سر ورق
فہرست
کس کی سنی آوازِ پرِ تیر ہوا پر
کشتۂ الفت کی ہے یہ خاکِ مایوس مزار
جب کہ ہووے ورقِ نقابِ تصویر
نظر پڑے وہ کہیں نوجوان دریا پر
قطرات اشک ٹھیرے نہ مژگاں کے جھاڑ پر
چیتے کی طرح کھائے تھے گل جسمِ زار پر
ایسا نہ ہوا آہ کوئی کام زمیں پر
ہے دل پر داغ سے یوں چشمِ گریاں کی بہار
پیری میں نہیں یک سرِ مو پشت برابر
رکھے مرے سینے سے جو تو پشت برابر
نہ رکھا ہم نے طفلِ اشک کو ہیہات چھاتی پر
احمد مرسل کے جو تھی پشتِ نورانی پہ مہر
بس ایک تو ہے وہ مہوش زمیں کے پردے پر
برنگِ برق ہے اس کا سمند آتش پر
جلا تو بختِ سیہ سے سپند آتش پر
عشق میں خاک اے بتاں ہے زیرِ پا بالائے سر
ابرو نہیں چشمِ بتِ عیار کے سر پر
غنچۂ پژمردہ کو گلشن میں پھر لائی بہار
مژگاں کی تیرے ہیں جو نمودار تار تار
حسنِ رخ سے بے خطر ہو زلف پیچاں چھوڑ کر
دل کدھر جائے لبِ جاں بخشِ جاناں چھوڑ کر
رخ پر نہیں اس کے خط ریحان کی تحریر
طلب میں بوسے کی کیا ہے حجت، سوال دیگر جواب دیگر
قمری عبث تو سرو کے جوں نٹ ہے بانس پر
تیری پلکیں یہ بھی جاناں ایک ترکش کے ہیں تیر
کر دیا تھا جس کو گنگا پار کل کی بات پر
شوخی چشم جو آئی تری اے یار نظر
رہ گیا پہلو میں کیا قاتل کا خنجر ٹوٹ کر
خال مشاطہ بنا کاجل کا چشمِ یار پر
خط نہیں اے دوستو پشتِ لبِ دل دار پر
روکش ترے خالِ رخِ زیبا سے ہو کیونکر
نگہ کی مت لگا برچھی بت بے پیر چھاتی پر
چلتی ہر موج کی رہتی ہے بھنور سے تلوار
قاتل ابرو کی لگاتا ہے ادھر سے تلوار
ابر ہیں اور لب ترے دلبر ہلال چار
چرائی چادرِ مہتاب شب میکش نے جیحوں پر
عیاں ہے کیا ترے قامت سے آسماں کی سیر
سینے سے وہ کب تک رکھوں تصویر لگا کر
شب شعلہ خوکی بزم میں مت کھیل جان پر
کان کا حلقہ وہ جب بالائے گوش آیا نظر
حبلِ عشق کا کیونکر کوئی توڑے پتھر
قدم رکھ اب نہ مرے بے درنگ سینے پر
رکھتا ہوں ذکرِ زلفِ بتاں کیا زباں پر
فوجِ اشک اب ہو نہ کیوں دیدۂ تر سے باہر
کاش کے آہ نکالے اسے گھر سے باہر
پھپھولے دیکھ تیرے عاشقِ رسوا کی چھاتی پر
ہے خطِ چینِ جبیں سے ابروے دلبر کی قدر
اس قدر بو قلموں ہیں یہ ترے تیر کے پر
نکلے شانے سے تری زلف گرہ گیر کے پر
رنگ زرد اپنا رہا یوں دل تمہارا کھینچ کر
چشم میں ہو کر گزر دل میں اب اے گمراہ کر
اور صورت سے فدا ہیں تری ہم آنکھوں پر
تیرِ مژگاں پیہم اس دل پر لگا دو چار پھر
مسی مالیدہ دنداں ہیں وہ رشکِ پاں سے سب اخگر
کسی دیوانے کی ہے محوِ تماشا زنجیر
اودی بسمے کی نہیں تیرے رضائی سر پر
کیا خوش ہو کوئی صحبت دلگیر سے دلگیر
رکھ گل کو نہ بلبل کے گل اندام قفس پر
اس نادہند سے نہ دلا کچھ سوال کر
ہم چشمی اس کی چشم سے مت اے غزال کر
دکھا دو گر مانگ اپنی شب کو تو حشر برپا ہو کہکشاں پر
رقص میں طاؤس سے کھول ابر میں مل جل کے پر
خوابِ راحت کے لئے تکیے سے پھینک اس گل کے پر
کب ہے مہِ نو ابروے قاتل کے برابر
جز حق جو نہ بولا، ہے وہ سردار ہی کچھ اور
مہ رو جو ترا وصلِ مدام آوے میسر
رکھ پاؤں سرِ گورِ غریبان سمجھ کر
عاشق ہوئے جس بت کو تھے نادان سمجھ کر
مجھے تو قیس سمجھ کر نہ پیچ کھا زنجیر
من سے اترے ہے کوئی جب دیکھ لے کالے کی لہر
فتنے نہ کیجو برپا ٹھوکر لگا لگا کر
لگے گی دم میں سر چنگِ زمانہ سر آٹھانے پر
نہ کوئی ہو جیو جوں مرغِ ہوا گیر اسیر
از بسکہ داغ سے ہے دلِ زار سر بمہر
تازیانہ نہ بنا زلف کا ہر تار نہ چھیڑ
میں کاکلِ مشکیں پہ ہوا غش تو وہ بولے
کیا قفس میں ہو گرفتارِ قفس کی پرواز
قوسِ قزع سے یہ نہیں بادل ہے سرخ و سبز
کب ہے اس جعد سے زلفِ سیہ حور دراز
مو بہ مو دیکھے جو زلفِ بتِ مغرور دراز
واں تو دامن ہے ترا اے بتِ مغرور دراز
کرتی ہے نخلِ سوختہ کو برشگال سبز
عارض پہ بے سبب نہ ترے خط ہے یار سبز
عشق میں ہے اشک اور لختِ جگر کا امتیاز
ہم تجھ کو جو سمجھتے ہیں مستِ غرور چیز
نے ملک نہ جاگیر نہ منصب ہے نہ زر روز
خط زیرِ لب نہیں ہے ترے رشکِ ماہ سبز
دولت گئی، دماغ وہی ہے بجا ہنوز
اپنے گھر آئے جو وہ رشکِ قمر آخر روز
مژگاں پہ مری اشکِ کبوتر ہے گرہ باز
ہے بوقلموں جلوۂ داغِ پرِ طاؤس
کیا ہاتھ لگے بچہ یک سالۂ طاؤس
ہو چکی باغِ میں بہار افسوس
ہوئی ہے محوِ تماشاے یار کیا نرگس؟
باغ میں اے سرو قد تجھ بن نہیں قمری اداس
چاہیے قمری تجھے طوقِ گلوگیر و قفس
کیوں نہ دنداں ہوں ترے رشکِ نگیں الماس
یک چند ہم پھرے ہیں ترے گھر کے آس پاس
شیشے دھرے ہیں واں مرے دلبر کے آس پاس
خالِ رخ یوں جلوہ گر ہے کان کے بالے کے پاس
کٹ گئی وصل کی شب باتیں ہی کرکے افسوس
رخ دیکھ ترا دل کی بجھی سیم بر آتش
نہ دلِ زار کو دے عشق کے آزار آتش
طوفان ہے اس دیدۂ پر آب کی گردش
نالے سے ہے یوں اس دلِ دلگیر کو جنبش
رکھوں نہ سر کو کیونکہ میں زیرِ قدم تراش
کیا خرابی کے کوئی ہو دیکھ کر آثار خوش
مشعل عشق کی ہے یوں مرے تن میں آتش
حباب کا دم بستی سے ہووے کیا اخلاص
زلف کے حلقے میں کیا ہے دل کوے تابانہ رقص
کیا منہ ہے، اپنے سامنے جو سر اٹھائے حرص
یوں تن سے ہوئی جاں دمِ شمشیر مرخص
بوسۂ لب تک ترا اے بار ہے سب کی غرض
نہ دکھا رشک قمر تو عرق افشاں عارض
نکلا ہے میرے یار کے روے حسیں پہ خط
چشم میں رکھتا تجھے ہے اے دلِ دلگیر شرط
کیوں نہ دھو ڈالے ہلالی لکھ کے دیواں بے نقط
عاشق کا دیکھ دل کہ نہ کہ جاں کی احتیاط
استخواں عشق میں کیا پھک گئے بس شمع نمط
لگا پنجوں کے بل چلنے وہ غارت گر، خدا حافظ
آہ کے ساتھ ہوئے اشک کے قطرات شروع
اس قدر مت کھینچ اپنا تو سرِ پندار شمع
روشن دلاں نہ کیوں کریں توقیر پاے شمع
فانوس میں کہاں ہے دلا اشک بار شمع
قشقۂ شعلہ ہے کیا رونقِ پیشانی شمع
کیوں بے نمک ہے گرمیِ محفل سے نورِ شمع
آہ و نالہ داغِ سینا ہیں دو شمع و یک چراغ
ہے قمر گردوں پہ کیا شب اس کی قدرت کا چراغ
ابرو ہے وہ اور حلقۂ کاکل سپر و تیغ
خاک سے آساں ہے کھونا جان آئینے کا داغ
رخ سے یوں روشن ہے اب حلقے میں بالے کے چراغ
آبلہ اور داغ ہیں سینے میں فانوس و چراغ
گر شمع تجھ سے کرتی ہے ہنس ہنس سخن چراغ
بلبل سے کیوں نہ ہو گل و گلزار کا دماغ
یک دست ہے گلہاے جراحت سے یہ تن باغ
کیا شب مہتاب ہے پی چند اے مہوش ایاغ
کیوں بے صدا پڑے ہیں ترے کشتگانِ تیغ
جو داغِ دل کا ہے یار رب ہمارے تن میں چراغ
کس لئے ابرو کی ہردم کرتے ہو تلوار صاف
دل قصد کر نہ کاکلِ دلدار کی طرف
کیا خوب آپ ہم سے ہوئے ہو دو چار صاف
کیا ہو بلبل سے تری سوے میاں کی تعریف
اس قدر مائل ہے دل چشمِ بری رو کی طرف
واں کمر باندھے یہں مژگاں قتل پر دونوں طرف
جو عینِ وصل میں آرام سے نہیں واقف
نہیں بے وجہہ اس عارض پہ سحر حلقۂ زلف
جہاں سے گو بتِ مغرور اٹھ گیا انصاف
ہے تجھے یاقوت لب کو اپنے دکھلائے گا شوق
باغ میں تجھ بن کسے ہے آب اور دانے کا شوق
ناتواں مجنوں ہے، لیلیٰ پہنے کیا آہن کے طوق
دیکھا جو سیم تن تری تصویر کا ورق
زلف و رخِ دلدار میں دن رات کا ہے فرق
کہوں گر اس کو میں یوسف تو ہے نگاہ میں فرق
ہے تیری تاب رخ کی و ہ زلف دوتا میں برق
جلوۂ شمشیر ہر دم ہم کو دکھلاتی ہے برق
لگی وہ چین ِ جبیں دیدۂ پر آب میں برق
دید کر اے قیس تو از دیدۂ بیناے عشق
یہ داغِ سینہ کا گل کھلا ہے جہاں میں ہے افتخار عاشق
دل سنبھالے کیا ترے سرے کے دنبالے کی جھوک
سوزش ہے داغِ دل کی مرے استخواں تلک
کشتی شکستاں کا نہیں ناخدا شریک
زلفِ سرکش کی رہے گی کج ادائی کب تلک
میے گا ناصحا تو جیب کو کیا خاک دامن تک
ہے مجھ کو زلف و رخ سے ترے کام اب تلک
زلف جوں مار سیہ کھائے ہے بل دوش تلک
لے جائیو دل داغ نہ انجام تہِ خاک
ہے مطلبِ دل ابروے دلدار سے اب تک
سر کبکِ دری پٹکے ہے کہسار سے اب تک
رکھتی ہیں انکھڑیاں تری کیا رنگ اور نمک
چشمِ عاشق پر خرابی لائے ہے ہر گاہ اشک
قامتِ یار کا مضموں نہ چراوے جب تک
نباہ کس سے کرے مت نہیں ہے یار کی ایک
زرد اس قدر ہے یار ترے مبتلا کا رنگ
جو موج زن ہو مری چشمِ خو نقشاں کا رنگ
گلشنِ دنیا میں ہو گیا خاک مے خانے کا رنگ
کرے ہے کشورِ دیوانگی کو سر رگ سنگ
عاشق سوا ہے کس کو ہواے شکستِ رنگ
گلشن میں سحر دیکھ بہارِ گلِ صد برگ
یہ چمکا شب کو رخِ یارِ سیم تن کا رنگ
تجھ بن چمن میں کس کو خوش آویں نسیم و گل
تو جا کے دیکھ سوے گلستاں فہم و گل
بلبل نہ بھول دیکھ کے اتنا تو باغ و گل
وہ رم گیا غزال کہیں دیکھ باغ و گل
کس نے کہا دے مجھے رشکِ قمر پان پھول
عندلیبوں نہ کرو صبح کو غل بر سرِ گل
کس روش توڑے گا دیکھیں آج گلچیں شاخِ گل
حیرت انگیز ہیں داغِ دلِ دلگیر کے پھول
جگر کا جوں شمع کاش یارب ہو داغ روشن مراد حاصل
زخمی چمن میں ہیں تری تیغِ ادا کے پھول
روکش آس کے دیدۂ مخمور سے ہوں کس کے پھول
میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول
شب کو کیا تم نے پروئے کان کے بالے میں پھول
رغ سے کیا خوب ہے برقع نہ اٹھانا شبِ وصل
سے صنم بہرِ خدا دل نہ کڑھانا شبِ وصل
مرغانِ چمن کیوں نہ ہوں قربانِ سرِ گل
چھوڑے ہے تیر شاخ کے پہم کماں سے پھول
جو باغِ بند میں ہے مرے گل کے منہ بہ تل
سنگِ جفا سے ہے ترے شیشہ شکستہ دل
سر سے اے ہم نفساں ہاتھ اٹھانا مشکل
نے برق نہ شعلہ ہے، نہ اخگر طیشِ دل
تسخیرِ حاضرات رکھے ہے چراغِ دل
روشن دو چند مہ سے ہے اپنا چراغِ دل
تاثیر سے خالی نہیں ہر دم طپشِ دل
ہمارا دشمنِ جاں ہے تو ہو وہ مہرباں در دل
بلبل، ہزار حیف، نہ ہو ہم کنارِ گل
کریں گے روکشی گر صبح کو تجھ سے چمن میں گل
چمک رہا ہے چمن میں ابھی سارۂ گل
گرہِ غنچہ فقط تو نہ صبا کھول کے چل
چشمِ تر پھینک ان اشکوں کو نہ تو خاک کے مول
اس خیالِ مژہ سے یوں ہے دلِ زار میں بال
کوئی کہتا نہیں اتنا یہ دل آزار سے مل
جنسِ دل لے کے نہ دلِ کاگلِ دلدار سے مل
خط ترا ہر روز پڑھواتے ہیں ہم
چشم میں کب اشک بھر لاتے ہیں ہم
از بسکہ ہے گل میں روشِ ناز و ادا گرم
اسی لعلِ لب کی ہیں جو ثنا خوانیوں میں ہم
پامالِ راہِ عشق ہیں خلقت کی کھا ٹھوکر بھی ہم
اس گلشنِ وحدت کے ہیں کثرت میں ثمر ہم
دیکھیں گے تری برشِ شمشیرِ نطر ہم
بے وجہہ یہ تیرا نہیں اے یار تبسم
کب زباں پر خامہ ساں حرفِ طلب رکھتے ہیں ہم
جوں ذرہ نہیں ایک جگہ خاک نشیں ہم
گردش چشم اپنی وہ تجھ کو اگر دکھلائے جام
ساقیا میلِ سبو ہے، نے ہمیں پروائے خم
جب کہ چشمِ سرمہ سا اپنی دکھا جاتے ہو تم
ابھی لڑکا ہے وہ، ہے بے خبری کا عالم
سمجھے جو برگِ گل کو نزاکت میں لب سے کم
ہے ابرو و مژگاں سے تری تیغِ دو سر چشم
ہے سایہ مژگاں میں یہ اب اشک تر چشم
کب دل ہے پھپھولوں سے ہمارا ہمہ تن چشم
صاد ہے چہرے پہ تیری خوشنما اے یار چشم
زلف کا پیچیدہ کیونکر ہو دلِ مضطر سے دام
کیوں کر نہ ہو تھی دلِ مایوس شمعِ بزم
جو گزرے ہے ہر عاشقِ کامل، نہیں معلوم
کچھ سر گشت کہہ نہ سکے رو برو فلم
مضمونِ گریہ گر لکھوں اپنا کبھو فلم
نکہت گل میں یا صبا ہیں ہم
سحر دیکھیں جو رنگ و روے تاباں گل و شبنم
کس کو ہے خط کے سوا کاکلِ دلدار سے کام
نہ دکھائیو ہجر کا درد و الم، تجھے دیتا ہوں چرخ خدا کی قسم
لکھ دے مشاطہ تو ابروے دلارام پہ نام
چھیڑی کس گل کے دہن کی تھی کہانی شبنم
عرش اور فرش ہے گو بازیِ چوگانِ سخن
ہم زبانِ سفر اسباب سفر باندھے ہیں
صبح جو تجھ بن باغ میں بنیں غنچوں کی رنگین بجیں
وصلِ یوسف ہو عزیزو اسے امکاں نہیں
پسِ دیوار تک گر، رخنۂ دیوار بیٹھے ہیں
چشمِ تر سے روز و شب ہوتی نہیں دور آستیں
شب جو رخِ پر خال سے وہ برقع کو اتارے سوتے ہیں
اڑتی ہے کوئی رونقِ بازارِ گلستاں
ترا جب قد و قامت دیکھتے ہیں
خاک آرام ہو اب غیرِ دلارام کہیں
جوں بوے گل یہاں تلک از خود رمیدہ ہوں
فرصت ایک دم کی ہے جوں حباب پانی یاں
عکسِ تاب رخ ترا درمانِ زخمِ دل نہیں
خال ہوں اس کے ذقن پر ہیں بلا شک روشن
کیا ہوا خواب میں گر شب کو ہم آغوش ہوں میں
دیکھ، جانے دے، پہن مت آسمانی چوڑیاں
چراغ داغِ سینہ سے نہیں اے مردماں روشن
کہاں ہے غنچہ صبا یک دہن بزار زباں
کس طرح پرواز کالوں نام، ساقی ابر میں
کچھ نہیں کھلتا ہے عقدہ عندلیبانِ چمن
خط آنے پر بھی وہ مشقِ ستم سمجھتے ہیں
شب کو نہ کیونکر تجھ کو پھبتاسر پر طرہ، ہار گلے میں
کروں جوڑے کا تصور کہ خیالِ گردن
آتشِ سینہ سے ہوں سوختہ تر پانی میں
باندھے کیا سروِ چمن اپنی ہوا گلشن میں
حلقۂ دیدہ سے یاں ہر دم گیا دریاے خوں
کوچۂ سربستہ سے زلفِ چلیپا کم نہیں
بہم ہے زلف کے کیا خط سے خال پردے میں
جوں زیر پل ہے آب خمِ ذوالفقار میں
شبِ فراق میں اشک اپنے تو نکلتے ہیں
بیادِ خالِ بتاں اشک کیا نکلتے ہیں
اک قافلہ ہے بن ترے ہمراہ سفر میں
رکھیے قدم بن اس کے کیوں کر دلا چمن میں
سرِ مژگاں بوقتِ نالہ آنسو کو ترستے ہیں
آ چکا خط منہ پہ، کہہ دو ان سے اب آویں نہیں
عجب تھے سخت کچھ اے سنگدل ہمارے دن
ہیں وہ اپنے دیدۂ تر پل میں جو جنگل بھریں
آپ کا کون طلب گار نہیں عالم میں
رخ پہ دو زلفیں ہیں اے دلدار کس کا ہوں رہوں
خاندانِ قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں
نیستاں کردیا تو نے تو اے بے باک سینے میں
دل ساتھ زلف کو اب کیا پیچ و تابیاں ہیں
ہے عجب! خال نے اس رخ پہ دہرا کیوں کر پاؤں
ڈوب جاوے کیوں نہ یہ پھر سوختہ تن آب میں
ابر سے ہیں تارِ بارش ناوک افگن آب میں
سایہ افگن ہو جو وہ زلفِ معتبر آگ میں
حیف تو چمکا نہ داغ اس دل کے رہ کرآگ میں
گو کہ پلکوں کے ہیں سب بال زباں آنکھوں میں
نہ ذکرِ آشنا، نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں
کبھی جو ذکرِ سرِ زلفِ یار رکھتا ہوں
خیالِ خواب نہیں، خواہشِ بلنگ نہیں
کھبا چمن میں کل ایسا وہ یار آنکھوں میں
واقف ہیں محبت کے یہ آثار سے آنکھیں
بند کی پہنچیں اگر لال یمن میں مرچیں
چاکِ در سے یہ نہیں اس نے دکھائیں آنکھیں
دلِ عاشق کو یوں باندھے ہے وہ بے پیر بالوں میں
پوچھ ساقی سے کہ کیا سیر تھی کل دریا میں
شب مسی آلودہ دنداں وہ جو دکھلائے کہیں
فندقِ دستِ نگاریں تو جو دکھلائے کہیں
مقید ہیں جو دامِ حرص کے، پیوستہ لڑتے ہیں
سر رشتہ یہ رکھتی نہیں زنار سے گردن
دیکھے ہے کیا یہ چشم سے آنسو بہا نہیں
ہم پھڑک کر توڑتے ساری قفس کی تیلیاں
نیشکر کی کر سکیں کیا ریس خس کی تیلیاں
وقتِ نماز ہے ان کا قامت گاہ خدنگ و گاہ کماں
بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں
فکرِ انجامِ دلِ دلگیر میں بیٹھا ہوں میں
سایۂ قامت ترا جس پر پڑا بازار میں
چمن میں گل یہ نہیں کھل کے ٹکڑے ٹکڑے ہیں
شمیمِ زلفِ معنبر جو روے یار سے لوں
اٹھتی گھٹا ہے کس طرح؟ بولے وہ زلف اٹھا کہ یوں
دم لے اے کوہ کن اب تیشہ زنی خوب نہیں
تیغ کیا رکھتا ہے قاتل ہاتھ میں
ہوا ہے زلف یک سو ہو تو خالِ رخ دمکتے ہیں
تری زلف سیہ کی لہر چڑھ جاتی ہے گلشن میں
نگا جب عکسِ ابرو دیکھنے دلدار باقی میں
بتادیں روز و شب رو رو کے چشمِ تر سے ہم جھیلیں
مل بیٹھنے یہ دے ہے فلک ایک دم کہاں
دستِ خیال سے اب تحریر کھینچتے ہیں
حرم کو شیخ مت جا، ہے بتِ دل خواہ صورت میں
سراغ رشتۂ الفت سے یار پاتے ہیں
قدم نہ رکھ مری چشمِ پر آب کے گھر میں
میں ڈرتا ہوں وہ دل پاؤں سے بے دستور ملتے ہیں
نہ پوچھو حق پرستاں ہو کے کیا مسرور ملتے ہیں
ہوا اشک گلگوں سے بہارِ گریباں
کس رو سے یار قصۂ زلفِ دوتا لکھوں
آشنا عشقِ بتاں سے دل کو ہم کیوں کر کریں
تیرِ مژہ لیے ہے ادھر شہ سوارِ حسن
جور کے ہاتھوں سے تیرے تالب فریاد ہوں
خاکساری کے ابھی تو درپے تدبیر ہوں
کبھو نہ اس رخِ روشن پہ چھائیاں دیکھیں
کس کی نظر میں یار کا خالِ دہاں نہیں
دمِ واپس تلک بھی دمِ سرد پھر نہ چنداں
نہ کیوں اس دور میں ہو کوئی بے اسباب چکر میں
گھٹا ہے دل میں تپِ عشق کی جلن سے دھواں
نہ پوچھو ان سے کہ کیا دوستی کی رسمیں ہیں
دل کو ہمارے کانوں کا موتی یارو وہ دکھلاتے ہیں
حسن کا اپنے شعلہ رخاں عالم کو کمال جتاتے ہیں
در غیر نے ٹانگے ترے چپکن پہ ہزاروں
دیکھیں ان ہاتھوں میں گر رنگ حنا کی مچھلیاں
سدا ہے اس آہ و چشم تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
نہاں ہے کب چشمِ بر بشر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ یاراں
شب آگیا دمِ بو سہ جو وہ دہاں منہ میں
جب کہ ہوا محبوب خیالِ ابروِ پر خمِ جاناں میں
یا تو صورت ہی دکھایا رہ ہماری آنکھ میں
دل ایک ہے ابرو ترے دو یار، کسے دوں
نہیں بے وجہہ کچھ ہم اور نرگس زرد ہیں دونوں
بام پر کیا وہ نمودار ہوا تیسرے دن
عید کے دن نہ ملا گرچہ وہ ہم سے لیکن
جب کہ تو وسمے سے ابے ابروے جاناں سبز ہو
گلستاں میں خزاں، پینے کو گر خونِ رگِ گل ہو
تیرے ابرو کے جو محراب میں جا رکھتا ہو
لٹ چھوڑ کے کاگل کی مست دوش تلک دیکھو
سرخیٔ پاں سے شہادت ہو نہ کیوں ہاں ہم کو
ماہ و خور چاہے کیا اے شہِ خوباں ہم کو
یہ کس کے واسطے ہوتا ہے چشمِ تر چھڑکاؤ
عدم کی راہ ہے باریک، یارو سوچ کر دیکھو
کرے ہے گریہ پیدا آہ کا یارو اثر دیکھو
دے گزرے ہے سر شمع کہیں ہیں جگر اس کو
وسمہ ابرو پہ بتو آج لگاتے کیوں ہو
کیا کہیے ناصحا دلِ وحشت گزیدہ کو
زندگی بن ترے کیا خاک قمر طلعت ہو
واہ کیا خوب کہ تم یوں تو نہ الفت سمجھو
ڈھونڈتا پھرتا ہے جو ا س مہرِ عالم تاب کو
چھیڑے رقیب گر ترے جامے کے بند کو
قمر یاں صدقے ہیں کیا گردِ قدِ رعناے سرو
یا د میں اس قد کی روؤں گر میں زیرِ پاے سرو
رخ سے سرکا زلف ہو گا شورِ محشر رات کو
تا قیامت نہ مریں گے لبِ جاناں ہم تو
علم لے آہ اور آنکھوں سے فوجِ اشک جاری ہو
رکھتا ہے اور کیا دلِ ناشاد آرزو
چرخِ کا نیش مہِ نو سے ہے کالا بچھو
دیکھے اس باغ کا اب کی اجارہ ہو نہ ہو
ہم کو کیا شب کو ہیں کو رشکِ چراغاں
لعل کو دیکھو نہ تم گلبرگ تر دیکھا کرو
انگشت نما کیوں نہ وہ مانند حنا ہو
اس کا قدِ دلجو چمن آرا جو صبا ہو
خیالِ زلف چھٹ دل کو مرے آرام کیونکر ہو
کام کیوں چشم کا مژگاں سے لیا چاہتے ہو
مت آہ دکھا زلفِ سیہ فام کسی کو
اے حباب اپنی نہ اسپک بھی لدوالے تو
روز و شب یار کے جپتی نہیں کیوں نام کو تو
عہدِ پیری میں جوانی کے نہ لے نام کو تو
مخلصی دل کو کہاں گیسوے دلدار سے ہو
تم روے عرق ناگ سے گاگل کو ملادو
بہارِ حسن کب جاتی ہے خط رخسار پر رکھو
مت ستا اے زلف اتنا عاشقِ دل گیر کو
مت لپیٹو زلف کو، دل کو مرے آرام دو
بے تابیٔ دل کس طرح یارو ہماری دور ہو
خواہش ہے یار کی، نہ حمائل کی آرزو
نہ اس وجہہ آئینہ پر آن دیکھو
ہزاروں پھرتے یہاں غنچہ لب، نہ ایک نہ دو
اشک ریزاں کیوں نہ ہو چشمِ پر آبِ فاختہ
زلف جانے ہے وہ پیچوں کے ہنر تین سے ساٹھ
پرویں تو ہے اے رشکِ قمر نور کا خوشہ
زیبِ تن ہے خاک کوے یار جم کر تہ بہ تہ
پیکاں ہو جب اس تیر کا آفاق میں غنچہ
چلتا ہے جب وہ ناز سے رکھ کر کمر پہ ہاتھ
نہاں ہے جب سے ترے دل میں عشق کا شعلہ
شرابِ عشق سے دل کا مرے معمور ہے شیشہ
ہم نے نظروں میں جو تولا تو ہے پتھر شیشہ
دل کو اس داغ سے داغی نہ سمجھ تو شیشہ
لگنے دیتی نہیں اس گل کی جدائی دیدہ
کیا خوش ہو ایسے کلبۂ ماتم سے قافلہ
جیسے کہ تہِ خاک سکندر کی لگی آنکھ
کس شوخ کے دندانِ مصفا سے لڑی آنکھ
اخگرِ گل پر سحر کیا ٹھہرےشبنم کی گرہ
غنچے کی کھولے ناخنِ موجِ صبا گرہ
ہوا ہے تیرے ہاتھوں سے جنوں اس قدر پردہ
شب سرِشمع کہاں ہے گزرِ پروانہ
ٹک دیکھو ادھر چشمِ ترحم سے زیادہ
عیبِ خود بینی سے ہے تفصیر پشتِ آئنہ
کون ہو سکتا ہے دامن گیرِ پشت آئنہ
نہ منہ لگا اسے کیا ہے نگار آئینہ
صورتِ گرداب ہے چشمِ پر آبِ آئنہ
کس کو دکھلاؤں یہ دل کا ہے جو تن میں آئنہ
رکھ لختِ دل کو اشکِ مسلسل مدام ساتھ
یہ مہ و خور در تنورِ آسمانِ سوختہ
ابرو سے اس کے دیکھ نہ پھر ہے دلا گناہ
رکھ دوں اگر بروے بتانِ فرنگ ہاتھ
تیرا حنائی دیکھ بتِ شوخ و شنگ ہاتھ
چھوڑا اک پھری یہ مہر کی اے خانہ جنگ ہاتھ
کیا لیا وا کرکے اس نے پردۂ محمل کی نہ
دل کو حسرت سے نہ رکھیے یہ کنار آلودہ
خاک سے دیکھ مری چشم فگار آلودہ
نہ چھپانے خاک کیوں ہو صاحبِ اموال سر گشتہ
ہے جو شبیہ ماہ یہ تیرا ہے رو سو وہ
مطلع
حواشی
سر ورق
فہرست
کس کی سنی آوازِ پرِ تیر ہوا پر
کشتۂ الفت کی ہے یہ خاکِ مایوس مزار
جب کہ ہووے ورقِ نقابِ تصویر
نظر پڑے وہ کہیں نوجوان دریا پر
قطرات اشک ٹھیرے نہ مژگاں کے جھاڑ پر
چیتے کی طرح کھائے تھے گل جسمِ زار پر
ایسا نہ ہوا آہ کوئی کام زمیں پر
ہے دل پر داغ سے یوں چشمِ گریاں کی بہار
پیری میں نہیں یک سرِ مو پشت برابر
رکھے مرے سینے سے جو تو پشت برابر
نہ رکھا ہم نے طفلِ اشک کو ہیہات چھاتی پر
احمد مرسل کے جو تھی پشتِ نورانی پہ مہر
بس ایک تو ہے وہ مہوش زمیں کے پردے پر
برنگِ برق ہے اس کا سمند آتش پر
جلا تو بختِ سیہ سے سپند آتش پر
عشق میں خاک اے بتاں ہے زیرِ پا بالائے سر
ابرو نہیں چشمِ بتِ عیار کے سر پر
غنچۂ پژمردہ کو گلشن میں پھر لائی بہار
مژگاں کی تیرے ہیں جو نمودار تار تار
حسنِ رخ سے بے خطر ہو زلف پیچاں چھوڑ کر
دل کدھر جائے لبِ جاں بخشِ جاناں چھوڑ کر
رخ پر نہیں اس کے خط ریحان کی تحریر
طلب میں بوسے کی کیا ہے حجت، سوال دیگر جواب دیگر
قمری عبث تو سرو کے جوں نٹ ہے بانس پر
تیری پلکیں یہ بھی جاناں ایک ترکش کے ہیں تیر
کر دیا تھا جس کو گنگا پار کل کی بات پر
شوخی چشم جو آئی تری اے یار نظر
رہ گیا پہلو میں کیا قاتل کا خنجر ٹوٹ کر
خال مشاطہ بنا کاجل کا چشمِ یار پر
خط نہیں اے دوستو پشتِ لبِ دل دار پر
روکش ترے خالِ رخِ زیبا سے ہو کیونکر
نگہ کی مت لگا برچھی بت بے پیر چھاتی پر
چلتی ہر موج کی رہتی ہے بھنور سے تلوار
قاتل ابرو کی لگاتا ہے ادھر سے تلوار
ابر ہیں اور لب ترے دلبر ہلال چار
چرائی چادرِ مہتاب شب میکش نے جیحوں پر
عیاں ہے کیا ترے قامت سے آسماں کی سیر
سینے سے وہ کب تک رکھوں تصویر لگا کر
شب شعلہ خوکی بزم میں مت کھیل جان پر
کان کا حلقہ وہ جب بالائے گوش آیا نظر
حبلِ عشق کا کیونکر کوئی توڑے پتھر
قدم رکھ اب نہ مرے بے درنگ سینے پر
رکھتا ہوں ذکرِ زلفِ بتاں کیا زباں پر
فوجِ اشک اب ہو نہ کیوں دیدۂ تر سے باہر
کاش کے آہ نکالے اسے گھر سے باہر
پھپھولے دیکھ تیرے عاشقِ رسوا کی چھاتی پر
ہے خطِ چینِ جبیں سے ابروے دلبر کی قدر
اس قدر بو قلموں ہیں یہ ترے تیر کے پر
نکلے شانے سے تری زلف گرہ گیر کے پر
رنگ زرد اپنا رہا یوں دل تمہارا کھینچ کر
چشم میں ہو کر گزر دل میں اب اے گمراہ کر
اور صورت سے فدا ہیں تری ہم آنکھوں پر
تیرِ مژگاں پیہم اس دل پر لگا دو چار پھر
مسی مالیدہ دنداں ہیں وہ رشکِ پاں سے سب اخگر
کسی دیوانے کی ہے محوِ تماشا زنجیر
اودی بسمے کی نہیں تیرے رضائی سر پر
کیا خوش ہو کوئی صحبت دلگیر سے دلگیر
رکھ گل کو نہ بلبل کے گل اندام قفس پر
اس نادہند سے نہ دلا کچھ سوال کر
ہم چشمی اس کی چشم سے مت اے غزال کر
دکھا دو گر مانگ اپنی شب کو تو حشر برپا ہو کہکشاں پر
رقص میں طاؤس سے کھول ابر میں مل جل کے پر
خوابِ راحت کے لئے تکیے سے پھینک اس گل کے پر
کب ہے مہِ نو ابروے قاتل کے برابر
جز حق جو نہ بولا، ہے وہ سردار ہی کچھ اور
مہ رو جو ترا وصلِ مدام آوے میسر
رکھ پاؤں سرِ گورِ غریبان سمجھ کر
عاشق ہوئے جس بت کو تھے نادان سمجھ کر
مجھے تو قیس سمجھ کر نہ پیچ کھا زنجیر
من سے اترے ہے کوئی جب دیکھ لے کالے کی لہر
فتنے نہ کیجو برپا ٹھوکر لگا لگا کر
لگے گی دم میں سر چنگِ زمانہ سر آٹھانے پر
نہ کوئی ہو جیو جوں مرغِ ہوا گیر اسیر
از بسکہ داغ سے ہے دلِ زار سر بمہر
تازیانہ نہ بنا زلف کا ہر تار نہ چھیڑ
میں کاکلِ مشکیں پہ ہوا غش تو وہ بولے
کیا قفس میں ہو گرفتارِ قفس کی پرواز
قوسِ قزع سے یہ نہیں بادل ہے سرخ و سبز
کب ہے اس جعد سے زلفِ سیہ حور دراز
مو بہ مو دیکھے جو زلفِ بتِ مغرور دراز
واں تو دامن ہے ترا اے بتِ مغرور دراز
کرتی ہے نخلِ سوختہ کو برشگال سبز
عارض پہ بے سبب نہ ترے خط ہے یار سبز
عشق میں ہے اشک اور لختِ جگر کا امتیاز
ہم تجھ کو جو سمجھتے ہیں مستِ غرور چیز
نے ملک نہ جاگیر نہ منصب ہے نہ زر روز
خط زیرِ لب نہیں ہے ترے رشکِ ماہ سبز
دولت گئی، دماغ وہی ہے بجا ہنوز
اپنے گھر آئے جو وہ رشکِ قمر آخر روز
مژگاں پہ مری اشکِ کبوتر ہے گرہ باز
ہے بوقلموں جلوۂ داغِ پرِ طاؤس
کیا ہاتھ لگے بچہ یک سالۂ طاؤس
ہو چکی باغِ میں بہار افسوس
ہوئی ہے محوِ تماشاے یار کیا نرگس؟
باغ میں اے سرو قد تجھ بن نہیں قمری اداس
چاہیے قمری تجھے طوقِ گلوگیر و قفس
کیوں نہ دنداں ہوں ترے رشکِ نگیں الماس
یک چند ہم پھرے ہیں ترے گھر کے آس پاس
شیشے دھرے ہیں واں مرے دلبر کے آس پاس
خالِ رخ یوں جلوہ گر ہے کان کے بالے کے پاس
کٹ گئی وصل کی شب باتیں ہی کرکے افسوس
رخ دیکھ ترا دل کی بجھی سیم بر آتش
نہ دلِ زار کو دے عشق کے آزار آتش
طوفان ہے اس دیدۂ پر آب کی گردش
نالے سے ہے یوں اس دلِ دلگیر کو جنبش
رکھوں نہ سر کو کیونکہ میں زیرِ قدم تراش
کیا خرابی کے کوئی ہو دیکھ کر آثار خوش
مشعل عشق کی ہے یوں مرے تن میں آتش
حباب کا دم بستی سے ہووے کیا اخلاص
زلف کے حلقے میں کیا ہے دل کوے تابانہ رقص
کیا منہ ہے، اپنے سامنے جو سر اٹھائے حرص
یوں تن سے ہوئی جاں دمِ شمشیر مرخص
بوسۂ لب تک ترا اے بار ہے سب کی غرض
نہ دکھا رشک قمر تو عرق افشاں عارض
نکلا ہے میرے یار کے روے حسیں پہ خط
چشم میں رکھتا تجھے ہے اے دلِ دلگیر شرط
کیوں نہ دھو ڈالے ہلالی لکھ کے دیواں بے نقط
عاشق کا دیکھ دل کہ نہ کہ جاں کی احتیاط
استخواں عشق میں کیا پھک گئے بس شمع نمط
لگا پنجوں کے بل چلنے وہ غارت گر، خدا حافظ
آہ کے ساتھ ہوئے اشک کے قطرات شروع
اس قدر مت کھینچ اپنا تو سرِ پندار شمع
روشن دلاں نہ کیوں کریں توقیر پاے شمع
فانوس میں کہاں ہے دلا اشک بار شمع
قشقۂ شعلہ ہے کیا رونقِ پیشانی شمع
کیوں بے نمک ہے گرمیِ محفل سے نورِ شمع
آہ و نالہ داغِ سینا ہیں دو شمع و یک چراغ
ہے قمر گردوں پہ کیا شب اس کی قدرت کا چراغ
ابرو ہے وہ اور حلقۂ کاکل سپر و تیغ
خاک سے آساں ہے کھونا جان آئینے کا داغ
رخ سے یوں روشن ہے اب حلقے میں بالے کے چراغ
آبلہ اور داغ ہیں سینے میں فانوس و چراغ
گر شمع تجھ سے کرتی ہے ہنس ہنس سخن چراغ
بلبل سے کیوں نہ ہو گل و گلزار کا دماغ
یک دست ہے گلہاے جراحت سے یہ تن باغ
کیا شب مہتاب ہے پی چند اے مہوش ایاغ
کیوں بے صدا پڑے ہیں ترے کشتگانِ تیغ
جو داغِ دل کا ہے یار رب ہمارے تن میں چراغ
کس لئے ابرو کی ہردم کرتے ہو تلوار صاف
دل قصد کر نہ کاکلِ دلدار کی طرف
کیا خوب آپ ہم سے ہوئے ہو دو چار صاف
کیا ہو بلبل سے تری سوے میاں کی تعریف
اس قدر مائل ہے دل چشمِ بری رو کی طرف
واں کمر باندھے یہں مژگاں قتل پر دونوں طرف
جو عینِ وصل میں آرام سے نہیں واقف
نہیں بے وجہہ اس عارض پہ سحر حلقۂ زلف
جہاں سے گو بتِ مغرور اٹھ گیا انصاف
ہے تجھے یاقوت لب کو اپنے دکھلائے گا شوق
باغ میں تجھ بن کسے ہے آب اور دانے کا شوق
ناتواں مجنوں ہے، لیلیٰ پہنے کیا آہن کے طوق
دیکھا جو سیم تن تری تصویر کا ورق
زلف و رخِ دلدار میں دن رات کا ہے فرق
کہوں گر اس کو میں یوسف تو ہے نگاہ میں فرق
ہے تیری تاب رخ کی و ہ زلف دوتا میں برق
جلوۂ شمشیر ہر دم ہم کو دکھلاتی ہے برق
لگی وہ چین ِ جبیں دیدۂ پر آب میں برق
دید کر اے قیس تو از دیدۂ بیناے عشق
یہ داغِ سینہ کا گل کھلا ہے جہاں میں ہے افتخار عاشق
دل سنبھالے کیا ترے سرے کے دنبالے کی جھوک
سوزش ہے داغِ دل کی مرے استخواں تلک
کشتی شکستاں کا نہیں ناخدا شریک
زلفِ سرکش کی رہے گی کج ادائی کب تلک
میے گا ناصحا تو جیب کو کیا خاک دامن تک
ہے مجھ کو زلف و رخ سے ترے کام اب تلک
زلف جوں مار سیہ کھائے ہے بل دوش تلک
لے جائیو دل داغ نہ انجام تہِ خاک
ہے مطلبِ دل ابروے دلدار سے اب تک
سر کبکِ دری پٹکے ہے کہسار سے اب تک
رکھتی ہیں انکھڑیاں تری کیا رنگ اور نمک
چشمِ عاشق پر خرابی لائے ہے ہر گاہ اشک
قامتِ یار کا مضموں نہ چراوے جب تک
نباہ کس سے کرے مت نہیں ہے یار کی ایک
زرد اس قدر ہے یار ترے مبتلا کا رنگ
جو موج زن ہو مری چشمِ خو نقشاں کا رنگ
گلشنِ دنیا میں ہو گیا خاک مے خانے کا رنگ
کرے ہے کشورِ دیوانگی کو سر رگ سنگ
عاشق سوا ہے کس کو ہواے شکستِ رنگ
گلشن میں سحر دیکھ بہارِ گلِ صد برگ
یہ چمکا شب کو رخِ یارِ سیم تن کا رنگ
تجھ بن چمن میں کس کو خوش آویں نسیم و گل
تو جا کے دیکھ سوے گلستاں فہم و گل
بلبل نہ بھول دیکھ کے اتنا تو باغ و گل
وہ رم گیا غزال کہیں دیکھ باغ و گل
کس نے کہا دے مجھے رشکِ قمر پان پھول
عندلیبوں نہ کرو صبح کو غل بر سرِ گل
کس روش توڑے گا دیکھیں آج گلچیں شاخِ گل
حیرت انگیز ہیں داغِ دلِ دلگیر کے پھول
جگر کا جوں شمع کاش یارب ہو داغ روشن مراد حاصل
زخمی چمن میں ہیں تری تیغِ ادا کے پھول
روکش آس کے دیدۂ مخمور سے ہوں کس کے پھول
میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول
شب کو کیا تم نے پروئے کان کے بالے میں پھول
رغ سے کیا خوب ہے برقع نہ اٹھانا شبِ وصل
سے صنم بہرِ خدا دل نہ کڑھانا شبِ وصل
مرغانِ چمن کیوں نہ ہوں قربانِ سرِ گل
چھوڑے ہے تیر شاخ کے پہم کماں سے پھول
جو باغِ بند میں ہے مرے گل کے منہ بہ تل
سنگِ جفا سے ہے ترے شیشہ شکستہ دل
سر سے اے ہم نفساں ہاتھ اٹھانا مشکل
نے برق نہ شعلہ ہے، نہ اخگر طیشِ دل
تسخیرِ حاضرات رکھے ہے چراغِ دل
روشن دو چند مہ سے ہے اپنا چراغِ دل
تاثیر سے خالی نہیں ہر دم طپشِ دل
ہمارا دشمنِ جاں ہے تو ہو وہ مہرباں در دل
بلبل، ہزار حیف، نہ ہو ہم کنارِ گل
کریں گے روکشی گر صبح کو تجھ سے چمن میں گل
چمک رہا ہے چمن میں ابھی سارۂ گل
گرہِ غنچہ فقط تو نہ صبا کھول کے چل
چشمِ تر پھینک ان اشکوں کو نہ تو خاک کے مول
اس خیالِ مژہ سے یوں ہے دلِ زار میں بال
کوئی کہتا نہیں اتنا یہ دل آزار سے مل
جنسِ دل لے کے نہ دلِ کاگلِ دلدار سے مل
خط ترا ہر روز پڑھواتے ہیں ہم
چشم میں کب اشک بھر لاتے ہیں ہم
از بسکہ ہے گل میں روشِ ناز و ادا گرم
اسی لعلِ لب کی ہیں جو ثنا خوانیوں میں ہم
پامالِ راہِ عشق ہیں خلقت کی کھا ٹھوکر بھی ہم
اس گلشنِ وحدت کے ہیں کثرت میں ثمر ہم
دیکھیں گے تری برشِ شمشیرِ نطر ہم
بے وجہہ یہ تیرا نہیں اے یار تبسم
کب زباں پر خامہ ساں حرفِ طلب رکھتے ہیں ہم
جوں ذرہ نہیں ایک جگہ خاک نشیں ہم
گردش چشم اپنی وہ تجھ کو اگر دکھلائے جام
ساقیا میلِ سبو ہے، نے ہمیں پروائے خم
جب کہ چشمِ سرمہ سا اپنی دکھا جاتے ہو تم
ابھی لڑکا ہے وہ، ہے بے خبری کا عالم
سمجھے جو برگِ گل کو نزاکت میں لب سے کم
ہے ابرو و مژگاں سے تری تیغِ دو سر چشم
ہے سایہ مژگاں میں یہ اب اشک تر چشم
کب دل ہے پھپھولوں سے ہمارا ہمہ تن چشم
صاد ہے چہرے پہ تیری خوشنما اے یار چشم
زلف کا پیچیدہ کیونکر ہو دلِ مضطر سے دام
کیوں کر نہ ہو تھی دلِ مایوس شمعِ بزم
جو گزرے ہے ہر عاشقِ کامل، نہیں معلوم
کچھ سر گشت کہہ نہ سکے رو برو فلم
مضمونِ گریہ گر لکھوں اپنا کبھو فلم
نکہت گل میں یا صبا ہیں ہم
سحر دیکھیں جو رنگ و روے تاباں گل و شبنم
کس کو ہے خط کے سوا کاکلِ دلدار سے کام
نہ دکھائیو ہجر کا درد و الم، تجھے دیتا ہوں چرخ خدا کی قسم
لکھ دے مشاطہ تو ابروے دلارام پہ نام
چھیڑی کس گل کے دہن کی تھی کہانی شبنم
عرش اور فرش ہے گو بازیِ چوگانِ سخن
ہم زبانِ سفر اسباب سفر باندھے ہیں
صبح جو تجھ بن باغ میں بنیں غنچوں کی رنگین بجیں
وصلِ یوسف ہو عزیزو اسے امکاں نہیں
پسِ دیوار تک گر، رخنۂ دیوار بیٹھے ہیں
چشمِ تر سے روز و شب ہوتی نہیں دور آستیں
شب جو رخِ پر خال سے وہ برقع کو اتارے سوتے ہیں
اڑتی ہے کوئی رونقِ بازارِ گلستاں
ترا جب قد و قامت دیکھتے ہیں
خاک آرام ہو اب غیرِ دلارام کہیں
جوں بوے گل یہاں تلک از خود رمیدہ ہوں
فرصت ایک دم کی ہے جوں حباب پانی یاں
عکسِ تاب رخ ترا درمانِ زخمِ دل نہیں
خال ہوں اس کے ذقن پر ہیں بلا شک روشن
کیا ہوا خواب میں گر شب کو ہم آغوش ہوں میں
دیکھ، جانے دے، پہن مت آسمانی چوڑیاں
چراغ داغِ سینہ سے نہیں اے مردماں روشن
کہاں ہے غنچہ صبا یک دہن بزار زباں
کس طرح پرواز کالوں نام، ساقی ابر میں
کچھ نہیں کھلتا ہے عقدہ عندلیبانِ چمن
خط آنے پر بھی وہ مشقِ ستم سمجھتے ہیں
شب کو نہ کیونکر تجھ کو پھبتاسر پر طرہ، ہار گلے میں
کروں جوڑے کا تصور کہ خیالِ گردن
آتشِ سینہ سے ہوں سوختہ تر پانی میں
باندھے کیا سروِ چمن اپنی ہوا گلشن میں
حلقۂ دیدہ سے یاں ہر دم گیا دریاے خوں
کوچۂ سربستہ سے زلفِ چلیپا کم نہیں
بہم ہے زلف کے کیا خط سے خال پردے میں
جوں زیر پل ہے آب خمِ ذوالفقار میں
شبِ فراق میں اشک اپنے تو نکلتے ہیں
بیادِ خالِ بتاں اشک کیا نکلتے ہیں
اک قافلہ ہے بن ترے ہمراہ سفر میں
رکھیے قدم بن اس کے کیوں کر دلا چمن میں
سرِ مژگاں بوقتِ نالہ آنسو کو ترستے ہیں
آ چکا خط منہ پہ، کہہ دو ان سے اب آویں نہیں
عجب تھے سخت کچھ اے سنگدل ہمارے دن
ہیں وہ اپنے دیدۂ تر پل میں جو جنگل بھریں
آپ کا کون طلب گار نہیں عالم میں
رخ پہ دو زلفیں ہیں اے دلدار کس کا ہوں رہوں
خاندانِ قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں
نیستاں کردیا تو نے تو اے بے باک سینے میں
دل ساتھ زلف کو اب کیا پیچ و تابیاں ہیں
ہے عجب! خال نے اس رخ پہ دہرا کیوں کر پاؤں
ڈوب جاوے کیوں نہ یہ پھر سوختہ تن آب میں
ابر سے ہیں تارِ بارش ناوک افگن آب میں
سایہ افگن ہو جو وہ زلفِ معتبر آگ میں
حیف تو چمکا نہ داغ اس دل کے رہ کرآگ میں
گو کہ پلکوں کے ہیں سب بال زباں آنکھوں میں
نہ ذکرِ آشنا، نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں
کبھی جو ذکرِ سرِ زلفِ یار رکھتا ہوں
خیالِ خواب نہیں، خواہشِ بلنگ نہیں
کھبا چمن میں کل ایسا وہ یار آنکھوں میں
واقف ہیں محبت کے یہ آثار سے آنکھیں
بند کی پہنچیں اگر لال یمن میں مرچیں
چاکِ در سے یہ نہیں اس نے دکھائیں آنکھیں
دلِ عاشق کو یوں باندھے ہے وہ بے پیر بالوں میں
پوچھ ساقی سے کہ کیا سیر تھی کل دریا میں
شب مسی آلودہ دنداں وہ جو دکھلائے کہیں
فندقِ دستِ نگاریں تو جو دکھلائے کہیں
مقید ہیں جو دامِ حرص کے، پیوستہ لڑتے ہیں
سر رشتہ یہ رکھتی نہیں زنار سے گردن
دیکھے ہے کیا یہ چشم سے آنسو بہا نہیں
ہم پھڑک کر توڑتے ساری قفس کی تیلیاں
نیشکر کی کر سکیں کیا ریس خس کی تیلیاں
وقتِ نماز ہے ان کا قامت گاہ خدنگ و گاہ کماں
بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں
فکرِ انجامِ دلِ دلگیر میں بیٹھا ہوں میں
سایۂ قامت ترا جس پر پڑا بازار میں
چمن میں گل یہ نہیں کھل کے ٹکڑے ٹکڑے ہیں
شمیمِ زلفِ معنبر جو روے یار سے لوں
اٹھتی گھٹا ہے کس طرح؟ بولے وہ زلف اٹھا کہ یوں
دم لے اے کوہ کن اب تیشہ زنی خوب نہیں
تیغ کیا رکھتا ہے قاتل ہاتھ میں
ہوا ہے زلف یک سو ہو تو خالِ رخ دمکتے ہیں
تری زلف سیہ کی لہر چڑھ جاتی ہے گلشن میں
نگا جب عکسِ ابرو دیکھنے دلدار باقی میں
بتادیں روز و شب رو رو کے چشمِ تر سے ہم جھیلیں
مل بیٹھنے یہ دے ہے فلک ایک دم کہاں
دستِ خیال سے اب تحریر کھینچتے ہیں
حرم کو شیخ مت جا، ہے بتِ دل خواہ صورت میں
سراغ رشتۂ الفت سے یار پاتے ہیں
قدم نہ رکھ مری چشمِ پر آب کے گھر میں
میں ڈرتا ہوں وہ دل پاؤں سے بے دستور ملتے ہیں
نہ پوچھو حق پرستاں ہو کے کیا مسرور ملتے ہیں
ہوا اشک گلگوں سے بہارِ گریباں
کس رو سے یار قصۂ زلفِ دوتا لکھوں
آشنا عشقِ بتاں سے دل کو ہم کیوں کر کریں
تیرِ مژہ لیے ہے ادھر شہ سوارِ حسن
جور کے ہاتھوں سے تیرے تالب فریاد ہوں
خاکساری کے ابھی تو درپے تدبیر ہوں
کبھو نہ اس رخِ روشن پہ چھائیاں دیکھیں
کس کی نظر میں یار کا خالِ دہاں نہیں
دمِ واپس تلک بھی دمِ سرد پھر نہ چنداں
نہ کیوں اس دور میں ہو کوئی بے اسباب چکر میں
گھٹا ہے دل میں تپِ عشق کی جلن سے دھواں
نہ پوچھو ان سے کہ کیا دوستی کی رسمیں ہیں
دل کو ہمارے کانوں کا موتی یارو وہ دکھلاتے ہیں
حسن کا اپنے شعلہ رخاں عالم کو کمال جتاتے ہیں
در غیر نے ٹانگے ترے چپکن پہ ہزاروں
دیکھیں ان ہاتھوں میں گر رنگ حنا کی مچھلیاں
سدا ہے اس آہ و چشم تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
نہاں ہے کب چشمِ بر بشر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ یاراں
شب آگیا دمِ بو سہ جو وہ دہاں منہ میں
جب کہ ہوا محبوب خیالِ ابروِ پر خمِ جاناں میں
یا تو صورت ہی دکھایا رہ ہماری آنکھ میں
دل ایک ہے ابرو ترے دو یار، کسے دوں
نہیں بے وجہہ کچھ ہم اور نرگس زرد ہیں دونوں
بام پر کیا وہ نمودار ہوا تیسرے دن
عید کے دن نہ ملا گرچہ وہ ہم سے لیکن
جب کہ تو وسمے سے ابے ابروے جاناں سبز ہو
گلستاں میں خزاں، پینے کو گر خونِ رگِ گل ہو
تیرے ابرو کے جو محراب میں جا رکھتا ہو
لٹ چھوڑ کے کاگل کی مست دوش تلک دیکھو
سرخیٔ پاں سے شہادت ہو نہ کیوں ہاں ہم کو
ماہ و خور چاہے کیا اے شہِ خوباں ہم کو
یہ کس کے واسطے ہوتا ہے چشمِ تر چھڑکاؤ
عدم کی راہ ہے باریک، یارو سوچ کر دیکھو
کرے ہے گریہ پیدا آہ کا یارو اثر دیکھو
دے گزرے ہے سر شمع کہیں ہیں جگر اس کو
وسمہ ابرو پہ بتو آج لگاتے کیوں ہو
کیا کہیے ناصحا دلِ وحشت گزیدہ کو
زندگی بن ترے کیا خاک قمر طلعت ہو
واہ کیا خوب کہ تم یوں تو نہ الفت سمجھو
ڈھونڈتا پھرتا ہے جو ا س مہرِ عالم تاب کو
چھیڑے رقیب گر ترے جامے کے بند کو
قمر یاں صدقے ہیں کیا گردِ قدِ رعناے سرو
یا د میں اس قد کی روؤں گر میں زیرِ پاے سرو
رخ سے سرکا زلف ہو گا شورِ محشر رات کو
تا قیامت نہ مریں گے لبِ جاناں ہم تو
علم لے آہ اور آنکھوں سے فوجِ اشک جاری ہو
رکھتا ہے اور کیا دلِ ناشاد آرزو
چرخِ کا نیش مہِ نو سے ہے کالا بچھو
دیکھے اس باغ کا اب کی اجارہ ہو نہ ہو
ہم کو کیا شب کو ہیں کو رشکِ چراغاں
لعل کو دیکھو نہ تم گلبرگ تر دیکھا کرو
انگشت نما کیوں نہ وہ مانند حنا ہو
اس کا قدِ دلجو چمن آرا جو صبا ہو
خیالِ زلف چھٹ دل کو مرے آرام کیونکر ہو
کام کیوں چشم کا مژگاں سے لیا چاہتے ہو
مت آہ دکھا زلفِ سیہ فام کسی کو
اے حباب اپنی نہ اسپک بھی لدوالے تو
روز و شب یار کے جپتی نہیں کیوں نام کو تو
عہدِ پیری میں جوانی کے نہ لے نام کو تو
مخلصی دل کو کہاں گیسوے دلدار سے ہو
تم روے عرق ناگ سے گاگل کو ملادو
بہارِ حسن کب جاتی ہے خط رخسار پر رکھو
مت ستا اے زلف اتنا عاشقِ دل گیر کو
مت لپیٹو زلف کو، دل کو مرے آرام دو
بے تابیٔ دل کس طرح یارو ہماری دور ہو
خواہش ہے یار کی، نہ حمائل کی آرزو
نہ اس وجہہ آئینہ پر آن دیکھو
ہزاروں پھرتے یہاں غنچہ لب، نہ ایک نہ دو
اشک ریزاں کیوں نہ ہو چشمِ پر آبِ فاختہ
زلف جانے ہے وہ پیچوں کے ہنر تین سے ساٹھ
پرویں تو ہے اے رشکِ قمر نور کا خوشہ
زیبِ تن ہے خاک کوے یار جم کر تہ بہ تہ
پیکاں ہو جب اس تیر کا آفاق میں غنچہ
چلتا ہے جب وہ ناز سے رکھ کر کمر پہ ہاتھ
نہاں ہے جب سے ترے دل میں عشق کا شعلہ
شرابِ عشق سے دل کا مرے معمور ہے شیشہ
ہم نے نظروں میں جو تولا تو ہے پتھر شیشہ
دل کو اس داغ سے داغی نہ سمجھ تو شیشہ
لگنے دیتی نہیں اس گل کی جدائی دیدہ
کیا خوش ہو ایسے کلبۂ ماتم سے قافلہ
جیسے کہ تہِ خاک سکندر کی لگی آنکھ
کس شوخ کے دندانِ مصفا سے لڑی آنکھ
اخگرِ گل پر سحر کیا ٹھہرےشبنم کی گرہ
غنچے کی کھولے ناخنِ موجِ صبا گرہ
ہوا ہے تیرے ہاتھوں سے جنوں اس قدر پردہ
شب سرِشمع کہاں ہے گزرِ پروانہ
ٹک دیکھو ادھر چشمِ ترحم سے زیادہ
عیبِ خود بینی سے ہے تفصیر پشتِ آئنہ
کون ہو سکتا ہے دامن گیرِ پشت آئنہ
نہ منہ لگا اسے کیا ہے نگار آئینہ
صورتِ گرداب ہے چشمِ پر آبِ آئنہ
کس کو دکھلاؤں یہ دل کا ہے جو تن میں آئنہ
رکھ لختِ دل کو اشکِ مسلسل مدام ساتھ
یہ مہ و خور در تنورِ آسمانِ سوختہ
ابرو سے اس کے دیکھ نہ پھر ہے دلا گناہ
رکھ دوں اگر بروے بتانِ فرنگ ہاتھ
تیرا حنائی دیکھ بتِ شوخ و شنگ ہاتھ
چھوڑا اک پھری یہ مہر کی اے خانہ جنگ ہاتھ
کیا لیا وا کرکے اس نے پردۂ محمل کی نہ
دل کو حسرت سے نہ رکھیے یہ کنار آلودہ
خاک سے دیکھ مری چشم فگار آلودہ
نہ چھپانے خاک کیوں ہو صاحبِ اموال سر گشتہ
ہے جو شبیہ ماہ یہ تیرا ہے رو سو وہ
مطلع
حواشی
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.