نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے
نام ہی کیا نشاں ہی کیا خواب و خیال ہو گئے
تیری مثال دے کے ہم تیری مثال ہو گئے
سایۂ ذات سے بھی رم عکس صفات سے بھی رم
دشت غزل میں آ کے دیکھ ہم تو غزال ہو گئے
کہتے ہی نشہ ہائے ذوق کتنے ہی جذبہ ہائے شوق
رسم تپاک یار سے رو بہ زوال ہو گئے
عشق ہے اپنا پائیدار تیری وفا ہے استوار
ہم تو ہلاک ورزش فرض محال ہو گئے
جادۂ شوق میں پڑا قحط غبار کارواں
واں کے شجر تو سر بسر دست سوال ہو گئے
سخت زمیں پرست تھے عہد وفا کے پاسدار
اڑ کے بلندیوں میں ہم گرد ملال ہو گئے
قرب جمال اور ہم عیش وصال اور ہم
ہاں یہ ہوا کہ ساکن شہر جمال ہو گئے
ہم نفسان وضع دار مستمعان برد بار
ہم تو تمہارے واسطے ایک وبال ہو گئے
کون سا قافلہ ہے یہ جس کے جرس کا ہے یہ شور
میں تو نڈھال ہو گیا ہم تو نڈھال ہو گئے
خار بہ خار گل بہ گل فصل بہار آ گئی
فصل بہار آ گئی زخم بحال ہو گئے
شور اٹھا مگر تجھے لذت گوش تو ملی
خون بہا مگر ترے ہاتھ تو لال ہو گئے
جونؔ کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
اب کئی ہجر ہو چکے اب کئی سال ہو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.