کہانی کی کہانی
یہ مایوسی اور تضادات کے درمیان رہتے ہوئے سماجی حقیقت پسندی کی کہانی ہے۔وہ کئی برس بعد اس پارک میں آیا تھا اور اسے شدت کے ساتھ اس دوسرے بوڑھے کی یاد آرہی تھی جس سے کسی نہ کسی بنچ پر اس کی ملاقات ہو جاتی اور وہ ہمیشہ اس کا مذاق اڑایا کرتاتھا۔ آشرم میں گذارے گئے تین برسوں نے، جہاں اس نے اپنے لئے ایک کٹیا خرید لی تھی، اسے ایک دوسرے انسان میں ڈھال دیا تھا۔ وہ اس امید میں تھا کہ شاید کسی بنچ پر دوسرے بوڑھے سے ملاقات ہوجائے تو وہ اسے آشرم کی زندگی کے بارے میں بتائے گا ، اس شانتی کے بارے میں بتائے گا جسے اس نے آشرم میں رہ کر پراپت کیا تھا۔ وہ اسے بتائے گا کہ اگر تمھیں لمبی زندگی جینی ہے، اگر تم صحیح معنوں میں زندہ رہنے میں یقین رکھتے ہو تو تمھیں اس شہر کے شور شرابے کو خیر باد کہنا ہوگا۔ اس شہر کی مانگیں انسان کو اندر سے کھرچ کھرچ کر کھوکھلا کر دیتی ہیں۔
Sleeping as quiet as death, side by wrinkled side, toothless salt and brown, like two old kippers in a box.
Dylan Thomas : Under Milk Wood
بہت عرصہ نہیں گزرا کہ کلکتہ کے ایک پبلک پارک میں دو پنشن یافتہ بوڑھوں کی اتفاقیہ ملاقات ہو گئی۔ چھ برس پہلے دو مختلف تاریخوں میں دونوں سرکاری نوکری سے سبکدوش ہوے تھے اور تب سے تاریخ ان دونوں کو اس دن کے لیے تیار کر رہی تھی جب دونوں ایک ہی بنچ پر ایک دوسرے کے پہلوبہ پہلو بیٹھے ہوے پائے جائیں۔
بظاہر دونوں بوڑھے اپنی اپنی زندگی جی چکے تھے اور اب اپنے بچے کھچے لمحوں کا مصرف نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر عمر کے اس آخری مقام پر پہنچ کر بھی دونوں میں قطبین کا تضاد تھا۔
پہلا بوڑھا گذشتہ چھ برسوں سے، یعنی جب سے وہ ریٹائر ہوا تھا، بشرطیکہ وہ کلکتہ سے غیرحاضر نہ ہو، ہر شام بلاناغہ پارک کے اندر گھاس کے میدان کے کنارے استادہ لکڑی یا سیمنٹ کے بنچوں کی قطار میں کسی نہ کسی ایک پر دکھائی دیتا آ رہا تھا۔ وہ بہت کم گو تھا اور جب وہ بنچ پر بیٹھتا تو اپنی چھتری کو دونوں ٹانگوں کے بیچ رکھ کر اس کے عمودی حصے پر ٹھوڑی ٹکا دیتا۔ عموماً وہ کسی دور افتادہ خالی بنچ کو ترجیح دیتا۔ مگر کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ تقریباً ہربنچ پر لوگ قابض ہوتے۔ اس صورت میں وہ اس پر اکتفا کرتا جس پر کم سے کم تعداد میں لوگ بیٹھے ہوں اور وہ اس کے کنارے اس طرح دبک کر بیٹھ جاتا جیسے مخاطب کیے جانے پر وقت ضائع کیے بغیر چھتری اٹھا کر چل پڑےگا۔ ان چھ برسوں میں اس کی داہنی آنکھ کا آپریشن ہو چکا تھا اور اس کی بھنووں کے بہت سارے بال سفید ہو گئے تھے۔ اس کی چندیا صاف تھی اور اکثر شام کی بچی کھچی دھوپ میں وہ کسی لاش کے مانند نظر آتا جو قریب واقع میڈیکل کالج کے مردہ گھر سے سڑک پار کر کے یہاں چلی آئی ہو۔ کل ملا کر اس کا چہرہ کسی پنشن یافتہ مثالی سرکاری نوکر کی طرح تھا جو اپنا سب کچھ آفس کے احاطے کے اندر چھوڑ آیا ہو۔
دوسرا بوڑھا، چونکہ وہ ریلوے کی سروس سے سبکدوش ہوا تھا، اس لیے اسے سال میں دو پاس مل جاتے اور وہ اندرون ملک کی سیر کرنے نکل جاتا۔ جوانی کے آخری دور میں جوئے کی لت نے اسے کہیں کا نہیں رکھا تھا۔ مگر حال کے برسوں میں وہ زیادہ تر مذہبی مقامات (بنارس، پوری، تارکیشور وغیرہ) کا رخ کرنے لگا تھا۔ اس نے پوری کے ایک آشرم میں کٹیا بھی خرید رکھی تھی، باقی کی عمر وہاں سکون سے گزارنے کے لیے۔ مگر فی الحال وہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار نہیں ہو پایا تھا، اس لیے وہ اپنے شب و روز اخبارات کی ورق گردانی کرنے، اپنی عمارت کے باہر چبوترے پر بیٹھے رہنے اور اونگھنے میں گزارا کرتا یا پبلک پارک کا رخ کرتا۔ اکثر اونگھنے کی حالت میں لاشعوری طور پر وہ خود کو انٹی پوڈیز* پر کھڑا پاتا جہاں اس کے چاروں اطراف بحرالکاہل کی موجیں ٹھاٹھیں مار رہی ہوتیں۔ مگر ان موجوں پر بھی ریس کورس کے گھوڑے تیر رہے ہوتے یا تاش کے جوکر کشتیوں پر چپو چلارہے ہوتے یا گرداب رولیٹ**کی شکل میں چکر لگاتے ہوے اس کا پیچھا کرتے۔ یہ انٹی پوڈیز اسکول کے دنوں سے اس کے ذہن میں بس گئے تھے جب جغرافیہ کے استاد نے اپنے طالب علموں کے ذہنوں میں زمین کی صحیح شکل واضح کرنے کے لیے ایک گلوب کا سہارا لیا تھا۔
ایک شام جب سورج تھکا ہارا، پارک کی چہار دیواری کے باہر لگائے گئے کدم اور کرنج کے پیڑوں کے اوپر آخری دم لے رہا تھا اس نے گلگوتھنے سے ایک بچے کو دیکھا جو آیا کے ساتھ گھاس کے میدان سے گزر رہا تھا۔ بچہ جانے کیوں ان دونوں کو ایک ساتھ بیٹھے دیکھ کر ہنس پڑا اور دور تک مڑمڑ کر ہنستا رہا۔ پہلا بوڑھا اس بچے کی ہنسی کے معمے کو سلجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ اسے ایک اور ہنسی کی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ یہ اسی کا ہم عمر ایک آدمی تھا جو بنچ کے دوسرے کنارے بیٹھا تھا۔
’’وہ کیوں ہنس رہا تھا؟‘‘ اپنی مرضی کے خلاف بوڑھے نے پوچھ لیا، گرچہ اس بچے کی ہنسی سے زیادہ اپنے ہم عمر کی ہنسی اسے ڈسٹرب کر رہی تھی۔
’’مجھے لگتا ہے یہ دیکھ کر کہ ہم دونوں کتنے بوڑھے ہیں،‘‘ اس کے ہم عمر نے جواب دیا اور ایک بار پھر ہنسنے لگا۔
’’تو اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے؟ میں اس بچے کی عمر کا ہوتا تو میں بھی یہی کرتا۔‘‘ بوڑھے نے خواہ مخواہ بچے کی طرفداری شروع کر دی۔’’ اور بوڑھے بھلا ہوتے بھی کس لیے ہیں؟‘‘ اپنے آخری جملے کی فراخدلی پر خود اسے حیرت ہوئی۔
’’نیم تلہ کے برتی چولھوں میں جلنے کے لیے اور کس لیے!‘‘ اس کا ہم عمر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ پھر اس نے اپنی ہنسی روک دی اور اس کی طرف جھک کر پوچھ لیا۔ ’’ایک راز کی بات بتاؤ۔ کیا تم مرنے کے بعد اپنے پوسٹ مارٹم کی اجازت دوگے؟‘‘
’’عجیب سوال ہے۔ اس وقت میں انھیں روکنے کے لیے زندہ کب رہوں گا؟‘‘
’’وصیت نامہ کے ذریعے تم اس سلسلے میں ان کی رہنمائی تو کرہی سکتے ہو۔ میرا مطلب ہے اگر موت کے حالات نارمل رہیں تو۔‘‘
’’ارے ٹھیک ہے، تب کاتب دیکھا جائےگا،‘‘ بوڑھے نے ٹالنے کے لیے کہا۔ مگر اسے اندر ہی اندر اس سوال نے مضطرب کر دیا تھا۔ پل بھر کے لیے وہ وسیع و عریض میدان کی طرف تاکتا رہا جس پر موسم سرما میں سرکس کے شامیانے اور تنبو لگتے۔ پارک کے باہر عمارتیں کارڈ بورڈ کے ڈبوں کی طرح اونچی کھڑی تھیں جیسے ابھی ابھی کوئی ننھا منا ہاتھ اٹھےگا اور انھیں زمین دوز کردےگا۔
مگر واقعی وہ بچہ ہنس کیوں رہا تھا؟ اس نے سوچا۔
بعد میں اسے یہ سوچ کر تعجب ہوا تھا کہ وہ اس اجنبی سے کتنی ساری باتیں کہہ گیا تھا جو اس کی کم گوئی کی عادت سے قطعی طور پر مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ مگر پھر بڑے پراسرار طور پر دوسری شام بھی ان کی ملاقات ہو گئی اور تیسری شام بھی اور پھر ہر شام ان کی ملاقات ہونے لگی۔ دونوں میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کا نام نہیں پوچھا تھا اور نہ وہ اپنے ذاتی معاملات پر گفتگو کرتے تھے اور یہ اچھا تھا۔ اس طرح بہت سارے تکلیف دہ موضوعات سے احتراز کیا جا سکتا تھا۔
’’تم ہمیشہ یہ چھتری لیے ہوے کیوں نظر آتے ہو؟‘‘ ایک دن دوسرے بوڑھے نے پوچھ لیا، ’’جبکہ موسم اچھا جا رہا ہے۔‘‘
’’اپنی چھتری کے بغیر میں اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہوں،‘‘بوڑھے نے ناخوشگواری کے ساتھ کہا۔’’دراصل ساری زندگی میں اسے ڈھوتا آیا ہوں اور اب اس سے احتراز میرے لیے ممکن نہیں۔‘‘
’’ایک چھتری سے تم تحفظ کی کون سی امید رکھ سکتے ہو؟‘‘
’’کیوں!‘‘ بوڑھے نے تنک کر کہا۔ ’’دھوپ اور بارش کا ذکر نہ بھی کروں تو بھی اس کے بہت سارے فائدے ہیں۔ فرض کر لو ہم لوگ اس بنچ پر بیٹھے ہیں اور ایک سانپ گھاس کے اندر سے رینگ کر ہماری ٹانگوں کے درمیان نکل آیا ہو۔ ہم اس سے اپنا دفاع تو کر ہی سکتے ہیں۔ یا یوں سمجھ لو کہ ایک رات تمھیں لوٹنے میں دیر ہو جاتی ہے اور تم وقت بچانے کے لیے کارمائیکل ہاسپٹل کا راستہ اپنا لیتے ہو جہاں تمھیں فٹ پاتھ پر ایک لاش پڑی ملتی ہے۔ تم اس چھتری کی نوک سے چھو کر دیکھ تو سکتے ہو کہ وہ زندہ ہے یا مردہ اور سچ پوچھو تو مجھے یاد نہیں میں نے کتنی بار خود کو اس کے سہارے آوارہ کتوں کے حملوں سے بچایا ہے۔‘‘
’’بہت خوب اور پھر اس چھتری کا ایک اور فائدہ بھی تو ہے۔‘‘ دوسرے بوڑھے کو اپنی ہنسی روکنے میں شدید محنت کرنی پڑ رہی تھی۔‘‘تم بنچ پر بیٹھے ہو کہ تم دیکھتے ہو ایک ایسے آدمی کا سامنا ہو جانے کا خدشہ ہے جس سے تم ملنا نہیں چاہتے اور تم چھتری کھول کر آرام سے اس کے پیچھے دبک لیتے ہو۔ ہے نا یہ کمال کی بات! ہاہاہا!‘‘ وہ معمول کے مطابق کھلکھلا کر ہنس رہا تھا۔
’’تم سرکس میں جوکر رہ چکے ہو کیا؟‘‘
’’نہیں۔ میں بارہ سال تک کچھوا بن کر ہوگلی ندی کا کیچڑ چھانتا رہا ہوں،‘‘ بوڑھے نے جوابی فقرہ کسا۔
پارک کے اندر سرکس کے لیے وقف وسیع و عریض میدان کے تین اطراف فینسنگ وال تھی جس سے لگے گھنے یا کم گھنے پیڑوں (بادام، کدم، اشوک، چھتیان، کرنج) کی قطار۔ ان پیڑوں کے نیچے مناسب فاصلوں پر سیمنٹ یا لکڑی کے بنچ زمین پر آڑے ترچھے نصب تھے۔ سیر کرنے والوں کے لیے پارک کے اندر میدان کو چاروں اطراف سے گھیر کر تارکول کی ایک سڑک بچھائی گئی تھی۔ جب رات کی روشنیاں باہرکی عمارتوں کو اندر سے جگمگا دیتیں تو دو ایک جگہ کارپوریشن کے لگائے گئے ہیلوجن لیمپ کے باوجود میدان نیم تاریکی میں ڈوبنے لگتا جس کا فائدہ لوٹنے کے لیے بہت سارے جوڑے آتے اور گھاس کے دبیز قالین پر بیٹھ کر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کھاتے ہوے وقت گزارتے۔ دونوں بوڑھے لاتعلقی سے ان کی طرف دیکھتے رہتے جیسے جو خرافات وہاں ہو رہی تھی اس سے انھیں کوئی تعلق نہ ہو۔ یوں بھی عرصہ ہوا کہ انھوں نے سماج کی برائیوں پر اپنا ناقدانہ فیصلہ دینا بند کر دیا تھا۔
’’زندگی ایک بڑا اکتا دینے والا کھیل ہے،‘‘ ایک دن دوسرے بوڑھے نے فلسفیانہ انداز اپناتے ہوے کہا۔’’اوپر والا بڑا خطرناک اسکور رہے۔ تم کتنے بھی گول کرو، وہ گول برابر کر دیتا ہے۔ آخر میں تمھیں صفر ہی ہاتھ آتا ہے۔‘‘
’’تم کیا مرنے کے بارے میں سوچنے لگے ہو؟‘‘
’’مر کر کیا فائدہ ہوگا؟ پیڑ پھل پھول دینا بند کردے یا اس پر پتے نہ بھی آئیں تو بھی اس کا کھڑا رہنا اچھا ہے۔ ارے اس کے اندر سانپ اور گلہریاں تو پناہ پاہی سکتے ہیں۔‘‘
دن کی ڈھلتی ہوئی روشنی میں دونوں کی عینکیں اس طرح جل اٹھتیں جیسے گرانڈ ہوٹل کی شوونڈو سے دو Dummies لا کر ایک دوسری کے روبرو رکھ دی گئی ہوں۔ پہلا بوڑھا چونکہ دھوتی کرتا پہننے کا عادی تھا اس لیے دوسرے بوڑھے کے مقابلے میں، جو پرانی تراش کی پتلون اور شرٹ پہن کر آتا، زیادہ بوڑھا دکھائی دیتا۔
’’تم جسمانی طور پر اب بھی چست ہوا گر تمھارے کپڑے کی بات مان لی جائے۔ شاید مجھ سے زیادہ لمبی عمر پاؤگے تم۔‘‘
’’بددعا مت دو،‘‘دوسرے بوڑھے نے کہا۔ ’’میرے دادا پچاس تک پہنچے پہنچتے بستر سے لگ گئے، مگر اس کے بعد بھی وہ تیس برس تک زندہ رہے۔ سب کی ناک میں دم کر دیا تھا بڑے میاں نے۔ یہ کہنا مشکل ہے۔‘‘
پھر دوسرے بوڑھے کو ایک ترکیب سوجھی۔’’کیوں نہ ٹاس کر لیں۔ اگر ہیڈ ہوا تو تم لمبی عمر پاؤگے اور ٹیل ہوا تو میں زیادہ عرصے تک زندہ رہوں گا۔‘‘
اس سے پہلے کہ پہلا بوڑھا کچھ کہتا، اس نے ایک پانچ کا سکہ نکال لیا اور اسے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے درمیان تھام کر بوڑھے کی طرف پرامید نظروں سے تاکنے لگا۔
پہلا بوڑھا ایک ٹک اس کی طرف تاک رہا تھا۔ اس کی پتلیاں ساکت تھیں اور وہ کسی گہری سوچ میں مبتلا تھا۔ یکایک اس نے دوسرے بوڑھے کی طرف جھک کر کہا:
’’ہیڈتم لو، ٹیل میرا رہنے دو۔‘‘
دوسرے بوڑھے کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے سکہ ہوا میں اچھالا۔ سکہ اپنے محور پر اوپر اٹھا اور گردش کرتا ہوابنچ کے سامنے گرکر لڑھکتا ہوا بنچ کے نیچے ہری گھاس کے اندر چلا گیا۔ دونوں بوڑھے بنچ سے اتر کر سکے کو تلاش کرنے لگے۔ سکہ لمبی گھاس کے جنگل میں جانے کہاں چھپ گیا تھا۔ دوسرا بوڑھا بنچ کے نیچے ہاتھ لے جا کر گھاس کے اندر انگلیاں دوڑانے لگا۔ پہلے بوڑھے نے اسے مدد دینا اپنا اخلاقی فرض سمجھا۔ دونوں بنچ کے نیچے، اس کے پیچھے اور دونوں طرف سکے کو تلاش کرتے رہے، مگر مٹی زرخیز ہونے کے سبب وہاں اتنی کثرت سے گھاس اگی تھی اور اب دن کی روشنی گھنے پیڑوں کے سبب یہاں اتنی مدھم پڑ گئی تھی کہ سکہ ملنا ناممکن سا لگ رہا تھا۔ پھر بھی دونوں گھاس کے اندر انگلیاں دوڑاتے رہے یہاں تک کہ گیلی مٹی سے ان کی انگلیوں پر دھبے پڑ گئے۔ بنچ کے سامنے سے گزرنے والے حیرت اور دلچسپی کے ساتھ دونوں بوڑھوں کی طرف تاک رہے تھے۔ ان میں سے کچھ تو رک بھی گئے تھے۔
’’لگ رہا ہے بوڑھوں کی بتیسی گم ہوگئی ہے،‘‘ ایک جوان لڑکے نے فقرہ کسا اور دونوں سکے کی تلاش چھوڑ کر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ دونوں بنچ کا کنارا تھام کر ہانپ رہے تھے جیسے کوئی لمبی مسافت طے کر کے آئے ہوں۔ پھر دونوں کی نظریں ملیں اور انھیں احساس ہوا کہ واقعی سکے کا گم ہو جانا تو عین ان کی خواہش کے مطابق ہوا تھا۔ اگر سکہ مل جاتا تو؟ کم از کم اب تو دونوں خوش تھے۔
مگر دوسرے بوڑھے کو تشفی نہیں ہوئی۔
’’ہم کوئی دوسرا طریقہ اپنا سکتے ہیں،‘‘ اس نے کہا۔
’’کیا؟‘‘
’’وہ آدمی جو ہماری طرف آ رہا ہے ہم اس سے نام پوچھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اگر وہ مسلمان ہوا تو تم زیادہ عرصے تک زندہ رہوگے اور اگر ہندو ہوا تو میں۔‘‘
’’اور اگر وہ عیسائی نکلا تو؟ اس اطراف کی آبادی میں عیسائی بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔‘‘دوسرے بوڑھے نے مایوسی سے سر ہلایا۔
’’پھر تو ہمیں کسی تیسرے کو اپنے کھیل میں شریک کرنا پڑےگا۔ مگر پھر میں سوچتا ہوں اس سے کیا فائدہ! یہ دنیا ہر معاملے میں اتنے خانوں میں بٹی ہوئی ہے کہ ٹاس کے لیے ہمارے پاس دنیا کے سارے سکے بھی کم پڑ جائیں گے۔‘‘
پہلا بوڑھا نہ چاہتے ہوے بھی اس کھیل میں دلچسپی لینے لگا تھا، ساتھ ہی اسے یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہورہا تھا وہ صحیح نہیں تھا۔ مگر ہر دوسرے دن ان کی ملاقات تو گویا قسمت کا اٹوٹ فیصلہ بن کر رہ گئی تھی۔ جب وہ اپنی کمزور ٹانگوں اور چھتری کے سہارے اپنے گھر سے پارک تک کا فاصلہ طے کرتا تو اکثر وہ گھر کی طرف واپس لوٹنا چاہتا۔ مگر کوئی ان دیکھی طاقت اسے دوسرے بوڑھے کی طرف، پارک کے اس مخصوص گوشے کی طرف کھینچ کر لے جاتی۔
’’تمھیں اس کا اندازہ ہے۔۔۔‘‘ ایک دن دوسرے بوڑھے نے دوبارہ کہا۔ ’’اپنی باقی زندگی کو بامعنی بنانے کے لیے ہم اب بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘
’’تمھارا ارادہ کیا ہے؟ کیا میں پھر سے کسی کام سے لگ جاؤں؟ یا کسی سماجی تحریک میں شامل ہو جاؤں؟‘‘
’’ارے نہیں!‘‘ دوسرا بوڑھا مسکرایا۔ ’’ہماری عمر کے بوڑھے بھلا کس کام کے ہوتے ہیں؟ ہم تو بس جیسے ہیں ٹھیک ہیں۔ مجھے تو ورن آشرم بالکل صحیح لگتا ہے جس کے مطابق بوڑھوں کو بن پرست ہو جانا چاہیے اور پھر سنیاس لے لینا چاہیے۔ اس سے دنیا کی بہت ساری خرابیاں دور ہو جائیں گی۔ نئی دنیا نئے لوگوں کی ملکیت ہوگی۔ کیا خیال ہے تمھارا؟ میں نے تو آشرم میں ایک کٹیا بھی خرید رکھی ہے۔ بس اس کا باتھ روم بننا باقی ہے۔ بالکل سمندر کے کنارے ہے یہ۔‘‘
’’میں نے اپنا دھرم ۱۹۴۷ کے ہندو مسلم دنگوں میں کھو دیا، بلکہ یوں سمجھو کہ آگ میں جھونک دیا۔‘‘
’’عجیب بات ہے۔‘‘
’’ہے نا!‘‘
’’اور تمھیں لگتا ہے اس سے تمھاری آتما کو شانتی ملی ہے؟‘‘
’’کم از کم اب اس طرح کے غلیظ واقعات سے اوپر اٹھ کر میں انھیں صحیح صحیح دیکھنے کا عادی تو ضرور ہو گیا ہوں۔‘‘
دوسرا بوڑھا کسی وجہ سے پھر مسکرانے لگا تھا۔
’’ایک بات بتاؤں،‘‘ اس نے سرگوشی کی۔ ’’مجھے لگتا ہے ایک بار ہمیں پھر سے کوشش کرنی چاہیے۔ شاید اس بار کوئی نتیجہ نکل آئے۔‘‘
’’آخر اس سے ہم میں سے کسی کو کیا فرق پڑ جائےگا؟ پہلے کوئی بھی مرے، دوسرے کے لیے بات ایک ہی ہے۔ جلدیا دیر ہم اپنی اپنی چتا میں ہوں گے۔ پھر بھی اگر تمھاری ضد ہے تو یہی سہی۔‘‘
’’ارے نہیں، مذاق نہیں۔میں تو سنجیدہ ہوں۔ اچھا چلو اسے کچھ دیر کے لیے ٹالتے ہیں۔ جانے کیوں کبھی کبھی مجھے تم سے ڈر لگنے لگتا ہے۔‘‘
دوپہر کی طرف بارش ہوئی تھی اس لیے کلکتہ کی فضا دھل گئی تھی اور آسمان میں اس وقت تارے بڑے بڑے اور روشن دکھائی دے رہے تھے۔ دوسرے بوڑھے نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ شاید وہ کسی نئے فیصلے پر پہنچ گیا تھا۔ اس نے انگلی اٹھا کر قطب تارے کی طرف اشارہ کیا جو سورج ڈوبتے ہی طلوع ہو گیا تھا۔
’’دیکھ رہے ہو نا، یہ بادام کے دونوں پیڑوں کے بیچ چمک رہا ہے۔ مگر میرا خیال ہے، آدھے گھنٹے کے اندر اندر یہ داہنے پیڑ کی چوٹی پر ہوگا۔ کیوں نہ ہم میدان کا ایک چکر لگا کر لوٹ آئیں؟ اگر تارہ پیڑ کی چوٹی کو چھو نہ سکا تو تم لمبی عمر پاؤگے۔‘‘
’’لمبی عمر کسے چاہیے؟ پھر بھی اگر تمھیں ضد ہے تو یہی سہی۔‘‘
اور دونوں بوڑھے میدان کے کنارے بچھی ہوئی تارکول کی سڑک پر چل پڑے۔ پہلے بوڑھے کی رفتار ارادی طور پر تیز تھی۔ دوسرا بوڑھا اس کے پیچھے پیچھے اپنی لمبی پتلی ٹانگوں پر چلتا آ رہا تھا۔
’’بڑے تیز چل رہے ہو،‘‘ پیچھے سے دوسرے بوڑھے نے ہنستے ہوے کہا۔’’ لگتا ہے لمبی عمر پاکرہی رہوگے۔‘‘
’’بکواس ہے یہ تو،‘‘پہلے بوڑھے نے رفتار دھیمی کرتے ہوے کہا کیونکہ خود اس کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی جس سے اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی۔’’قدرت کے انتظام میں اس طرح کی بکواس سے کیا فرق پڑنے والا ہی؟‘‘
’’پھر تم اتنی تیز کیوں بھاگ رہے ہو؟تم اپنے دل کا کباڑا کر لوگے۔ اپنی بوڑھی عمر کا کچھ توخیال کرو۔‘‘
’’ایک عجیب بلا ہو تم،‘‘پہلے بوڑھے نے چلتے چلتے کہا۔ ’’تمھیں تو سیاست میں ہونا چاہیے تھا۔ وہ جگہ تم جیسے گندے لوگوں کے لیے ٹھیک ہے۔‘‘
وہ بغیر پیچھے مڑے چلتا رہا اور اس نے میدان کی نیم روشنی میں آدھا راستہ طے کرلیا۔ دوسرا بوڑھا، جو بہت پیچھے چھوٹ گیا تھا،معنی خیز انداز میں سر ہلا رہا تھا۔ پہلا بوڑھا رک گیا اور سانسیں درست کرنے لگا۔
’’اتنا دھیمے چلو گے تو قطب تارا ہاتھ سے جاتا رہےگا،‘‘ اسے اپنے پیچھے سے بوڑھے کی آواز سنائی دی۔
’’شٹ اپ! تم چپ نہیں رہ سکتے؟ تمھارے منھ سے بدبوآتی ہے بوڑھے۔‘‘
وہ پھر سے چل پڑا۔ مگر جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہا تھا اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی جارہی تھی جیسے اس کی پسلیوں کے اندر کوئی بھاری ہتھوڑا چل رہا ہو۔ وہ بار بار آسمان کی طرف تاک رہا تھا۔ اسے تمام ستارے تیزی سے آگے کی طرف نکلتے دکھائی دے رہے تھے جیسے انھوں نے بھی اسے شکست دینے کی ٹھان لی ہو۔ اس نے اپنی رفتار اور بھی تیز کر دی، اتنی تیز کہ اس کی چندیا پر پسینے کے ٹھنڈے ٹھنڈے قطرے نکل آئے۔ اسے اپنے سینے میں ہلکے ہلکے درد کا احساس بھی ہونے لگا جو دیکھتے ہی دیکھتے اتنا زیادہ ہو گیا کہ وہ چھتری کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر زمین پر بیٹھ گیا اور لمبی لمبی سانس لیتے ہوے اس نے فضا کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں چاروں طرف پھیلے لوگوں اور روشنیوں کو آپس میں گڈمڈ ہوتے محسوس کیا۔
دوسرا بوڑھا اس کے سامنے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
’’اتنی تیز دوڑوگے تو یہی حال ہوگا۔ یہ تمھاری صحت کے لیے اچھا نہیں۔ اتنا لالچ، وہ بھی عمر کے اس آخری دور میں؟‘‘
سینہ مسلتے ہوے اس نے دوسرے بوڑھے کو نظر انداز کر دیا۔ اس کا درد کچھ کم ہو رہا تھا۔ کانپتے پیروں سے وہ اٹھ کھڑا ہوا اور کچھ دور چل کر دوبارہ تھم گیا۔ درد پھر سے جاگنے لگا تھا۔
’’چلو چھوڑو بھی اسے۔‘‘دوسرے بوڑھا اس کی پیٹھ سہلا رہا تھا۔ ’’بھلا تارا بھی کبھی چلتا ہے۔ وہ سرک کر کسی پیڑ کی چوٹی پر کیوں جانے لگا! یہ تو زمین گردش کرتی ہے جس سے ایسا لگنے لگتا ہے۔‘‘
پہلا بوڑھا تلملا کر رہ گیا۔ اس نے چھتری اٹھا کر اس کی نوک سے دوسرے بوڑھے کی طرف اشارہ کیا۔ کچھ بڑبڑایا۔
’’غصہ تھوک دو،‘‘ دوسرے بوڑھے نے کہا۔ ’’مجھے لگتا ہے تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ کیا تمھیں گھر تک چھوڑ آؤں؟‘‘
’’بھاڑ میں جاؤ تم!‘‘ پہلے بوڑھے نے اس کے ہاتھ کو جھٹکتے ہوے کہا۔ ’’گھر پہنچنے کے لیے مجھے تمھارے سہارے کی ضرورت نہیں۔ مگر مجھے لگتا ہے ہمیں اپنی اس پہچان پر پھر سے غور کر لینا چاہیے۔ شاید ہم ایک دوسرے کے لیے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔‘‘
میدان کے نیم اندھیرے میں چھتری کے سہارے دھیرے دھیرے چلتا ہوا وہ جنوبی پھاٹک کی طرف چلا گیا۔ دوسرے بوڑھے نے مایوسی سے سر ہلایا۔
’’عجیب بات ہے۔ اگر تارے اپنی جگہ ساکت ہیں تو اس میں میرا کیا قصور!‘‘
دوسرے دن بوڑھے کی خیریت لینے کے لیے وہ وقت سے قبل ہی پہنچ گیا تھا، مگر اس دن پہلا بوڑھا پارک کے اندر دکھائی نہ دیا۔ وہ متواتر دو ہفتوں تک دکھائی نہ دیا گرچہ دوسرے بوڑھے نے تمام بنچوں کو چھان مارا۔ اب تو اس کے اندر احساسِ جرم جاگنے لگا تھا۔ کون جانے، شاید اس عمر کے لیے یہ مذاق صحیح نہ تھا! آخر کار اس سے رہا نہ گیا اور ایک دوپہر وہ اس کی تلاش میں نکل پڑا۔ اس نے اسے ہمیشہ جنوبی پھاٹک سے اندر داخل ہوتے دیکھا تھا اس لیے وہ پارک کے جنوبی پھاٹک سے باہر نکلا اور ایک کشادہ سڑک پر چلنے لگا۔ وہ اس کشادہ سڑک کے ذیلی راستوں اور گلیوں میں چکراتا پھرا، عمارتوں کی کھڑکیوں اور بالکنیوں میں بوڑھے کو ڈھونڈتا رہا یہاں تک کہ کلکتہ پر رات اتر آئی۔ وہ ایک سہ راہے کے فٹ پاتھ پر کھڑا اطراف و جوانب کی عمارتوں کی کھڑکیوں اور بالکنیوں کا جائزہ لے رہا تھا کہ جانے کہاں سے ایک کتا نکل آیا اور ٹانگ اٹھا کر اس کے جوتوں پر پیشاب کرنے لگا۔ جب تک اسے پتا چلتا بہت دیر ہو چکی تھی۔ کتا جا چکا تھا۔ وہ مفتوح و ناکام، گیلے پیروں کے ساتھ گھر واپس لوٹ آیا۔ اس نے اپنی جرابیں دھوئیں اور انھیں سوکھنے کے لیے بالکنی کی ریلنگ پر لٹکا دیا۔
ہے بھگوان، کہیں وہ مر نہ گیا ہو! اس نے اپنے پپوٹوں کو انگلیوں سے دباتے ہوے سوچا۔
مگر تین دن کے بعد اچانک پہلا بوڑھا ایک دوسرے بنچ پر ایک دوسرے گوشے میں دکھائی دیا۔ دوسرا بوڑھا اس کی طرف لپکا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ اس تک پہنچ پاتا پہلے بوڑھے نے اپنی چھتری کھول لی اور اس کی آڑ میں چھپ گیا۔ دوسرا بوڑھا چھتری کے سامنے ٹھہر کر مسکرایا۔ اس نے کھنکھار کر گلا صاف کیا۔
’’میں اس دن کے واقعے کے لیے معافی چاہتا ہوں۔‘‘
جواب میں چھتری خاموش رہی۔
’’میں نے پرسوں تمھارے علاقے میں تمھیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی۔مگر وہ میری بے وقوفی تھی شاید۔ سچ تو یہ ہے مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ تمھارا علاقہ کون سا ہے، کس سڑک پر اور کتنے نمبر میں رہتے ہو تم۔‘‘
چھتری چپ چاپ تھی۔ دوسرے بوڑھے نے ٹھنڈی سانس بھری۔
’’میں نے فیصلہ کیا ہے میں آشرم چلا جاؤں گا۔ میں اب اسی لائق رہ گیا ہوں۔ اگر چاہو تو میں آشرم کا پتا دے سکتا ہوں۔ اچھی جگہ ہے، پسند آئےگی تمھیں۔ ایک آدھ ہفتے تم میرا مہمان بن کر رہ سکتے ہو۔‘‘
خاموشی برقرار رہی۔ آخرکار دوسرے بوڑھے نے ہار تسلیم کرلی اور مڑ کر پارک سے باہر چلا گیا۔
تین سال کے بعد وہ کلکتہ واپس لوٹا تھا۔ دن کے دو بج رہے تھے اور پارک کے اندر سناٹا تھا۔ سامنے میدان میں ایک بچہ بادام کے پیڑ کے نیچے اکیلا ربر کی گیند سے کھیل رہا تھا۔ پارک کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے پیر خودبخود اس بنچ کی طرف اٹھ گئے تھے جوجوں کا توں اپنی جگہ زمین پر ترچھا کھڑا تھا جیسے یہ کل ہی کی بات ہو کہ وہ اسے چھوڑ کر گیا ہو۔ وہ بنچ پر چپ چاپ بیٹھا رہا اور درختوں کے سائے میدان پر لمبے ہوتے گئے۔ میدان سے حال ہی میں شاید کسی سرکس نے کوچ کیا تھا۔ جگہ جگہ گڈھے چھوڑ دیے گئے تھے۔ ایک آدھ جگہ جانوروں کی آلودگیاں پڑی تھیں۔ پہلے بوڑھے کو یاد کر کے وہ مسکرایا۔ کون جانے اس بنچ پر اس سے ایک بار پھر ملاقات ہو جائے اور اس بار ملاقات ہوئی تو وہ اسے آشرم کی زندگی کے بارے میں بتائےگا، اس شانتی کے بارے میں جسے اس نے آشرم میں رہ کر پراپت کیا تھا۔ اسے بتائےگا کہ سمندر کے کنارے کنارے چلتے رہنا بھی کتنا خوبصورت تجربہ ہوتا ہے، جیسے تم زمین کو پیچھے چھوڑ آئے ہو اور تمھارے سامنے قدرت کا وہ نیلگوں اسرار ہے جس سے ایک انڈے کو توڑ کر برہمانڈ اور اس کی پوری سرشٹی باہرآئی تھی، ہر جیو جنتو رینگ کر باہر آیا تھا۔ دیکھو بوڑھے، اگر تم مجھے سن رہے ہو اور اگر تمھیں لمبی زندگی چاہیے، اگر تم صحیح معنوں میں زندہ رہنے میں یقین رکھتے ہو تو تمھیں اس شہر کے شور شرابے کو خیر باد کہنا ہوگا۔ اس شہر کی مانگیں انسان کو اندر سے کھرچ کھرچ کر کھوکھلا کر دیتی ہیں۔مجھے تو اس پر کوئی حیرت نہ ہو اگر لوگ خود اپنے اندر پچکنے لگیں۔ جانے وہ کیسی تیلیاں ہوں گی جو انھیں پچکنے سے روکتی ہیں، جانے وہ کون سی ڈوریاں ہوں گی جو ان کے چلنے میں معاون ہوتی ہیں۔ اسے بوڑھے کے ساتھ اپنی شرطیں یاد آئیں۔ اس وقت بظاہر لاپروا ہوتے ہوے بھی اندر سے جیتنے کے لیے دونوں کتنے اتاؤلے ہو رہے تھے جیسے ان کی ساری زندگی کا دارومدار ایک حقیر سے سکے یا قطب تارے کی چال پر ہو۔ کیا برا تھا اگر اس کا ہم عمر اس پر سبقت لے جاتا؟ اگر پوری انسانی زندگی کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو کیا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دنیا میں انسان کے پاس کھونے اور پانے کے لیے کچھ نہیں؟
اس کی محویت بچے سے ٹوٹی تھی جو اس کے بنچ کے سامنے کھڑا تھا۔
’’کچھ چاہیے تمھیں؟ ایسا کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’گیند!‘‘ بچے نے ڈرتے ڈرتے وہ لفظ ادا کیا اور اس کی انگلی بنچ کے نیچے کی طرف اٹھ گئی۔ اس نے گردن موڑ کر بنچ کے پیچھے نظر ڈالی جہاں ربر کی گلابی گیند ہری گھاس کے منحنی جنگل میں گویا نکالے جانے کی منتظر تھی۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر وہ گیند چن رہا تھا کہ کوئی چیز گھاس کے اندر گیلی مٹی پر چمک اٹھی۔
’’اوبھگوان!‘‘ گیند کو بچے کی طرف اچھال کر اس نے اپنا لاغر جسم ٹانگوں پر اٹھایا اور بنچ کے پیچھے جا کر اس چمکدار چیز کے سامنے ایڑیوں کے بل بیٹھ گیا۔ یہ ایک سکہ تھا، پانچ روپے کا جس کا اشوک استمبھ والا پہلو گویا کسی حالیہ بارش میں دھل کر اپنی ٹھنڈی دھندلی روشنی کا نیزہ پھینک رہا تھا۔
’’ہیڈ!‘‘ اس کی چیخ نکل گئی اور اس کا ذہن دوڑتا ہوا تین سال پیچھے چلا گیا جب ایک شام اس نے پہلے بوڑھے سے لمبی زندگی کی شرط لگائی تھی۔’’اوہ، اوہ! تو اس دن جیت میری ہوئی تھی۔ یہ تو کمال ہو گیا۔ یہ اتنے دنوں تک یہاں کیسے رہ گیا!‘‘
سکے کو گیلی مٹی سے الگ کر کے وہ واپس بنچ پر جا بیٹھا اور اسے اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے بیچ رکھ کر مسلنے لگا۔ بچہ بادام کے پیڑ کے نیچے ربر کی گیند پر ٹھوکر مار رہا تھا۔ درختوں کے سایوں کے ناہموار حاشیوں نے بڑھتے بڑھتے میدان کی فینسنگ وال کو چھو لیا۔ اسے وقت کے گزرنے کا احساس ہوا اور اس نے اپنے ڈھیلے کندھے اٹھائے۔
’’لعنت ہے مجھ پر! کسی نے ٹھیک کہا ہے انسان کا کردار ہی اس کا نصیب ہے۔ شاید میں اپنی آخری سانس تک ایک بدکردار بوڑھاہی رہوں گا۔‘‘جھریوں پر پھسلتے آنسوؤں کے قطروں کو مسلتے ہوے وہ اٹھا اور اس نے بنچ کے پیچھے جاکر سکے کو واپس گھاس کے اندر گیلی مٹی سے اس طرح چپکا دیا کہ اب اس کا نمبر والا سرا آسمان کی طرف ہو گیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.