Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khwaja Meer Dard's Photo'

خواجہ میر درد

1721 - 1785 | دلی, انڈیا

صوفی شاعر، میرتقی میر کے ہم عصر ، ہندوستانی موسیقی کے گہرے علم کے لئے مشہور

صوفی شاعر، میرتقی میر کے ہم عصر ، ہندوستانی موسیقی کے گہرے علم کے لئے مشہور

خواجہ میر درد کے اشعار

32K
Favorite

باعتبار

میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے

مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا

کہتے نہ تھے ہم دردؔ میاں چھوڑو یہ باتیں

پائی نہ سزا اور وفا کیجئے اس سے

دونوں جہان کی نہ رہی پھر خبر اسے

دو پیالے تیری آنکھوں نے جس کو پلا دئے

ساقیا! یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ

جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

ایک ایمان ہے بساط اپنی

نہ عبادت نہ کچھ ریاضت ہے

ہو گیا مہماں سرائے کثرت موہوم آہ

وہ دل خالی کہ تیرا خاص خلوت خانہ تھا

ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے

تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے

قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا

پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

ساقی مرے بھی دل کی طرف ٹک نگاہ کر

لب تشنہ تیری بزم میں یہ جام رہ گیا

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں

نہ رہ جاوے کہیں تو زاہدا محروم رحمت سے

گنہ گاروں میں سمجھا کریو اپنی بے گناہی کو

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں

غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زینہار

اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے

خلق میں ہیں پر جدا سب خلق سے رہتے ہیں ہم

تال کی گنتی سے باہر جس طرح روپک میں سم

تشریح

سم ہندوستانی موسیقی کی اصطلاح ہے۔ اس کا تعلق تال سے ہے۔ تال کہتے ہیں موسیقی کے وزن کو۔ جس طرح ہمارا عروضی نظام ارکان پر مبنی ہے اسی طرح ہندوستانی موسیقی میں تال کا نظام ماتراؤں پر مبنی ہے۔ جیسے دھا گے نا تی نا کے دھن نا(آٹھ ماترائیں: کہروا تال)۔ سم اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں تال کا آغاز ہوتا ہے۔ تال کی پہلی ماترا سم کہلاتی ہے۔ ہر تال چکر میں ایک ہی بار سم آتا ہے۔ سنگیت میں خاص زور دے کر سم کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ عام طور پر گانے کا اختتام سم پر ہی ہوتا ہے۔ تال کی زبان میں سم کی جگہوں پر ضرب کا نشان لگایا جاتا ہے۔

دردؔ کے شعر میں روپک کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ روپک کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ ایک معروف مروجہ تال ہے۔ ہندوستانی فلموں کے کئی مشہور گانے اس تال پر گائے گیے ہیں۔ جیسے‘‘تیرے میرے ملن کی یہ رینا’’،‘‘تیری بندیا رے’’، ‘‘آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے’’، ‘‘میرا جیون کورا کاغذ کورا ہی رہ گیا’’وغیرہ۔ روپک میں سات ماترائیں ہوتی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں سم کی ضرب پر خالی ہے۔ تعجب کی بات یہ نہیں ہے کہ دردؔ کو اس بات کا علم تھا کہ روپک میں سم کی جگہ خالی ہے بلکہ حیرت اس بات سے ہوتی ہے کہ انہوں نے اس نکتے سے ایک نادر مضمون پیدا کیا ہے۔ لوگوں میں رہ کر یہ دعویٰ کرنا کہ میں ان میں شمار نہیں ہوتا ایک غیر منطقی بات ہے مگر دردؔ نے کیا خوبصورت اور حیران کن دلیل پیش کی ہے کہ جس طرح سے روپک تال میں پانچویں ماترا جو اس کا سم ہے تال میں شامل تو ہے مگر اسے خالی مانا جاتا ہے اسی طرح میں بھی خلق میں رہ کر بھی خلق سے جدا ہوں۔

شفق سوپوری

زلفوں میں تو سدا سے یہ کج ادائیاں ہیں

آنکھوں نے پر یہ اور ہی آنکھیں دکھائیاں ہیں

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے

کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

دل بھی اے دردؔ قطرۂ خوں تھا

آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا

شمع کے مانند ہم اس بزم میں

چشم تر آئے تھے دامن تر چلے

سلطنت پر نہیں ہے کچھ موقوف

جس کے ہاتھ آئے جام وہ جم ہے

تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا

برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے

آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے

غیر کے دل میں نہ جا کیجئے گا

میری آنکھوں میں رہا کیجئے گا

باوجودے کہ پر و بال نہ تھے آدم کے

وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا

جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور

شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا

دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب

کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

ہمیں تو باغ تجھ بن خانۂ ماتم نظر آیا

ادھر گل پھاڑتے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے

اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

نالہ فریاد آہ اور زاری

آپ سے ہو سکا سو کر دیکھا

تمنا تری ہے اگر ہے تمنا

تری آرزو ہے اگر آرزو ہے

بند احکام عقل میں رہنا

یہ بھی اک نوع کی حماقت ہے

وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آ سکے

آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے

درد تو جو کرے ہے جی کا زیاں

فائدہ اس زیان میں کچھ ہے

دشمنی نے سنا نہ ہووے گا

جو ہمیں دوستی نے دکھلایا

قتل سے میرے وہ جو باز رہا

کسی بد خواہ نے کہا ہوگا

ان لبوں نے نہ کی مسیحائی

ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا

روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے

اے عمر رفتہ چھوڑ گئی تو کہاں مجھے

یارب یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں

دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے!

ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے

مت جا تر و تازگی پہ اس کی

عالم تو خیال کا چمن ہے

ہر چند تجھے صبر نہیں درد ولیکن

اتنا بھی نہ ملیو کہ وہ بدنام بہت ہو

ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں

دل ہی نہیں رہا ہے جو کچھ آرزو کریں

گلی سے تری دل کو لے تو چلا ہوں

میں پہنچوں گا جب تک یہ آتا رہے گا

یک بہ یک نام لے اٹھا میرا

جی میں کیا اس کے آ گیا ہوگا

نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار

کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں

ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ تو ولے

پچھتاوے پھر تو آپ ہی ایسا نہ کر کہیں

آگے ہی بن کہے تو کہے ہے نہیں نہیں

تجھ سے ابھی تو ہم نے وے باتیں کہی نہیں

نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز

گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو

جان سے ہو گئے بدن خالی

جس طرف تو نے آنکھ بھر دیکھا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے