فہرست
دیتاں
انکوائری
نئے شہروں کی بنیاد
ڈپریشن کی شام
خانم جان
آدھا سفر ہم نے خیالوں میں کیا
بوچر
ہمہ وقت جو مرے ساتھ ہیں یہ ابھرتے ڈوبتے سائے سے
یادوں کی دہلیز پہ آیا
اونچی اونچی شہنائی ہے
آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرادینا
جنگل سے آگے نکل گیا
فضا ملول تھی ہیں نے فضا سے کچھ نہ کہا
اک اپنے سلسلے میں تو اہل یقیں ہوں میں
اے مرے خواب حسیں
کتنی ہی بارشیں ہوں شکایت ذرا نہیں
آنکھوں کے کشکول شکستہ ہو جائیں گے شام کو
تمھارے ساتھ ہمارا سفر عجب ہے میاں
جوئے تازہ کسی کہسار کہن سے آئے
شہروں کے چہرہ گر جنھیں مرنا تھا مرگئے
مرتے ہیں تو کیسا لگتا ہے
ہارڈنگ برج
ہارڈنگ برج
ہارڈنگ برج
ہاتھ ہمارے سب سے اونچے ہاتھوں ہی سے گلہ بھی ہے
دیئے کے جلنے اور بجھنے کا بھید سمجھ میں آئے تو کیا
اپنی مٹی کو سرافراز نہںی کرسکتے
یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا
ہوا نے بادل سے کیا کہا ہے
تیرے آنگن میں صبا کہلائے
دیر تک میں تجھے دیکھتا بھی رہا
عشق افلاس گزیدہ کو مصیبت سمجھا
سفر میں جب تلک رہنا گھروں کی آرزو کرنا
جس رستے پر جاؤں گا
گھر مجھے رات بھر ڈرائے گیا
پھر کبھی ہوں نہ ہوں ہم بہم دوستوں
ریت کا شہر
سانپ والی
شیرانی
لیڈی ڈفرن
گھوڑے سے خطاب
کمرا
قاتل
انکل
ائیر پورٹ
پڑھے لکھے لوگ
کالا دن
کالادن
کالادن
متفرق اشعار
کیا رہے گا میرے خوابوں کا حساب
میں جن دنوں ترے خواب وفا نمود میں تھا
یہ کیسا جبر سن و سال درمیاں آیا
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت اداس ہو دیوار و در کے جلنے سے
کوئی دو قدم ساتھ چلتا نہیں
در و دیوار سجائے میں نے
جب سمندر میں طلاطم نہ رہا
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
جب تری یاد کا طوفان گزر جائے گا
گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے
اب تک جو مجھے نہیں ملے ہیں
اسفنج کی اندھی سیڑھیوں پر
لیاری پیاری
کہہ رہے تھے لوگ صحرا جل گیا
بجھ گیا جل جل کے دریا دھوپ میں
گھر میں صحرا ہے تو صحرا کو خفا کر دیکھو
پیاسے آئے صحرا سے
یہ جو حسن ہے میری تمنا میں
سائے میں سایہ ملا نہیں
میں بھی ہوں دشمن بنا ہوا
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
ماتھے پہ جو زخموں سے دوراہا سا بنا ہے
فضا اداس ہے سورج بھی کچھ نڈھال سا ہے
خوشبو کو اپنے ساتھ ہوا لائے ہے صنم
بینچ
ہوا کا لڑکا
رات کا شریک
بہار میرے لیے احمق کا خوفناک قہقہہ لائی
امپوسٹر
جنریشن گیپ
سائن آپریٹر
چرس نوش
لورکا سے ایک بند
ڈاکٹر فانچو
نازک بلیں آنگن میں
گرم زمیں پر آبیٹھے خشک لب محروم لیے
کوئی دریا ہے نہ صحرا اپنا
میں نے سیکھا نہیں اچھوں کو برا کہہ دینا
نہ آپ سے حسین ہیں نہ آپ سے جوان ہیں
اوپر بادل نیچے پربت بیچ میں خواب غزالاں کا
ایک رومانی قصے کا عنوان
ایسا بھی ایک توتا
ایکسیڈنٹ
نامعلوم کی پہاریوں سے آواز
دیا بنو اور جلتے جاؤ
دھوپ میں ہم ہیں کبھی ہم چھاؤں میں
نئے پرندے
کالی ریت
میں راتوں کا دریا ہوں
سونے گھر کے ماتھے پر
شہر کا شہر بسا ہے مجھ میں
یہ کشادہ کشادہ فضا ہر طرف
ابدی گیت ساربانوں کے
نئی تکلیف پر افشاں چنی ہے
ہوس کا رنگ زیادہ نہیں تمنا میں
شاید گلاب شاید کبوتر
پینور راما
پگلی ندیا گاتی جا
دھول اڑاتے گیندوں کو
جنگل کی اندھیاری میں
دھرتی سے ملے بادل ساتھی
بوندوں کو سہیلی یاد آئے
کسی خیال کی جھلک
چسپیدہ زیر جامے
آدھے جسم کچل جاتے ہیں
اسی چڑیا سے یہ پوچھو کہ ہوا کیسی تھی
سگ ہم سفر اور میں
آج کی رات
وہ لڑکی
سات پل والی سڑک
جذباتی شریف خاتون
زہر بھری
ڈی ڈوڈا
ساتواں زینہ
بوسٹن ٹی پارٹی
جھاگ
ہیلو گڈ بائی
تنہا لوگ
پیسا گلی
جینے کی مزدوری کو بیگار کہو ںیا کام کہوں
عشق ہو جائے جواں ایسا ہے
وہ ایک شہر ہے جلا ہوا اور غیر آباد
قبر اس کے نام کی
پہلے ترے نگر کی ہوا پارسا لگی
اپنا انداز غضب لگتا ہے
گیت کے بعد بھی گائے جاؤں
آسماں سبز چاند عنابی
رنگ ماسٹر
یہ بات سر جان مارشل کو معلوم نہیں
نتیشے نے کہا
اپنے ہو نہ پرائے ہو
نہ سناؤ کہ اپنے پرائے ہوئے
اپنا اپنا دھیان سہی
وہ تو ساون کی ہواؤں میں پھسلتی جائے
بل کھائے ندیا باتوں کی
کوئی جاگیریں کوئی زر چاہے
دنیا کا وبال بھی رہے گا
ہم تو سمجھے تھے آج سو لیں گے
میں تو ہر لمحہ بدلتے ہوئے موسم میں رہوں
تکاّ کارنر
رازیا کا بھائی رافی
لہو کے رنگ میں اک بات ہے تمہارے لیے
دست دعا میں شعلۂ نایاب دیکھنا
پھول زمین پر گرا پھر مجھے نیند آگئی
فہرست
دیتاں
انکوائری
نئے شہروں کی بنیاد
ڈپریشن کی شام
خانم جان
آدھا سفر ہم نے خیالوں میں کیا
بوچر
ہمہ وقت جو مرے ساتھ ہیں یہ ابھرتے ڈوبتے سائے سے
یادوں کی دہلیز پہ آیا
اونچی اونچی شہنائی ہے
آنکھیں جن کو دیکھ نہ پائیں سپنوں میں بکھرادینا
جنگل سے آگے نکل گیا
فضا ملول تھی ہیں نے فضا سے کچھ نہ کہا
اک اپنے سلسلے میں تو اہل یقیں ہوں میں
اے مرے خواب حسیں
کتنی ہی بارشیں ہوں شکایت ذرا نہیں
آنکھوں کے کشکول شکستہ ہو جائیں گے شام کو
تمھارے ساتھ ہمارا سفر عجب ہے میاں
جوئے تازہ کسی کہسار کہن سے آئے
شہروں کے چہرہ گر جنھیں مرنا تھا مرگئے
مرتے ہیں تو کیسا لگتا ہے
ہارڈنگ برج
ہارڈنگ برج
ہارڈنگ برج
ہاتھ ہمارے سب سے اونچے ہاتھوں ہی سے گلہ بھی ہے
دیئے کے جلنے اور بجھنے کا بھید سمجھ میں آئے تو کیا
اپنی مٹی کو سرافراز نہںی کرسکتے
یہ سرد رات کوئی کس طرح گزارے گا
ہوا نے بادل سے کیا کہا ہے
تیرے آنگن میں صبا کہلائے
دیر تک میں تجھے دیکھتا بھی رہا
عشق افلاس گزیدہ کو مصیبت سمجھا
سفر میں جب تلک رہنا گھروں کی آرزو کرنا
جس رستے پر جاؤں گا
گھر مجھے رات بھر ڈرائے گیا
پھر کبھی ہوں نہ ہوں ہم بہم دوستوں
ریت کا شہر
سانپ والی
شیرانی
لیڈی ڈفرن
گھوڑے سے خطاب
کمرا
قاتل
انکل
ائیر پورٹ
پڑھے لکھے لوگ
کالا دن
کالادن
کالادن
متفرق اشعار
کیا رہے گا میرے خوابوں کا حساب
میں جن دنوں ترے خواب وفا نمود میں تھا
یہ کیسا جبر سن و سال درمیاں آیا
کسی کسی کی طرف دیکھتا تو میں بھی ہوں
بہت اداس ہو دیوار و در کے جلنے سے
کوئی دو قدم ساتھ چلتا نہیں
در و دیوار سجائے میں نے
جب سمندر میں طلاطم نہ رہا
اپنے ہی شب و روز میں آباد رہا کر
جب تری یاد کا طوفان گزر جائے گا
گلیوں میں آزار بہت ہیں گھر میں جی گھبراتا ہے
اب تک جو مجھے نہیں ملے ہیں
اسفنج کی اندھی سیڑھیوں پر
لیاری پیاری
کہہ رہے تھے لوگ صحرا جل گیا
بجھ گیا جل جل کے دریا دھوپ میں
گھر میں صحرا ہے تو صحرا کو خفا کر دیکھو
پیاسے آئے صحرا سے
یہ جو حسن ہے میری تمنا میں
سائے میں سایہ ملا نہیں
میں بھی ہوں دشمن بنا ہوا
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
ماتھے پہ جو زخموں سے دوراہا سا بنا ہے
فضا اداس ہے سورج بھی کچھ نڈھال سا ہے
خوشبو کو اپنے ساتھ ہوا لائے ہے صنم
بینچ
ہوا کا لڑکا
رات کا شریک
بہار میرے لیے احمق کا خوفناک قہقہہ لائی
امپوسٹر
جنریشن گیپ
سائن آپریٹر
چرس نوش
لورکا سے ایک بند
ڈاکٹر فانچو
نازک بلیں آنگن میں
گرم زمیں پر آبیٹھے خشک لب محروم لیے
کوئی دریا ہے نہ صحرا اپنا
میں نے سیکھا نہیں اچھوں کو برا کہہ دینا
نہ آپ سے حسین ہیں نہ آپ سے جوان ہیں
اوپر بادل نیچے پربت بیچ میں خواب غزالاں کا
ایک رومانی قصے کا عنوان
ایسا بھی ایک توتا
ایکسیڈنٹ
نامعلوم کی پہاریوں سے آواز
دیا بنو اور جلتے جاؤ
دھوپ میں ہم ہیں کبھی ہم چھاؤں میں
نئے پرندے
کالی ریت
میں راتوں کا دریا ہوں
سونے گھر کے ماتھے پر
شہر کا شہر بسا ہے مجھ میں
یہ کشادہ کشادہ فضا ہر طرف
ابدی گیت ساربانوں کے
نئی تکلیف پر افشاں چنی ہے
ہوس کا رنگ زیادہ نہیں تمنا میں
شاید گلاب شاید کبوتر
پینور راما
پگلی ندیا گاتی جا
دھول اڑاتے گیندوں کو
جنگل کی اندھیاری میں
دھرتی سے ملے بادل ساتھی
بوندوں کو سہیلی یاد آئے
کسی خیال کی جھلک
چسپیدہ زیر جامے
آدھے جسم کچل جاتے ہیں
اسی چڑیا سے یہ پوچھو کہ ہوا کیسی تھی
سگ ہم سفر اور میں
آج کی رات
وہ لڑکی
سات پل والی سڑک
جذباتی شریف خاتون
زہر بھری
ڈی ڈوڈا
ساتواں زینہ
بوسٹن ٹی پارٹی
جھاگ
ہیلو گڈ بائی
تنہا لوگ
پیسا گلی
جینے کی مزدوری کو بیگار کہو ںیا کام کہوں
عشق ہو جائے جواں ایسا ہے
وہ ایک شہر ہے جلا ہوا اور غیر آباد
قبر اس کے نام کی
پہلے ترے نگر کی ہوا پارسا لگی
اپنا انداز غضب لگتا ہے
گیت کے بعد بھی گائے جاؤں
آسماں سبز چاند عنابی
رنگ ماسٹر
یہ بات سر جان مارشل کو معلوم نہیں
نتیشے نے کہا
اپنے ہو نہ پرائے ہو
نہ سناؤ کہ اپنے پرائے ہوئے
اپنا اپنا دھیان سہی
وہ تو ساون کی ہواؤں میں پھسلتی جائے
بل کھائے ندیا باتوں کی
کوئی جاگیریں کوئی زر چاہے
دنیا کا وبال بھی رہے گا
ہم تو سمجھے تھے آج سو لیں گے
میں تو ہر لمحہ بدلتے ہوئے موسم میں رہوں
تکاّ کارنر
رازیا کا بھائی رافی
لہو کے رنگ میں اک بات ہے تمہارے لیے
دست دعا میں شعلۂ نایاب دیکھنا
پھول زمین پر گرا پھر مجھے نیند آگئی
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔