دریچہ
جھٹ پٹا سا خیال کا ہوتا
دل پہ روشن اک دریچہ کیا ہوا
آنا یار جانی کا
رات آنکھوں میں ہو بسر کیوں کر
سامنے جی سنبھال کر رکھنا
ہے لیکن اجنبی ایسا نہیں ہے
تیرے آنے کا انتظار رہا
کوئی طفان اس نظر میں تھا
رہنا ہر دم بجھا بجھا سا کچھ
ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں
یاد آنا ترا عجب تو نہ تھا
جب بھی تیری یادوں کا سلسلہ سا چلتا ہے
میں نے سوچا تھا اس اجنبی شہر میں زندگی چلتے پھرتے گزر جائے گی
تشنگان عشق لب تشنہ ملے
کوئی تعمیر کی صورت نکالو
بے اثر ہے، اثر نالہ و فریاد ابھی
شام سے پہلے گھر گئے ہوتے
رات درکار تھا سنبھالا مجھے
یاد تو ہوگا تجھے عشق وہ پہلا پہلا
آنکھ سے پھر اک آنسو ٹپکا اور پھر اک جگ بیت گیا
نہ اب ہم سا کوئی پیا سا ملےگا
عرصۂ وحشت میں تاحدِّ نظر کوئی نہیں
یونہی چلتے رہیں گے قافلے کیا
بستی بستی نگر نگر دیکھا
درختوں کے نہیں دامن تلے کیا
موج در موج چلے جاتے ہیں
افلاس کی تہمت سے گزر کیو ں نہیں جاتے
اس کو تشویش داستاں میں تھی
جانے کیا سوچ رہا تھا میں بھی
یہ ہنگامہ بپا کس کے لیے ہے
آتی ہے شام کس نگر سے
جب تک دور جام چلے گا
خواب اس کے ہیں جو چرالے جائے
دل نے اپنی زباں کا پاس کیا
ہوئیں آنکھیں عجب بے حال اب کے
ہے وفا شرط محبت تو تقاضا کیسا
یو ں گنواتا ہے کوئی جان عزیز
کیاں جاتے ہیں آگے شہر جاں سے
نکل کر سایۂ ابر رواں سے
چاندنی رات اور لب دریا
آخر شب ہے اور ایسے میں
پیش اس کے چلی نہ عیاری
موسم کیسا گیانی ہے
کیا گماں کیا خبر
سناٹا دوپہر سے
کون دل کی زباں سمجھتا ہے
سر پہ انسانیت کا تاج بھی ہے
زمیں کا بوجھ ہے اس سر پہ آسماں کی طرح
آدمی سمجھتا ہے زندگی کی قیمت کیا
ضروری ہے خیال رفتگاں بھی
یہ جو لمحہ دکھائی دیتا ہے
دریا کل بھی آئے گا
ہاتھ ترا کس شانے پر ہے
ہوا کس کا تعاقب کر رہی ہے
دیدنی اک جہان ہے، پر کیا
یوں اسے طبع بدگماں دیکھیں
میں نہ تھا اور وہ گھر آیا تھا
ایک آنسو، ایک لمحہ، ایک خواب
باغ اجڑے ہوئے زمانہ ہوا
نہ طاق شب نہ چراغ سحر کو دیکھتے ہیں
شہر دل کی سر براہی اور ہے
کہیں انسان بے چہرا کھڑا ہے
چلمن ڈالے شب کیسی
رخ گھٹا کا ہے سمندر کی طرف
عکس ہے یا تابانی ہے
دیکھ مجھے میں فردا ہوں
تیغ ادا کھینچی ہوئی تسمۂ پاکسے ہوئے
نہ دل انگیز تیرا غم ہی ایسا
شام کے سائے ہیں مائل کس طرف
رات ہم نے جہاں بسر کی ہے
خواب میں آنے والا اک دن
نام جو بھی ہو نسب جو بھی ہو
عمر گزری رہ گزر کے آس پاس
ہر ہر قدم پہ سایۂ زنجیر دیکھ کر
یہ شہر بے اماں سے
بے طور جاں گنوادی خود آپ ہم نے ورنہ
تیرے جیسے کمان کے آگے
عارضوں کو ترے کنول کہنا
کس طرف کوچ کر گئے پیارے
عمر گزری روتے لیکن ایسا سناٹا نہ تھا
اے خداوند ذوالجلال، مجھے
جز عشق کوئی اور مرے کام نہ آیا
اپنی بے چہرگی میں پتھر تھا
میں نے پوچھی نہ اس نظر سے کہی
کچھ نہ کچط سوچتے رہا کیجیے
کوئی درد آشنا نہیں نہ سہی
روز آکر گلے سے لگتے ہیں
ہوئیں آنکھیں عجب بے حال اب کے
میر جی سے اگر ارادت ہے
موسموں کے اثر تلے کیا کیا
رشتۂ جسم و جاں بھی ہوتا ہے
ہم چلے جاتے ہیں یا پھر شام کو
میرا اک چھوٹا سا گھر ہے
سامنے گھر ابھی نہیں آیا
میں جس دل میں مکیں ہوں گھر ہے میرا
جسم بدلے گا جان بدلے گا
سیکھا ہے ابھی تو پاؤں چلنا
رات ہے یا ہوا مکانوں میں
وہ بھی سب کی نظر میں آئے گا
صحرائے بے خیال می ںجل تھل کہاں کے ہیں
محبت خبط ہے یا وسوسہ ہے
ایک راہ خیال پر تنہا
خاک اڑتی ہے اس جہان میں کیا
ٹوٹ کر پیار کیوں نہیں کرتا
کیا کوئی خواب سجائے میرے
پوچھتے ہیں متاع درد کا مول
سر اٹھاتا ہے چراغ دل تو جل جاتی ہے شام
زلف مرکز سے ہٹے
ملتی کیا تعبیر خواب
شہر کراچی یاد ہے تجھ کو تیرے شب بیداروں میں
جانے کیا دیدۂ ترلے آئے
زندگی کے سراب بھی دیکھوں
تم کو میری یاد آئے گی، آئے گی پچھتانا ہوگا
جام بولیں گے سبو بولے گا
راہ جو تیرے گھر کو جاتی ہے
ہیں سر بستہ اگر چہ راز میرے
کیا لکھوں، ہے باعث تحریر کیا
پڑھ رہا ہوں کتاب آنکھوں میں
اس سے پہلے کہ گھر نظر آئے
اس نے تقسیم کر دیا سب کچھ
کیسا ہیجان ہے سمندر میں
چاند دیکھوں کہ سمندر دیکھوں
ہر چیز سے ماورا خدا ہے
اپنی یادوں کے آسمان تلے
تیری آہٹ رگ جاں سے آئی
پاس اپنے اک جان ہے سائیں
پھر آج سوئے راہ بتاں دیکھتے چلو
شہر پیاسا دکھائی دیتا ہے
کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں
مہکے گی کہیں زلف تو دھڑکے گا کہیں دل
عکس زلف رواں نہیں جاتا
یاد آئے بھی تو اب وہ لب ورخسار کہاں
جو گھٹا امنڈ کے آئی ہے وہ برس نہ لے تو یہ کیا کھلے
اے دل نغمہ سرا
کچھ اور بیٹھتے کچھ اور جی بہل جاتا
رات کچھ آج شبنمی سی ہے
وہ جو زنداں کو گلستاں کر چلے
اس تکلف سے آج دل دھڑکا
ہم نے تو اس عشق میں یارو کھینچے ہیں آزار بہت
بہت دنوں سے کوئی حادثہ نہیں گزرا
تیشۂ آہ دل شکن بھی نہیں
حسن بزم مثال میں کیا ہے
خود سے حسن خود نگر نا آشنا
دل کہ تھا درد آشنا تنہا
زلف مرکز سے ہکشاں تک پہنچے
چھاؤں میں گیسوؤں کی مہکے تھے
زلف کو کہکشاں کیا ہم نے
ہر اک درویش کا قصّہ الگ ہے
ممکن ہے وہ دن آئے کہ دنیا مجھے سمجھے
آوارہ میری طرح اگر چہ صبا بھی ہے
ہنگامہ ہائے گرمیٔ بازار لے چلے
بند قبائے گل کی صورت کھلے ہوئے ہیں
میں اور اس موسم میں اے پر وردگار
پیار ایسا نہ یار ایسا ہے
نقش و نگار شہر دل زار دیکھنے
کیسے کیسے خواب دیکھے در بدر کیسے ہوئے
چراغ صبح سے شام وطن کی بات کرو
جو آتا ہے نظر ویسا ہی کیوں ہو
پھول ہو کہ پتھر ہو اشک ہو کہ شبنم ہو
الزام تراشیں تو الزام تراشیں کیا
اب جو دیکھا تو داستان سے دور
یہ جو بادیدۂ تر آتا ہے
وہ جو کہتے ہیں بیاں ہے ان کا
خواب اپنے دکھائیے کس کو
ماں کی ہیں دعائیں ساتھ میرے
رندان تہی جام ہیں کچھ اور طرح کے
کرن پھوٹے گی پھر اس کنج لب سے
گل کو پیغمبر شب کہتا ہوں
اس ایک عالم رنگیں کا انتظار نہ پوچھ
کچھ تو ہے انھیں ہجر کی راتوں سے تعلق
دیکھتی ہے رات بستر کی طرف
آدمی کو بہت تلاش کیا
دیے جلائے تھے ہم نے وفا کے رستے میں
کون دل کی زباں سمجھتا ہے
بات بھی تول رہا ہے پیارے
جانتا کوئی نہیں تقدیر کیا ہے کیا نہیں
بے خیالی کو خیال یار باندھ
سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا
دریا شدید زوروں پر ہے
تمام رشتۂ عیب و ہنر سے لکھے ہیں
صبح سے ہے غرض نہ شام سے ہے
کہو اس عہد نا پرساں میں جانی
نہ جانے کس ہوا کی منتظر ہے
ابھی تو میں پرستش کر رہا ہوں
کبھی سوکھے درختوں کی زبانی
کیا پیچ تھے اس زلف گرہ گیر کے اندر
ان ستاروں کے اشارے ہیں الگ
حمد
دعا
جلا وطن
مسافر
خون کی روشنی
اپنے نواسے مزمل کے لئے
ٹکنا لوجی
پچھتاوا
منشور
غزل
وقت
ماہی گیر
قزّاق
سنہرے خواب
کھڑکیا اور ستارے
ایک خط سے اقتباس
سر شام
داشتان گو
کیٹلاگ
نا آفریدہ
ایک قبر کے پاس
آئینہ
قلعے کے اندر
کتبہ
موم بتّی اور میں
پس منظر
اندھا
دعا
انتظار
معبدوں کے چراغ
ہیڈ مسٹریس
نیلم
زینہ
جالے سے باہر
مچھلیاں
سمندر
میت کی آواز
تمثیل
آخری چراغ
ماہی گیر
رات
تراجم
طبع زاد
موسم جاڑے کا
بارش میں بلبل
گھر میں گل دستہ
بادل کا سایا
بارش کا پانی
بارش کے اندر
میں نے دیکھا کل
کیسے سپنے ہیں
جینا دریا سے
پہلے ہم بھاگے
گھر میں جاپان
ٹیلکم پاؤ ڈر سا
پت جھڑ کی تقدیر
سنتے ہیں اس گلی میں
دریچہ
جھٹ پٹا سا خیال کا ہوتا
دل پہ روشن اک دریچہ کیا ہوا
آنا یار جانی کا
رات آنکھوں میں ہو بسر کیوں کر
سامنے جی سنبھال کر رکھنا
ہے لیکن اجنبی ایسا نہیں ہے
تیرے آنے کا انتظار رہا
کوئی طفان اس نظر میں تھا
رہنا ہر دم بجھا بجھا سا کچھ
ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں
یاد آنا ترا عجب تو نہ تھا
جب بھی تیری یادوں کا سلسلہ سا چلتا ہے
میں نے سوچا تھا اس اجنبی شہر میں زندگی چلتے پھرتے گزر جائے گی
تشنگان عشق لب تشنہ ملے
کوئی تعمیر کی صورت نکالو
بے اثر ہے، اثر نالہ و فریاد ابھی
شام سے پہلے گھر گئے ہوتے
رات درکار تھا سنبھالا مجھے
یاد تو ہوگا تجھے عشق وہ پہلا پہلا
آنکھ سے پھر اک آنسو ٹپکا اور پھر اک جگ بیت گیا
نہ اب ہم سا کوئی پیا سا ملےگا
عرصۂ وحشت میں تاحدِّ نظر کوئی نہیں
یونہی چلتے رہیں گے قافلے کیا
بستی بستی نگر نگر دیکھا
درختوں کے نہیں دامن تلے کیا
موج در موج چلے جاتے ہیں
افلاس کی تہمت سے گزر کیو ں نہیں جاتے
اس کو تشویش داستاں میں تھی
جانے کیا سوچ رہا تھا میں بھی
یہ ہنگامہ بپا کس کے لیے ہے
آتی ہے شام کس نگر سے
جب تک دور جام چلے گا
خواب اس کے ہیں جو چرالے جائے
دل نے اپنی زباں کا پاس کیا
ہوئیں آنکھیں عجب بے حال اب کے
ہے وفا شرط محبت تو تقاضا کیسا
یو ں گنواتا ہے کوئی جان عزیز
کیاں جاتے ہیں آگے شہر جاں سے
نکل کر سایۂ ابر رواں سے
چاندنی رات اور لب دریا
آخر شب ہے اور ایسے میں
پیش اس کے چلی نہ عیاری
موسم کیسا گیانی ہے
کیا گماں کیا خبر
سناٹا دوپہر سے
کون دل کی زباں سمجھتا ہے
سر پہ انسانیت کا تاج بھی ہے
زمیں کا بوجھ ہے اس سر پہ آسماں کی طرح
آدمی سمجھتا ہے زندگی کی قیمت کیا
ضروری ہے خیال رفتگاں بھی
یہ جو لمحہ دکھائی دیتا ہے
دریا کل بھی آئے گا
ہاتھ ترا کس شانے پر ہے
ہوا کس کا تعاقب کر رہی ہے
دیدنی اک جہان ہے، پر کیا
یوں اسے طبع بدگماں دیکھیں
میں نہ تھا اور وہ گھر آیا تھا
ایک آنسو، ایک لمحہ، ایک خواب
باغ اجڑے ہوئے زمانہ ہوا
نہ طاق شب نہ چراغ سحر کو دیکھتے ہیں
شہر دل کی سر براہی اور ہے
کہیں انسان بے چہرا کھڑا ہے
چلمن ڈالے شب کیسی
رخ گھٹا کا ہے سمندر کی طرف
عکس ہے یا تابانی ہے
دیکھ مجھے میں فردا ہوں
تیغ ادا کھینچی ہوئی تسمۂ پاکسے ہوئے
نہ دل انگیز تیرا غم ہی ایسا
شام کے سائے ہیں مائل کس طرف
رات ہم نے جہاں بسر کی ہے
خواب میں آنے والا اک دن
نام جو بھی ہو نسب جو بھی ہو
عمر گزری رہ گزر کے آس پاس
ہر ہر قدم پہ سایۂ زنجیر دیکھ کر
یہ شہر بے اماں سے
بے طور جاں گنوادی خود آپ ہم نے ورنہ
تیرے جیسے کمان کے آگے
عارضوں کو ترے کنول کہنا
کس طرف کوچ کر گئے پیارے
عمر گزری روتے لیکن ایسا سناٹا نہ تھا
اے خداوند ذوالجلال، مجھے
جز عشق کوئی اور مرے کام نہ آیا
اپنی بے چہرگی میں پتھر تھا
میں نے پوچھی نہ اس نظر سے کہی
کچھ نہ کچط سوچتے رہا کیجیے
کوئی درد آشنا نہیں نہ سہی
روز آکر گلے سے لگتے ہیں
ہوئیں آنکھیں عجب بے حال اب کے
میر جی سے اگر ارادت ہے
موسموں کے اثر تلے کیا کیا
رشتۂ جسم و جاں بھی ہوتا ہے
ہم چلے جاتے ہیں یا پھر شام کو
میرا اک چھوٹا سا گھر ہے
سامنے گھر ابھی نہیں آیا
میں جس دل میں مکیں ہوں گھر ہے میرا
جسم بدلے گا جان بدلے گا
سیکھا ہے ابھی تو پاؤں چلنا
رات ہے یا ہوا مکانوں میں
وہ بھی سب کی نظر میں آئے گا
صحرائے بے خیال می ںجل تھل کہاں کے ہیں
محبت خبط ہے یا وسوسہ ہے
ایک راہ خیال پر تنہا
خاک اڑتی ہے اس جہان میں کیا
ٹوٹ کر پیار کیوں نہیں کرتا
کیا کوئی خواب سجائے میرے
پوچھتے ہیں متاع درد کا مول
سر اٹھاتا ہے چراغ دل تو جل جاتی ہے شام
زلف مرکز سے ہٹے
ملتی کیا تعبیر خواب
شہر کراچی یاد ہے تجھ کو تیرے شب بیداروں میں
جانے کیا دیدۂ ترلے آئے
زندگی کے سراب بھی دیکھوں
تم کو میری یاد آئے گی، آئے گی پچھتانا ہوگا
جام بولیں گے سبو بولے گا
راہ جو تیرے گھر کو جاتی ہے
ہیں سر بستہ اگر چہ راز میرے
کیا لکھوں، ہے باعث تحریر کیا
پڑھ رہا ہوں کتاب آنکھوں میں
اس سے پہلے کہ گھر نظر آئے
اس نے تقسیم کر دیا سب کچھ
کیسا ہیجان ہے سمندر میں
چاند دیکھوں کہ سمندر دیکھوں
ہر چیز سے ماورا خدا ہے
اپنی یادوں کے آسمان تلے
تیری آہٹ رگ جاں سے آئی
پاس اپنے اک جان ہے سائیں
پھر آج سوئے راہ بتاں دیکھتے چلو
شہر پیاسا دکھائی دیتا ہے
کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں
مہکے گی کہیں زلف تو دھڑکے گا کہیں دل
عکس زلف رواں نہیں جاتا
یاد آئے بھی تو اب وہ لب ورخسار کہاں
جو گھٹا امنڈ کے آئی ہے وہ برس نہ لے تو یہ کیا کھلے
اے دل نغمہ سرا
کچھ اور بیٹھتے کچھ اور جی بہل جاتا
رات کچھ آج شبنمی سی ہے
وہ جو زنداں کو گلستاں کر چلے
اس تکلف سے آج دل دھڑکا
ہم نے تو اس عشق میں یارو کھینچے ہیں آزار بہت
بہت دنوں سے کوئی حادثہ نہیں گزرا
تیشۂ آہ دل شکن بھی نہیں
حسن بزم مثال میں کیا ہے
خود سے حسن خود نگر نا آشنا
دل کہ تھا درد آشنا تنہا
زلف مرکز سے ہکشاں تک پہنچے
چھاؤں میں گیسوؤں کی مہکے تھے
زلف کو کہکشاں کیا ہم نے
ہر اک درویش کا قصّہ الگ ہے
ممکن ہے وہ دن آئے کہ دنیا مجھے سمجھے
آوارہ میری طرح اگر چہ صبا بھی ہے
ہنگامہ ہائے گرمیٔ بازار لے چلے
بند قبائے گل کی صورت کھلے ہوئے ہیں
میں اور اس موسم میں اے پر وردگار
پیار ایسا نہ یار ایسا ہے
نقش و نگار شہر دل زار دیکھنے
کیسے کیسے خواب دیکھے در بدر کیسے ہوئے
چراغ صبح سے شام وطن کی بات کرو
جو آتا ہے نظر ویسا ہی کیوں ہو
پھول ہو کہ پتھر ہو اشک ہو کہ شبنم ہو
الزام تراشیں تو الزام تراشیں کیا
اب جو دیکھا تو داستان سے دور
یہ جو بادیدۂ تر آتا ہے
وہ جو کہتے ہیں بیاں ہے ان کا
خواب اپنے دکھائیے کس کو
ماں کی ہیں دعائیں ساتھ میرے
رندان تہی جام ہیں کچھ اور طرح کے
کرن پھوٹے گی پھر اس کنج لب سے
گل کو پیغمبر شب کہتا ہوں
اس ایک عالم رنگیں کا انتظار نہ پوچھ
کچھ تو ہے انھیں ہجر کی راتوں سے تعلق
دیکھتی ہے رات بستر کی طرف
آدمی کو بہت تلاش کیا
دیے جلائے تھے ہم نے وفا کے رستے میں
کون دل کی زباں سمجھتا ہے
بات بھی تول رہا ہے پیارے
جانتا کوئی نہیں تقدیر کیا ہے کیا نہیں
بے خیالی کو خیال یار باندھ
سر اٹھایا تو سر رہے گا کیا
دریا شدید زوروں پر ہے
تمام رشتۂ عیب و ہنر سے لکھے ہیں
صبح سے ہے غرض نہ شام سے ہے
کہو اس عہد نا پرساں میں جانی
نہ جانے کس ہوا کی منتظر ہے
ابھی تو میں پرستش کر رہا ہوں
کبھی سوکھے درختوں کی زبانی
کیا پیچ تھے اس زلف گرہ گیر کے اندر
ان ستاروں کے اشارے ہیں الگ
حمد
دعا
جلا وطن
مسافر
خون کی روشنی
اپنے نواسے مزمل کے لئے
ٹکنا لوجی
پچھتاوا
منشور
غزل
وقت
ماہی گیر
قزّاق
سنہرے خواب
کھڑکیا اور ستارے
ایک خط سے اقتباس
سر شام
داشتان گو
کیٹلاگ
نا آفریدہ
ایک قبر کے پاس
آئینہ
قلعے کے اندر
کتبہ
موم بتّی اور میں
پس منظر
اندھا
دعا
انتظار
معبدوں کے چراغ
ہیڈ مسٹریس
نیلم
زینہ
جالے سے باہر
مچھلیاں
سمندر
میت کی آواز
تمثیل
آخری چراغ
ماہی گیر
رات
تراجم
طبع زاد
موسم جاڑے کا
بارش میں بلبل
گھر میں گل دستہ
بادل کا سایا
بارش کا پانی
بارش کے اندر
میں نے دیکھا کل
کیسے سپنے ہیں
جینا دریا سے
پہلے ہم بھاگے
گھر میں جاپان
ٹیلکم پاؤ ڈر سا
پت جھڑ کی تقدیر
سنتے ہیں اس گلی میں
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.