شاید اب بھی کوئی شرر باقی ہو زیبؔ
دل کی راکھ سے آنچ آتی ہے کم کم سی
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا
میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
-
موضوعات : تنہائیاور 1 مزید
خواہشوں کی آنچ میں تپتے بدن کی لذتیں ہیں
اور وحشی رات ہے گمراہیاں سر پر اٹھائے
آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی
درد کی آنچ بنا دیتی ہے دل کو اکسیر
درد سے دل ہے اگر درد نہیں دل بھی نہیں
چاہت کی تمنا سے کوئی آنچ نہ آئی
یہ آگ مرے دل میں بڑے ڈھب سے لگی ہے
بدن کی آنچ سے سنولا گئے ہیں پیراہن
میں پھر بھی صبح کے چہرے پہ شام لکھتا ہوں
دم وصال تری آنچ اس طرح آئی
کہ جیسے آگ سلگنے لگے گلابوں میں