہو بیگم
دلچسپ معلومات
لوک کہانی (یہ کہانی میں نے گاؤں میں اپنے والد سے سنی تھی)
کسی دور دراز کے ملک میں ایک بادشاہ رہا کر تا تھا جس کے تین بیٹے تھے تینوں بہت ذہیں اور تمام عمل و فن میں یکتا تھے۔ تیر اندازی ہو یا تلوار چلانے کے جوہر ،جنگ کے تمام باریکیوں سے واقف تھے۔
شہزادے جوان ہو چکے تھے بادشاہ کی خواہش تھی کہ انکی شادی کر دی جائے۔ بادشاہ نے جیوتشی کو بلایا اور اس سے اپنے دل کی بات بتائی ۔جیو تشی نے دو دن کا وقت مانگا اور تیسرے دن دربار میں آکر باد شاہ کو اپنی رائے سے آگاہ کیا۔ اس نے بتا یا کہ تینوں کی کنڈلی دیکھی تو ایک بات نظر آئی کہ ان لوگوں کی شادی کر نا آسان نہیں ایک لڑکے کی شادی میں مشکل آ سکتی ہے۔
’’اب وہ لڑکا کون ہے یہ میں نہیں بتا سکتا۔ ان کو میرے ساتھ جنگل بھیج دیجئے میں کوئی تر کیب کر تا ہوں۔‘‘ لہذٰا یہ تینو ں جوتشی کے ساتھ جنگل گئے۔ وہاں ایک درخت کے پاس جاکر جوتشی نے کہا کہ تم تینوں اپنی اپنی کمان سے تیر چلاؤ جہاں بھی جس ملک کی طرف تیر جائےگا وہاں کی شہزادی کو پیغام بھیج دیا جائے۔
تینوں بیٹوں نے کمان میں تیر لگاکر چھوڑا بڑے بیٹے کا تیر اترکی ایک بہت بڑی ریاست کی طرف پایا گیا دوسرے بیٹے کا تیر دکن کی ریاست کی طرف پایا گیا تیسرے بیٹے نے جو تیر چلا یا وہ ایک پیڑ پر بیٹھی بند ر یا کی دم میں اٹک گیا۔
وہ پیڑ سے اتاری گئی اور طے ہوا کہ چھوٹے بیٹے کی شادی اسی بندریا کے ساتھ کی جائےگی۔ وہ بہت دکھی اور شرمندہ تھا مگر مجبوری تھی پہلے بچے والدین کی بات نہین ٹالتے تھے اس لئےوہ خاموش ہو گیا۔
سب شہزادوں کی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔ دو ملکوں کی شہزادیاں محل میں اتریں مگر تیسری کے لیئے چھوٹے شہزادے کی خواہش پر الگ محل کا انتظام کیا گیا۔
دونوں بڑے شہزادے اپنی رانیوں کے ساتھ خوش وخرم زندگی بسر کر نے لگے مگر چھوٹے شہزادے کے پاس تو دلھن کے نام پر ایک بندریا تھی وہ بہت پریشان اور شرمند ہ رہتا تھا۔
ایک بار بادشاہ اور انکی ملکہ نے کہا کہ وہ اپنی بہووں کا سلیقہ دیکھنا چاہتے ہیں لہذا ان کو ایک ایک رومال کاڑھنے کے لیئے دیا گیا۔ دونوں بہویں اپنے ہنر دکھانے کے لیئے محنت سے رومال پر پھول بوٹے بنا نے لگیں۔ چھوٹے شہزادے کو بہت شر مندگی ہوئی مگر جب بندریا نے ان سے پوچھا تو اس نے یہ بات بتادی بندر یا نے کہا کہ وہ رومال لے آئے۔
جب سب کے رومال بن کر تیار ہوے تو بادشاہ اور ملکہ کی حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ سب سے خوبصورت کڑھائی چھوٹے شہزادے کی بیوی نے کی تھی ،جبکہ وہ بندریا تھی۔
دونوں بڑی بہووں کو بہت برا بھی لگا۔
چند دن بعد بادشاہ اور ملکہ نے کہا کہ وہ بہووں کے ہاتھ کا بنا کھانا کھانا چاہتے ہیں۔ دونوں بہوئیں تیاری میں لگ گئیں۔ مگر چھوٹا شہزادہ افسردہ ہوگیا۔ بندر یا نے جب پوچھا تو کہا کوئی بات نہیں میں کھا نا پکا کر دوں گی۔ آپ بھجوا دیجئےگا۔ سب کے پکائے کھانے تخت پر چن دئے گئے۔
دونوں نئی دلہنوں کے کھانے کی خوب تعریف ہوئی جب تیسرا خوان کھلا تو خوشبو سے سارا دالان مہک گیا۔ کھانے اس قدر خوبصورت اوررنگین تھے کہ سب کی نظریں ان پر جم گئیں اور جب وہ کھا نا بادشاہ اور ملکہ نے کھا یا تو واہ واہ کر نے لگے۔ سب سے مزے دار اور نفاست سے بنا یا ہوا کھا نا چھوٹی رانی کا تھا جو بندریا تھی۔
ملکہ اور باد شاہ کو ایک بار پھر سب دلھنوں کو ایک ساتھ دیکھنے کو دل چاہا۔
اس بار چھوٹا شہزادہ رو پڑا۔۔۔ کھانے اور رومال تک تو بات ٹھیک تھی مگر ان حسین ترین شہزادیوں کے درمیان یہ بندریا کیسے جائےگی۔ بندر یا کے پوچھنے پر شہزادے نے سارا ماجرا کہہ دیا۔
چھوٹی بہو نے تسلیّ دی اور’’ کہا شرط یہی ہے کہ آپ وہان نہ جایئےگا۔ میں ڈولی میں بیٹھ کر اکیلی ہی جاوں گی۔‘‘ شہزادہ پہلے ہی شر مندہ تھا فوراً مان گیا۔
پہلے بڑی دلھن سامنے آئیں۔ بہت حسین لڑکی تھی گلابی لباس میں سج رہی تھی۔
منجھلی دلھن نے ہرا لباس پہنا تھا اور بہت سارے زیوارت سے آراستہ تھی۔
پھر ڈولی سے چھوٹی دلھن کو اتارا گیا اس کے گورے سفید پیروں میں پازیب جگمگائی اور جب اس نے چادر الٹی تو ملکہ اور بادشاہ اس کو دیکھتے ہی رہ گئے گہرے سرخ رنگ میں ایک نگینہ کی صورت۔ اس نے جھکُ کر سلام کیا۔۔۔ اس کے بالوں میں افشاں چمک رہی تھی گلابی چہرہ ،خوبصورت ہونٹ اور چھریرہ بدن وہ ایک پھولوں کی ڈالی سی محسوس ہو رہی تھی۔ تینوں بہویں ساتھ بیٹھی تھیں اور اس کے چہرے کی روشنی سے سارا محل روشن تھا۔ سارے لوگ حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔
کسی نے چھوٹے شہزادے تک یہ خبر پہونچا دی کہ اس کی دلھن تو ایک پری جیسی ہے۔ شہزادے نے شرط تو ڑ دی اور چھپ کر اسے دیکھا اور گھوڑے پر بیٹھ کر واپس اپنے محل پہونچا۔اپنی دلھن کے کمرے میں جاکر اس نے دیکھا کہ بندریا کی کھال ایک طرف رکھی ہے۔ اس نے فوراً وہ کھال اٹھا ئی اور مشعل سے اس کو آگ دی۔۔۔ ادھر چھوٹی دلھن کو اچانک بہت بےچینی ہوئی اور وہ اجازت طلب کر کے ڈولی میں بیٹھ گئی اسکی پازیب سے پیر جھلسنے لگے تھے دھیرے دھیرے سارے جسم میں آگ بھر نے لگی وہ جلنے لگی۔ ڈولی جب تک محل میں پہونچی وہ کافی جل چکی تھی بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی اور شہزادے سے اپنی کھال کھینچ لی۔ مگر کھال کا بہت حصہ جل چکا تھا اور وہ بھی بری طرح جل چکی تھی وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگی ۔شہزادہ گھبرا گیا۔ حکیم بلائے گئے سب نے علاج کی کوشش کی مگر جلن کسی طور کم نہ ہوئی۔
دوسرے ملکوں سے بھی طبیب آئے مگر اس کی جلن کم نہ کر سکے۔
شہزادہ بہت شر مندہ تھا اور پریشان بھی۔
پوری سلطنت کے طبیب آ چکے تھے اور طرح طرح کے علاج تجویز کئیے جارہے تھے مگر جلن کسی صورت کم نہیں ہورہی تھی۔
شہزادہ بیقرار ہو کر ٹہل رہا تھا اور کھال جلانے پر بیحد شر مندہ تھا۔ وہ ٹہلتا ہوا محل کے باغ میں آگیا۔ اس کی بے چینی کسی طور کم نہیں ہورہی تھی ایک بڑے درخت سے ٹیک لگاکر کھڑا ہو گیا۔
اس درخت پر دو چڑیاں آپس میں باتیں کر رہی تھیں شہزادے نے دھیان سے سنا وہ کہہ رہی تھیں۔
وہ بند ریا نہیں پر ستان کی شہزادی ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی غلطی پر اتنی بڑی سزا ملی ہے۔
’’مگر اس نے کیا غلطی کی تھی کہ اس کو بندریا بنا دیا؟‘‘دوسری چڑیا نے پوچھا
’’پرستان کے لوگ دنیا میں آنا پسند نہیں کر تے یہاں کے لوگ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اس لئے پر ستان میں کسی کو اس دنیا میں آنے کی اجازت نہیں۔ مگر یہ شہزادی کم عمری اور ناسمجھی میں اس بات کو اہمیت نہ دے سکی اور دنیا میں آ گئی۔ اس لیئے اسکو بند ریا بنا دیا گیا تاکہ یہ کبھی پرستان واپس نہ جا سکے۔‘‘
’’مگر اب کیا ہوگا۔ اس جلن کا کوئی علاج نہیں ہے کیا؟‘‘
’’علاج تو ہے۔ اسی پیڑ کے پھل کو پیس کر اگر زخموں پر لگا یا جائے تو ٹھیک ہو سکتی ہے مگر دنیا والے مہنگی دوائیں تو خرید لیتے ہیں پیڑ پودوں کی قدر نہیں کر تے جن میں ہر مرض کی دو ا ہے۔‘‘ شہزادے نے چہرہ اپر اٹھا یا اور چڑیوں کا شکر یہ ادا کیا پیڑ کے پھل چن کر محل میں واپس آ گیا اور نوکروں کی فوج ہوتے ہوئے بھی اپنے ہاتھوں سے وہ پیس کر مرہم تیار کیا اور جاکر اپنی دلھن کے زخموں پر لگایا۔ حیرت انگیز طریقے سے زخم ٹھیک ہونے لگے۔ دو ہی دن میں وہ اچھی ہو گئی مگر بہت خاموش تھی تیسری شام جب شہزادہ اس کی مسہری کے قریب کر سی پر بیٹھا تھا، دروازہ کھلا اور پر ستان کے راجہ اور رانی اندر آگئے کمرہ ان کے نور سے دمکنے لگا۔
شہزادی جلدی سے اٹھی اور ان کے قدموں میں بیٹھ کر رونے لگی اور معافی مانگنے لگی۔ راجہ نے اس کو اٹھا کر گلے سے لگا لیا اور بولے۔
’’بیٹی! تم نے بہت تکلیفیں اٹھا لیں۔ اب تمہاری خطا معاف ہوگئی ہے۔‘‘ رانی نے بھی بیٹی کو گلے لگایا اور شہزادے کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
پرستان کے راجہ نے شہزادے کو دعائیں دیں اور کہا کہ اگر وہ چاہے تو پرستان چلے اور وہیں زندگی گزارے اسےُ کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ مگر شہزادے نے سہو لت سے انکار کر دیا اور کہا وہ یہیں اسی ملک میں رہ کر اپنے والدین کی خدمت کر نا چاہتا ہے۔
پرستان کے راجہ اس کی اس بات سے بہت خوش ہوئے اور پرستان کے ڈھیروں سامان سے گھر بھر دیا۔
اور راجہ رانی پر ستان واپس چلے گئے۔ شہزادہ اور اس کی دلھن ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.