Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بچپن کی تصویر

اشتیاق احمد

بچپن کی تصویر

اشتیاق احمد

MORE BYاشتیاق احمد

    چلتی ٹرین میں چڑھنے والے نوجوان کو نواب کاشف نے حیرت بھری نظروں سے دیکھا۔ وہ اندر آنے کے بعد اپنا سانس درست کر رہا تھا۔ شاید ٹرین پر چڑھنے کے لیے اس کو کافی دور دوڑنا پڑا۔ نواب کاشف نے اس سے کہا،

    ’’نوجوان! ٹرین پر چڑھنے کا یہ طریقہ درست نہیں، اس طرح آدمی حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔‘‘

    ’’زندگی تو ہے ہی حادثات کا نام چچا ‘‘ نوجوان مسکرایا۔

    ’’اوہو اچھا۔ یہ جملہ تو ذرا ادبی قسم کا ہے۔۔۔ کیا تمھارا تعلق ادب سے ہے؟‘‘ نواب کاشف کے لہجے میں حیرت ابھی باقی تھی۔

    ’’میرا ادب سے تعلق بس پڑھنے کی حد تک ہے چچا۔‘‘

    ’’چچا۔۔۔ تم مجھے پہلے بھی چچا کہہ چکے ہو، تمھارے منھ سے چچا کہنا کچھ عجیب سا لگا۔۔۔ خیر۔۔۔ میں تمھیں بتائے دیتا ہوں کہ یہ کیبن میں نے مخصوص کروا رکھا ہے۔ لہذا اس میں کسی اور کے لیے سیٹ نہیں ہے۔‘‘

    ’’لیکن چچا، یہ جگہ تو چار پانچ آدمیوں کی ہے؟‘‘

    ’’ہاں، یہ فیملی کیبن ہے۔ میری فیملی تین اسٹیشنوں کے بعد سوار ہو گئی۔‘‘

    ’’اوہ، اچھا، میں تیسرا اسٹیشن آنے سے پہلے ہی اتر جاؤں گا۔ آپ فکر نہ کریں۔‘‘

    ’’لیکن بھئی، یہ پورا کیبن میرے لیے مخصوص ہے۔‘‘

    ’’میں سن چکا ہوں۔۔۔ لیکن آپ دیکھ چکے ہیں۔ میں چلتی ٹرین میں سوار ہوا ہوں، خیر میرا وجود اگر آپ کو اتنا ہی ناگوار گزر رہا ہے تو میں اگلے اسٹیشن پر اتر جاؤں گا۔ اتنی دیر کے لیے تو آپ کو برداشت کرنا پڑےگا۔ مجھے افسوس ہے۔‘‘

    ’’اچھا خیر، بیٹھ جائیں برخوردار۔‘‘

    نوجوان سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پھر گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے بولا ’’اگلا اسٹیشن کتنی دیر میں آ جائےگا؟‘‘

    ’’پینتالیس منٹ تو ضرور لگیں گے۔‘‘

    ’’اوہ۔۔۔ تب تو کافی وقت ہے۔ میں ذرا نیند لے سکتا ہوں؟‘‘

    ’’ضرور، کیوں نہیں۔‘‘ نواب کاشف نے منھ بنایا۔

    نوجوان نے جیب میں ہاتھ ڈالا، اس کا ہاتھ باہر نکلا تو اس میں چیونگم کے دو ٹکڑے تھے۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ’’چچا، چیونگم۔‘‘

    ’’میں بچہ نہیں ہوں‘‘ نواب صاحب نے منھ بنایا۔

    ’’یہ چیونگم بہت خاص قسم کے ہیں۔ ان سے سے خاص قسم کے لوگ شغل کرتے ہیں۔ آپ کے لیے اگر یہ انوکھی چیز ثابت نہ ہوں تو پھر کہیےگا۔ آپ ایک چیونگم منھ میں رکھ کر دیکھ لیں۔ ابھی اندازہ ہو جائےگا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے دوسرا چیونگم کا کاغذ بائیں ہاتھ اور دانتوں کی مدد سے اتار لیا اور اس کو منھ میں رکھ لیا۔

    غیر ارادی طور پر نواب کاشف نے چیونگم اٹھا لیا، اس کا کاغذ اتار کر اسے منھ میں رکھ لیا۔ وہ جلدی سے بولے۔ ’’اس میں شک نہیں، چیونگم بہت خاص قسم کا ہے۔‘‘

    ’’اور پیش کروں؟ راستے بھر شغل کر سکیں گے آپ۔‘‘

    ’’نہیں بھئی۔ مجھے مسلسل منھ چلانا پسند نہیں۔ آدمی بکرا نظر آنے لگتا ہے۔‘‘

    ’’آپ کی مرضی۔ ویسے آپ کی شکل صورت کچھ جانی پہچانی سی نظر آ رہی ہے۔ شاید میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔ کیا نام ہے بھلا آپ کا؟‘‘

    نواب صاحب نے طنز کہا، ’’واہ، واہ، وا۔‘‘

    ’’یہ کیسا نام ہوا؟‘‘

    ’’حد ہو گئی۔ میں نے اپنا نام نہیں بتایا۔ پہلے تو تم چلتی ٹرین پر سوار ہو گئے، وہ بھی میرے مخصوص کیبن میں، پھر جگہ حاصل کر لی۔ اس کے بعد چیونگم پیش کیا اور اب میرا نام پوچھ رہے ہو۔ خیر تو ہے نوجوان، ارادے تو نیک ہیں؟‘‘

    نوجوان نے ناگواری سے کہا، ’’اچھی بات ہے، نہ بتائیں نام، میں اگلے اسٹیشن پر اتر جاؤں گا۔‘‘

    ’’برا مان گئے برخوردار! خیر سنو، میرا نام نواب کاشف ہے۔‘‘

    ’’نواب کاشف!‘‘ نوجوان کے لہجے میں حیرت شامل ہو گئی۔

    ’’ہاں کیوں، کیا تم مجھ سے میرا مطلب ہے میرے نام سے واقف ہو؟‘‘

    ’’سنا ہوا سا لگتا ہے۔ اسی طرح آپ کا چہرہ بھی شناسا ہے، خیر ابھی میں یہاں تقریباً چالیس منٹ اور ٹھیروں گا، اس دوران اگر یاد آ گیا تو بتاؤں گا۔‘‘

    نواب کاشف نے جمائی لیتے ہوئے کہا، ’’اچھی بات ہے، ہا، ہا، شاید مجھے نیند آ رہی ہے۔‘‘

    ’’میرا بھی یہی حال ہے۔‘‘

    ’’تب پھر کچھ دیر نیند لے لیتے ہیں۔ اسٹیشن پر پہنچ کر جب ٹرین رکےگی تو آنکھ خود بخود کھل جائےگی۔‘‘

    نواب صاحب بولے، ‘’ٹھیک ہے‘‘ پھر جمائی لی اور ان کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ نیم دراز تو پہلے ہی تھے، اب پیر پھیلا کر لیٹ گئے۔

    ان کی آنکھ کھلی تو ان کے گھر کے افراد انھیں بری طرح جھنجوڑ رہے تھے۔ انھیں آنکھیں کھولتے دیکھ کر ان کی بیگم بول اٹھیں، ’’آپ گھوڑے بیچ کر سو گئے تھے؟ ہم لوگ کتنی دیر سے آپ کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

    نواب صاحب چونک کر بولے، ’’اوہو اچھا، حیرت ہے، تین اسٹیشن گزر گئے، لو مجھے پتا ہی نہیں چلا اور، اور وہ نوجوان؟‘‘

    ان کی بڑی بیٹی نے حیران ہو کر پوچھا، ’’کون نوجوان، کس کی بات کر رہے ہیں ڈیڈی؟‘‘

    ’’اور ہاں، اسے تو اگلے اسٹیشن پر ہی اتر جانا تھا۔ یہاں تک تو اسے آ نا ہی نہیں تھا۔‘‘

    ’’کس کی بات کر رہے ہیں؟ ابھی تک نیند میں ہیں کیا‘‘

    ’’نہیں، میں اب نیند میں نہیں ہوں۔ میں بتاتا ہوں، اس کے بارے میں۔‘‘

    پھر وہ اپنے گھر کے افراد کو نوجوان کے بارے میں بتانے لگے۔ چیونگم کے ذکر سے ان کا بیٹا چونکا۔

    وہ بولا، ’’کہیں وہ کوئی چور تو نہیں تھا۔‘‘

    نواب کاشف بولے، ’’ارے نہیں، وہ تو بہت بھولا بھالا نوجوان تھا‘‘

    ’’پھر بھی آپ اپنی جیبوں کی تلاشی لے لیں‘‘

    ’’ضرورت تو کوئی نہیں، خیر تم کہتے ہو تو میں دیکھ لیتا ہوں۔‘‘

    انھوں نے اپنی جیبوں کا جائزہ لیا۔ شیروانی کی اندرونی جیب ٹٹولتے ہی وہ بولے ’’بٹوہ موجود ہے اور ساری نقدی اسی مین تھی، اس کا مطلب ہے وہ چور نہیں تھا۔‘‘

    بیٹے نے کہا، ’’بٹوا بھی تو نکالیں نا۔‘‘

    اس کے کہنے پر نواب صاحب نے جیب سے بٹوا نکال لیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ بہت زور سے اچھلے، ’’ارے یہ کیا! یہ تو میرا بٹوا نہیں ہے۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘ ان سب کے منھ سے نکلا۔

    نواب صاحب نے گھبراہٹ کے عالم میں بٹوے کا جائزہ لیا۔ بٹوے میں کاغذات بھرے ہوئے تھے۔ انھوں نے کاغذات نکال لیے۔ وہ اخبارات کے تراشے تھے۔ جرائم کی خبروں کے تراشے۔ ان کے بٹوے کے دوسرے حصے میں چند تصویریں تھیں۔ یہ تصاویر اسی نوجوان کی تھیں اور ان میں ایک تصویر غالباً اس کے بچپن کی تھی۔

    بیگم صاحب نے تیز لہجے میں کہا ’’تو وہ آپ کا بٹوا لے اڑا۔‘‘

    ’’ہاں یہی بات ہے۔ مجھے افسوس ہے۔ اوہ۔ اوہ۔ ارے۔‘‘

    ایک بار پھر وہ زور سے اچھلے۔ ان کی نظریں بچپن والی تصویر پر چپک سی گئی تھیں۔ ان کے دماغ میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔ دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔ بچے کی مسکراتی تصویر ان کے دل و دماغ میں اترتی جا رہی تھی۔

    تصویر والا بچہ اپنے ماموں سے پیار بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا، ’’ماموں جان! آپ کہاں جا رہے ہیں۔‘‘

    ’’منے! میں فلم دیکھنے جا رہا ہوں۔‘‘

    ’’آپ مجھے بھی لے چلیں نا۔‘‘

    ’’لیکن منے! میرے پاس صرف ایک ٹکٹ کے پیسے ہیں۔ میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں، کیا تمھارے پاس پیسے ہیں؟‘‘

    ’’جی ماموں جان پیسے؟ جی نہیں تو۔‘‘

    ’’تب پھر تم ایک کام کرو۔ اپنے ابو کی دکان پر جاؤ، وہ تو دکان داری میں لگے ہوں گے۔ ان کے گلے میں سے کچھ نوٹ چپکے سے نکال لاؤ۔ انھیں پتا بھی نہیں چلے گا۔ پھر میں تمھیں فلم دکھانے لے چلوں گا۔‘‘

    ’’اچھا ماموں جان!‘‘ منے نے کہا اور دوڑ گیا۔

    جلد ہی وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں دس دس روپے کے کئی نوٹ تھے۔ ان نوٹوں کو دیکھ کر انھوں نے منھ بنایا اور کہا، ’’ان سے ٹکٹ نہیں آئےگا۔ ایک بار اور جاؤ۔‘‘ ماموں نے جھوٹ بولا۔ حال آنکہ اس کے زمانے میں فلم کا ٹکٹ چند آنوں میں ملتا تھا۔

    ’’جی اچھا ماموں!‘‘ منا گیا اور چند نوٹ اور لے آیا۔

    ماموں نے پھر کہا، ’’نہیں بھئی، ابھی ٹکٹ کے پیسے پورے نہیں ہوئے۔‘‘

    بچے نے کہا، ’’اچھا ماموں، ایک چکر اور سہی۔‘‘

    اس طرح منے کو ماموں نے کئی چکر لگوائے، تب فلم دکھائی، لیکن پھر منے کو پیسے اڑانے کا چسکا پڑ گیا۔ روز روز وہ اس کام میں ماہر ہوتا گیا اور اس کی یہ عادت اسے بری صحبت میں لے گئی۔ ایک دن وہ گھر سے بھاگ گیا۔ بیس سال بعد ماموں جان کی اس سے ملاقات ان حالات میں ہوئی تھی کہ اس کی تصویر اس کے ہاتھ میں رہ گئی تھی۔

    ’’آپ، آپ اس تصویر کو اس طرح کیوں گھور رہے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں یہ کس کی تصویر ہے۔ اس طرح تو شاید ہم اس کو گرفتار کرا سکیں۔‘‘

    نواب کاشف بولے، ’’نہیں، ہم اسے گرفتار نہیں کروائیں گے۔‘‘

    ’’لیکن کیوں، آپ کو اس چور سے ہمدردی کیوں ہے؟‘‘

    ’’گرفتار ہی کرنا ہے تو مجھے گرفتار کراؤ۔‘‘

    وہ ایک ساتھ بولے، ’’جی کیا مطلب؟‘‘

    اور وہ انھیں منے کی اور اپنی پرانی کہانی سنانے لگے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے