سرورق
دیباچہ
التماس بجناب سخن شناس
قصیدہ
ردیف فا
الٰہی لاالہ کا راز ہو لطف رقم میرا
ازل میں نور یکتائی ہوا رنگ رقم میرا
ہوے غش دیکھ کر معجز بیاں نور رقم میرا
تصور وقت مرگ آیا یہ کس جان بخش عالم کا
ہے ایک ہی رنگ نور مطلق ونور مقید کا
رسول پاک وہ پتلا ہے تو نور مجرد کا
کر گئی کام نگاہ بت پرفن کیا
جلاتا ہے دلوں کو عشق اس بیدین وایماں کا
یہ کہتے ہیں کیا آپ ہمیں دل نہیں ملتا
تیرے بوسوں میں اب مزا نہ رہا
عشاق کا مجمع تری ڈولی کے قرین تھا
یہ میرا تن ہے پیراہن کسی کا
یہ دو شکار ہیں اے ناوک نظر لینا
اگر ہو پردہ نشین میرے دل کا گھر لینا
تجھ کو تحفہ تیرے ہی قابل ملا
چوری سے دو گھڑی جو نظارے ہوئے تو کیا
لٹ گیا توشہ سر منزل مرا
ہمارے دل پہ ہے قبضہ کسی کافر کی چتوں کا
آفت ہے وہ بعد وصل جھکنا تیری چتوں کا
جاتے ہیں کس کو دیکھنے موسیٰ کو کیا ہوا
موسیٰ کو مل گیا ید بیضا تو کیا ہوا
کچھ نشان پڑ گئے رنگ اڑھ گیا رخساروں کا
تنگ ہو کر دل مرا تیرا دہن ہو جائیگا
کیوں شوق بڑھ گیا رمضان میں سنگار کا
مصر میں شوق ہے یوسف کو خود آرائی کا
جلوہ آئینہ نما ہے تیری یکتائی کا
حضرت دل یہ تو کہئے جاکے فرمائیں گے کیا
راضی پے وصال جو وہ فتنہ گر ہوا
بیتاب ہنستے ہنستے مرا بخیہ گر ہوا
معشوق بہت ہیں انہیں غمزا نہیں آتا
کہتی ہے مرے دور میں کیا کام قضا کا
پری کسی نے رکھا نام جب شعور آیا
صدمہ اتھائے کیوں یہ ہمارے عذاب کا
بے پردگی نے لطف بڑھایا حجاب کا
آنکھوں میں سحر سحر میں رنگ انقلاب کا
اللہ رے شوق یوسف ثانی کے واسطے
اشارہ ےہ سر محفل کسی کا
یہ کیا غضب ہے وہ کہہ رہے ہیں جو ہو اذیت گلا نہ کرنا
کوئی کہتا ہے ترے پاس سے کل جاؤں گا
کیا میں دل دینے کے اقرار سے ٹل جاؤں گا
ہوش میں آنا ہی برا ہو گیا
دیدۂ دل جب مرا وا ہو گیا
ابھی کم سن ہیں سمجھے یہ بھی کوئی ظرف ہے گل کا
کیا اساتذہ خیمہ لامکاں پر حضرت دل کا
اپنے چہرے کو وہ گھونگٹ میں چھپا کر آیا
کھینچ کر فتنۂ رفتار جو خنجر آیا
خواہاں سب اسکی دید کے وہ تیری دید کا
آیا ہے دل کی آنکھ میں پیغام دید کا
کیوں نہ تڑپے راستہ میں خاک پتھر زیر پا
راہ میں قتل ہوا عاشق نالاں کس کا
اے جنوں بزم ہے شادی کی بیاباں کس کا
گتھ گیا اس کی نظر سے دل مضطر اپنا
دیا جو دل تو کہا روح نے جتا دینا
پہنے محرم یار نے جو بن نکلنے جب لگا
بنایا پتلا جو ماوطین کا اتارا نقشہ جو اک حسین کا
بلند ہوشور آفریں کا حجاب اٹھ جائے کفر و دیں کا
ردیف باے موحدہ
آفتاب آئے چمک کر جو سر جام شراب
بن گئے برق تجلی نظر جام شراب
نکلی جو روح ہو گئے اجزاے تن خراب
کیا روز حشر دوں تجھے اے داد گر جواب
دیتا ہے جب خدا کو بت فتنہ گر جواب
گر پڑے گا ذرہ ذرہ کی نظر سے آفتاب
لنترانی کیوں نقاب الٹائے منہ پر سے آپ
ردیف باے فارسی
ردیف تاے قرشت
یاد آجائے جو شاہ دوسرا کی صورت
ردیف تاے ہندی
سمجھ کے حور بڑے ناز سے لگائی چوٹ
ردیف ثاے مثلثہ
میں ہی مطلوب خود ہوں تو ہے عبث
آپ اپنے گھر سے آئے کہ دشمن کے گھر سے آج
ردیف جیم تازی
دل جاتا ہے دم جاتا ہے وہ جاتے ہیں گھر آج
گھر جاتے ہیں پھر آتے ہیں کچھ جھوٹ ہے کچھ سچ
میری طرح سے تو بھی رہے بیقرار آج
ردیف جیم فارسی
وہ تار تار جو آواز دے فغاں کی طرح
ردیف حاے حطی
ردیف خاے معجمہ
ہے سر سے قدم تک وہ بت ماہ لقا شوخ
کب اسے دیکھ سکے خلق خدا میرے بعد
ردیف دال مہملہ
مکان خدا ہے مکان محمد
بیٹھے جو نذر لینے کو سرکار نقشبند
ردیف راے مہملہ
ہلیں گے ہونٹھ جب انکے اٹھیں گے زندہ ہم ہو کر
وہ بت پری ہے نکالیں نہ بال وپر تعویذ
ردیف ذال معجمہ
گیا طور پر کب وہ دل سے نکل کر
خلیل آئے تیرا گلستاں میں چل کر
مری جان تصور میں آنا سنبھل کر
وہ بیٹھے ہیں بغل میں ابر آیا ہے گلستاں پر
پڑا ہے وصل میں پردے پہ پرداروی جاناں پر
مزے اڑاؤں گا انداز گفتگو ہو کر
مزاج نزع میں پوچھا جو روبرو ہو کر
ادا سے دیکھا جو مسکرا کر نکل گیا میں قدم بڑھا کر
تو کس کا بندہ ہے اے برہمن نہ سر جھکا بتکدے میں جا کر
محشر میں چلتے چلتے کروں گا ادا نماز
ردیف سین مہملہ
دل میں ہیں کئی داغ برنگ پر طاوس
ردیف زاے معجمہ
وہ ہیں شوخیوں کے اثر سے خوش وہ ہیں دل میں اپنے ہنر سے خوش
ردیف شین معجمہ
جمع ہیں در پر تمہارے عام خاص
ردیف صاد مہملہ
کھڑے ہیں موسیٰ اٹھاؤ پردا دکھاؤ تم آب وتاب عارض
ردیف ضاد معجمہ
ردیف طاے مہملہ
ٹھوکر سے زندگی کا گماں سر بسر غلط
کب تک بناؤ دور کر آئینہ شانہ شمع
ردیف عین مہملہ
ردیف ظاے معجمہ
مول اس نے لیا خنجر مائل کا خدا حافظ
ردیف غین معجمہ
آسمان بجلی مہ انور دھواں بتی چراغ
روی تاباں مانگ موی سردھواں بتی چراغ
جنبش میں زلف پر شکن ایک اسطرف ایک اسطرف
ردیف قاف
کوئی حسین ہے مختار کا رخانۂ عشق
ردیف کاف تازی
ردیف کاف فارسی
سر ظاہر سر باطن جسم وجاں غوث پاک
آئی کہاں سے اس نگہ سحر فن میں آگ
ردیف لام
کہتا ہے یہی ہم سے ہمارا جرس دل
کیسا مجھے دیا مرے پروردگار دل
سیکھا ہنر عشق لڑکپن میں مرا دل
ایسا نہ دے عدو کو بھی پروردگار دل
ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم
ردیف میم
ساری خلقت راہ میں ہے اور ہو منزل میں تم
تو اڑھا کر مجھ کو لیچل اے صبا بغداد میں
ردیف نون
اسکی آنکھوں کے یہ اشارے ہیں
تم کو معلوم جوانی کا مزا ہے کہ نہیں
بہت ڈھونڈا نہ پایا سیکڑوں لاکھوں ہزاروں میں
مرا ہاتھ اس کے جوبن سے یہ کہتا ہے اشاروں میں
کہو کے آیا ہے نشانی مری اے یار کہاں
لوگ گردش میں جو یوں سارے ہیں
یار پوشیدہ ہے اے حضرت موسیٰ دل میں
کوئی بھی مجھ سا زمانے میں غمگسار نہیں
نہیں ہے یہ دل خانہ خراب پہلو میں
منت غرض سماجت کیا کیا نہیں ہے ہم میں
آرزو سے قتل ہے ہم لائے ہیں سر ہاتھ میں
اٹھا کے چہرے سے اپنے گھونگٹ وہ ایسی شوخی سے چل رہے ہیں
سینہ سینہ پہ ہے خوش ہیں جگر و دل دونوں
اگر چہ وہ بے پردہ آئے ہوئے ہیں
جدائی وصل میں دیکھو جو لیٹا یار پہلو میں
زلف میں کیوں دل جگر اے یار دو رہتے ہیں
تم نہیں ہو تو یہ ہے پھر کون مجھ ناشاد میں
آج تھم تھم کر مزا آتا ہے انکی یاد میں
مارو بھی تم جلاؤ بھی پھر تم تو کیا کہوں
جو ہم کرتے ہیں مائل کیا ہو بہکانے کی باتیں ہیں
کیا کیا تجلیاں ہیں رخ لاجواب میں
کیا شوخیاں نہیں ہیں تمہارے حجاب میں
ہم کیوں کہیں بتوں کو یہ پتلے جفا کے ہیں
آہیں ہماری گرد کسی مہ لقا کی ہیں
بوسہ تو دیکے نہ جا بندۂ احسان ہوں میں
کہدیا بت کو خدا ہے عجب انسان ہوں میں
نہیں معلوم کون ہوں کیا ہوں
پیار اپنے پہ جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں
وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں
اللہ کا گھر بھی غیر کی محفل سے کم نہیں
اچھی ہے بات مجھ کو جو محشر کا غم نہیں
کرتا ہے بات چیت اشاروں سے راہ میں
ہم شان کیا دکھائیں تری جلوہ گاہ میں
ہم آنکھ لڑانے کا مزا پائے ہوئے ہیں
ردیف واو
ردیف واو
محبت نے مائل کیا ہر کسی کو
موت کا بھیجا ہے پیغام خدا نے ہم کو
لاؤں منہ تک میں جو دل کی بات کو
قبلۂ آب وگل تمہیں تو ہو
بیان ابرو خمدار یار کیونکر ہو
واں تیرا اور یاں دل شاد ہو
شوخیوں کو پھر دم بوس وکنار آنے تو دو
زلف کو اپنی ذرا جوبن پہ لہرانے تو دو
وار ہیں آنکھیں مری زیر مزار تنا تو ہو
لامکاں پر چھت بنے اونچا غبار اتنا تو ہو
آگیا اپنے تجسس پہ تبسم مجھ کو
آگیا طور پہ جاتے ہی تبسم مجھ کو
ذات سے اسم میں لایا ہے تو ہم مجھ کو
یار کا ہاتھ ذرا آئینہ گر دیکھیں تو
دبا کر کہتے ہیں وہ سینۂ بیمار ہجراں کو
کھیلتے کیا ہو وہ دل لاؤ ادھر دیکھیں تو
کیا خنجر نے سجدہ دل پہ لگ کر دل کے ارماں کو
چھپے کیوں پاس شہ رگ کے دکھا دو روے تاباں کو
خیالوں میں نگاہوں میں تمہیں ہو
شرم بھی آئے تجھے شرم نمایاں بھی نہ ہو
مزا پرسش کا جب زیر زمیں ہو
کہتے ہیں دل تو وہ دے جس میں ایک ارماں بھی نہ ہو
ردیف ہاے ہوز
نہ کیوں تڑپے دل امیدوار آہستہ آہستہ
ردیف یاے تحتانی
ازل سے تجھ پہ ہوں مائل محمد عربی
نکلے ہیں وہ بغل سے مری دل لئے ہوئے
میں فدا سینہ عشاق میں گھر کس کا ہے
اگر ہر ہر کو پوجا کیا خطا کی
اٹھتے اٹھتے جب نقاب یار آدھی رہ گئی
کس سے پوچھوں کہ مرے یار کا منشا کیا ہے
ہم بھی دیکھیں گے کہ ایمن میں تماشا کیا ہے
کس کو ہم حشر میں دیکھیں گے تمنا کیا ہے
تم ہدف ہم تیر کیوں کیسی کہی
خدا کو خود میں چھپا لیا ہے یہ اوج کس خاکسار میں ہے
چھپا دے مار کر صورت کسی کی
وصل سے ڈر کر ہانپ رہا ہے شرم سے منہ پر دامن ہے
چرکے وہ لگے تیری نظر کے
دل مرا سینہ میں ہے دل میں مرا جانانہ ہے
آج ان کی بزم سے کیسی خبر آنے کو ہے
تڑپ کر میرے بر سے یوں مرا دل اے صنم نکلے
دید کی لذت نہ پوچھو غش میں ہیں آئے ہوئے
نالۂ دل پر مری دل کی خبر جانے کو ہے
میں چھپر کھٹ پر جو سویا اس ستم ایجاد کے
شمع تو ہے ذرہ ذرہ صورت پروانہ ہے
عجیب کیفیت انا ہے کہیں ہے بیجا کہیں بجا ہے
نہ دل رہے مرے بر میں نہ جان تن میں رہے
کیوں نہ فردوس وپرستاں میں ہو شہرت تیری
پردہ اٹھ جائے تو کھل جائے حقیقت تیری
شب ماہ میں جو پلنگ پر مرے ساتھ سوے تو کیا ہوئے
دل ہمارا چرائے جاتا ہے
جھکی ہوئی ہیں یہ سینہ یہ کب حیا کے لیے
عشق کا نشہ چڑھا پرہیزگاری ہو چکی
کھڑے ہیں دور نظر ملائے ہوئے
پیاری پیاری صورت ہے وہ گوری گوری رنگت ہے
کر نئی خلقت مری یارب نیا دے دل مجھے
باہم نہ لڑیں حسین یہ ڈر ہے
جھگڑا باہم دم سحر ہے
غمگیں ہے درد مند ہے پر اضطراب ہے
نکل آیا مرے دل سے وہ دلبر مرابرسے
آئی ہے ادھر شرم ادھر جان کا ڈر ہے
یہ میخانہ ہے مسجد دیکھ زاہد روزن در سے
سر رہ دیکھ کر میرا جنازہ جابجا ٹھہرے
زباں پر نطق تن میں جان دل میں مدعا ٹھہرے
ملیں گے خاک میں دو روز کی یہ زندگانی ہے
یہ بیکار وہ بے اثر ہوگئی
وہاں ہر نگہ بے اثر ہو گئی
گلے پر تیغ ہے اور ہاتھ ہیں گردن میں قاتل کی
کسی جا تیرے منہ سے بات کب نکلے ترے دل کی
مشتاق دید جمع ہیں ڈیوڑھی پہ یار کی
تسکین ہو جو میرے دل بیقرار کی
گرے موسیٰ یہ کہہ کر اچھی صورت ایسی ہوئی ہے
لڑ گئی آنکھ تو دو گام بھی چل ہی نسکے
توڑیں گے پھر خدا کا اسے گھر بنائیں گے
تصویر تیری یوں سر محشر بنائیں گے
دیوانہ مجھ کو سامنے آکر بنائیں گے
زمزمہ نالۂ بلبل ٹھہرے
چیر کر دیکھ رہا ہے دل نالاں کوئی
دے خدا مائل کو اس سن کے لئے
آگ کافر حور مومن کے لئے
فرقت کا نہیں رنج گلا اور ہی کچھ ہے
ان پردہ نشینوں کی حیا اور ہی کچھ ہے
وہ اگر حیلہ کریں مدفن تک آنے کے لئے
خواب میں بھی ملو جو دشمن سے
کچھ اشارے ہوے ہیں دشمن سے
نظر سے لئے امتحان آتے آتے
کچھ اڑی کچھ گر پڑی رستے میں گھبرائی ہوئی
دھوم سے باجے بجے فریاد شہنائی ہوئی
کس خوشی سے انکے چہریکی تماشائی ہوئی
دیکھیں خدا کو دور سے تو کیا مزا ملے
دونوں ہوں گم وصال میں ایسا مزا ملے
گورا سا بدن بیچ میں وہ شکل کمر کی
تصویر بشر ہی میں ہے خلاق بشر کی
یہ چٹکیاں ابھری ہوئی ہیں کس کی نظر کی
پس نہ جائیں مرے ارمان بر آنیوالے
مجھ کو ہر ہر میں تیری شکل نظر آتی ہے
جان وہ جان ہے جو تیرے لئے جاتی ہے
نبی کی آنکھ کا تارا محی الدین جیلانی
بتان حسین کیا بڑائی کریں گے
تو عجب گلرو عجب گلفام ہے
کرو مجھ پر نظر خواجہ معین الدین اجمیری
کیا دوں جواب مجھ سے کہے گر حسین کوئی
مزا دل لگی کا وہی جانتا ہے
آنکھ میں تیری شرارت کبھی ایسی تو نہ تھی
کس رح نیتوں کی نہ تم کو خبر رہے
شاہ عرفان نور ایمان عبدالقادر جیلانی
یہ بتا دو کہ مقدر کا لکھا کس کا ہے
نشاں بے نشاں خواجہ معین الدین اجمیری
کیوں حشر میں تمہاری نگہ بے اثر ہوئی
پردا اٹھا نظر کے مقابل نظر ہوئی
بھویں تنی ہیں ٹپکتا ہے خون جانوں سے
نہ تھا جو وہم میں وہ بھی سنا ہے کانوں سے
منہ آئینہ میں دیکھ کے مضطر ہوا کرے
وہ چلبلی نگاہ بھی کیا جاں خراش ہے
کسی محفل میں بے اثر نہ ہوئی
مسجد ہے بتکدہ ہے دل ہے رگ گلو ہے
ابو العلا میں خدا کی صورت خدا میں صورت ابوالعلا کی
تخمیس برغزل جناب رضوان مداح شہنشاہ دو جہاں رئیس مراد آباد
سہرا
قطعہ بہ تہنیت میر محبوب علی خان بہادر
قطعات
قطعہ بتقریب جشن سالگرہ اعلی حضرت قدر قدرت شاہ دکن
قطعۂ تاریخ انتقال پر ملال سخن سنج یگانہ استاد حضرت محمد سرفراز علی وصفی
قطعہ تاریخ انتقال پر ملال حضرت مولوی محمد تقی حسین صاحب
قطعہ تاریخ وفات مصیبت آیات محمد عزیزالدین عرف عزیز
قطعہ تاریخ انتقال پرملال حضرت فاطمہ بیگم صاحبہ والدۂ ماجدہ مصنف
قطعہ تاریخ طبع تحفۂ دکن من تصنیف خاکپایٔ سخنوران فاضل احمد حسین مائل فاروقی
رباعیات
سلام
دکھائیں خواب میں صورت ابو تراب مجھے
عروج نظم دکھا دو بلند بینوں کو
سخن کا نور دکھا دوں جو پاک بینوں کو
درمیاں عبدو رب کیا رہ گیا
علی تیغ آتش فشاں کھینچتے ہیں
ید اللہ جس دم کماں کھینچتے ہیں
نعتیہ
محمد کو راز نہاں کھینچتے ہیں
مرثیہ
وہ تڑپا شب کو میں درد جگر سے
مرثیہ
قطعات تاریخ تکمیل وترتیب وطبع تحفہ دکن
کرو دیوان چو مرتب بزبان اردو
واہ واہ اے جناب مائل واہ
مائل خوش فکر سا کوئی نہیں دوسرا
بھلا کس کا ہے دیوان ایسا واصل
مائل نغز بیان کے دم سے
بوالعلائی برادر دینی
اہل نظر اہل یقیں کھوئیں نہ ہوش اپنے کہیں
حضرت مائل کا وہ دیوان چھپا
وہ لکھا دیوان مرے استاد نے
مائل خوش فکر سا کوئی نہیں نازک خیال
استاد کو خداے سخن گر کہا تو کیا
ڈاکٹر مائل کا دیوان دیکھ کر
استاد کا یہ تحفہ ہے ام الکتاب عشق
نہیں کوئی مائل سا ہندو دکن میں
ہیں کہاں نازک خیالاں دکن دیکھیں کہ آج
لکھا ہے حضرت مائل نے ایسا رنگیں تحفہ
مرے یار صادق ہیں احمد حسین
کلام حضرت مائل میں کیسی دلخراشی ہے
کس ندیدم چومائل خوش فکر
بارک اللہ مائل دکن میں
تقریظ و تاریخ منظوم
للہ الحمد اپنے وطن میں
تقریظ و تاریخ
گنہ پکارے یہ خجلت سے منہ چھپا کے چلے
سرورق
دیباچہ
التماس بجناب سخن شناس
قصیدہ
ردیف فا
الٰہی لاالہ کا راز ہو لطف رقم میرا
ازل میں نور یکتائی ہوا رنگ رقم میرا
ہوے غش دیکھ کر معجز بیاں نور رقم میرا
تصور وقت مرگ آیا یہ کس جان بخش عالم کا
ہے ایک ہی رنگ نور مطلق ونور مقید کا
رسول پاک وہ پتلا ہے تو نور مجرد کا
کر گئی کام نگاہ بت پرفن کیا
جلاتا ہے دلوں کو عشق اس بیدین وایماں کا
یہ کہتے ہیں کیا آپ ہمیں دل نہیں ملتا
تیرے بوسوں میں اب مزا نہ رہا
عشاق کا مجمع تری ڈولی کے قرین تھا
یہ میرا تن ہے پیراہن کسی کا
یہ دو شکار ہیں اے ناوک نظر لینا
اگر ہو پردہ نشین میرے دل کا گھر لینا
تجھ کو تحفہ تیرے ہی قابل ملا
چوری سے دو گھڑی جو نظارے ہوئے تو کیا
لٹ گیا توشہ سر منزل مرا
ہمارے دل پہ ہے قبضہ کسی کافر کی چتوں کا
آفت ہے وہ بعد وصل جھکنا تیری چتوں کا
جاتے ہیں کس کو دیکھنے موسیٰ کو کیا ہوا
موسیٰ کو مل گیا ید بیضا تو کیا ہوا
کچھ نشان پڑ گئے رنگ اڑھ گیا رخساروں کا
تنگ ہو کر دل مرا تیرا دہن ہو جائیگا
کیوں شوق بڑھ گیا رمضان میں سنگار کا
مصر میں شوق ہے یوسف کو خود آرائی کا
جلوہ آئینہ نما ہے تیری یکتائی کا
حضرت دل یہ تو کہئے جاکے فرمائیں گے کیا
راضی پے وصال جو وہ فتنہ گر ہوا
بیتاب ہنستے ہنستے مرا بخیہ گر ہوا
معشوق بہت ہیں انہیں غمزا نہیں آتا
کہتی ہے مرے دور میں کیا کام قضا کا
پری کسی نے رکھا نام جب شعور آیا
صدمہ اتھائے کیوں یہ ہمارے عذاب کا
بے پردگی نے لطف بڑھایا حجاب کا
آنکھوں میں سحر سحر میں رنگ انقلاب کا
اللہ رے شوق یوسف ثانی کے واسطے
اشارہ ےہ سر محفل کسی کا
یہ کیا غضب ہے وہ کہہ رہے ہیں جو ہو اذیت گلا نہ کرنا
کوئی کہتا ہے ترے پاس سے کل جاؤں گا
کیا میں دل دینے کے اقرار سے ٹل جاؤں گا
ہوش میں آنا ہی برا ہو گیا
دیدۂ دل جب مرا وا ہو گیا
ابھی کم سن ہیں سمجھے یہ بھی کوئی ظرف ہے گل کا
کیا اساتذہ خیمہ لامکاں پر حضرت دل کا
اپنے چہرے کو وہ گھونگٹ میں چھپا کر آیا
کھینچ کر فتنۂ رفتار جو خنجر آیا
خواہاں سب اسکی دید کے وہ تیری دید کا
آیا ہے دل کی آنکھ میں پیغام دید کا
کیوں نہ تڑپے راستہ میں خاک پتھر زیر پا
راہ میں قتل ہوا عاشق نالاں کس کا
اے جنوں بزم ہے شادی کی بیاباں کس کا
گتھ گیا اس کی نظر سے دل مضطر اپنا
دیا جو دل تو کہا روح نے جتا دینا
پہنے محرم یار نے جو بن نکلنے جب لگا
بنایا پتلا جو ماوطین کا اتارا نقشہ جو اک حسین کا
بلند ہوشور آفریں کا حجاب اٹھ جائے کفر و دیں کا
ردیف باے موحدہ
آفتاب آئے چمک کر جو سر جام شراب
بن گئے برق تجلی نظر جام شراب
نکلی جو روح ہو گئے اجزاے تن خراب
کیا روز حشر دوں تجھے اے داد گر جواب
دیتا ہے جب خدا کو بت فتنہ گر جواب
گر پڑے گا ذرہ ذرہ کی نظر سے آفتاب
لنترانی کیوں نقاب الٹائے منہ پر سے آپ
ردیف باے فارسی
ردیف تاے قرشت
یاد آجائے جو شاہ دوسرا کی صورت
ردیف تاے ہندی
سمجھ کے حور بڑے ناز سے لگائی چوٹ
ردیف ثاے مثلثہ
میں ہی مطلوب خود ہوں تو ہے عبث
آپ اپنے گھر سے آئے کہ دشمن کے گھر سے آج
ردیف جیم تازی
دل جاتا ہے دم جاتا ہے وہ جاتے ہیں گھر آج
گھر جاتے ہیں پھر آتے ہیں کچھ جھوٹ ہے کچھ سچ
میری طرح سے تو بھی رہے بیقرار آج
ردیف جیم فارسی
وہ تار تار جو آواز دے فغاں کی طرح
ردیف حاے حطی
ردیف خاے معجمہ
ہے سر سے قدم تک وہ بت ماہ لقا شوخ
کب اسے دیکھ سکے خلق خدا میرے بعد
ردیف دال مہملہ
مکان خدا ہے مکان محمد
بیٹھے جو نذر لینے کو سرکار نقشبند
ردیف راے مہملہ
ہلیں گے ہونٹھ جب انکے اٹھیں گے زندہ ہم ہو کر
وہ بت پری ہے نکالیں نہ بال وپر تعویذ
ردیف ذال معجمہ
گیا طور پر کب وہ دل سے نکل کر
خلیل آئے تیرا گلستاں میں چل کر
مری جان تصور میں آنا سنبھل کر
وہ بیٹھے ہیں بغل میں ابر آیا ہے گلستاں پر
پڑا ہے وصل میں پردے پہ پرداروی جاناں پر
مزے اڑاؤں گا انداز گفتگو ہو کر
مزاج نزع میں پوچھا جو روبرو ہو کر
ادا سے دیکھا جو مسکرا کر نکل گیا میں قدم بڑھا کر
تو کس کا بندہ ہے اے برہمن نہ سر جھکا بتکدے میں جا کر
محشر میں چلتے چلتے کروں گا ادا نماز
ردیف سین مہملہ
دل میں ہیں کئی داغ برنگ پر طاوس
ردیف زاے معجمہ
وہ ہیں شوخیوں کے اثر سے خوش وہ ہیں دل میں اپنے ہنر سے خوش
ردیف شین معجمہ
جمع ہیں در پر تمہارے عام خاص
ردیف صاد مہملہ
کھڑے ہیں موسیٰ اٹھاؤ پردا دکھاؤ تم آب وتاب عارض
ردیف ضاد معجمہ
ردیف طاے مہملہ
ٹھوکر سے زندگی کا گماں سر بسر غلط
کب تک بناؤ دور کر آئینہ شانہ شمع
ردیف عین مہملہ
ردیف ظاے معجمہ
مول اس نے لیا خنجر مائل کا خدا حافظ
ردیف غین معجمہ
آسمان بجلی مہ انور دھواں بتی چراغ
روی تاباں مانگ موی سردھواں بتی چراغ
جنبش میں زلف پر شکن ایک اسطرف ایک اسطرف
ردیف قاف
کوئی حسین ہے مختار کا رخانۂ عشق
ردیف کاف تازی
ردیف کاف فارسی
سر ظاہر سر باطن جسم وجاں غوث پاک
آئی کہاں سے اس نگہ سحر فن میں آگ
ردیف لام
کہتا ہے یہی ہم سے ہمارا جرس دل
کیسا مجھے دیا مرے پروردگار دل
سیکھا ہنر عشق لڑکپن میں مرا دل
ایسا نہ دے عدو کو بھی پروردگار دل
ہو گئے مضطر دیکھتے ہی وہ ہلتی زلفیں پھرتی نظر ہم
ردیف میم
ساری خلقت راہ میں ہے اور ہو منزل میں تم
تو اڑھا کر مجھ کو لیچل اے صبا بغداد میں
ردیف نون
اسکی آنکھوں کے یہ اشارے ہیں
تم کو معلوم جوانی کا مزا ہے کہ نہیں
بہت ڈھونڈا نہ پایا سیکڑوں لاکھوں ہزاروں میں
مرا ہاتھ اس کے جوبن سے یہ کہتا ہے اشاروں میں
کہو کے آیا ہے نشانی مری اے یار کہاں
لوگ گردش میں جو یوں سارے ہیں
یار پوشیدہ ہے اے حضرت موسیٰ دل میں
کوئی بھی مجھ سا زمانے میں غمگسار نہیں
نہیں ہے یہ دل خانہ خراب پہلو میں
منت غرض سماجت کیا کیا نہیں ہے ہم میں
آرزو سے قتل ہے ہم لائے ہیں سر ہاتھ میں
اٹھا کے چہرے سے اپنے گھونگٹ وہ ایسی شوخی سے چل رہے ہیں
سینہ سینہ پہ ہے خوش ہیں جگر و دل دونوں
اگر چہ وہ بے پردہ آئے ہوئے ہیں
جدائی وصل میں دیکھو جو لیٹا یار پہلو میں
زلف میں کیوں دل جگر اے یار دو رہتے ہیں
تم نہیں ہو تو یہ ہے پھر کون مجھ ناشاد میں
آج تھم تھم کر مزا آتا ہے انکی یاد میں
مارو بھی تم جلاؤ بھی پھر تم تو کیا کہوں
جو ہم کرتے ہیں مائل کیا ہو بہکانے کی باتیں ہیں
کیا کیا تجلیاں ہیں رخ لاجواب میں
کیا شوخیاں نہیں ہیں تمہارے حجاب میں
ہم کیوں کہیں بتوں کو یہ پتلے جفا کے ہیں
آہیں ہماری گرد کسی مہ لقا کی ہیں
بوسہ تو دیکے نہ جا بندۂ احسان ہوں میں
کہدیا بت کو خدا ہے عجب انسان ہوں میں
نہیں معلوم کون ہوں کیا ہوں
پیار اپنے پہ جو آتا ہے تو کیا کرتے ہیں
وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں
اللہ کا گھر بھی غیر کی محفل سے کم نہیں
اچھی ہے بات مجھ کو جو محشر کا غم نہیں
کرتا ہے بات چیت اشاروں سے راہ میں
ہم شان کیا دکھائیں تری جلوہ گاہ میں
ہم آنکھ لڑانے کا مزا پائے ہوئے ہیں
ردیف واو
ردیف واو
محبت نے مائل کیا ہر کسی کو
موت کا بھیجا ہے پیغام خدا نے ہم کو
لاؤں منہ تک میں جو دل کی بات کو
قبلۂ آب وگل تمہیں تو ہو
بیان ابرو خمدار یار کیونکر ہو
واں تیرا اور یاں دل شاد ہو
شوخیوں کو پھر دم بوس وکنار آنے تو دو
زلف کو اپنی ذرا جوبن پہ لہرانے تو دو
وار ہیں آنکھیں مری زیر مزار تنا تو ہو
لامکاں پر چھت بنے اونچا غبار اتنا تو ہو
آگیا اپنے تجسس پہ تبسم مجھ کو
آگیا طور پہ جاتے ہی تبسم مجھ کو
ذات سے اسم میں لایا ہے تو ہم مجھ کو
یار کا ہاتھ ذرا آئینہ گر دیکھیں تو
دبا کر کہتے ہیں وہ سینۂ بیمار ہجراں کو
کھیلتے کیا ہو وہ دل لاؤ ادھر دیکھیں تو
کیا خنجر نے سجدہ دل پہ لگ کر دل کے ارماں کو
چھپے کیوں پاس شہ رگ کے دکھا دو روے تاباں کو
خیالوں میں نگاہوں میں تمہیں ہو
شرم بھی آئے تجھے شرم نمایاں بھی نہ ہو
مزا پرسش کا جب زیر زمیں ہو
کہتے ہیں دل تو وہ دے جس میں ایک ارماں بھی نہ ہو
ردیف ہاے ہوز
نہ کیوں تڑپے دل امیدوار آہستہ آہستہ
ردیف یاے تحتانی
ازل سے تجھ پہ ہوں مائل محمد عربی
نکلے ہیں وہ بغل سے مری دل لئے ہوئے
میں فدا سینہ عشاق میں گھر کس کا ہے
اگر ہر ہر کو پوجا کیا خطا کی
اٹھتے اٹھتے جب نقاب یار آدھی رہ گئی
کس سے پوچھوں کہ مرے یار کا منشا کیا ہے
ہم بھی دیکھیں گے کہ ایمن میں تماشا کیا ہے
کس کو ہم حشر میں دیکھیں گے تمنا کیا ہے
تم ہدف ہم تیر کیوں کیسی کہی
خدا کو خود میں چھپا لیا ہے یہ اوج کس خاکسار میں ہے
چھپا دے مار کر صورت کسی کی
وصل سے ڈر کر ہانپ رہا ہے شرم سے منہ پر دامن ہے
چرکے وہ لگے تیری نظر کے
دل مرا سینہ میں ہے دل میں مرا جانانہ ہے
آج ان کی بزم سے کیسی خبر آنے کو ہے
تڑپ کر میرے بر سے یوں مرا دل اے صنم نکلے
دید کی لذت نہ پوچھو غش میں ہیں آئے ہوئے
نالۂ دل پر مری دل کی خبر جانے کو ہے
میں چھپر کھٹ پر جو سویا اس ستم ایجاد کے
شمع تو ہے ذرہ ذرہ صورت پروانہ ہے
عجیب کیفیت انا ہے کہیں ہے بیجا کہیں بجا ہے
نہ دل رہے مرے بر میں نہ جان تن میں رہے
کیوں نہ فردوس وپرستاں میں ہو شہرت تیری
پردہ اٹھ جائے تو کھل جائے حقیقت تیری
شب ماہ میں جو پلنگ پر مرے ساتھ سوے تو کیا ہوئے
دل ہمارا چرائے جاتا ہے
جھکی ہوئی ہیں یہ سینہ یہ کب حیا کے لیے
عشق کا نشہ چڑھا پرہیزگاری ہو چکی
کھڑے ہیں دور نظر ملائے ہوئے
پیاری پیاری صورت ہے وہ گوری گوری رنگت ہے
کر نئی خلقت مری یارب نیا دے دل مجھے
باہم نہ لڑیں حسین یہ ڈر ہے
جھگڑا باہم دم سحر ہے
غمگیں ہے درد مند ہے پر اضطراب ہے
نکل آیا مرے دل سے وہ دلبر مرابرسے
آئی ہے ادھر شرم ادھر جان کا ڈر ہے
یہ میخانہ ہے مسجد دیکھ زاہد روزن در سے
سر رہ دیکھ کر میرا جنازہ جابجا ٹھہرے
زباں پر نطق تن میں جان دل میں مدعا ٹھہرے
ملیں گے خاک میں دو روز کی یہ زندگانی ہے
یہ بیکار وہ بے اثر ہوگئی
وہاں ہر نگہ بے اثر ہو گئی
گلے پر تیغ ہے اور ہاتھ ہیں گردن میں قاتل کی
کسی جا تیرے منہ سے بات کب نکلے ترے دل کی
مشتاق دید جمع ہیں ڈیوڑھی پہ یار کی
تسکین ہو جو میرے دل بیقرار کی
گرے موسیٰ یہ کہہ کر اچھی صورت ایسی ہوئی ہے
لڑ گئی آنکھ تو دو گام بھی چل ہی نسکے
توڑیں گے پھر خدا کا اسے گھر بنائیں گے
تصویر تیری یوں سر محشر بنائیں گے
دیوانہ مجھ کو سامنے آکر بنائیں گے
زمزمہ نالۂ بلبل ٹھہرے
چیر کر دیکھ رہا ہے دل نالاں کوئی
دے خدا مائل کو اس سن کے لئے
آگ کافر حور مومن کے لئے
فرقت کا نہیں رنج گلا اور ہی کچھ ہے
ان پردہ نشینوں کی حیا اور ہی کچھ ہے
وہ اگر حیلہ کریں مدفن تک آنے کے لئے
خواب میں بھی ملو جو دشمن سے
کچھ اشارے ہوے ہیں دشمن سے
نظر سے لئے امتحان آتے آتے
کچھ اڑی کچھ گر پڑی رستے میں گھبرائی ہوئی
دھوم سے باجے بجے فریاد شہنائی ہوئی
کس خوشی سے انکے چہریکی تماشائی ہوئی
دیکھیں خدا کو دور سے تو کیا مزا ملے
دونوں ہوں گم وصال میں ایسا مزا ملے
گورا سا بدن بیچ میں وہ شکل کمر کی
تصویر بشر ہی میں ہے خلاق بشر کی
یہ چٹکیاں ابھری ہوئی ہیں کس کی نظر کی
پس نہ جائیں مرے ارمان بر آنیوالے
مجھ کو ہر ہر میں تیری شکل نظر آتی ہے
جان وہ جان ہے جو تیرے لئے جاتی ہے
نبی کی آنکھ کا تارا محی الدین جیلانی
بتان حسین کیا بڑائی کریں گے
تو عجب گلرو عجب گلفام ہے
کرو مجھ پر نظر خواجہ معین الدین اجمیری
کیا دوں جواب مجھ سے کہے گر حسین کوئی
مزا دل لگی کا وہی جانتا ہے
آنکھ میں تیری شرارت کبھی ایسی تو نہ تھی
کس رح نیتوں کی نہ تم کو خبر رہے
شاہ عرفان نور ایمان عبدالقادر جیلانی
یہ بتا دو کہ مقدر کا لکھا کس کا ہے
نشاں بے نشاں خواجہ معین الدین اجمیری
کیوں حشر میں تمہاری نگہ بے اثر ہوئی
پردا اٹھا نظر کے مقابل نظر ہوئی
بھویں تنی ہیں ٹپکتا ہے خون جانوں سے
نہ تھا جو وہم میں وہ بھی سنا ہے کانوں سے
منہ آئینہ میں دیکھ کے مضطر ہوا کرے
وہ چلبلی نگاہ بھی کیا جاں خراش ہے
کسی محفل میں بے اثر نہ ہوئی
مسجد ہے بتکدہ ہے دل ہے رگ گلو ہے
ابو العلا میں خدا کی صورت خدا میں صورت ابوالعلا کی
تخمیس برغزل جناب رضوان مداح شہنشاہ دو جہاں رئیس مراد آباد
سہرا
قطعہ بہ تہنیت میر محبوب علی خان بہادر
قطعات
قطعہ بتقریب جشن سالگرہ اعلی حضرت قدر قدرت شاہ دکن
قطعۂ تاریخ انتقال پر ملال سخن سنج یگانہ استاد حضرت محمد سرفراز علی وصفی
قطعہ تاریخ انتقال پر ملال حضرت مولوی محمد تقی حسین صاحب
قطعہ تاریخ وفات مصیبت آیات محمد عزیزالدین عرف عزیز
قطعہ تاریخ انتقال پرملال حضرت فاطمہ بیگم صاحبہ والدۂ ماجدہ مصنف
قطعہ تاریخ طبع تحفۂ دکن من تصنیف خاکپایٔ سخنوران فاضل احمد حسین مائل فاروقی
رباعیات
سلام
دکھائیں خواب میں صورت ابو تراب مجھے
عروج نظم دکھا دو بلند بینوں کو
سخن کا نور دکھا دوں جو پاک بینوں کو
درمیاں عبدو رب کیا رہ گیا
علی تیغ آتش فشاں کھینچتے ہیں
ید اللہ جس دم کماں کھینچتے ہیں
نعتیہ
محمد کو راز نہاں کھینچتے ہیں
مرثیہ
وہ تڑپا شب کو میں درد جگر سے
مرثیہ
قطعات تاریخ تکمیل وترتیب وطبع تحفہ دکن
کرو دیوان چو مرتب بزبان اردو
واہ واہ اے جناب مائل واہ
مائل خوش فکر سا کوئی نہیں دوسرا
بھلا کس کا ہے دیوان ایسا واصل
مائل نغز بیان کے دم سے
بوالعلائی برادر دینی
اہل نظر اہل یقیں کھوئیں نہ ہوش اپنے کہیں
حضرت مائل کا وہ دیوان چھپا
وہ لکھا دیوان مرے استاد نے
مائل خوش فکر سا کوئی نہیں نازک خیال
استاد کو خداے سخن گر کہا تو کیا
ڈاکٹر مائل کا دیوان دیکھ کر
استاد کا یہ تحفہ ہے ام الکتاب عشق
نہیں کوئی مائل سا ہندو دکن میں
ہیں کہاں نازک خیالاں دکن دیکھیں کہ آج
لکھا ہے حضرت مائل نے ایسا رنگیں تحفہ
مرے یار صادق ہیں احمد حسین
کلام حضرت مائل میں کیسی دلخراشی ہے
کس ندیدم چومائل خوش فکر
بارک اللہ مائل دکن میں
تقریظ و تاریخ منظوم
للہ الحمد اپنے وطن میں
تقریظ و تاریخ
گنہ پکارے یہ خجلت سے منہ چھپا کے چلے
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔