- کتاب فہرست 179808
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1858
طب765 تحریکات278 ناول3967 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1377
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت85
- غزل901
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1483
- کہہ مکرنی6
- کلیات634
- ماہیہ18
- مجموعہ4395
- مرثیہ355
- مثنوی757
- مسدس50
- نعت486
- نظم1112
- دیگر62
- پہیلی16
- قصیدہ173
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی271
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی25
- ترجمہ73
- واسوخت24
تمام
تعارف
ای-کتاب202
افسانہ233
مضمون40
اقوال107
افسانچے29
طنز و مزاح1
خاکہ24
ڈرامہ59
ترجمہ2
ویڈیو 82
گیلری 4
بلاگ5
دیگر
ناولٹ1
خط10
سعادت حسن منٹو کے افسانچے
کرامات
لوٹا ہوا مال برآمدکرنے کے لیے پولیس نے چھاپے مارنے شروع کیے۔ لوگ ڈرکے مارے لوٹا ہوا مال رات کے اندھیرے میں باہر پھینکنے لگے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنا مال بھی موقعہ پا کر اپنے سے علیحدہ کردیا تاکہ قانونی گرفت سے بچے رہیں۔ ایک آدمی کو بہت دقت
گھاٹے کا سودا
دو دوستوں نے مل کر، دس بیس لڑکیوں میں سے ایک لڑکی چنی اور بیالیس روپے دے کر اسے خرید لیا۔ رات گزار کر ایک دوست نے اس لڑکی سے پوچھا، ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ لڑکی نے اپنا نام بتایا تو وہ بھنا گیا، ’’ہم سے تو کہا گیا تھا کہ تم دوسرے مذہب کی ہو۔‘‘ لڑکی
اصلاح
’’کون ہو تم؟‘‘ ’’تم کون ہو؟‘‘ ’’ہر ہرمہادیو۔۔۔ ہر ہرمہادیو۔‘‘ ’’ہرہرمہادیو۔‘‘ ’’ثبوت کیا ہے؟‘‘ ’’ثبوت۔۔۔میرا نام دھرم چند ہے۔‘‘ ’’یہ کوئی ثبوت نہیں۔‘‘ ْ’’چارویدوں سے کوئی بھی بات مجھ سے پوچھ لو۔‘‘ ’’ہم ویدوں کو نہیں جانتے۔۔۔
آنکھوں پر چربی
’’ہماری قوم کے لوگ بھی کیسے ہیں۔۔۔ پچاس سور اتنی مشکلوں کے بعد تلاش کر کے اس مسجد میں کاٹے ہیں۔ وہاں مندروں میں دھڑا دھڑ گائے کا گوشت بک رہا ہے۔ لیکن یہاں سور کا ماس خریدنے کے لیےکوئی آتا ہی نہیں۔‘‘
بےخبری کا فائدہ
لبلبی دبی۔۔۔ پستول سے جھنجھلا کر گولی باہر نکلی۔ کھڑکی میں سے باہر جھانکنے والا آدمی اسی جگہ دوہرا ہوگیا۔ لبلبی تھوڑی دیر کے بعد پھر دبی۔۔۔ دوسری گولی بھنبھناتی ہوئی باہر نکلی۔ سڑک پر ماشکی کی مشک پھٹی۔ اوندھے منہ گرا اور اس کا لہو مشک کے
جیلی
صبح چھ بجے پٹرول پمپ کے پاس، ہاتھ گاڑی میں برف بیچنے والے کے چھرا گھونپا گیا۔۔۔ سات بجے تک اس کی لاش لک بچھی سڑک پر پڑی رہی اور اس پر برف پانی بن بن گرتی رہی۔ سوا سات بجے پولیس لاش اٹھا کر لے گئی۔ برف اور خون وہیں سڑک پر پڑے رہے۔ ایک تانگہ پاس سے
حیوانیت
بڑی مشکل سے میاں بیوی گھر کا تھوڑا اثاثہ بچانے میں کامیاب ہوئے ۔ جوان لڑکی تھی، اس کا پتا نہ چلا۔ چھوٹی سی بچی تھی، اس کو ماں نے اپنے سینے کے ساتھ چمٹائے رکھا۔ ایک بھوری بھینس تھی اس کو بلوائی ہانک کر لے گئے۔ گائے بچ گئی مگر اس کا بچھڑا نہ ملا۔ میاں
تقسیم
ایک آدمی نے اپنے لیے لکڑی کا ایک بڑا صندوق منتخب کیا ،جب اسے اٹھانے لگا تو وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلا۔ ایک شخص نے جسے شاید اپنے مطلب کی کوئی چیز مل ہی نہیں رہی تھی صندوق اٹھانے کی کوشش کرنےوالے سے کہا، ’’میں تمہاری مدد کروں؟‘‘ صندوق اٹھانے
سوری
چھری پیٹ چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچےتک چلی گئی۔ ازاربندکٹ گیا۔ چھری مارنے والے کے منہ سے دفعتاً کلمۂ تاسف نکلا۔ ’’چ چ چ چ۔۔۔ مِشٹیک ہو گیا۔‘‘
پٹھانستان
’’خو، ایک دم جلدی بولو، تم کون اے؟‘‘ ’’میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ ’’خو شیطان کا بچہ جلدی بولو۔۔۔ اندو اے یا مسلمین؟‘‘ ’’مسلمین!‘‘ ’’خو تمہارا رسول کون ہے؟‘‘ ’’محمد خان!‘‘ ’’ٹیک اے۔۔۔ جاؤ‘‘
الہنا
’’دیکھو یار، تم نے بلیک مارکیٹ کے دام بھی لیے اور ایسا ردی پٹرول دیا کہ ایک دکان بھی نہ جلی۔‘‘
مزدوری
لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ اس گرمی میں اضافہ ہوگیا جب چاروں طرف آگ بھڑکنے لگی۔ایک آدمی ہارمونیم کی پیٹی اٹھائے خوش خوش گاتا جارہا تھا۔۔۔ جب تم ہی گئے پردیس لگا کرٹھیس او پیتم پیارا، دنیا میں کون ہمارا۔ ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جھولی میں پاپڑوں
حلال اور جھٹکا
’’میں نے اس کی شہ رگ پر چھری رکھی۔ ہولے ہولے پھیری اور اس کو حلال کردیا۔‘‘ ’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘ ’’کیوں؟‘‘ ’’اس کو حلال کیوں کیا؟‘‘ ’’مزا آتا ہے اس طرح۔‘‘ ’’مزا آتا ہے کے بچے، تجھے جھٹکا کرنا چاہیے تھا۔۔۔ اس طرح۔‘‘ اور حلال کرنے والے
قسمت
’’کچھ نہیں دوست۔۔۔ اتنی محنت کرنے پر صرف ایک بکس ہاتھ لگا تھا ،پراس میں بھی سالاسور کا گوشت نکلا‘‘
تعاون
چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا ایک گروہ لوٹ مار کے لیے ایک مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔دفعتا اس بھیڑ کوچیر کر ایک دبلا پتلا ادھیڑ عمر کا آدمی باہر نکلا۔ پلٹ کراس نے بلوائیوں کو لیڈرانہ انداز میں مخاطب کیا، ’’بھائیو، اس مکان میں بے اندازہ دولت ہے۔ بےشمار
اشتراکیت
وہ اپنے گھر کا تمام ضروری سامان ایک ٹرک میں لدوا کر دوسرے شہر جارہا تھا کہ راستے میں لوگوں نے اسے روک لیا۔ ایک نے ٹرک کے مال و اسباب پر حریصانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا، ’’دیکھو یار کس مزے سے اتنا مال اکیلا اڑائے چلا جارہا تھا۔‘‘ اسباب کے مالک نے مسکرا
پیش بندی
پہلی واردات ناکے کے ہوٹل کے پاس ہوئی۔ فوراً ہی وہاں ایک سپاہی کا پہرہ لگا دیا گیا۔ دوسری واردات دوسرے ہی روز شام کو اسٹور کے سامنے ہوئی۔ سپاہی کو پہلی جگہ سے ہٹا کر دوسری واردات کے مقام پر متعین کردیا گیا۔ تیسرا کیس رات کے بارہ بجے لانڈری کے
کسر نفسی
چلتی گاڑی روک لی گئی۔ جو دوسرے مذہب کے تھے ان کو نکال نکال کر تلواروں اور گولیوں سے ہلاک کردیا گیا۔ اس سے فارغ ہو کر گاڑی کے باقی مسافروں کی حلوے، دودھ اور پھلوں سے تواضع کی گئی۔ گاڑی چلنے سے پہلے تواضع کرنے والوں کےمنتظم نے مسافروں کو مخاطب
نگرانی میں
’الف‘ اپنے دوست ’ب‘ کو اپنا ہم مذہب ظاہر کرکے اسے محفوظ مقام پر پہنچانے کے لیے ملٹری کے ایک دستے کے ساتھ روانہ ہوا۔ راستے میں ’ب‘ نے جس کا مذہب مصلحتاً بدل دیا گیا تھا، ملٹری والوں سے پوچھا، ’’کیوں جناب آس پاس کوئی واردات تو نہیں ہوئی؟‘‘ جواب
صفائی پسندی
گاڑی رکی ہوئی تھی۔تین بندوقچی ایک ڈبے کے پاس آئے۔ کھڑکیوں میں سے اندر جھانک کر انہوں نے مسافروں سے پوچھا، ’’کیوں جناب کوئی مرغا ہے؟‘‘ ایک مسافر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ باقیوں نے جواب دیا، ’’جی نہیں۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد چار نیزہ بردار آئے۔
دعوت عمل
آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔۔۔ صرف ایک دکان بچ گئی جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا: ’’یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے۔‘‘
کھاد
اس کی خود کشی پر اس کے ایک دوست نے کہا، ’’بہت ہی بے وقوف تھا جی۔ میں نے لاکھ سمجھایا کہ دیکھواگر تمہارے کیس کاٹ دیے ہیں اور تمہاری داڑھی مونڈدی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمہارا دھرم ختم ہوگیا ہے۔۔۔ روز دہی استعمال کرو۔ واہ گورو جی نے چاہا تو ایک
جائز استعمال
دس راؤنڈ چلانے اور تین آدمیوں کو زخمی کرنے کے بعد پٹھان بھی آخر سرخ رو ہو ہی گیا۔ ایک افراتفری مچی تھی۔ لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔ چھینا جھپٹی ہورہی تھی۔ مار دھاڑ بھی جاری تھی۔ پٹھان اپنی بندوق لیے گھسا اور تقریباً ایک گھنٹہ کشتی لڑنے کے بعد تھرموس
خبردار
’’بلوائی مالک مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے۔ کپڑےجھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا، ’’تم مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔‘‘
صدقے اس کے
مجرا ختم ہوا۔ تماشائی رخصت ہوگئے تو استاد جی نے کہا، ’’سب کچھ لٹا پٹا کر یہاں آئے تھے لیکن اللہ میاں نے چند دنوں ہی میں وارے نیارے کر دیے۔‘‘
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1858
-