اچھا ہے وہ بیمار جو اچھا نہیں ہوتا
اچھا ہے وہ بیمار جو اچھا نہیں ہوتا
جب تجربے ہوتے ہیں تو دھوکا نہیں ہوتا
جس لفظ کو میں توڑ کے خود ٹوٹ گیا ہوں
کہتا بھی تو وہ اس کو گوارا نہیں ہوتا
تیری ہی طرح آتا ہے آنکھوں میں ترا خواب
سچا نہیں ہوتا کبھی جھوٹا نہیں ہوتا
تکذیب جنوں کے لیے اک شک ہی بہت ہے
بارش کا سمے ہو تو ستارا نہیں ہوتا
کیا کیا در و دیوار مری خاک میں گم ہیں
پر اس کو مرا جسم گوارا نہیں ہوتا
یا دل نہیں ہوتا مرے ہونے کے سبب سے
یا دل کے سبب سے مرا ہونا نہیں ہوتا
کس رخ سے تیقن کو طبیعت میں جگہ دیں
ایسا نہیں ہوتا کبھی ویسا نہیں ہوتا
ہم لوگ جو کرتے ہیں وہ ہوتا ہی نہیں ہے
ہونا جو نظر آتا ہے ہونا نہیں ہوتا
جس دن کے گزرتے ہی یہاں رات ہوئی ہے
اے کاش وہ دن میں نے گزارا نہیں ہوتا
جب ہم نہیں ہوتے یہاں آتے ہیں تغیر
جب ہم یہاں ہوتے ہیں زمانا نہیں ہوتا
ہم ان میں ہیں جن کی کوئی ہستی نہیں ہوتی
ہم ٹوٹ بھی جائیں تو تماشا نہیں ہوتا
- کتاب : shor bhi sannata bhi (rekhta website) (Pg. 114)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.