شام کی راکھ بدن پر مل کر قشقہ کھینچ ستاروں سے
شام کی راکھ بدن پر مل کر قشقہ کھینچ ستاروں سے
رات سنگھاسن اپنا ہی ہے کہہ دے ہجر کے ماروں سے
کچھ بے ہنگم آوازیں تھیں کچھ سائے سے پھرتے تھے
آنکھیں موند کے گزرے تھے ہم دنیا کے بازاروں سے
اور اچانک جی اٹھتے ہیں بند کواڑوں والے لوگ
چھن چھن کر آواز سی کوئی آتی ہے دیواروں سے
روح کے ویراں تہہ خانے تک روز کوئی آ جاتا ہے
تنہائی کے موسم والی خالی راہ گزاروں سے
کشتی کب کی ڈوب چکی ہے لیکن اب تک اس کا پتہ
دریا دریا پوچھ رہا ہے جانے کون کناروں سے
دئے کی آخری سانس بجھی اور آنکھ اٹھی آکاش کی سمت
کتنے ہی سر جھانک رہے تھے رات کی نم دیواروں سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.