لہو ہی کتنا ہے جو چشم تر سے نکلے گا
لہو ہی کتنا ہے جو چشم تر سے نکلے گا
یہاں بھی کام نہ عرض ہنر سے نکلے گا
ہر ایک شخص ہے بے سمتیوں کی دھند میں گم
بتائے کون کہ سورج کدھر سے نکلے گا
کرو جو کر سکو بکھرے ہوئے وجود کو جمع
کہ کچھ نہ کچھ تو غبار سفر سے نکلے گا
میں اپنے آپ سے مل کر ہوا بہت مایوس
خبر تھی گرم کہ وہ آج گھر سے نکلے گا
ہیں برف برف ابھی میرے عہد کی راتیں
افق جلیں گے تو شعلہ سحر سے نکلے گا
یہ کیا خبر تھی کہ اے رنج رائگاں نفسی
دھواں بھی سینۂ اہل نظر سے نکلے گا
مری زمیں نے خلا میں بھی کھینچ دی دیوار
تو آسماں سہی کس رہ گزر سے نکلے گا
تمام لوگ اسی حسرت میں دھوپ دھوپ جلے
کبھی تو سایہ گھنیرے شجر سے نکلے گا
سمو نہ تاروں میں مجھ کو کہ ہوں وہ سیل نوا
جو زندگی کے لب معتبر سے نکلے گا
پھرا ہوں کاسہ لیے لفظ لفظ کے پیچھے
تمام عمر یہ سودا نہ سر سے نکلے گا
فضاؔ متاع قلم کو سنبھال کر رکھو
کہ آفتاب اسی درج گہر سے نکلے گا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.