فہرست
ذرا ٹھہرو
مقولۂ عنکبوت
زمستان
فونیس
راتیں سچی ہی ںدن جھوٹے ہیں
سراغ
بے معنی
عجب بات ہے
میں کیوں بھلا آج کیا ماجرا پیش آیا ہے
فیصلہ
سر گرداں
اب ہمیں انقلاب چاہیے ہے
نوحہ
رشتۂ آدم وحوّا
ہائے جمال احسانی
فن پارہ
دوسرا خواب پہلے خواب کے شہر میں
لیکن
میں تو خدا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو؟
اے نفس آشفتگاں! شہر بگولوں کا ہے
بجا ارشاد فرمایا گیا ہے
بول رے جی اب ساجن جی کا مکھڑا ہے کس درپن کا
جب وہ ناز آفریں نظر آیا
رنگ ہے رنگ سے تہی اس کا شمار کیا بھلا
شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں
نہ تو دل کا نہ جاں کا دفتر ہے
مظلوم حسرتوں کے سہاروں کا ساتھ دو
جو حال خیز ہو دل کا وہ حال ہے بھی نہیں
آخری بار آہ کر لی ہے
سخن آتے ہیں اس کے یاد بہت
دل کو دنیا کا ہے سفر در پیش
ہم جان ودل سے یار تھے ہم کون تھے ہم کون تھے
دل پریشاں ہے کیا کیا جائے
ہم تھے نیاز مند شوق شوق نے ہم کو کیا دیا
نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا
بے یک نگاہ شوق بھی اندازہ ہے سو ہے
کیوں غم کریں جو شہر میں طوفان فتنہ ہے
ایک سایہ مرا مسیحا تھا
دل نے وحشت گلی گلی کرلی
ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
یارو! نگہ یار کو یاروں سے گلہ ہے
ہر خراش نفس لکھے جاؤں
کچھ کہوں کچھ سنوں ذرا ٹھہرو
وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں
دل کا دیار خواب میں دور تلک گزر رہا
خونیں جگراں سینہ فگاراں پہ نظر ہو
وہ کہکشاں وہ رہ رقص رنگ ہی نہ رہی
ہو کے غلطاں خوں میں کوئی شہسوار آیا تو کیا
ہر نفس پیچ و تاب ہے تا حال
جو رنج بھی مری جاں کو پہو نچا
میرا میری ذات میں سودا ہوا
تم میرا دکھ بانٹ رہی ہو میں دل میں شرمندہ ہوں
اس گلی میں نہ جائیں گے ویسے
وہ کیا تغیرات کے سانچے میں ڈھل گئے
دید تھی انتظار کے مانند
کوچۂ یار! تیری خاک دولت روز گار ہے
دولت دہر سب لٹائی ہے
فراق کیا ہے اگر یاد یار دل میں رہے
دل کو اک بات کہہ سنانی ہے
زندگی کیا ہے اک کہانی ہے
شہر یہ دوسروں کا تھا جس میں ہمیں سہا گیا
نگہت باد بہاری جا چکی
ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
اس کی گلگشت رہ گئی ٹل کے
دست تہی سے معرکۂ حال سر کیا
وہ کہاں جس کی شکل دیکھوں میں
تم بھی جاناں کوئی نہیں ہو میں بھی کوئی نہیں
نہ میرے لیے حسن میں اب کشش ہے نہ کچھ کیف ہے رندی وسرخوشی میں
جب سے میں اپنے آپ میں آیا نیند گئی آرام گیا
عرق عرق مری بانہوں میں اس نگار کو دیکھ
پر امیدی بحال مت کیجو
شکوہ اوّل تو بے حساب کیا
کبھی آؤ ناز نازاں سوئے بزم بے نیازاں
بستیوں میں ہے کوہکن تنہا
جو بھی ہے یاں ہے یاد گار آخر شب ہے دوستاں
تھے عجب دن ہماری حالت کے
یاں ہیں سب اپنی اپنی حالت کے
نہیں جذبے کسی بھی قیمت کے
بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
مت پوچھو کتنا غمگیں ہوں گنگا جی اور جمنا جی
تھی گزشت ان کی عجیب ہی وہ جو جان سے تھے گزرگئے
نہ دیر و زود نہ بود و نبود کا آشوب
مسند غم پہ جچ رہا ہوں میں
لطف دیدار آخری بھی سہی
جب نسیم سحری آتی ہے
نشۂ ماہ وسال ہے تا حال
بیمار پڑوں تو پوچھیو مت
اک زخم بھی یاران بسمل نہیں آنے کا
وحشت کو سوانہ کیجیو اب
مجھ کو بیگانہ کر گئے مرے دن
لمحے لمحے کی نار سائی ہے
ناروا ہے سخن شکایت کا
سلسلۂ جنباں شام ہے کس کی شکوہ کناں ہے کس کی شام
گہے وصال تھا جس سے تو گاہ فرقت تھی
جان نگاہ و روح تمنا چلی گئی
ہم شہید خیال بے چارے
لمحے کو بے وفا سمجھ لیجے
جو طے ہوئے تھے کبھی کیف بیخودی کے لیے
کوئے خواہش میں خم بہ خم ٹھہروں
ہم نہ کرنے کے کام کرتے ہیں
طعنوں کے وار اپنا اثر کر گئے ہیں کیا
اے وصل! کچھ یہاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
شب زدگاں بہم دگر گریہ و گفتگو کرو
خواب کی حالتوں کے ساتھ تیری حکایتوں میں ہیں
روٹھا تھا تجھ سے یعنی خود اپنی خوشی سے میں
قافلے کا نہ انتظار کرو
ہم محبت میں خجل بھی رہے نازاں بھی رہے
ہے طرفہ قیامت جو ہم دیکھتے ہیں
بلا کے وار ہوں یاراں تو سر ہی جاتے ہیں
باہر گزار دی کبھی اندر بھی آئیں گے
رنگ باد صبا میں بھرتا ہے
ہو میں بکسر رایگاں افسوس میں
سود ہے میرا زیاں افسوس میں
قطعات
ہماری مطبوعات ایک نظر میں
فہرست
ذرا ٹھہرو
مقولۂ عنکبوت
زمستان
فونیس
راتیں سچی ہی ںدن جھوٹے ہیں
سراغ
بے معنی
عجب بات ہے
میں کیوں بھلا آج کیا ماجرا پیش آیا ہے
فیصلہ
سر گرداں
اب ہمیں انقلاب چاہیے ہے
نوحہ
رشتۂ آدم وحوّا
ہائے جمال احسانی
فن پارہ
دوسرا خواب پہلے خواب کے شہر میں
لیکن
میں تو خدا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو؟
اے نفس آشفتگاں! شہر بگولوں کا ہے
بجا ارشاد فرمایا گیا ہے
بول رے جی اب ساجن جی کا مکھڑا ہے کس درپن کا
جب وہ ناز آفریں نظر آیا
رنگ ہے رنگ سے تہی اس کا شمار کیا بھلا
شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں
نہ تو دل کا نہ جاں کا دفتر ہے
مظلوم حسرتوں کے سہاروں کا ساتھ دو
جو حال خیز ہو دل کا وہ حال ہے بھی نہیں
آخری بار آہ کر لی ہے
سخن آتے ہیں اس کے یاد بہت
دل کو دنیا کا ہے سفر در پیش
ہم جان ودل سے یار تھے ہم کون تھے ہم کون تھے
دل پریشاں ہے کیا کیا جائے
ہم تھے نیاز مند شوق شوق نے ہم کو کیا دیا
نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چھپا
بے یک نگاہ شوق بھی اندازہ ہے سو ہے
کیوں غم کریں جو شہر میں طوفان فتنہ ہے
ایک سایہ مرا مسیحا تھا
دل نے وحشت گلی گلی کرلی
ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
یارو! نگہ یار کو یاروں سے گلہ ہے
ہر خراش نفس لکھے جاؤں
کچھ کہوں کچھ سنوں ذرا ٹھہرو
وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں
دل کا دیار خواب میں دور تلک گزر رہا
خونیں جگراں سینہ فگاراں پہ نظر ہو
وہ کہکشاں وہ رہ رقص رنگ ہی نہ رہی
ہو کے غلطاں خوں میں کوئی شہسوار آیا تو کیا
ہر نفس پیچ و تاب ہے تا حال
جو رنج بھی مری جاں کو پہو نچا
میرا میری ذات میں سودا ہوا
تم میرا دکھ بانٹ رہی ہو میں دل میں شرمندہ ہوں
اس گلی میں نہ جائیں گے ویسے
وہ کیا تغیرات کے سانچے میں ڈھل گئے
دید تھی انتظار کے مانند
کوچۂ یار! تیری خاک دولت روز گار ہے
دولت دہر سب لٹائی ہے
فراق کیا ہے اگر یاد یار دل میں رہے
دل کو اک بات کہہ سنانی ہے
زندگی کیا ہے اک کہانی ہے
شہر یہ دوسروں کا تھا جس میں ہمیں سہا گیا
نگہت باد بہاری جا چکی
ابھی اک شور سا اٹھا ہے کہیں
اس کی گلگشت رہ گئی ٹل کے
دست تہی سے معرکۂ حال سر کیا
وہ کہاں جس کی شکل دیکھوں میں
تم بھی جاناں کوئی نہیں ہو میں بھی کوئی نہیں
نہ میرے لیے حسن میں اب کشش ہے نہ کچھ کیف ہے رندی وسرخوشی میں
جب سے میں اپنے آپ میں آیا نیند گئی آرام گیا
عرق عرق مری بانہوں میں اس نگار کو دیکھ
پر امیدی بحال مت کیجو
شکوہ اوّل تو بے حساب کیا
کبھی آؤ ناز نازاں سوئے بزم بے نیازاں
بستیوں میں ہے کوہکن تنہا
جو بھی ہے یاں ہے یاد گار آخر شب ہے دوستاں
تھے عجب دن ہماری حالت کے
یاں ہیں سب اپنی اپنی حالت کے
نہیں جذبے کسی بھی قیمت کے
بزم سے جب نگار اٹھتا ہے
مت پوچھو کتنا غمگیں ہوں گنگا جی اور جمنا جی
تھی گزشت ان کی عجیب ہی وہ جو جان سے تھے گزرگئے
نہ دیر و زود نہ بود و نبود کا آشوب
مسند غم پہ جچ رہا ہوں میں
لطف دیدار آخری بھی سہی
جب نسیم سحری آتی ہے
نشۂ ماہ وسال ہے تا حال
بیمار پڑوں تو پوچھیو مت
اک زخم بھی یاران بسمل نہیں آنے کا
وحشت کو سوانہ کیجیو اب
مجھ کو بیگانہ کر گئے مرے دن
لمحے لمحے کی نار سائی ہے
ناروا ہے سخن شکایت کا
سلسلۂ جنباں شام ہے کس کی شکوہ کناں ہے کس کی شام
گہے وصال تھا جس سے تو گاہ فرقت تھی
جان نگاہ و روح تمنا چلی گئی
ہم شہید خیال بے چارے
لمحے کو بے وفا سمجھ لیجے
جو طے ہوئے تھے کبھی کیف بیخودی کے لیے
کوئے خواہش میں خم بہ خم ٹھہروں
ہم نہ کرنے کے کام کرتے ہیں
طعنوں کے وار اپنا اثر کر گئے ہیں کیا
اے وصل! کچھ یہاں نہ ہوا کچھ نہیں ہوا
شب زدگاں بہم دگر گریہ و گفتگو کرو
خواب کی حالتوں کے ساتھ تیری حکایتوں میں ہیں
روٹھا تھا تجھ سے یعنی خود اپنی خوشی سے میں
قافلے کا نہ انتظار کرو
ہم محبت میں خجل بھی رہے نازاں بھی رہے
ہے طرفہ قیامت جو ہم دیکھتے ہیں
بلا کے وار ہوں یاراں تو سر ہی جاتے ہیں
باہر گزار دی کبھی اندر بھی آئیں گے
رنگ باد صبا میں بھرتا ہے
ہو میں بکسر رایگاں افسوس میں
سود ہے میرا زیاں افسوس میں
قطعات
ہماری مطبوعات ایک نظر میں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔