Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اچھے دوست

نامعلوم

اچھے دوست

نامعلوم

MORE BYنامعلوم

    شاکر اور انور گہرے دوست تھے۔ دونوں تیسری جماعت میں پڑھتے تھے۔ ساتھ اسکول جاتے اور ساتھ واپس آتے۔ ساتھ ہی اسکول کا کام کرتے اور رات کے وقت گلی کے بچوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے۔ شاکر کے والد شیخ صاحب اور انور کے والد ملک صاحب دونوں ان کی دوستی سے بہت خوش تھے، اور اس دوستی نے ان کو بھی دوست بنا دیا تھا۔ ان کی دوستی سے پہلے شیخ صاحب اور ملک صاحب ایک دوسرے کے دوست نہیں تھے۔ دونوں کےگھر ایک ہی گلی میں تھے۔

    رات کا وقت تھا۔ سب بچے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے ۔ شاکر انور کی آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔

    جب سب بچے چُھپ گئے تو وہ بھی اسے آنکھیں بند کیے رہنے کا کہہ کر وہاں سے اُٹھا اور انور کے گھر میں چھپ گیا۔ انور نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور پوری گلی میں بچوں کو تلاش کرتا پھرا۔ پھر اپنے گھر میں گھس گیا اور شاکر کو پکڑ لیا۔ ساتھ ہی اُس نے شور مچا دیا۔ چور پکڑا گیا، چور پکڑا گیا، سب بچے اپنی جگہوں سے نکل آئے۔ شاکر نے غصے میں آکر کہا:

    ’’تم نے ضرور آنکھیں کھول کر دیکھ لیا ہوگا، ورنہ میں نہ پکڑا جاتا؟‘‘

    ’’نہیں میں نے نہیں دیکھا۔ تمہیں چور بننا پڑے گا۔‘‘

    ’’میں چور نہیں بنوں گا۔‘‘ شاکر نے انور کو دھکا دیا۔ بس پھر کیا تھا، دونوں جھگڑ پڑے، انور نے اُس کے منہ پر ایک مُکّا دے مارا، شاکر نے اس کی ٹھوڑی پر جوابی حملہ کیا۔ اب تو ان میں باقاعد لڑائی ہونے لگی ۔ کسی نے اُنھیں الگ کرنے کی کوشش نہیں کی۔

    اچانک انور نیچے گر گیا، شاکر اس کے اوپر سوار ہوگیا۔ عین اسی وقت انور کے والد ملک صاحب کسی کام سے گھر سے باہر نکلے۔ اُنھوں نے شاکر کو انور پر سوار دیکھا تو ان کی طرف لپکے اور شاکر کو پکڑ کر اس کے تین چار تھپڑ جما دیئے جب وہ اس کے تھپڑ مار رہے تھے، شیخ صاحب بھی کسی کام سے گھر سے نکلے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو پٹتے دیکھا تو ملک صاحب پر جھپٹ پڑے۔ دونوں میں پہلے تو تُو تُو مَیں مَیں ہوئی پھر مُکّا ڈکی ہونے لگی۔ محلے کے لوگ بھی اُن کی طرف دوڑے اور بڑی مشکل سے دونوں کو الگ الگ کیا ۔ دونوں کے چہرے غصے سے سرخ ہو رہے تھے۔

    اِس واقعے کو تین دن گزر گئے۔ تین دن سے نہ شاکر نے انور سے کوئی بات کی تھی، نہ انور نے شاکر سے۔ وہ دونوں اپنے اپنے گھر نکلتے اور دُور دُور چلتے ہوئے اسکول پہنچ جاتے۔ اِسی طرح اُن کی واپسی ہوتی۔ رات کو دونوں الگ الگ کھیلتے۔

    تین دن گزرنے پر اُن دونوں سے ہی نہ رہا گیا۔ وُہ اسکول جانے کے لیے گھروں سے نکلے تو بار بار ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پہلے دونوں کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ تھا، آہستہ آہستہ وہ ایک دوسرے سے نزدیک ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ دونوں کچھ دیر خاموشی سے چلتے رہے، آخر شاکر سے رہا نہ گیا،

    بولا :

    ’’مجھے معاف کر دو دوست، غلطی میری ہی تھی۔‘‘

    ’’نہیں تو۔ غلطی تو میری تھی، میں نے آنکھیں کھول کر تمھیں چھپتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔‘‘

    ’’خیر کوئی بات نہیں کھیل میں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ اس بات پر ہمیں لڑنا نہیں چاہیے تھا ہم نے بہت برا کیا۔‘‘

    اور اس سے بُرا یہ ہوا کہ ہمارے والد آپس میں لڑ پڑے۔‘‘

    ’’ہاں! ہماری وجہ سے ان میں بھی لڑائی ہوگئی۔‘‘

    تو آؤ ہم گلے مل جائیں، شاید وہ بھی اسی طرح گلے مل جائیں۔‘‘

    دونوں نے اپنے اپنے بستے زمین پر رکھ دیے اور ہاتھ پھیلا کر ایک دوسرے کی طرف دوڑے پھر دونوں نے ایک دوسرے کو بھینچ لیا۔ اسکول جانے والے لڑکوں نے اس منظر کو بڑی حیرت سے دیکھا۔ ان کا خیال تھا کہ اب ان دنوں میں کبھی صلح نہیں ہوگی۔

    دونوں اسکول سے واپس آئے۔ کھانا کھا کر دونوں اپنے اپنے گھر سے نکلے اور مل کر اسکول کا کام کرنے لگے۔ رات ہوئی تو وہ کھیلنے کے لئے نکل آئے لڑکوں نے ان کی صلح پر تالیاں بجائیں۔ سب نے آنکھ مچولی کھیلنے کا پروگرام بنایا۔ ہوتے ہوتے انور کو چور بننا پڑا اور شاکر کو اس کی آنکھیں بند کرنی پڑیں۔ وہی تین دن پہلے کا منظر تھا۔ لڑکے جلدی جلدی چھپ گئے۔ پھر شاکر کی باری آئی، اس نے انور سے کہا:

    ’’اب تم اپنی آنکھیں بند کرلو۔ میں چھپ جاتا ہوں اور دیکھو، اس دن کی طرح آنکھیں کھول کر نہ دیکھ لینا۔‘‘ انور اس کی بات سن کر ہنس پڑا اور بولا:

    ’’نہیں میرے دوست، اب ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گا۔‘‘

    انور نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ شاکر جاکر ایک اندھیرے کونے میں چھپ گیا۔ اب انور نے اپنی آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹانے اور چور کی تلاش میں لگ گیا۔ اتفاق کی بات کہ وہ سیدھا اسی کونے کی طرف گیا جہاں شاکر چھپا بیٹھا تھا۔ اس نے اندھیرے میں اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور چلانے لگا۔

    ’’میں نے چور پکڑ لیا، میں نے چور پکڑ لیا۔‘‘

    تمام بچے اپنی اپنی جگہوں سے نکل آئے۔ اب جو شاکر روشنی میں آیا۔ تو انور اسے دیکھ کر چونک اٹھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ شاکر ہوگا۔ اس نے کہا:

    ’’خدا کی قسم شاکر، میں نے تمہیں چھپتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ یقین کرو۔‘‘

    ’’مجھے تم پر یقین ہے دوست، میں چور بننے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ شاکر نے مسکرا کر کہا۔

    ’’میرا اچھا دوست۔‘‘ انو رکے منہ سے نکلا، اور دونوں ایک بار پھر ایک دوسرے کے گلے سے لگ گئے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لڑکوں نے تالیاں بجا بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔

    عین اس وقت جب کہ وہ دونوں گلے مل رہے تھے، شیخ صاحب اور ملک صاحب اپنے اپنے گھر سے نکل رہے تھے۔ انہوں نے یہ عجیب و غریب منظر حیران ہو کر دیکھا۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کے بچے جو تین دن پہلے بری طرح لڑ رہے تھے، اس وقت گرم جوشی سے ایک دوسرے سے گلے مل رہے تھے۔ دونوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اسی وقت لڑکوں کی نظر بھی ان پر پڑی۔ وہ دم بخود ہو کر دونوں کو دیکھنے لگے۔ شیخ صاحب اور ملک صاحب ابھی تک ایک دوسرے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ پھر ان کے قدم ایک دوسرے کی طرف اٹھنے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ بالکل نزدیک آگئے۔ اور پھر لڑکوں نے ایک اور عجیب منظر دیکھا۔ شیخ صاحب اور ملک صاحب ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ لڑکوں نے ایک بار پھر تالیاں بجائیں۔

    ’’ہمیں بچوں کی طرح لڑنا نہیں چاہئے تھا۔‘‘ ملک صاحب بولے۔

    ’’ہاں! ہم سے بڑی غلطی ہوئی۔‘‘

    رسول کریمؐ نے فرمایا۔ ’’مسلمان کو اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہنا چاہئے۔‘‘

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے