سر ورق
معروضات
دیباچہ
نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا
راز کو راز ہی رکھا ہوتا
جہانِ غنچۂ دل کا فقط چٹکنا تھا
ہے ابھی جو ہرِ ہستی کا نمایاں ہونا
رات آدھی سے زیادہ گئی تھی سارا عالم سوتا تھا
فردگی محبت پہ مسکرائے جا
رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا
آج بھی قافلہ عشق رواں ہے کہ جو تھا
کچھ بھی عیاں نہاں نہ تھا کوئی زماں مکاں نہ تھا
زیرو بم سے سازِ خلقت کے جہاں بنتا گیا
دیتے ہیں جامِ شہادت مجھے معلوم نہ تھا
زمیں بدلی فلکِ بدلا مذاقِ زندگی بدلا
یہ نکہتوں کی ترم روی یہ ہوا یہ رات
غزل کے ساز اٹھاؤ بڑی اداس ہے رات
کم کہاں گل سے خار ہے اے دوست
قہر ہے تیرا یا تیری رحمت
آنے دو وقت ہوگی بہار چمن کی بات
دنیا کو انقلاب کی یاد آرہی ہے آج
دلوں کا سوز ترے روئے بے نقاب کی آنچ
اگر نہیں نہ سہی نامہ و پیام کی یاد
سوسکوت و تمکنت تجھ پر نثار
اٹھ رہی ہے نرگس شہلائے ناز
تمام کیفِ خموشی تمام نغمہ ساز
لبِ جاناں ہیں پھر تبسم ریز
زندگی میں خوشی نہ دورنہ پاس
یہ نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ
زندگی یادوں سے تیری بھیک جاتی ہے پلک
زندگی ہے تیرے جانے کی قسم
خرامِ نازِ لیلیٔ گل اندام
زلفِ سیہ ختن ختن
جھلملاتے دیئے تہِ داماں
یہ تو نہیں کہ غم نہیں
لطف نہیں کرم نہیں
تو ہے سر بسر کوئی داستاں ہے عجیب عالمِ انجمن
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
یہ قول ترا یاد ہے اے ساقیِ دوراں
یہ صباحت کی ضومہ چکاں مہ چکاں
ایک شبِ غم وہ بھی تھی جس میں نیند نہ آئے تو اشک بہائیں
نرم فضا کی کرہ میں دل کو دکھا کے رہ گئیں
یہ سر مئی فضاؤں کی کچھ کنمنا ہٹیں
وعدے کی رات مرحبا آمد یار مہرباں
مالا ہے جو ہوں ہاں کرکے انہیں سمجھیں نہ یہ میں ناشکرا ہوں
اب تو ہم ہیں اور بھری دنیا کی ہیں تنہائیاں
یاد نہ کردلِ حزیں بھولی ہوئی کہانیاں
جن کی زندگی دامن تک ہے بے چارے فرزانے ہیں
اشک میں وہ تری کہاں ہے میاں
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں
صاعقہ ساماں حسنِ خراماں
جو لانگہِ حیات کہیں ختم ہی نہیں
ستاروں سے الجھتا جارہا ہوں
نیرنگ حسنِ یار ترے بس میں کیا نہیں
اس سکوتِ فضامیں کھو جائیں
ماہِ کامل کی نرم نرم شعاعیں
تہوں میں دل کے جہاں کوئی واردات ہوئی
رنج و راحت ، وصل و فرقت، ہوش و وحشت کیا نہیں
صباحتِ رخِ رنگیں بہارِ صبحِ وطن
کسی سے چھوٹ کے شادا اور کسی سے مل کے غمیں
اب اکثر چپ چپ سے رہے ہیں یونہی کبھو لب کھو لیں ہیں
بھڑکتے شعلوں سے ٹھنڈک جو دے وہ آگ ہے تو
شامِ غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
زہے آب و گل کی یہ کیمیا ہے چمن کہ معجزہ نمو
بڑا کرم ہے یہ مجھ پر ابھی یہاں سے نہ جاؤ
بے ٹھکانے ہے دلِ غمگیں ٹھکانے کی کہو
دورِ افلاک کا شباب ہے تو
ہم سے فراق اکثر چھپ چھپ کر پہروں پہروں روو ہو
بزم میں آج ان آنکھوں کا عالم بیخودی تو دیکھ
دنیا دنیا عالم عالم تھے اک روز یہی ویرانے
وہ آنکھ زبان ہو گئی ہے
یہ جو قول و قرار ہے، کیا ہے
لبِ رنگیں کی یاد آتی تھی
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
رات بھی، نیند بھی کہانی بھی
مانگنے سے کبھی نہیں ملتی
حال سنا فسانہ گو لب کی فسوں گری کے بھی
ہر عقدہ تقدیر جہاں کھول رہی ہے
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے
اب دورِ آسماں ہے نہ دورِ حیات
کوئی پیغامِ محبت لبِ اعجاز تو دے
تری جمال سے گاتی ہوئی بہار آئی
یہ دکھ یہ رنج یہ آزردہ حالیاں تیری
نظر نظر میں نہاں داستانِ ایمن ہے
رکی رکی سی شبِ مرگ ختم پر آئی
دل کشتۂ فریب تمنا ہے آج بھی
سیاروں کی تقدیر یہیں جاگ رہی ہے
چھڑگئے سازعشق کے گانے
گردنِ شیشہ جو ساغر پہ جھکی اے ساقی
ماتھے پہ ترے صبحِ چمن کھیل رہی ہے
نہ ہم سے پوچھ حسن و عشق کا رازِ نہاں کیا ہے
یہ فیضِ عشق یہ راز آج آشکارا ہے
ٹھان لی اس نے منہ چھپانے کی
میں ہوں فقیرِ بے نوا سلطنت جہاں نہ دے
جابات ہے حد سے بڑھ گئی ہے
ہر ذرہ پر اب کیفیتِ نیم شبی ہے
اس زلف کی یاد جب آنے لگی
اے دوست تری راہوں کے قریں اس کو بھی بھٹکتے پایا ہے
ہراک ہستی کچھ لمحوں کو اپنے غم میں کھو جاتی ہے
نگاہوں میں دجل کئی مسائل حیات کے
ایک ایک یاد عمر کا حاصل کہیں جسے
بزمِ ساقی سے اٹھا ہے کوئی یوں رات گئے
سکوتِ شام مٹاؤ بہت اندھیرا ہے
وہ سازِ لب کی سمع نوازی نہیں رہی
حیاتِ نوسی جو پاتے ہیں لوگ اے ساقی
جانے کیا بات ہے کس چیز کی یاد آتی ہے
ساغر صبح چکاں لاؤ کہ کچھ رات کٹے
زندگی عالمِ کیف و کم ہے
اخذ اک اک نفس ممات سے ہے
ہزار ضبط کی حد میں رہا، رہا نہ گیا
دھوکا کھایا ہوگا نظر نے دل کو وہم ہوا ہوگا
ساقیا گنگ و جمن اپنے ہیں کوثر اپنا
سینے سے تجھ کو لگا کر رکھا اپنا خون پلایا تھا
یہ سیر باغ یہ صبح چمن یہ موجِ صبا
کچھ غریبوں کا بھلا کیجئے گا
کافی دنوں جیاہوں کسی دوست کے بغیر
عشق نہ سر تاپا دل سوزاں دیدۂ تر
کاش اتر آئے غزل میں تیری ان آنکھوں کارس
اے دوست ترے ہاتھوں میں ہے جس اے دوست تیر باتوں میں ہے رس
شام تھی، تم تھے، میں نے چھیڑی غزل
سزارئے حسن پرستی بجا، بجا بھی نہیں
آدمی آدمی کہاں ہے میاں
تھی جو اک بات سی کہاں ہے میاں
دردِ تنہائی و غمِ جاناں
جب ترے قامت کی یادیں آئیاں
حسن بھی تھا اداس اداس شام بھی تھی دھواں دھواں
وہ عالم ہوتا ہے مجھ پر جب فکر غزل میں کرتا ہوں
نہ جانے کیا ہے ساقی مے پرستوں کے مقدر میں
کچھ وہ اثرِ بادہ سے لہرائے ہوئے ہیں
سرِ خلوتِ تصور تو ازل سے آرمیدہ
پرتو روئے یار کی روح فزائیاں نہ پوچھ
پوچھ پوچھ کے نام پتا کچھ سمجھ سمجھ رہ جاتے ہو
سوزِ پنہاں ہو چشم پرنم ہو
پیاس ایسوں کی کس طرح کم ہو
ایک نیم تبسم میں صد نکتۂ گل کاری
سوزو سازِ دلی کو بھول گئی
تازگی صبحِ چمن میں ترے رخساروں کی
یہ لٹک تیری زلفِ پرخم کی
محبت کی نہ پوچھو ہم نشینو زندگی کیا تھی
مشیت بر طرف کیوں حالتِ انساں بتر ہوتی
جھٹپٹے تیر ی یاد آنے لگی
وہ دیکھ ہوا بدلی وہ دیکھ بہار آئی
جو پڑاؤ تھا کبھی اہلِ غم کا خموش اب وہ دیار ہے
دل کیفیتِ عشق کے باد صف حزیں ہے
تمہیں بھی فرصت نہیں کہ جا کر خبر تو لے تو یہ کیا غضب
جو بات ہے حد سے بڑھ گئی ہے
تجھے دیکھ کر رو پڑے ہیں بچارے
ہر اک سینہ دنیائے نور و نارے
سلوک عشق سے کیا کیا نہ حسن یار کرے
ستارے دم بخود ہیں شامِ فرقت ایسی ہوتی ہے
میں نے مانا حسن میں نازو نزاکت چاہئے
دلکشی میں لالۂ صحرا کی فطرت چاہئے
عشق کی جب خطا ہوئی مجھ سے
ہمارے دل میں جو اک سوزشِ نہاں نہ رہے
ابھرتے حسن کو یکسر غرور ہونے دے
کرشمہ ہائے تپاک و غرور ہونے دے
عشق موجِ نسیمِ گلشن ہے
یہ جو قول و قرار ہے، کیا ہے
گلہ کوئی نہیں جورِ بتاں سے
دہن یار یاد آتا ہے
اوروں سے کیا کہہ پاؤ گے، کیا بیان کر پاؤ گے
فلک کو لے پڑوں دودِ فغاں سے
پیمانے کی رگ جو دکھی ہے
چشم سیہ سے گھٹا جو اٹھی ہے
سر ورق
معروضات
دیباچہ
نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا
راز کو راز ہی رکھا ہوتا
جہانِ غنچۂ دل کا فقط چٹکنا تھا
ہے ابھی جو ہرِ ہستی کا نمایاں ہونا
رات آدھی سے زیادہ گئی تھی سارا عالم سوتا تھا
فردگی محبت پہ مسکرائے جا
رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا
آج بھی قافلہ عشق رواں ہے کہ جو تھا
کچھ بھی عیاں نہاں نہ تھا کوئی زماں مکاں نہ تھا
زیرو بم سے سازِ خلقت کے جہاں بنتا گیا
دیتے ہیں جامِ شہادت مجھے معلوم نہ تھا
زمیں بدلی فلکِ بدلا مذاقِ زندگی بدلا
یہ نکہتوں کی ترم روی یہ ہوا یہ رات
غزل کے ساز اٹھاؤ بڑی اداس ہے رات
کم کہاں گل سے خار ہے اے دوست
قہر ہے تیرا یا تیری رحمت
آنے دو وقت ہوگی بہار چمن کی بات
دنیا کو انقلاب کی یاد آرہی ہے آج
دلوں کا سوز ترے روئے بے نقاب کی آنچ
اگر نہیں نہ سہی نامہ و پیام کی یاد
سوسکوت و تمکنت تجھ پر نثار
اٹھ رہی ہے نرگس شہلائے ناز
تمام کیفِ خموشی تمام نغمہ ساز
لبِ جاناں ہیں پھر تبسم ریز
زندگی میں خوشی نہ دورنہ پاس
یہ نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ
زندگی یادوں سے تیری بھیک جاتی ہے پلک
زندگی ہے تیرے جانے کی قسم
خرامِ نازِ لیلیٔ گل اندام
زلفِ سیہ ختن ختن
جھلملاتے دیئے تہِ داماں
یہ تو نہیں کہ غم نہیں
لطف نہیں کرم نہیں
تو ہے سر بسر کوئی داستاں ہے عجیب عالمِ انجمن
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
یہ قول ترا یاد ہے اے ساقیِ دوراں
یہ صباحت کی ضومہ چکاں مہ چکاں
ایک شبِ غم وہ بھی تھی جس میں نیند نہ آئے تو اشک بہائیں
نرم فضا کی کرہ میں دل کو دکھا کے رہ گئیں
یہ سر مئی فضاؤں کی کچھ کنمنا ہٹیں
وعدے کی رات مرحبا آمد یار مہرباں
مالا ہے جو ہوں ہاں کرکے انہیں سمجھیں نہ یہ میں ناشکرا ہوں
اب تو ہم ہیں اور بھری دنیا کی ہیں تنہائیاں
یاد نہ کردلِ حزیں بھولی ہوئی کہانیاں
جن کی زندگی دامن تک ہے بے چارے فرزانے ہیں
اشک میں وہ تری کہاں ہے میاں
سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں
چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں
صاعقہ ساماں حسنِ خراماں
جو لانگہِ حیات کہیں ختم ہی نہیں
ستاروں سے الجھتا جارہا ہوں
نیرنگ حسنِ یار ترے بس میں کیا نہیں
اس سکوتِ فضامیں کھو جائیں
ماہِ کامل کی نرم نرم شعاعیں
تہوں میں دل کے جہاں کوئی واردات ہوئی
رنج و راحت ، وصل و فرقت، ہوش و وحشت کیا نہیں
صباحتِ رخِ رنگیں بہارِ صبحِ وطن
کسی سے چھوٹ کے شادا اور کسی سے مل کے غمیں
اب اکثر چپ چپ سے رہے ہیں یونہی کبھو لب کھو لیں ہیں
بھڑکتے شعلوں سے ٹھنڈک جو دے وہ آگ ہے تو
شامِ غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
زہے آب و گل کی یہ کیمیا ہے چمن کہ معجزہ نمو
بڑا کرم ہے یہ مجھ پر ابھی یہاں سے نہ جاؤ
بے ٹھکانے ہے دلِ غمگیں ٹھکانے کی کہو
دورِ افلاک کا شباب ہے تو
ہم سے فراق اکثر چھپ چھپ کر پہروں پہروں روو ہو
بزم میں آج ان آنکھوں کا عالم بیخودی تو دیکھ
دنیا دنیا عالم عالم تھے اک روز یہی ویرانے
وہ آنکھ زبان ہو گئی ہے
یہ جو قول و قرار ہے، کیا ہے
لبِ رنگیں کی یاد آتی تھی
آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے
رات بھی، نیند بھی کہانی بھی
مانگنے سے کبھی نہیں ملتی
حال سنا فسانہ گو لب کی فسوں گری کے بھی
ہر عقدہ تقدیر جہاں کھول رہی ہے
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
مجھ کو مارا ہے ہر اک درد و دوا سے پہلے
اب دورِ آسماں ہے نہ دورِ حیات
کوئی پیغامِ محبت لبِ اعجاز تو دے
تری جمال سے گاتی ہوئی بہار آئی
یہ دکھ یہ رنج یہ آزردہ حالیاں تیری
نظر نظر میں نہاں داستانِ ایمن ہے
رکی رکی سی شبِ مرگ ختم پر آئی
دل کشتۂ فریب تمنا ہے آج بھی
سیاروں کی تقدیر یہیں جاگ رہی ہے
چھڑگئے سازعشق کے گانے
گردنِ شیشہ جو ساغر پہ جھکی اے ساقی
ماتھے پہ ترے صبحِ چمن کھیل رہی ہے
نہ ہم سے پوچھ حسن و عشق کا رازِ نہاں کیا ہے
یہ فیضِ عشق یہ راز آج آشکارا ہے
ٹھان لی اس نے منہ چھپانے کی
میں ہوں فقیرِ بے نوا سلطنت جہاں نہ دے
جابات ہے حد سے بڑھ گئی ہے
ہر ذرہ پر اب کیفیتِ نیم شبی ہے
اس زلف کی یاد جب آنے لگی
اے دوست تری راہوں کے قریں اس کو بھی بھٹکتے پایا ہے
ہراک ہستی کچھ لمحوں کو اپنے غم میں کھو جاتی ہے
نگاہوں میں دجل کئی مسائل حیات کے
ایک ایک یاد عمر کا حاصل کہیں جسے
بزمِ ساقی سے اٹھا ہے کوئی یوں رات گئے
سکوتِ شام مٹاؤ بہت اندھیرا ہے
وہ سازِ لب کی سمع نوازی نہیں رہی
حیاتِ نوسی جو پاتے ہیں لوگ اے ساقی
جانے کیا بات ہے کس چیز کی یاد آتی ہے
ساغر صبح چکاں لاؤ کہ کچھ رات کٹے
زندگی عالمِ کیف و کم ہے
اخذ اک اک نفس ممات سے ہے
ہزار ضبط کی حد میں رہا، رہا نہ گیا
دھوکا کھایا ہوگا نظر نے دل کو وہم ہوا ہوگا
ساقیا گنگ و جمن اپنے ہیں کوثر اپنا
سینے سے تجھ کو لگا کر رکھا اپنا خون پلایا تھا
یہ سیر باغ یہ صبح چمن یہ موجِ صبا
کچھ غریبوں کا بھلا کیجئے گا
کافی دنوں جیاہوں کسی دوست کے بغیر
عشق نہ سر تاپا دل سوزاں دیدۂ تر
کاش اتر آئے غزل میں تیری ان آنکھوں کارس
اے دوست ترے ہاتھوں میں ہے جس اے دوست تیر باتوں میں ہے رس
شام تھی، تم تھے، میں نے چھیڑی غزل
سزارئے حسن پرستی بجا، بجا بھی نہیں
آدمی آدمی کہاں ہے میاں
تھی جو اک بات سی کہاں ہے میاں
دردِ تنہائی و غمِ جاناں
جب ترے قامت کی یادیں آئیاں
حسن بھی تھا اداس اداس شام بھی تھی دھواں دھواں
وہ عالم ہوتا ہے مجھ پر جب فکر غزل میں کرتا ہوں
نہ جانے کیا ہے ساقی مے پرستوں کے مقدر میں
کچھ وہ اثرِ بادہ سے لہرائے ہوئے ہیں
سرِ خلوتِ تصور تو ازل سے آرمیدہ
پرتو روئے یار کی روح فزائیاں نہ پوچھ
پوچھ پوچھ کے نام پتا کچھ سمجھ سمجھ رہ جاتے ہو
سوزِ پنہاں ہو چشم پرنم ہو
پیاس ایسوں کی کس طرح کم ہو
ایک نیم تبسم میں صد نکتۂ گل کاری
سوزو سازِ دلی کو بھول گئی
تازگی صبحِ چمن میں ترے رخساروں کی
یہ لٹک تیری زلفِ پرخم کی
محبت کی نہ پوچھو ہم نشینو زندگی کیا تھی
مشیت بر طرف کیوں حالتِ انساں بتر ہوتی
جھٹپٹے تیر ی یاد آنے لگی
وہ دیکھ ہوا بدلی وہ دیکھ بہار آئی
جو پڑاؤ تھا کبھی اہلِ غم کا خموش اب وہ دیار ہے
دل کیفیتِ عشق کے باد صف حزیں ہے
تمہیں بھی فرصت نہیں کہ جا کر خبر تو لے تو یہ کیا غضب
جو بات ہے حد سے بڑھ گئی ہے
تجھے دیکھ کر رو پڑے ہیں بچارے
ہر اک سینہ دنیائے نور و نارے
سلوک عشق سے کیا کیا نہ حسن یار کرے
ستارے دم بخود ہیں شامِ فرقت ایسی ہوتی ہے
میں نے مانا حسن میں نازو نزاکت چاہئے
دلکشی میں لالۂ صحرا کی فطرت چاہئے
عشق کی جب خطا ہوئی مجھ سے
ہمارے دل میں جو اک سوزشِ نہاں نہ رہے
ابھرتے حسن کو یکسر غرور ہونے دے
کرشمہ ہائے تپاک و غرور ہونے دے
عشق موجِ نسیمِ گلشن ہے
یہ جو قول و قرار ہے، کیا ہے
گلہ کوئی نہیں جورِ بتاں سے
دہن یار یاد آتا ہے
اوروں سے کیا کہہ پاؤ گے، کیا بیان کر پاؤ گے
فلک کو لے پڑوں دودِ فغاں سے
پیمانے کی رگ جو دکھی ہے
چشم سیہ سے گھٹا جو اٹھی ہے
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔