- کتاب فہرست 179808
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
ادب اطفال1858
طب765 تحریکات278 ناول3967 -
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی11
- اشاریہ5
- اشعار62
- دیوان1377
- دوہا65
- رزمیہ98
- شرح171
- گیت85
- غزل901
- ہائیکو12
- حمد35
- مزاحیہ37
- انتخاب1483
- کہہ مکرنی6
- کلیات634
- ماہیہ18
- مجموعہ4395
- مرثیہ355
- مثنوی757
- مسدس50
- نعت486
- نظم1112
- دیگر62
- پہیلی16
- قصیدہ173
- قوالی19
- قطعہ54
- رباعی271
- مخمس18
- ریختی12
- باقیات27
- سلام32
- سہرا9
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ13
- تاریخ گوئی25
- ترجمہ73
- واسوخت24
پریم چند کے افسانے
کفن
(۱) جھونپڑے کے دروازے پر باپ اور بیٹا دونوں ایک بجھے ہوئے الاؤ کے سامنے خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور اندر بیٹے کی نوجوان بیوی بدھیا دردِ زہ سے پچھاڑیں کھا رہی تھی اور رہ رہ کر اس کے منہ سے ایسی دلخراش صدا نکلتی تھی کہ دونوں کلیجہ تھام لیتے تھے۔ جاڑوں کی
پوس کی رات
(۱) ہلکو نے آ کر اپنی بیوی سے کہا، ’’شہنا آیا ہے لاؤ جو روپے رکھے ہیں اسے دیدو کسی طرح گردن تو چھوٹے۔‘‘ منی بہو جھاڑو لگا رہی تھی۔ پیچھے پھر کر بولی، ’’تین ہی تو روپے ہیں دیدوں، تو کمبل کہاں سے آئے گا۔ ماگھ پوس کی رات کھیت میں کیسے کٹے گی۔
عیدگاہ
(۱) رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی۔ کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے۔ بچے کی طرح پر تبسم، درختوں پر کچھ عجیب ہریاول ہے۔ کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے۔ آسمان پر کچھ عجیب فضا ہے۔ آج کا آفتاب دیکھ کتنا پیارا ہے گویا دنیا کو عید کی خوشی پر مبارکباد
دو بیل
جانور وں میں گدھا سب سے بیوقوف سمجھا جاتاہے۔ جب ہم کسی شخص کوپرلے درجہ کا احمق کہنا چاہتے ہیں تو اسے گدھا کہتے ہیں۔ گدھاواقعی بیوقوف ہے۔ یا اس کی سادہ لوحی اور انتہا درجہ کی قوتِ برداشت نے اسے یہ خطاب دلوایا ہے۔ اس کا تصفیہ نہیں ہوسکتا۔ گائے شریف
سوا سیر گیہوں
کسی گاؤں میں شنکر نامی ایک کسان رہتا تھا۔ سیدھا سادا غریب آدمی تھا۔ اپنے کام سے کام، نہ کسی کے لینے میں نہ کسی کے دینے میں۔ چھکّاپنجا نہ جانتا تھا۔ چھل کپٹ کی اسے چھو ت بھی نہ لگی تھی۔ ٹھگے جا نے کی فکر نہ تھی۔ ودّ یانہ جانتا تھا۔ کھانا ملا تو کھا لیا
حج اکبر
منشی صابر حسین کی آمدنی کم تھی اور خرچ زیادہ۔ اپنے بچہ کےلیے دایہ رکھنا گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن ایک تو بچہ کی صحت کی فکر اور دوسرے اپنے برابر والوں سے ہیٹے بن کر رہنے کی ذلت اس خرچ کو برداشت کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ بچہ دایہ کو بہت چاہتا تھا۔ ہر
بڑے گھر کی بیٹی
(۱) بینی مادھو سنگھ موضع گوری پور کے زمیندار نمبر دار تھے۔ ان کے بزرگ کسی زمانے میں بڑے صاحب ثروت تھے۔ پختہ تالاب اور مندر انھیں کی یاد گار تھی۔ کہتے ہیں اس دروازے پر پہلے ہاتھی جھومتا تھا۔ اس ہاتھی کا موجودہ نعم البدل ایک بوڑھی بھینس تھی جس کے بدن
راہ نجات
سپاہی کو اپنی لال پگڑی پر، عورت کو اپنے گہنوں پر، اور طبیب کو اپنے پاس بیٹھے ہوئے مریضوں پر جوناز ہوتا ہے وہی کسان کو اپنے لہلہاتے ہوئے کھیت دیکھ کر ہوتا ہے۔ جھینگر اپنے ایکھ کے کھیتوں کو دیکھتا تو اس پر نشہ سا چھا جاتا ہے۔ تین بیگھے زمین تھی۔ اس
نمک کا داروغہ
(۱) جب نمک کا محکمہ قائم ہوا اور ایک خدا داد نعمت سے فائدہ اٹھانے کی عام ممانعت کردی گئی تو لوگ دروازہ صدر بند پا کر روزن اور شگاف کی فکر کرنے لگے۔ چاروں طرف خیانت، غبن اور تحریص کا بازار گرم تھا۔ پٹوار گری کا معزز اور پر منفعت عہدہ چھوڑ چھوڑ کر
دنیا کا سب سے انمول رتن
دلفگار ایک پر خار درخت کے نیچے دامن چاک بیٹھا ہوا خون کے آنسو بہا رہا تھا۔ وہ حسن کی دیوی یعنی ملکۂ دلفریب کا سچا اور جانباز عاشق تھا۔ ان عشاق میں نہیں جو عطر پھلیل میں بس کر اور لباس فاخرہ میں سج کر عاشق کے بھیس میں معشوقیت کا دم بھرتے ہیں، بلکہ ان
شطرنج کی بازی
(۱) نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے امیر و غریب سب رنگ رلیاں منارہے تھے۔کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کی پینک کے مزے لیتا تھا۔ زندگی کے ہر ایک شعبہ میں رندی ومستی کا زور تھا۔ امور سیاست
بوڑھی کاکی
بڑھاپا اکثر بچپن کا دورِثانی ہواکرتا ہے۔ بوڑھی کاکی میں ذائقہ کے سوا کوئی حس باقی نہ تھی اور نہ اپنی شکایتوں کی طرف مخاطب کرنے کا، رونے کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ۔ آنکھیں، ہاتھ، پیر سب جواب دے چکے تھے۔زمین پر پڑی رہتیں اور جب گھر والے کوئی بات ان کی مرضی
شکوہ شکایت
زندگی کا بڑا حصّہ تو اسی گھر میں گزر گیا، مگر کبھی آرام نہ نصیب ہوا۔ میرے شوہر دنیا کی نگاہ میں بڑے نیک، خوش خلق، فیاض اور بیدار مغز ہوں گے۔ لیکن جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ دنیا کو تو ان لوگوں کی تعریف میں مزہ آتا ہے جو اپنے گھر کو جہنم میں ڈال رہے
نئی بیوی
ہمارا جسم پرانا ہے لیکن اس میں ہمیشہ نیا خون دوڑتا رہتا ہے۔ اس نئے خون پر زندگی قائم ہے۔ دنیا کے قدیم نظام میں یہ نیا پن اس کے ایک ایک ذرے میں، ایک ایک ٹہنی میں، ایک ایک قطرے میں، تار میں چھپے ہوئے نغمے کی طرح گونجتا رہتا ہے ۔اور یہ سو سال کی بڑھیا آج
دودھ کی قیمت
اب بڑے بڑے شہروں میں دائیاں اور نرسیں بھی نظر آتی ہیں لیکن دیہاتوں میں ابھی تک زچّہ خانہ روش قدیم کی طرح بھنگنو ں کے ہی دائرہ اقتدار میں ہے اورایک عرصہ دراز تک اس میں اصلاح کی کوئی امید نہیں۔ بابو مہیش ناتھ اپنے گاؤں کے زمیندار ضرورتھے تعلیم یافتہ بھی
نجات
(۱) دکھی چمار دروازے پر جھاڑو لگا رہا تھا۔ اور اس کی بیوی جھریا گھر کو لیپ رہی تھی۔ دونوں اپنے اپنے کام سے فراغت پا چکے تو چمارن نے کہا، ’’تو جا کر پنڈت بابا سے کہہ آؤ۔ ایسا نہ ہو کہیں چلے جائیں۔‘‘ دکھی، ’’ہاں جاتا ہوں، لیکن یہ تو سوچ کہ بیٹھیں
زیور کا ڈبہ
بی۔ اے پاس کرنے کے بعد چندر پرکاش کو ایک ٹیوشن کرنے کے سوا کچھ نہ سوجھا۔ ان کی ماں پہلے ہی مر چکی تھی۔ اسی سال والد بھی چل بسے۔ اور پرکاش زندگی کے جو شیریں خواب دیکھا کرتا تھا، وہ مٹی میں مل گئے۔ والد اعلٰی عہدے پر تھے۔ ان کی وساطت سے چندر پرکاش کوئی
پنچایت
جمّن شیخ اور الگو چودھری میں بڑایارانہ تھا۔ ساجھے میں کھیتی ہوتی۔ لین دین میں بھی کچھ ساجھا تھا۔ ایک کو دوسرے پر کامل اعتماد تھا۔ جمّن جب حج کرنے گئے تھے تو اپنا گھر الگو کو سونپ گئے تھے اور الگو جب کبھی باہر جاتے تو جمّن پر اپنا گھر چھوڑ دیتے۔ وہ نہ
دو بہنیں
دو بہنیں دو سال بعد ایک تیسرے عزیز کے گھر ملیں۔ اور خوب رودھوکر خاموش ہوئیں۔ تو بڑی بہن روپ کماری نے دیکھا کہ چھوٹی بہن رام دلاری سرسے پاؤں تک گہنوں سے لدی ہوئی ہے۔ کچھ اس کا رنگ کھل گیا۔ مزاج میں کچھ تمکنت آگئی ہے اور بات چیت کرنے میں کچھ زیادہ مشاق
آہ بیکس
منشی رام سیوک بھوئیں چڑھائے ہوئے گھر سے نکلے اور بولے، ’’ایسی زندگی سے تو موت بہتر۔‘‘ موت کی دست درازیوں کا سارا زمانہ شاکی ہے۔ اگر انسان کا بس چلتا تو موت کا وجودہی نہ رہتا، مگر فی الواقع موت کو جتنی دعوتیں دی جاتی ہیں انھیں قبول کرنے کی فرصت ہی
روشنی
آئی.سی.ایس پاس کر کے ہندوستان آیا تو مجھے ممالک متحدہ کے ایک کو ہستانی علاقے میں ایک سب ڈویژن کا چارج ملا۔ مجھے شکار کا بہت شوق تھا اور کوہستانی علاقے میں شکار کی کیا کمی۔ میری دلی مراد بر آئی۔ ایک پہاڑ کے دامن میں میرا بنگلہ تھا۔ بنگلے ہی پر کچہری
گھاس والی
(۱) ملیا ہر ی ہری گھاس کا گٹھا لے کر لوٹی تو اس کا گیہواں رنگ کچھ سرخ ہوگیا تھا اور بڑی بڑی مخمور آنکھیں کچھ سہمی ہوئیں تھیں۔ مہابیر نے پوچھا، ’’کیا ہے ملیا؟ آج کیسا جی ہے۔‘‘ ملیا نے کچھ جواب نہ دیا۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اور منہ پھیر لیا۔ مہابیر
بانکا زمیندار
ٹھاکرپردمن سنگھ ایک ممتازوکیل تھے اوراپنے حوصلہ ہمت کےلئے سارے شہرمیں مشہور، ان کے اکثراحباب کہا کرتے کہ اجلاس عدالت میں ان کے یہ مردانہ کمالات زیادہ نمایاں طورپر ظاہرہوا کرتے ہیں۔ اسی کی برکت تھی کہ باوجود اس کے کہ انہیں شاذ ہی کسی معاملہ میں سرخروئی
اکسیر
بیوہ ہوجانے کے بعد بوٹی کے مزاج میں کچھ تلخی آگئی تھی جب خانہ داری کی پریشانیوں سے بہت جی جلتا تو اپنے جنت نصیب کو صلواتیں سناتی، ’’آپ توسدھار گئے میرے لیے یہ سارا جنجال چھوڑ گئے۔‘‘ جب اتنی جلدی جاناتھا تو شادی نہ جانے کس لیے کی تھی، ’’گھر میں بھونی
اندھیر
ناگ پنچمی آئی، ساٹھے کے زندہ دل نوجوانوں نے خوش رنگ جانگھیے بنوائے اکھاڑے میں ڈھول کی مرد انہ صدائیں بلند ہوئیں قرب و جوار کے زور آزما اکھٹے ہوئے اور اکھاڑے پر تمبولیوں نے اپنی دکانیں سجائیں کیوں کی آج زور آزمائی اور دوستانہ مقابلے کا دن ہے عورتوں نے
بے غرض محسن
ساون کا مہینہ تھا، ریوتی رانی نے پاؤں میں مہندی رچائی، مانگ چوٹی سنواری۔ اور تب اپنی بوڑھی ساس سے جاکر بولی، ’’امّاں جی آج میں میلہ دیکھنے جاؤں گی۔‘‘ ریوتی پنڈت چنتا من کی بیوی تھی۔ پنڈت جی نے سرسوتی کی پوجا میں زیادہ نفع نہ دیکھ کر لکشمی دیوی کی
پنساری کا کنواں
بسترِ مرگ پر پڑی گومتی نے چودھری ونایک سنگھ سے کہا، ’’چودھری میری زندگی کی یہی لالسا تھی۔‘‘ چودھری نے سنجیدہ ہوکر کہا، ’’اس کی کچھ چنتا نہ کرو کاکی۔ تمھاری لالسا بھگوان پوری کریں گے۔ میں آج ہی سے مزدوروں کو بلا کر کام پر لگائے دیتا ہوں۔ دیو نے چاہا تو
صرف ایک آواز
صبح کا وقت تھا۔ ٹھاکر درشن سنگھ کے گھر میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ آج رات کو چندر گرہن ہونے والا تھا۔ ٹھاکر صاحب اپنی بوڑھی ٹھکرائن کے ساتھ گنگا جی جاتے تھے۔ اس لیے سارا گھر ان کی پرشور تیاری میں مصروف تھا۔ ایک بہو ان کا پھٹا ہوا کرتا ٹانک رہی تھی۔ دوسری
ریاست کا دیوان
مسٹر مہتہ ان بد نصیبوں میں سے تھے جو اپنے آقا کو خوش نہیں رکھ سکتے۔ وہ دل سے اپنا کام کرتے تھے بڑی یکسوئی اور ذمہ داری کے ساتھ اور یہ بھول جاتے تھے کہ وہ کام کے تونوکر ہیں ہی اپنے آقا کے نوکر بھی ہیں۔ جب ان کے دوسرے بھائی دربار میں بیٹھے خوش گپیاں کرتے
اماوس کی رات
دیوالی کی شام تھی۔ سری نگر کے گھروں اورکھنڈروں کے بھی نصیب جاگ گئے تھے۔ گاؤں کے لڑکے لڑکیاں ہنستے کھیلتے۔ چمکتی ہوئی تھالیوں میں چراغ لئے ہوئے مندروں کوجاتے تھے۔ چراغوں سے زیادہ ان کے چہرے روشن تھے۔ ہردرودیوار روشنی سے جگمگارہاتھا۔ صرف پنڈت دیودت کا
خون سفید
چیت کامہینہ تھا، لیکن وہ کھلیان جہاں اناج کے سنہرے انبار لگتے تھے، جان بلب مویشیوں کے آرام گاہ بنے ہوئے تھے۔ جن گھروں سے پھاگ اور بسنت کی الاپیں سنائی دیتی تھیں وہاں آج تقدیرکا رونا تھا۔ ساراچوماسہ گزرگیا پانی کی ایک بوند نہ گری۔ جیٹھ میں ایک بارموسلادھارمینہ
بند دروازہ
آفتاب افق کی گود سے نکلا۔ بچّہ پالنے سے وہی ملاحت، وہی سرخی، وہی خمار، وہی ضیا۔ میں برآمدہ میں بیٹھا تھا۔ بچّے نے دروازے سے جھانکا میں نے مسکراکر پکارا۔ وہ میری گود میں آکر بیٹھ گیا۔ اس کی شرارتیں شروع ہوگئیں۔ کبھی قلم پر ہاتھ بڑھایا۔ کبھی کاغذ پر
منتر
شام کا وقت تھا۔ ڈاکٹر چڈھا گولف کھیلنے کے لئے تیار ہورہے تھے۔ موٹر دروازہ کے سامنے کھڑی تھی۔ کہ دو کہار ڈولی اٹھائے آتے دکھائی دیے۔ عقب میں ایک بوڑھا لاٹھی ٹیکتا آرہا تھا۔ ڈولی مطب کے سامنے آکر رک گئی۔ بوڑھے نے دھیرے دھیرے آکر دروازہ پر پڑی ہوئی
قربانی
انسان کی حیثیت کا سب سے زیادہ اثر غالباً اس کے نام پر پڑتا ہے، منگرو ٹھاکر جب سے کانسٹبل ہوگئے ہیں، ان کا نام منگل سنگھ ہوگیا ہے۔ اب انھیں کوئی منگرو کہنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ کلو اہیر نے جب سے تھانہ دار صاحب سے دوستی کی ہے اور گاؤں کا مکھیا ہوگیا ہے۔
بیٹی کا دھن
بیتوا ندی دو اونچے کراروں کے بیچ میں اس طرح منہ چھپائے ہوئے تھی جیسے بعض دلوں میں ارادۂ کمزور اور تن پروری کے بیچ میں ہمت کی مدھم لہریں چھپی رہتی ہیں۔ ایک کرارپر ایک چھوٹا سا گاؤں آبادہے جس کے شاندار کھنڈروں نے اسے ایک خاص شہرت دے رکھی ہے۔ قومی کارناموں
اناتھ لڑکی
سیٹھ پرشوتم داس پونا کے سرسوتی پاٹ شالہ کامعائنہ کرنے کے بعد جب باہر نکلے تب ایک لڑکی نے دوڑکر ان کادامن پکڑلیا۔ سیٹھ جی رک گئے اور محبت سے اس کی طرف دیکھ کرپوچھا، ’’تمہارا کیا نام ہے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا، ’’روہنی۔‘‘ سیٹھ جی نے اسے گود میں اٹھالیا
طلوع محبت
بھوند و پسینہ میں شرابور لکڑیوں کا ایک گٹھا سر پر لیے آیا اور اسے پٹک کر بنٹی کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ گویا زبانِ حال سے پوچھ رہا تھا، ’’کیا ابھی تک تیرا مزاج درست نہیں ہوا؟‘‘ شام ہوگئی تھی پھر بھی لو چلتی تھی اور آسمان پر گردو غبار چھایا ہوا تھا۔ ساری
بٹوارا
بھولامہتونے پہلی عورت کے مرجانے کے بعددوسری سگائی کی تو اس کے لڑکےرگھوکےلئےمصیبت کے دن آگئے۔ رگھوکی عمر اس وقت صرف دس سال کی تھی۔ مزے سے گاؤں میں گلی ڈنڈا کھیلتا پھرتا تھا۔ نئی ماں کے آتے ہی چکی میں جتناپڑا۔ پنّاحسین عورت تھی اور حسن کے ساتھ غرور بھی
ستی
دو صدیوں سے زیادہ زمانہ گزرچکا ہے۔ مگر چنتا دیوی کا نام برابر قائم ہے۔ بندیل کھنڈ کے ایک اجاڑ مقام پر آج بھی منگل کے روز ہزاروں عورت مرد چنتا دیوی کی پرستش کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ اس دن یہ اجاڑ فضا سہانے نغموں سے گونج اٹھتی ہے۔ وہاں کے ٹیلے اور ٹھیکرے
پچھتاوا
پنڈت درگاناتھ جب کالج سے نکلے تو کسبِ معاش کی فکر دامنگیرہوئی۔ رحم دل اوربااصول آدمی تھے۔ ارادہ تھا کہ کام ایسا کرناچاہئے جس میں اپنی گزران بھی ہو اور دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور دلسوزی کا بھی موقع ملے۔ سوچنے لگے اگرکسی دفتر میں کلرک بن جاؤں تو اپنی گزر
معافی
مسلمانوں کو اسپین پر حکومت کرتے صدیاں گزر چکی تھیں۔ کلیساؤں کی جگہ مسجدوں نے لے لی تھی۔ گھنٹوں کی بجائے اذان کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ غرناطہ اور الحمرا میں وقت کی چال پر ہنسنے والے وہ قصر تعمیر ہوچکے تھے، جن کے کھنڈرات اب تک دیکھنے والوں کو اپنی گزشتہ
یہ میری مادر وطن ہے!
آج پورے ساٹھ سال کے بعد مجھے اپنے وطن، پایرے وطن کا دیدار پھر نصیب ہوا۔ جس وقت میں اپنے پیارے دیس سے رخصت ہوا او رمجھے قسمت مغرب کی جانب لے چلی، اس وقت میں کڑیل جوان تھا۔ میری رگوں میں تازہ خون دوڑتا تھا اور یہ دل امنگوں اور بڑے بڑے ارادوں سے بھرا ہوا
رانی سارندھا
اندھیری رات کے سناٹے میں دہسان ندی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی سہانی آواز پیدا کرتی تھی، گویا چکّیاں گھمر گھمر کرتی ہوں۔ ندی کے داہنے کنارے پر ایک ٹیلا ہے اس پر ایک پرمانا قلعہ بنا ہوا ہے، جس کی فصیلوں کو گھاس اور کائی نے گھیر لیا ہے۔ ٹیلے کے پورب میں ایک
لاٹری
جلدی سے مالدار بن جانے کی ہوس کسے نہیں ہوتی۔ ان دنوں جب فرنچ لاٹری کے ٹکٹ آئے تو میرے عزیز دوست بکرم سنگھ کے والد، چچا، بھائی، ماں سبھی نے ایک ایک ٹکٹ خریدلیا۔ کون جانے کس کی تقدیر زورکرے، روپے رہیں گے تو گھرہی میں، کسی کام کے نام آئیں۔ مجھے بھی
سمر یاترا
آج صبح ہی سے گاؤں میں ہل چل مچی ہوئی تھی۔ کچی جھونپڑیاں ہنستی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ آج ستیہ گرہ کرنے والوں کا جتھا گاؤں میں آئے گا۔ کودئی چودھری کے دروازے پر شامیانہ لگا ہوا ہے۔ آٹا، گھی، ترکاری، دودھ اور دہی جمع کیا جارہا ہے۔ سب کے چہرے پر امنگ
پرائشچت
دفتر میں ذرا دیر سے آنا افسروں کی شان ہے۔ جتنا بڑا افسر ہوگا اتنی ہی دیر سے آئے اور اسی قدر جلد چلا جائے گا۔چپڑاسی کی حاضری چوبیس گھنٹوں کی۔ وہ چھٹی پر بھی نہیں جاسکتا۔ اس کا معاوضہ دینا پڑتا ہے۔ خیر جب بریلی ڈسٹرکٹ بورڈ کے ہیڈ کلرک بابو مداری لال
آتما رام
بیدی گاؤں کا مہادیوسنار ایک مشہور آدمی تھا۔ وہ اپنے سائبان میں صبح سے لے کر شام تک انگیٹھی کے سامنے بیٹھا کھٹ کھٹ کرتاتھا۔ یہ لگاتار آواز سننے کے لوگ اتنے عادی ہوگئے تھے کہ جب کسی وجہ سے وہ بندہوجاتی توایسا لگتا تھا جیسے کوئی چیز غائب ہوگئی ہو۔ وہ
ٹھاکر کا کنواں
جو کھونے لوٹا منھ سے لگایا تو پانی میں سخت بدبو آئی۔ گنگی سے بولا، یہ کیسا پانی ہے؟ مارے باس کے پیا نہیں جاتا۔ گلاسوکھا جارہا ہے اور تو سڑا ہوا پانی پلائے دیتی ہے۔ گنگی پرتی دن شام کو پانی بھرلیا کرتی تھی۔ کنواں دور تھا۔ بار بار جانا مشکل تھا۔ کل وہ
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets
-
ادب اطفال1858
-