Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ahmad Husain Mail's Photo'

احمد حسین مائل

1857/58 - 1914

حیدرآباد دکن کے پرگو اور قادرالکلام شاعر، جنہوں نے نہایت سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں شاعری کی، رباعی گوئی کے لیے بھی جانے جاتے ہیں

حیدرآباد دکن کے پرگو اور قادرالکلام شاعر، جنہوں نے نہایت سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں شاعری کی، رباعی گوئی کے لیے بھی جانے جاتے ہیں

احمد حسین مائل کے اشعار

3.6K
Favorite

باعتبار

کھول کر زلف مسلسل کو پڑھی اس نے نماز

گھر میں اللہ کے بھی جال بچھا کر آیا

میں ہی مومن میں ہی کافر میں ہی کعبہ میں ہی دیر

خود کو میں سجدے کروں گا دل میں تم ہو دل میں تم

جتنے اچھے ہیں میں ہوں ان میں برا

ہیں برے جتنے ان میں اچھا ہوں

آسماں کھائے تو زمین دیکھے

دہن گور کا نوالا ہوں

وہ بزم میں ہیں روتے ہیں عشاق چو طرف

پانی ہے گرد انجمن اور انجمن میں آگ

مسلماں کافروں میں ہوں مسلمانوں میں کافر ہوں

کہ قرآں سر پہ بت آنکھوں میں ہے زنار پہلو میں

وعدہ کیا ہے غیر سے اور وہ بھی وصل کا

کلی کرو حضور ہوا ہے دہن خراب

گر بس چلے تو آپ پھروں اپنے گرد میں

کعبے کو جا کے کون ہو اے جان من خراب

دنیا نے منہ پہ ڈالا ہے پردہ سراب کا

ہوتے ہیں دوڑ دوڑ کے تشنہ دہن خراب

واعظ کا اعتراض یہ بت ہیں خدا نہیں

میرا یہ اعتقاد کہ جلوے خدا کے ہیں

ہنگام قناعت دل مردہ ہوا زندہ

مضمون قم اعجاز لب نان جویں تھا

رمضاں میں تو نہ جا رو بہ رو ان کے مائلؔ

قبل افطار بدل جائے گی نیت تیری

نئی صدا ہو نئے ہونٹ ہوں نیا لہجہ

نئی زباں سے کہو گر کہوں فسانۂ عشق

توبہ کھڑی ہے در پہ جو فریاد کے لئے

یہ مے کدہ بھی کیا کسی قاضی کا گھر ہوا

چاک دل سے جھانکئے دنیا ادھر سے دین ادھر

دیکھیے سب کا تماشا اس شگاف در سے آپ

میرا سلام عشق علیہ السلام کو

خسرو ادھر خراب ادھر کوہ کن خراب

ناز کر ناز ترے ناز پہ ہے ناز مجھے

میری تنہائی ہے پرتو تری یکتائی کا

ہے حکم عام عشق علیہ السلام کا

پوجو بتوں کو بھید کچھ ان میں خدا کے ہیں

غیر کا حال تو کہتا ہوں نجومی بن کر

آپ بیتی نہیں معلوم وہ نادان ہوں میں

جلسوں میں خلوتوں میں خیالوں میں خواب میں

پہنچی کہاں کہاں نگہ انتظار آج

اگرچہ وہ بے پردہ آئے ہوئے ہیں

چھپانے کی چیزیں چھپائے ہوئے ہیں

محبت نے مائلؔ کیا ہر کسی کو

کسی پر کسی کو کسی پر کسی کو

جو ان کو لپٹا کے گال چوما حیا سے آنے لگا پسینہ

ہوئی ہے بوسوں کی گرم بھٹی کھنچے نہ کیوں کر شراب عارض

تم کو معلوم جوانی کا مزا ہے کہ نہیں

خواب ہی میں کبھی کچھ کام ہوا ہے کہ نہیں

جو آئے حشر میں وہ سب کو مارتے آئے

جدھر نگاہ پھری چوٹ پر لگائی چوٹ

ساری خلقت راہ میں ہے اور ہو منزل میں تم

دونوں عالم دل سے باہر ہیں فقط ہو دل میں تم

بند قبا میں باندھ لیا لے کے دل مرا

سینہ پہ اس کے پھول کھلا ہے گلاب کا

تم گلے مل کر جو کہتے ہو کہ اب حد سے نہ بڑھ

ہاتھ تو گردن میں ہیں ہم پاؤں پھیلائیں گے کیا

پیار اپنے پہ جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں

آئینہ دیکھ کے منہ چوم لیا کرتے ہیں

مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی

غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج

کچھ نہ پوچھو زاہدوں کے باطن و ظاہر کا حال

ہے اندھیرا گھر میں اور باہر دھواں بتی چراغ

نیند سے اٹھ کر وہ کہنا یاد ہے

تم کو کیا سوجھی یہ آدھی رات کو

وہ رات آئے کہ سر تیرا لے کے بازو پر

تجھے سلاؤں بیاں کر کے میں فسانۂ عشق

جا کے میں کوئے بتاں میں یہ صدا دیتا ہوں

دل و دیں بیچنے آیا ہے مسلماں کوئی

مٹی کچھ بنی کچھ وہ تھی کچھ ہوئی کچھ

زباں تک مری داستاں آتے آتے

کیا آئی تھیں حوریں ترے گھر رات کو مہماں

کل خواب میں اجڑا ہوا فردوس بریں تھا

دور سے یوں دیا مجھے بوسہ

ہونٹ کی ہونٹ کو خبر نہ ہوئی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے