سرورق
فہرست
غزلیات وقطعات
اے مظہر شان خدا اپنے تو ایماں آپ ہیں
بپا ہے غم تن وجاں کی ہے رخصت آپس میں
ردیف ن
جب تلک سینے میں ہیں نالۂ شب اپنے ہیں
مکلف ہے اگر اے دوست سن تکلیف شرعی کو
کھوٹا نہ کہہ جو اہل ہنر بولتے نہیں
قابل بیاں کے ہجر کی روداد بھی نہیں
کیا دل کو رووں ریدۂ غمناک بھی نہیں
تری جناب میں عاشق جو آئے بیٹھے ہیں
کیسی ہیں زمانے کی چالیں انصاف کرو تم اہل جہاں
مصائب روح پر جو کچھ گزرنے ہیں گزر جائیں
سرد ہوا تاریک جہاں آ آ کے گھٹائیں کالی جائیں
ہمراہ دل کے ہوں گے یہ دم ساز حشر میں
غضب کے رنج یہ صاحب جمال دیتے ہیں
عدو دیکھیں خوشی احباب تیرے رنج وغم دیکھیں
آپ کیا غیر کی صحبت میں نہیں رہتے ہیں
گرم ہوں یا نامہ بر پر غیظ فرماتے رہیں
نہ کہیں صاف مگر آپ کے شیدا سب ہیں
اے آہ تھم کہ بزم میں ہم بار پا سکیں
میں اس صحفے کے ہر نقش کو کامل سمجھتا ہوں
خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں
الفت میں تری پاک ہر الزام سے ہم ہیں
احوال پر ہمارے تمہیں غور کچھ نہیں
مجھ میں اگر تری ادا کچھ بھی نہیں تو کچھ نہیں
تجھ سے کیا کچھ نہیں اے عشق طلب کرتے ہیں
بتان ماہ رو جب جب نئی بیداد کرتے ہیں
میں نے مانا وہ بہت ہم پہ کرم کرتے ہیں
دل میں پیدا اثر جذب محبت کرلیں
سخن حق زباں سے کہتے ہوئے
اے اجل انصاف کرتا چند منہ تاکا کریں
فرمائیے نہ ضبط کریں ہم تو کیا کریں
ان کو اسی سے شوق ہے ظلم کریں جفا کریں
غریب خانہ میں وہ آکے سرفراز کریں
نالوں میں جذب آہ میں پیدا اثر کریں
تھکے ماندے لحد میں ہم تو مر رہنے کو آئے ہیں
بس آپ گرد کدورت سے دل کو صاف کریں
دعا میں مے کشواب ہو اثر کوئی تو ہم جانیں
کہاں گلوں کے وہ تختے وہ لالہ زار کہاں
ہر وقت خوشی میں کٹتی تھی وہ صبح کہاں وہ شام کہاں
دل گیا سینے سے جب اپنے تو آزادی کہاں
کیا جفاؤں کو بھی سفاک وفا کہتے ہیں
عوام آپ کو نازک مزاج کہتے ہیں
فریفتہ ترے جس کو نیاز کہتے ہیں
نہ آئینے کا قصہ اور نہ حال شانہ کہتے ہیں
عمر بھر سہتے ہیں کس طرح جفا کیا جانیں
جو اس کے دل میں ہے قاصد وہی ستم کہہ دیں
عجب طرح کی لذت چھپا کے پینے میں
ناز کرشمہ ساز کیوں غمزۂ دل نواز کیوں
کہاں یہ تاب کہ چکھ چکھ کے یا گراکے پیوں
کوئی ماتم کرے میرے لئے کیوں
عبث کیوں پوچھتے ہو یار کے ظلم وستم کیوں ہیں
تری آہٹ جدھر پائی ادھر رکھا قدم اپنا
مرے ارمان مہماں اس دل درد آشنا کے ہیں
نعمت ہیں حسرتیں جو دلا انتہا کی ہیں
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
جس دن سے آکے اس دل ویراں میں بس گئیں
ترے فراق کے صدمے جو بڑھنے لگتے ہیں
جو ان کے کان کے موتی جھلکنے لگتے ہیں
کبھی دم بھر گرہ دل کی بہ مشکل کھول لیتے ہیں
انھیں دیکھو کہ اب تک عظمتوں سے کام لیتے ہیں
جو تنگ آکر کسی دن دل پہ ہم کچھ ٹھان لیتے ہیں
بے خبر آج ہر اک کام سے ہو لیتے ہیں
اک غم فقط نہیں ہے دل ناشکیب میں
آمادۂ سفر ہوں جہان خراب میں
ہم اور سیر لالہ و گل ہجر یار میں
مسلمانوں بتاؤ کیا مزا ملتا ہے غفلت میں
غضب ہے مرے دم حسرت کا ہونا دیدۂ تر میں
بظاہر آلودہ سم ہے جس میں بھرا ہے امرت اسی نظر میں
غرور باعث ذلت ہے تو نہ پڑاس میں
اسلام و کفر کچھ نہیں آتا خیال میں
رہا نہ حوصلہ صبر پاک بازوں میں
جہاں تک ہو بسر کر زندگی عالی خیالوں میں
ہزار شکر کہ اے تیغ اب ہمیں ہم ہیں
الفت بتوں کی حق ہے ہمارے یقین میں
رسوائیوں کی حد نہ رہی تیری راہ میں
اسی کے واسطے چنتا پھروں تنکے زمانے میں
نہ بدخوانی نہ بیتابی کوئی تربت کے سونے میں
اگر چلتا حیات و موت کا جھگڑا جوانی میں
کشا کش میں ہجوم یاس میں مشکل میں رہتے ہیں
پہلے پہل کی وہ مری رغبت میں کیا کہوں
زمیں پہ کیا ہے جو اب اس کا آسماں میں نہیں
ہجوم گل نہیں یا بلبلیں چمن میں نہیں
کہاں ہے آیا کہاں ہے جانا میں کون ہوں کس دیار میں ہوں
عظیم آباد کے اوپر خدا کی لعنت ہے
خدا کے فضل سے پینسٹھ برس کی عمر ہوئی
اس کے سوا کسی سے مجھے کچھ گلا نہیں
وہی زمیں ہے وہی آسماں وہی شب ہجر
بیڑیوں سے تیرے دیوانے کو اب چارا نہیں
دل کو لگا رکھنے کی عادت نہیں
پتھر وہ دل ہے جس میں کہ جلوہ گر نہیں
اپنا تو رہ روان عدم تک گزر نہیں
نیاز و نیاز میں کچھ جس کو امتیاز نہیں
وفور درد کہ دل میں ہجوم یاس نہیں
غضب کی ان میں متانت ہے کچھ کلام نہیں
اے دیدہ و دل اے روح و بدن تم میں سے کوئی ناکام نہیں
وجہ حیات آپ ہیں روح سے آپ کم نہیں
ہم زبان اپنا وہ کافر نہ ہوا امکان نہیں
یہ نالہ کون سے کوچے کا پاسبان نہیں
ایسا نہیں کہ پہلے وہ جانتے نہیں
ارماں نہیں کہ دل میں کوئی آرزو نہیں
اس دل سے بڑھ کے ہجر میں کوئی جری نہیں
وہ اور ہوں گے جو منزل پہ لانے والے ہیں
وہ خوش نگاہ نہیں جس میں بے وفائی نہیں
بد عہد وہی بلکہ دل آزار وہی ہیں
یہ سب ارض و سما آزد ہیں آزاد ہم بھی ہیں
خدا کرے ترے رخ کی بہار ہم دیکھیں
نہ ان سے ہم جدا ہیں اور نہ بے مہرو وفا ہم ہیں
جسم کا ساتھ چھٹا آپ سے باہر ہم ہیں
صدا غیروں کی سن سکتا ہے جس کو کان ہوتے ہیں
آرام سے ہوں قبر کے اندر جو بند ہوں
کون سی شب ہے جو غفلت میں بسر ہوتی نہیں
سر سے پا تک عیب ہوں ہر طرح نامحمود ہوں
اے دوست آج کون نہیں جانتا مجھے
حیا کشتۂ چشم مست بتاں ہوں
ٹھکانا کیا مرا اک عمر گزری در بدر ہوں میں
کسے دماغ عزیزوں سے ہم کلامی کا
نہ پوچھو حال میرا دوستوں اندوہ گیں ہوں میں
بے موت دور کب ہوں بھلا جو حجاب ہیں
جو اس جہاں میں ہیں وہ بڑے خوش نصیب ہیں
شب غم یہ کہتی ہے اک فقط ہمیں تیرے اہل وداد ہیں
یہ وہی دل ہے وہی ہم شاد ہیں
لینے ہیں غم سے داغ داغ پہلوودل فگار ہیں
شاد کیا ابنائے عالم کی شکایت کیجئے
آپس کی باتیں ہیں یہ سب کچھ رمز کچھ اسرار ہیں
کیا جانیں کس چمن میں مرے ہم صفیر ہیں
امر حق کہنے میں جو بے باک ہیں
اسے ہم کیا کہیں کیوں اپنی توبہ سے پشیماں ہیں
جفا کسی پہ گھڑیوں کسی سے باتیں ہیں
زاہد کا وصف کیا ہو عجب برگزیدہ ہیں
کہیں کیا اے ہجوم بے کسی اپنے وطن کی ہم
وفا کے مدعی شکوہ جفا کا لب پہ لاتے ہیں
فنا کے بعد لحد پر وہ آکے روتے ہیں
کون کہتا ہے رواں سوئے عدم ہوتے ہیں
بہار آئی گل وریحان و سنبل پھر نکھرتے ہیں
بغل میں غیر کی ہیں غیر ہی کے پیررے ہیں
کئی ہزار کا بلوہ ہے خود اکیلے ہیں
نہ ہو وفا تو پھر ایسوں کے کیا ٹھکانے ہیں
پروں کے ڈھیروں میں ویراں چمن میں آشیانے ہیں
مری تلاش سے مل جائے تو وہ تو ہی نہیں
جو زندہ جاوید ہیں مرتے ہی نہیں ہیں
احدی کی طرح کب تک تنہا رہوں وطن میں
ہوں گی زیادہ اس سے بھی عشق میں جگ ہنسائیاں
بار جن کلیوں پہ تھیں پرچھائیاں
بیاں اپنی کشتی کا ہم کیا سنائیں
دن لڑکپن کے بہت اچھے تھے لیکن کیا کروں
ردیف و
نغمے سب یار ہیں صیاد کو پاس آنے دو
یہ سب درست کہ تم بت بھی ہو خدا بھی ہو
منہ نہ بسمل سے پھراتے جاؤ
جو سانس بھی ہے تو آس بھی ہے جو یہ نہیں ہو تو وہ نہیں ہو
جوبن پڑے تو اسی در پہ جاکے مر دیکھو
کیوں کہو غیر کے آنے کا سبب جانے دو
اپنی ہستی کو غم و درد و مصیبت سمجھو
کویں بتو تم تو ستم نت نئے ایجا کرو
نقاب اک دن الٹ دینا تھا اس روئے دل آرا کو
پلٹ کر نہ دیکھے کبھی رہ نما کو
ہوں وہ بلبل قید رکھے گا جو مجھ ناشاد کو
دھوکے نہ دے اے آرزو اس ہستی نابود کو
کشیدہ رکھو گے مجھ سے کب تک تم اپنے ابروئے جانساتاں کو
نہ بھولے مرتے دم تک مصحف رخسار جاناں کو
غرض کیا راحت و آرام سے آفت رسیدوں کو
نصیحت کرکے تڑپاتے ہیں ناحق دل فگاروں کو
دیا نہ تو نے کفن اپنے سر فروشوں کو
کریں برسوں ریاضت عرش تک پہنچائیں نالوں کو
دکھا دیں ہر طرح کی خوبیاں ان نوجوانوں کو
شب غم میں کیا ہے ضبط کیا کیا دل نے نالے کو
تڑپ جاتا ہے دل جب سوچتا ہوں اس فسانے کو
میسر جن کا تھا دیدار بے کھٹکے زمانے کو
چپکے بیٹھے ہیں جو آئے بھی ہیں سمجھانے کو
جہاں میں کیوں نہ محبت کا نام مجھ سے ہو
جو کچھ اس ہاتھ سے ہو سب ہے گوارا مجھ کو
جب میں کہتا ہوں گوارا میری ذلت نہ کرو
غلط ہے ادعا اپنا نہ ہم ہم ہیں نہ تم تم ہو
زیست کا حوصلہ نہ ہو مرگ کا آسرا نہ ہو
نازک مزاج ہے کہیں وہ بت خفا نہ ہو
پیش نظر جو واقعۂ کربلا نہ ہو
ہم سے وہ اڑ چلے اپنی خبر نہ ہو
ان کو خوشی تیری دلا مد نظر ہو یا نہ ہو
ہنگام نزع دل کو کشاکش ہے کس قدر
نازک ہے مرا دل حد سے سوا یہ ظلم مشہور نہ ہو
کوئی دم ہے اجالا پھر اندھیرا ہے وطن والو
سروں پہ رکھ رکھ کے ہاتھ اک دن جفائے پیری سے رونے والو
خوش ہیں گر تشنہ لبی نے یوں ہی مارا ہم کو
بت کہتا ہے کوئی کوئی کہتا ہے خدا ہو
افعال تو یہ اس پہ طلب گار جزا ہو
زہے نصیب جو ایسا کوئی زمانہ ہو
خوشادہ دن کہ وصل ساقی مہ وش میسر ہو
مجھ سا فقیر آپ سے راز و نیاز ہو
آئے بہار یا خدا الالہ و گل کو جوش ہو
ہے عطا تری ہے کرم ترا وہ ستم کہ جس میں دوام ہو
رہے افساں قرینے سے کہیں ہو
جو رات شب وصل کے ہے نام ہے مشہور
بھلا کہئے طریق عشق ہم سے کس طرح طے ہو
ردیف ہ
جھگڑے کہاں تک کر قصہ کوتاہ
آئے گا وہ یار استغفراللہ
جدھر سب کی نگاہیں ہیں ادھر دیکھ
وہ ناز وہ ادائیں دل مبتلا کے ساتھ
خود پہنچ جائے گی آخر تری تا دور سمجھ
وہ اس کی جھوم کے انگڑائیاں خدا کی پناہ
وہ چشم مست وہ ترچھی نظر معاذ اللہ
گیسوورخ کی کراماتیں نہ دیکھیں ہوں تو دیکھ
بات اپنی رکھ اے سخن ہمیشہ
زنداں ہے مجھے وطن ہمیشہ
کٹتی ہے بری طرح جوانی
ردیف ی
غم سے اس دل کو نہ میل اور نہ ساز آتا ہے
زباں پہ آہ کے ساتھ اس کا نام آتا ہے
کہیں سے جب صداکے نالہ وفریاد آتی ہے
بھولے بھٹکے جو صبا تاقفس آجاتی ہے
رہیں چشم و دل سلامت ہمیں کیوں قرار آئے
لگا کے آس ہم اے پیر مے فروش آئے
نزع میں لے کے وہ دشمن کو سرہانےآئے
غیر کی یاد مجھے نزع میں گر ؤئے گی
کہاں تیری سی ہمت اے ہجوم آرزو اپنی
اپنے گدا کو خود وہ پکارے اٹھ مرے کالی کملی والے
صورت یار سے مقصود ہے قدرت اس کی
بہ دل جمعی جئے جب تک جئے جینا اسی کا ہے
اک ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
نگاہ باں ہیں کچھ ایسے اداو ناز ان کے
سیر کر سیر جو ہے دیدۂ بینا باقی
اے جان دو عالم تری شان اور ہی کچھ ہے
لبوں پہ رندوں کے میکدے کی شکایتیں ہیں مدام باقی
ہوس عیش نہ امید بقا باقی ہے
مشاعروں میں رہا کیا بھلا کہ اب فن نظم
ہنوز جوش تن رعشہ دار باقی ہے
گھنٹے بھی گھڑی کے وصل کی شب افسوس کہ بے آئین بجے
کیا تم میں اس صنم کا کوئی ہے نظیر بھی
اب اہل دل کے ہونے لگے امتحاں بھی
مجھ سا عاشق کوئی بالفرض اگر پاؤ بھی
تو سہی تجھ کو مروت جو ذرا بھی آئے
نالے کیسے دل میں آہ سرد بھی یوں ہی سی ہے
ظاہر میں اک نیاز تھا وہ بات بھی گئی
نہ چین اس عقل کے ہاتھوں نہ آسائش ذراپائی
دنیا کو جھینکتے ہیں عبث اہل فن پڑے
اٹھاے اپنے چہرے سے نقاب اے یار تو پہلے
لکھا ہے مجھکو یہ اس سال کے محرم نے
تھا اسی آستاں پہ سر پہلے ہم آپ دو نہ تھے
کیوں نہ امید رکھے ہر کس و ناکس تجھ سے
دہن سے دیر میں نکلی تھی کعبے میں فغاں پہونچی
لبوں پہ دم ہے تڑپتے ہیں درد مند ترے
پرے ہے عرش سے بھی سوز عشق آہ تری
داغ وحشت مرے سینے سے مٹایا تونے
نوتواں ہوں مدد اے دست خدا تھوڑی سی
ہجر اور یہ دل اسی کی شان تھی
مرے دانتوں کی عمر اے آرزو مجھ سے بھی چھوٹی تھی
یا بڑھاپا ہے یا جوانی تھی
آگ الفت کی بڑھاپے میں بھی کب جاتی ہے
بڑھے جاتے ہیں دکھ یہ عمر جوں جوں گھٹتی جاتی ہے
ستم سے ان کی غرض کیا ہے کوئی کیا جانے
شب فراق میں اور آہ بے اثر جائے
مرے نغموں سے دل پھولوں کا اور بے وجہ مل جائے
جو تری راہ میں پائے سلوک تھک جائے
اب ٹالئے نہ حشر پہ بس مان جایئے
دعائیں نہ یوں بے اثر جائیں گی
ہزار موقع اظہار مدعا چاہئے
پہلی ہی ان کی راہ میں جان عزیز کھو چکے
ضعیفی ہمیں دور پہونچا چکی ہے
اس پیر آسماں کا بچپن تھا جب چلے تھے
رہا کیا ہے دل ویراں میں اک ارمان خالی ہے
بظاہر مدح کے قابل ہیں سب سامان دنیا کے
نظر ٹھہرا کے دیکھ اونقش باطل دیکھنے والے
اگر ممکن نہ ہوگا زر تو ان قدموں پہ سر دیں گے
تیرے در کے فقرا پہلے ہی کیا رکھتے تھے
محبت کاش اتنی جان رکھ لے
قضا سے اپنی موئے ہم ہماری بات رہی
ہم جوانی میں اجل کے ہو رہے
نہ سر میں سودا نہ لب پر آہیں نہ دل میں اندر فغاں رہے گی
تری گلی میں پہونچ گئے ہم تو یاد رکھ عمر بھر رہیں گے
اچھا ہے دم نزع جو بے ہوش رہیں گے
حباب سے بھی زیادہ ہے دم رہے نہ رہے
نہ لے اک نازنیں کے واسطے خواری زمانے کی
ترے یہاں ہیں جہاں بٹھا سر عرش روئے زمیں سہی
کچھ اس سے کہہ یہ تقاضائے دل ہے مدت سے
تمام رات ہلے بھی نہ ان کی چوکھٹ ہے
کان میں کہہ دو ذرا مے نوش سے
منتشر ہے دل تری چشم غلط انداز سے
رہ رہ کے اک دھواں سا نکلتا ہے خاک سے
ہم ہیں اور باتیں شب غم ہیں دل ناکام سے
رکھا ہے دل عزیز تجھے اپنی جان سے
گھبرا کے یہی کہتے ہیں اب عمر رواں سے
خجل کیا ابھی واعظ کو یوں اشروں سے
پئیں چھپ چھپ کے ساقی اور چھپائیں ہم سے یاروں سے
احوال ہے برہم اعضا کا اس دل کے شہادت پانے سے
بڑی امید رکھتا ہوں تری مشکل کشائی سے
کوئی مرتا نہیں بے موت آئے دل لگانے سے
عشق آپ کا ہماری حقیقت سے بڑھ کے ہے
کہیں کیا کس قدر ہم چھٹ کے جان زار سے روئے
ترے کوچے میں ہیں پڑے ہوئے ترے نام سے ہمیں کام ہے
اک جہاں زیر و زبر نالۂ شب کرتا ہے
غضب آتا رہ ورسم وفا کچھ بھی جو کم کرتے
نگاہ یار عاشق کو جلا کر خاک کرتی ہے
بتا دلا تجھے کیا کیا ملا دعا کرکے
میرے سب عیب دکھائے مجھے شیدا کرکے
مشقت کے سوا کیا مل گیا مشق سخن کرکے
برائے نام جہاں میں قیام کرکے چلے
ہر ایک شے میں وہی ہے یہ دل نشیں کرلے
اشاروں ہی میں کچھ اپنا سا کام کرلیتے
عاشق ہزار عرض کرے التجا کرے
جو مرض کوئی ہو دوا کرے جو بلا ہو سر پہ دعا کرے
چھری پھرائے گلے پر قفس میں بند کرے
اکڑ کے دوش پہ کیوں کر نہ زلف ناز کرے
بھلی بنا دیں گے اپنی قسمت عوض جفا کے وفا کریں گے
ہے کرم جس کا نتیجہ وہ جفا کون سی ہے
فلک ہے درپے ایذا یہ چال کس کی ہے
دیکھتا ہے کسی پردہ میں تماشا کوئی
ستم کو ظلم نہ بیداد کو جفا کہئے
پچاس سال سے ہے شاعری کا شوق مجھے
خوداپنا حال کہا ان سے اس طرح جا کر
جو رات کٹ گئی ہے کیا آئے گی نہ اب کے
جو مرنے والے تھے اے جان مر رہے کب کے
ہائے کیا بات آپ کے لب کی
تامرگ دل نے بات نہ مانی طبیب کی
حیرت زدہ ہوں اپنی جوانی سے چھوٹ کے
کیوں فکر مرنے والوں کو ہے تیری دید کی
سنتا ہے کون اپنے دل داغ دار کی
مشتاق روح ہے کسی عالی وقار کی
ہر چند ہیں مذاق تصوف میں اپنے شعر
میں وقت نزع چار طرف تھا جو ملتفت
مے کی سبیل رکھتے ہیں رستہ میں دیر کے
آثار کچھ نہیں مرے سینے میں داغ کے
اے شاد تجھ سے حال زمانے کا کیا کہوں
مے خانے میں پہونچ گئے ہم گھوم گھام کے
ولولے پھر بھی غنیمت ہیں دل مغموم کے
نظر میں خلق کہ حرمت نہ رکھی بادہ خواروں کی
دیکھے گئے نہ جوروستم آسمان کے
بھلا منظور ہو اپنا تو خدمت کر فقیروں کی
ہماری قبر پہ ہے بھیڑ خوش جمالوں کی
مجلس وعظ بھی صحبت ہوئی دیوانوں کی
طبقے فلک سے لاکھ ملاؤں زمین کے
دل کو از بسکہ خوشی رہتی ہے بیماری کی
شمع سر دھنتی ہے تصویر ہے گھبرانے کی
تمنا مر کے بھی ہے دولت دیدار پانے کی
لاش پر بھی قسم ہے آنے کی
ہوئی تاب و تواں رخصت گئے دن زندگانی کے
کرو وہی کہ جو ہوں کام کر گزرنے کے
نہ خوش زمیں سے نہ آسماں سے خدا ہی جانے ملال کیا ہے
فلک کا ذکر تو کیا ہے زمیں کے بھی نہ رہے
تا مرگ لو لگی ہوئی کوئے بتاں کی تھی
بھول نہ اس کو دھن ہے جدھر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
ہوس ہے اک طرح کی ورنہ دل کو جستجو کیسی
جہاں میں بکتی ہیں نایاب سینکڑوں چیزیں
یوں تو عاشق ترے مر رہتے ہیں مرنے کے لئے
شہنا میں دل نواز صدا کس بلا کی ہے
کچھ تو پھولوں سے تسلی دل کا ناکام کی ہے
بے دل کی ہیں آنکھیں دیکھنے کی اور منہ میں زباں بھی نام کی ہے
آفتاب روز محشر تاب ان گالوں کی ہے
ہجر کا جھونکا پڑا غش کھا گئے
کیوں ساقیا ہماری ہی قسمت کی گھٹ گئی
اب کیا نہر کی قدر وہ اہل ہنر گئے
کیا ہم سے چھوٹ کر کسی منزل میں مرگئی
کل شب کو ان رخوں سے جو گیسو سرک گئے
ہنسا تھا آپ پہ گل یوں کہ عقل چوک گئی
مرغان باغ دیکھ کے تجھ کو مچل گئے
آیا پیام وصل تو سب غم نکل گئے
عدو کے دل کی گرہ اک نگہ میں کھول گئے
ہنسنا تو کیا کہ رونے رلانے کے دن گئے
کیا سمجھ کر پھر دوبارہ شاد مے خانے گئے
تری گلی میں جو عاشق نہ مر گئے ہوتے
تجھی کو تیرے مسافر اگر نہ پائیں گے
یوں ہی راتوں کو تڑپیں گے یوں ہی جان اپنی کھوئیں گے
اب بھی جو سال بھر یہ چمن میں نہ آئے گی
کسی کی بات بھلا اس کے دل پہ کیا لگتی
وہ میری قبر پہ جب بے نقاب آنے لگے
شیخ ذکر گلشن فردوس فرمانے لگے
اے دل جو چھوڑا تو نے بھی مر جاؤں گا پہ جان لے
پڑا ہوا تھا دل اس کوچہ میں اٹھا لیتے
الگ سے جام الگ سے الگ سبولیتے
کوچہ سے ترے مرقد میں بھی رسوائی و ذلت لے کے چلے
ساقی اٹھا بھی لے مرے آگے سے جام مے
ساتھ دل کے کب فقط اے آہ تو مشکل میں ہے
ہمارے حصے کی ساقی کبھی تو آہ ملے
دن لڑکپن کے یاد کرائے شاد
دل یہ چلاتا ہے نکلی نہیں حسرت میری
کرے اے ذرہ پرور خلق حرمت میرے دیواں کی
ہیچ ہے تیری ہی آنکھوں میں جو ہستی میری
کدورت اے دل محزوں کہاں نکلتی ہے
یقیں یہ ہے کہ مر جانے پہ سارا حوصلہ نکلے
نہ دوست اور نہ کسی کا کوئی عدو نکلے
وہ زمانہ وصل کا کیا ہوا کبھی آشنائے جفا نہ تھے
مرنے والوں کی وہ آنکھیں نہ رہیں دل نہ رہے
بتوں سے مجھ کو مقدر کبھی جدا نہ کرے
خلش تھی مے سے جو زاہد کو آج تک نہ گئی
ملا بھی تو مگر اے یار جستجو نہ گئی
جہاں جانا تھا جب وہیں نہ گئی
ہماری روح جہاں سے کشادہ رو نہ گئی
اگر نہ چونکوگے سونے والو تو اور کیا کیا ستم نہ ہوں گے
وہ شاید تو نہیں وہ ہم نہیں جو ہم نے سمجھا ہے
عاشق کا اگر دل نہ دکھائے نہیں بنتی
کسی دل کو محبت کی اگر نعمت نہیں ملتی
کیوں بزم میں ساقی کوئی سرشار نہیں ہے
پیری میں امنگیں نہیں وہ جوش نہیں ہے
دیکھا نہ روئے عیش مرے دل غریب نے
چوٹوں پہ چوٹ کھائی دل بے قرار نے
خراب دل کو کیا وصل کے خیالوں نے
جہاں سے جاتے ہیں اب جی کو ہارنے والے
سینہ وہی ہے دل وہی ہم وہی مدعا وہی
بڑھی جاتی ہے ناتوانی ہماری
کہاں اے جوش سودائے جنوں آشفتہ تر ہم سے
تھکے تو بیٹھ گئے راستے میں آخر کار
عوض تدبیر غم کے جان کھونا ہم کو آتا ہے
شراب دیکھ کے دل بے قرار ہوتاہے
نئے عذاب میں خود روح مبتلا ہیں
گر مجھے بھی پر پرواز میسر ہوتے
کہیں گرفت نہ میری زباں کی ہوتی
رقیبوں سے جفاؤں کے عوض کچھ تو لئے ہوتے
نہ کیوں نگاہ میں واعظ کی مے بری ہوتی
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
شراب ناب کی قیمت اگر سوا ہو جائے
دل کو آرام ملے بات جو اک سو ہو جائے
دل پہ نگہ کا زخم ہے کاری ہو چکا جینا اب نہ جئیں گے
رہے بھی ہم تو سریع الزوال ہوکے رہے
زندگی تک ہجر کی حد ہو گئی
بدلی وہ وضع طور سے بے طور ہو گئی
ایسی ہی وجہ تھی جو وہ مجبور ہو گئے
ترے انتظار میں جب مری چشم باز ہوگی
سر گراں اور گنہگار پہ رحمت ہوگی
نہ آرزو نہ کسی شیٔ کی جستجو ہو گی
چھری بغیر ادا پر حلال ہونے لگے
پانی ہوئے کہ خاک ہوئے یا ہوا ہوئے
گستاخ بلبلوں سے بھی بڑھ کر صبا ہوئی
آنکھوں سے سدھاری بینائی سنّے سے معطل گوش ہوئے
تب تو مرنے پہ بھی ضائع مری اوقات ہوئی
کون سی بات نئی اے دل ناکام ہوئی
دیکھنا غافل ذرا دنیا کو پہچانے ہوئے
ہر اک طرف سے جو بیٹھے ہیں ہاتھ اٹھائے ہوئے
عمر بھر تھے جو ترے ہجر میں دکھ پائے ہوئے
بزرگان عظیم آباد ! گہری نیند سے چونکو
کٹھن ہے خوف و رجا کی منزل اسی کا رہرو کو سامنا ہے
فدا ہے رنگ صبح پر دل نمونہ صبح بہشت کا ہے
تکلم کا مرا دم میں ہوا ہے
پروا نہیں گر مرتکب جرم و خطاہے
جلوۂ حسن خدا ساز ستم ڈھاتا ہے
بجز اس نازنیں کے کب کوئی دل میں سماتا ہے
اگر اک آبلہ بھی دل کا اپنے پھوٹ جاتا ہے
گلے میں طوق بیڑی پاؤں میں ہاتھوں میں پھندا ہے
نہ درد دل پہ حکومت نہ تو ہمارا ہے
سیہ خانہ ہے دنیا نور کو ظلمت نے گھیرا ہے
پس ازمعشوق مرنا عشق کو بدنام کرنا ہے
سوچ کر اور بھی جی کھونا ہے
گھتا کرتا ہوں جی لگتا نہیں یہ کون جینا ہے
آپ ہیں اور مجمع احباب ہے
سمجھ لے فضل نہ جب تک کہ تو معاتب ہے
پچاس سال کی برباد سب ریاضت ہے
فلک روئے نہ کیوں کر اب عظیم آباد کے اوپر
میں جان وطن بھی ہوں قربان وطن بھی ہوں
کالی کالی آنکھیں ہیں اور گوری گوری رنگت ہے
بڑوں کی عزت وحرمت سے اپنی عزت ہے
اے عشق حسن کو نہ تجھی کو ثبات ہے
برسوں سے خوگرفتۂ فرقت مزاج ہے
دو جان اس کے درپہ ہماری صلاح ہے
بت کدہ ہے کہ خرابات ہے یا مسجد ہے
درد دست پر ہوں جھکائے سر مرے دل کو شوق نیاز ہے
کیوں ہر اک فقرہ نشاط انگیز ومعنی خیزہے
ہے شیخ تارک دنیا مگر تکلف ہے
مکتب میں عاشقی کے پہلا یہی سبق ہے
ترے ہجر میں زندگی جاں گسل ہے
حاضر ہے گر پسند ہو کیا دل کا مول ہے
ہو سفر ملک عدم کا مجھ کو خود تعجیل ہے
کمال دل کو خوشی ہوئی تھی کہ عشق دنیا میں مغتنم ہے
اے چشم رات دن تجھے رونے سے کام ہے
ہمیں کیا ہوا جو بدل گئے بڑی حیرتوں کا مقام ہے
کسی کی لو ہے جو سینے کا داغ روشن ہے
اب اس زندگانی کا سودا گراں ہے
بند آنکھیں ہیں کسی کا دھیان ہے
غرض نہ کچھ ماہ و مشتری سے نہ مجھ کو سورج سے گفتگو ہے
وہ سبق سیکھ کہ دل جس پہ نظر دوختہ ہے
زمیں میں ہم ہیں بالائے زمیں اپنا فسانہ ہے
سرکار دل کے ہوش ربائےزمانہ ہے
ان لغزشوں کا اصلی سبب ان کی چاہ ہے
نہ دن آتا نہ جاتا ہے نہ رات آتی نہ جاتی ہے
ہزار مژدۂ تازہ صبا سناتی ہے
مست وہ ہے کہ جسے الفت مے ذاتی ہے
یہاں تو شوق میں اے موت جان جاتی ہے
پروانے کی میت جب یوں آگ میں جلتی ہے
کس سے تاراجی گلزار کی فریادی ہے
سحر سے آہ بہت مضمحل ہماری ہے
یہ رات زخمی تیغ نگہ پہ بھاری ہے
گل بھی وہ رخ بھی گو لباسی ہے
تمہارا وعدۂ فروائے وصل کافی ہے
لکھا برگ گل پر بہ خط جلی ہے
مصیبت پر خموشی مقتضائے طبع عالی ہے
ہزاروں آرزوئیں ساتھ ہیں اس پر اکیلی ہے
دل نہیں مانتا مرا یہ بھی گلہ ہے آپ سے
خوف کی منزل راہ عدم ہے جاگ کے سواے نیند کے ماتے
درد وغم نقش ترا دل سے مٹاتے ہی رہے
ان سے رستے کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی
جگر اور دل کی کیا کہئے عجب بے غم یہ دونوں تھے
رخ کو ترے کہتا ہوں کہ قرآن یہی ہے
رباعیات
حقا کوئی صابر نہیں جز آل عبا
ضمیمہ ۱
ضمیمہ ۲
پہلے مصرعوں کا اشاریہ
غلط نامہ کلیات شاد ، جلد اول
غلط نامہ کلیات شاد ، جلد دوم
سرورق
فہرست
غزلیات وقطعات
اے مظہر شان خدا اپنے تو ایماں آپ ہیں
بپا ہے غم تن وجاں کی ہے رخصت آپس میں
ردیف ن
جب تلک سینے میں ہیں نالۂ شب اپنے ہیں
مکلف ہے اگر اے دوست سن تکلیف شرعی کو
کھوٹا نہ کہہ جو اہل ہنر بولتے نہیں
قابل بیاں کے ہجر کی روداد بھی نہیں
کیا دل کو رووں ریدۂ غمناک بھی نہیں
تری جناب میں عاشق جو آئے بیٹھے ہیں
کیسی ہیں زمانے کی چالیں انصاف کرو تم اہل جہاں
مصائب روح پر جو کچھ گزرنے ہیں گزر جائیں
سرد ہوا تاریک جہاں آ آ کے گھٹائیں کالی جائیں
ہمراہ دل کے ہوں گے یہ دم ساز حشر میں
غضب کے رنج یہ صاحب جمال دیتے ہیں
عدو دیکھیں خوشی احباب تیرے رنج وغم دیکھیں
آپ کیا غیر کی صحبت میں نہیں رہتے ہیں
گرم ہوں یا نامہ بر پر غیظ فرماتے رہیں
نہ کہیں صاف مگر آپ کے شیدا سب ہیں
اے آہ تھم کہ بزم میں ہم بار پا سکیں
میں اس صحفے کے ہر نقش کو کامل سمجھتا ہوں
خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں
الفت میں تری پاک ہر الزام سے ہم ہیں
احوال پر ہمارے تمہیں غور کچھ نہیں
مجھ میں اگر تری ادا کچھ بھی نہیں تو کچھ نہیں
تجھ سے کیا کچھ نہیں اے عشق طلب کرتے ہیں
بتان ماہ رو جب جب نئی بیداد کرتے ہیں
میں نے مانا وہ بہت ہم پہ کرم کرتے ہیں
دل میں پیدا اثر جذب محبت کرلیں
سخن حق زباں سے کہتے ہوئے
اے اجل انصاف کرتا چند منہ تاکا کریں
فرمائیے نہ ضبط کریں ہم تو کیا کریں
ان کو اسی سے شوق ہے ظلم کریں جفا کریں
غریب خانہ میں وہ آکے سرفراز کریں
نالوں میں جذب آہ میں پیدا اثر کریں
تھکے ماندے لحد میں ہم تو مر رہنے کو آئے ہیں
بس آپ گرد کدورت سے دل کو صاف کریں
دعا میں مے کشواب ہو اثر کوئی تو ہم جانیں
کہاں گلوں کے وہ تختے وہ لالہ زار کہاں
ہر وقت خوشی میں کٹتی تھی وہ صبح کہاں وہ شام کہاں
دل گیا سینے سے جب اپنے تو آزادی کہاں
کیا جفاؤں کو بھی سفاک وفا کہتے ہیں
عوام آپ کو نازک مزاج کہتے ہیں
فریفتہ ترے جس کو نیاز کہتے ہیں
نہ آئینے کا قصہ اور نہ حال شانہ کہتے ہیں
عمر بھر سہتے ہیں کس طرح جفا کیا جانیں
جو اس کے دل میں ہے قاصد وہی ستم کہہ دیں
عجب طرح کی لذت چھپا کے پینے میں
ناز کرشمہ ساز کیوں غمزۂ دل نواز کیوں
کہاں یہ تاب کہ چکھ چکھ کے یا گراکے پیوں
کوئی ماتم کرے میرے لئے کیوں
عبث کیوں پوچھتے ہو یار کے ظلم وستم کیوں ہیں
تری آہٹ جدھر پائی ادھر رکھا قدم اپنا
مرے ارمان مہماں اس دل درد آشنا کے ہیں
نعمت ہیں حسرتیں جو دلا انتہا کی ہیں
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
جس دن سے آکے اس دل ویراں میں بس گئیں
ترے فراق کے صدمے جو بڑھنے لگتے ہیں
جو ان کے کان کے موتی جھلکنے لگتے ہیں
کبھی دم بھر گرہ دل کی بہ مشکل کھول لیتے ہیں
انھیں دیکھو کہ اب تک عظمتوں سے کام لیتے ہیں
جو تنگ آکر کسی دن دل پہ ہم کچھ ٹھان لیتے ہیں
بے خبر آج ہر اک کام سے ہو لیتے ہیں
اک غم فقط نہیں ہے دل ناشکیب میں
آمادۂ سفر ہوں جہان خراب میں
ہم اور سیر لالہ و گل ہجر یار میں
مسلمانوں بتاؤ کیا مزا ملتا ہے غفلت میں
غضب ہے مرے دم حسرت کا ہونا دیدۂ تر میں
بظاہر آلودہ سم ہے جس میں بھرا ہے امرت اسی نظر میں
غرور باعث ذلت ہے تو نہ پڑاس میں
اسلام و کفر کچھ نہیں آتا خیال میں
رہا نہ حوصلہ صبر پاک بازوں میں
جہاں تک ہو بسر کر زندگی عالی خیالوں میں
ہزار شکر کہ اے تیغ اب ہمیں ہم ہیں
الفت بتوں کی حق ہے ہمارے یقین میں
رسوائیوں کی حد نہ رہی تیری راہ میں
اسی کے واسطے چنتا پھروں تنکے زمانے میں
نہ بدخوانی نہ بیتابی کوئی تربت کے سونے میں
اگر چلتا حیات و موت کا جھگڑا جوانی میں
کشا کش میں ہجوم یاس میں مشکل میں رہتے ہیں
پہلے پہل کی وہ مری رغبت میں کیا کہوں
زمیں پہ کیا ہے جو اب اس کا آسماں میں نہیں
ہجوم گل نہیں یا بلبلیں چمن میں نہیں
کہاں ہے آیا کہاں ہے جانا میں کون ہوں کس دیار میں ہوں
عظیم آباد کے اوپر خدا کی لعنت ہے
خدا کے فضل سے پینسٹھ برس کی عمر ہوئی
اس کے سوا کسی سے مجھے کچھ گلا نہیں
وہی زمیں ہے وہی آسماں وہی شب ہجر
بیڑیوں سے تیرے دیوانے کو اب چارا نہیں
دل کو لگا رکھنے کی عادت نہیں
پتھر وہ دل ہے جس میں کہ جلوہ گر نہیں
اپنا تو رہ روان عدم تک گزر نہیں
نیاز و نیاز میں کچھ جس کو امتیاز نہیں
وفور درد کہ دل میں ہجوم یاس نہیں
غضب کی ان میں متانت ہے کچھ کلام نہیں
اے دیدہ و دل اے روح و بدن تم میں سے کوئی ناکام نہیں
وجہ حیات آپ ہیں روح سے آپ کم نہیں
ہم زبان اپنا وہ کافر نہ ہوا امکان نہیں
یہ نالہ کون سے کوچے کا پاسبان نہیں
ایسا نہیں کہ پہلے وہ جانتے نہیں
ارماں نہیں کہ دل میں کوئی آرزو نہیں
اس دل سے بڑھ کے ہجر میں کوئی جری نہیں
وہ اور ہوں گے جو منزل پہ لانے والے ہیں
وہ خوش نگاہ نہیں جس میں بے وفائی نہیں
بد عہد وہی بلکہ دل آزار وہی ہیں
یہ سب ارض و سما آزد ہیں آزاد ہم بھی ہیں
خدا کرے ترے رخ کی بہار ہم دیکھیں
نہ ان سے ہم جدا ہیں اور نہ بے مہرو وفا ہم ہیں
جسم کا ساتھ چھٹا آپ سے باہر ہم ہیں
صدا غیروں کی سن سکتا ہے جس کو کان ہوتے ہیں
آرام سے ہوں قبر کے اندر جو بند ہوں
کون سی شب ہے جو غفلت میں بسر ہوتی نہیں
سر سے پا تک عیب ہوں ہر طرح نامحمود ہوں
اے دوست آج کون نہیں جانتا مجھے
حیا کشتۂ چشم مست بتاں ہوں
ٹھکانا کیا مرا اک عمر گزری در بدر ہوں میں
کسے دماغ عزیزوں سے ہم کلامی کا
نہ پوچھو حال میرا دوستوں اندوہ گیں ہوں میں
بے موت دور کب ہوں بھلا جو حجاب ہیں
جو اس جہاں میں ہیں وہ بڑے خوش نصیب ہیں
شب غم یہ کہتی ہے اک فقط ہمیں تیرے اہل وداد ہیں
یہ وہی دل ہے وہی ہم شاد ہیں
لینے ہیں غم سے داغ داغ پہلوودل فگار ہیں
شاد کیا ابنائے عالم کی شکایت کیجئے
آپس کی باتیں ہیں یہ سب کچھ رمز کچھ اسرار ہیں
کیا جانیں کس چمن میں مرے ہم صفیر ہیں
امر حق کہنے میں جو بے باک ہیں
اسے ہم کیا کہیں کیوں اپنی توبہ سے پشیماں ہیں
جفا کسی پہ گھڑیوں کسی سے باتیں ہیں
زاہد کا وصف کیا ہو عجب برگزیدہ ہیں
کہیں کیا اے ہجوم بے کسی اپنے وطن کی ہم
وفا کے مدعی شکوہ جفا کا لب پہ لاتے ہیں
فنا کے بعد لحد پر وہ آکے روتے ہیں
کون کہتا ہے رواں سوئے عدم ہوتے ہیں
بہار آئی گل وریحان و سنبل پھر نکھرتے ہیں
بغل میں غیر کی ہیں غیر ہی کے پیررے ہیں
کئی ہزار کا بلوہ ہے خود اکیلے ہیں
نہ ہو وفا تو پھر ایسوں کے کیا ٹھکانے ہیں
پروں کے ڈھیروں میں ویراں چمن میں آشیانے ہیں
مری تلاش سے مل جائے تو وہ تو ہی نہیں
جو زندہ جاوید ہیں مرتے ہی نہیں ہیں
احدی کی طرح کب تک تنہا رہوں وطن میں
ہوں گی زیادہ اس سے بھی عشق میں جگ ہنسائیاں
بار جن کلیوں پہ تھیں پرچھائیاں
بیاں اپنی کشتی کا ہم کیا سنائیں
دن لڑکپن کے بہت اچھے تھے لیکن کیا کروں
ردیف و
نغمے سب یار ہیں صیاد کو پاس آنے دو
یہ سب درست کہ تم بت بھی ہو خدا بھی ہو
منہ نہ بسمل سے پھراتے جاؤ
جو سانس بھی ہے تو آس بھی ہے جو یہ نہیں ہو تو وہ نہیں ہو
جوبن پڑے تو اسی در پہ جاکے مر دیکھو
کیوں کہو غیر کے آنے کا سبب جانے دو
اپنی ہستی کو غم و درد و مصیبت سمجھو
کویں بتو تم تو ستم نت نئے ایجا کرو
نقاب اک دن الٹ دینا تھا اس روئے دل آرا کو
پلٹ کر نہ دیکھے کبھی رہ نما کو
ہوں وہ بلبل قید رکھے گا جو مجھ ناشاد کو
دھوکے نہ دے اے آرزو اس ہستی نابود کو
کشیدہ رکھو گے مجھ سے کب تک تم اپنے ابروئے جانساتاں کو
نہ بھولے مرتے دم تک مصحف رخسار جاناں کو
غرض کیا راحت و آرام سے آفت رسیدوں کو
نصیحت کرکے تڑپاتے ہیں ناحق دل فگاروں کو
دیا نہ تو نے کفن اپنے سر فروشوں کو
کریں برسوں ریاضت عرش تک پہنچائیں نالوں کو
دکھا دیں ہر طرح کی خوبیاں ان نوجوانوں کو
شب غم میں کیا ہے ضبط کیا کیا دل نے نالے کو
تڑپ جاتا ہے دل جب سوچتا ہوں اس فسانے کو
میسر جن کا تھا دیدار بے کھٹکے زمانے کو
چپکے بیٹھے ہیں جو آئے بھی ہیں سمجھانے کو
جہاں میں کیوں نہ محبت کا نام مجھ سے ہو
جو کچھ اس ہاتھ سے ہو سب ہے گوارا مجھ کو
جب میں کہتا ہوں گوارا میری ذلت نہ کرو
غلط ہے ادعا اپنا نہ ہم ہم ہیں نہ تم تم ہو
زیست کا حوصلہ نہ ہو مرگ کا آسرا نہ ہو
نازک مزاج ہے کہیں وہ بت خفا نہ ہو
پیش نظر جو واقعۂ کربلا نہ ہو
ہم سے وہ اڑ چلے اپنی خبر نہ ہو
ان کو خوشی تیری دلا مد نظر ہو یا نہ ہو
ہنگام نزع دل کو کشاکش ہے کس قدر
نازک ہے مرا دل حد سے سوا یہ ظلم مشہور نہ ہو
کوئی دم ہے اجالا پھر اندھیرا ہے وطن والو
سروں پہ رکھ رکھ کے ہاتھ اک دن جفائے پیری سے رونے والو
خوش ہیں گر تشنہ لبی نے یوں ہی مارا ہم کو
بت کہتا ہے کوئی کوئی کہتا ہے خدا ہو
افعال تو یہ اس پہ طلب گار جزا ہو
زہے نصیب جو ایسا کوئی زمانہ ہو
خوشادہ دن کہ وصل ساقی مہ وش میسر ہو
مجھ سا فقیر آپ سے راز و نیاز ہو
آئے بہار یا خدا الالہ و گل کو جوش ہو
ہے عطا تری ہے کرم ترا وہ ستم کہ جس میں دوام ہو
رہے افساں قرینے سے کہیں ہو
جو رات شب وصل کے ہے نام ہے مشہور
بھلا کہئے طریق عشق ہم سے کس طرح طے ہو
ردیف ہ
جھگڑے کہاں تک کر قصہ کوتاہ
آئے گا وہ یار استغفراللہ
جدھر سب کی نگاہیں ہیں ادھر دیکھ
وہ ناز وہ ادائیں دل مبتلا کے ساتھ
خود پہنچ جائے گی آخر تری تا دور سمجھ
وہ اس کی جھوم کے انگڑائیاں خدا کی پناہ
وہ چشم مست وہ ترچھی نظر معاذ اللہ
گیسوورخ کی کراماتیں نہ دیکھیں ہوں تو دیکھ
بات اپنی رکھ اے سخن ہمیشہ
زنداں ہے مجھے وطن ہمیشہ
کٹتی ہے بری طرح جوانی
ردیف ی
غم سے اس دل کو نہ میل اور نہ ساز آتا ہے
زباں پہ آہ کے ساتھ اس کا نام آتا ہے
کہیں سے جب صداکے نالہ وفریاد آتی ہے
بھولے بھٹکے جو صبا تاقفس آجاتی ہے
رہیں چشم و دل سلامت ہمیں کیوں قرار آئے
لگا کے آس ہم اے پیر مے فروش آئے
نزع میں لے کے وہ دشمن کو سرہانےآئے
غیر کی یاد مجھے نزع میں گر ؤئے گی
کہاں تیری سی ہمت اے ہجوم آرزو اپنی
اپنے گدا کو خود وہ پکارے اٹھ مرے کالی کملی والے
صورت یار سے مقصود ہے قدرت اس کی
بہ دل جمعی جئے جب تک جئے جینا اسی کا ہے
اک ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
نگاہ باں ہیں کچھ ایسے اداو ناز ان کے
سیر کر سیر جو ہے دیدۂ بینا باقی
اے جان دو عالم تری شان اور ہی کچھ ہے
لبوں پہ رندوں کے میکدے کی شکایتیں ہیں مدام باقی
ہوس عیش نہ امید بقا باقی ہے
مشاعروں میں رہا کیا بھلا کہ اب فن نظم
ہنوز جوش تن رعشہ دار باقی ہے
گھنٹے بھی گھڑی کے وصل کی شب افسوس کہ بے آئین بجے
کیا تم میں اس صنم کا کوئی ہے نظیر بھی
اب اہل دل کے ہونے لگے امتحاں بھی
مجھ سا عاشق کوئی بالفرض اگر پاؤ بھی
تو سہی تجھ کو مروت جو ذرا بھی آئے
نالے کیسے دل میں آہ سرد بھی یوں ہی سی ہے
ظاہر میں اک نیاز تھا وہ بات بھی گئی
نہ چین اس عقل کے ہاتھوں نہ آسائش ذراپائی
دنیا کو جھینکتے ہیں عبث اہل فن پڑے
اٹھاے اپنے چہرے سے نقاب اے یار تو پہلے
لکھا ہے مجھکو یہ اس سال کے محرم نے
تھا اسی آستاں پہ سر پہلے ہم آپ دو نہ تھے
کیوں نہ امید رکھے ہر کس و ناکس تجھ سے
دہن سے دیر میں نکلی تھی کعبے میں فغاں پہونچی
لبوں پہ دم ہے تڑپتے ہیں درد مند ترے
پرے ہے عرش سے بھی سوز عشق آہ تری
داغ وحشت مرے سینے سے مٹایا تونے
نوتواں ہوں مدد اے دست خدا تھوڑی سی
ہجر اور یہ دل اسی کی شان تھی
مرے دانتوں کی عمر اے آرزو مجھ سے بھی چھوٹی تھی
یا بڑھاپا ہے یا جوانی تھی
آگ الفت کی بڑھاپے میں بھی کب جاتی ہے
بڑھے جاتے ہیں دکھ یہ عمر جوں جوں گھٹتی جاتی ہے
ستم سے ان کی غرض کیا ہے کوئی کیا جانے
شب فراق میں اور آہ بے اثر جائے
مرے نغموں سے دل پھولوں کا اور بے وجہ مل جائے
جو تری راہ میں پائے سلوک تھک جائے
اب ٹالئے نہ حشر پہ بس مان جایئے
دعائیں نہ یوں بے اثر جائیں گی
ہزار موقع اظہار مدعا چاہئے
پہلی ہی ان کی راہ میں جان عزیز کھو چکے
ضعیفی ہمیں دور پہونچا چکی ہے
اس پیر آسماں کا بچپن تھا جب چلے تھے
رہا کیا ہے دل ویراں میں اک ارمان خالی ہے
بظاہر مدح کے قابل ہیں سب سامان دنیا کے
نظر ٹھہرا کے دیکھ اونقش باطل دیکھنے والے
اگر ممکن نہ ہوگا زر تو ان قدموں پہ سر دیں گے
تیرے در کے فقرا پہلے ہی کیا رکھتے تھے
محبت کاش اتنی جان رکھ لے
قضا سے اپنی موئے ہم ہماری بات رہی
ہم جوانی میں اجل کے ہو رہے
نہ سر میں سودا نہ لب پر آہیں نہ دل میں اندر فغاں رہے گی
تری گلی میں پہونچ گئے ہم تو یاد رکھ عمر بھر رہیں گے
اچھا ہے دم نزع جو بے ہوش رہیں گے
حباب سے بھی زیادہ ہے دم رہے نہ رہے
نہ لے اک نازنیں کے واسطے خواری زمانے کی
ترے یہاں ہیں جہاں بٹھا سر عرش روئے زمیں سہی
کچھ اس سے کہہ یہ تقاضائے دل ہے مدت سے
تمام رات ہلے بھی نہ ان کی چوکھٹ ہے
کان میں کہہ دو ذرا مے نوش سے
منتشر ہے دل تری چشم غلط انداز سے
رہ رہ کے اک دھواں سا نکلتا ہے خاک سے
ہم ہیں اور باتیں شب غم ہیں دل ناکام سے
رکھا ہے دل عزیز تجھے اپنی جان سے
گھبرا کے یہی کہتے ہیں اب عمر رواں سے
خجل کیا ابھی واعظ کو یوں اشروں سے
پئیں چھپ چھپ کے ساقی اور چھپائیں ہم سے یاروں سے
احوال ہے برہم اعضا کا اس دل کے شہادت پانے سے
بڑی امید رکھتا ہوں تری مشکل کشائی سے
کوئی مرتا نہیں بے موت آئے دل لگانے سے
عشق آپ کا ہماری حقیقت سے بڑھ کے ہے
کہیں کیا کس قدر ہم چھٹ کے جان زار سے روئے
ترے کوچے میں ہیں پڑے ہوئے ترے نام سے ہمیں کام ہے
اک جہاں زیر و زبر نالۂ شب کرتا ہے
غضب آتا رہ ورسم وفا کچھ بھی جو کم کرتے
نگاہ یار عاشق کو جلا کر خاک کرتی ہے
بتا دلا تجھے کیا کیا ملا دعا کرکے
میرے سب عیب دکھائے مجھے شیدا کرکے
مشقت کے سوا کیا مل گیا مشق سخن کرکے
برائے نام جہاں میں قیام کرکے چلے
ہر ایک شے میں وہی ہے یہ دل نشیں کرلے
اشاروں ہی میں کچھ اپنا سا کام کرلیتے
عاشق ہزار عرض کرے التجا کرے
جو مرض کوئی ہو دوا کرے جو بلا ہو سر پہ دعا کرے
چھری پھرائے گلے پر قفس میں بند کرے
اکڑ کے دوش پہ کیوں کر نہ زلف ناز کرے
بھلی بنا دیں گے اپنی قسمت عوض جفا کے وفا کریں گے
ہے کرم جس کا نتیجہ وہ جفا کون سی ہے
فلک ہے درپے ایذا یہ چال کس کی ہے
دیکھتا ہے کسی پردہ میں تماشا کوئی
ستم کو ظلم نہ بیداد کو جفا کہئے
پچاس سال سے ہے شاعری کا شوق مجھے
خوداپنا حال کہا ان سے اس طرح جا کر
جو رات کٹ گئی ہے کیا آئے گی نہ اب کے
جو مرنے والے تھے اے جان مر رہے کب کے
ہائے کیا بات آپ کے لب کی
تامرگ دل نے بات نہ مانی طبیب کی
حیرت زدہ ہوں اپنی جوانی سے چھوٹ کے
کیوں فکر مرنے والوں کو ہے تیری دید کی
سنتا ہے کون اپنے دل داغ دار کی
مشتاق روح ہے کسی عالی وقار کی
ہر چند ہیں مذاق تصوف میں اپنے شعر
میں وقت نزع چار طرف تھا جو ملتفت
مے کی سبیل رکھتے ہیں رستہ میں دیر کے
آثار کچھ نہیں مرے سینے میں داغ کے
اے شاد تجھ سے حال زمانے کا کیا کہوں
مے خانے میں پہونچ گئے ہم گھوم گھام کے
ولولے پھر بھی غنیمت ہیں دل مغموم کے
نظر میں خلق کہ حرمت نہ رکھی بادہ خواروں کی
دیکھے گئے نہ جوروستم آسمان کے
بھلا منظور ہو اپنا تو خدمت کر فقیروں کی
ہماری قبر پہ ہے بھیڑ خوش جمالوں کی
مجلس وعظ بھی صحبت ہوئی دیوانوں کی
طبقے فلک سے لاکھ ملاؤں زمین کے
دل کو از بسکہ خوشی رہتی ہے بیماری کی
شمع سر دھنتی ہے تصویر ہے گھبرانے کی
تمنا مر کے بھی ہے دولت دیدار پانے کی
لاش پر بھی قسم ہے آنے کی
ہوئی تاب و تواں رخصت گئے دن زندگانی کے
کرو وہی کہ جو ہوں کام کر گزرنے کے
نہ خوش زمیں سے نہ آسماں سے خدا ہی جانے ملال کیا ہے
فلک کا ذکر تو کیا ہے زمیں کے بھی نہ رہے
تا مرگ لو لگی ہوئی کوئے بتاں کی تھی
بھول نہ اس کو دھن ہے جدھر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
ہوس ہے اک طرح کی ورنہ دل کو جستجو کیسی
جہاں میں بکتی ہیں نایاب سینکڑوں چیزیں
یوں تو عاشق ترے مر رہتے ہیں مرنے کے لئے
شہنا میں دل نواز صدا کس بلا کی ہے
کچھ تو پھولوں سے تسلی دل کا ناکام کی ہے
بے دل کی ہیں آنکھیں دیکھنے کی اور منہ میں زباں بھی نام کی ہے
آفتاب روز محشر تاب ان گالوں کی ہے
ہجر کا جھونکا پڑا غش کھا گئے
کیوں ساقیا ہماری ہی قسمت کی گھٹ گئی
اب کیا نہر کی قدر وہ اہل ہنر گئے
کیا ہم سے چھوٹ کر کسی منزل میں مرگئی
کل شب کو ان رخوں سے جو گیسو سرک گئے
ہنسا تھا آپ پہ گل یوں کہ عقل چوک گئی
مرغان باغ دیکھ کے تجھ کو مچل گئے
آیا پیام وصل تو سب غم نکل گئے
عدو کے دل کی گرہ اک نگہ میں کھول گئے
ہنسنا تو کیا کہ رونے رلانے کے دن گئے
کیا سمجھ کر پھر دوبارہ شاد مے خانے گئے
تری گلی میں جو عاشق نہ مر گئے ہوتے
تجھی کو تیرے مسافر اگر نہ پائیں گے
یوں ہی راتوں کو تڑپیں گے یوں ہی جان اپنی کھوئیں گے
اب بھی جو سال بھر یہ چمن میں نہ آئے گی
کسی کی بات بھلا اس کے دل پہ کیا لگتی
وہ میری قبر پہ جب بے نقاب آنے لگے
شیخ ذکر گلشن فردوس فرمانے لگے
اے دل جو چھوڑا تو نے بھی مر جاؤں گا پہ جان لے
پڑا ہوا تھا دل اس کوچہ میں اٹھا لیتے
الگ سے جام الگ سے الگ سبولیتے
کوچہ سے ترے مرقد میں بھی رسوائی و ذلت لے کے چلے
ساقی اٹھا بھی لے مرے آگے سے جام مے
ساتھ دل کے کب فقط اے آہ تو مشکل میں ہے
ہمارے حصے کی ساقی کبھی تو آہ ملے
دن لڑکپن کے یاد کرائے شاد
دل یہ چلاتا ہے نکلی نہیں حسرت میری
کرے اے ذرہ پرور خلق حرمت میرے دیواں کی
ہیچ ہے تیری ہی آنکھوں میں جو ہستی میری
کدورت اے دل محزوں کہاں نکلتی ہے
یقیں یہ ہے کہ مر جانے پہ سارا حوصلہ نکلے
نہ دوست اور نہ کسی کا کوئی عدو نکلے
وہ زمانہ وصل کا کیا ہوا کبھی آشنائے جفا نہ تھے
مرنے والوں کی وہ آنکھیں نہ رہیں دل نہ رہے
بتوں سے مجھ کو مقدر کبھی جدا نہ کرے
خلش تھی مے سے جو زاہد کو آج تک نہ گئی
ملا بھی تو مگر اے یار جستجو نہ گئی
جہاں جانا تھا جب وہیں نہ گئی
ہماری روح جہاں سے کشادہ رو نہ گئی
اگر نہ چونکوگے سونے والو تو اور کیا کیا ستم نہ ہوں گے
وہ شاید تو نہیں وہ ہم نہیں جو ہم نے سمجھا ہے
عاشق کا اگر دل نہ دکھائے نہیں بنتی
کسی دل کو محبت کی اگر نعمت نہیں ملتی
کیوں بزم میں ساقی کوئی سرشار نہیں ہے
پیری میں امنگیں نہیں وہ جوش نہیں ہے
دیکھا نہ روئے عیش مرے دل غریب نے
چوٹوں پہ چوٹ کھائی دل بے قرار نے
خراب دل کو کیا وصل کے خیالوں نے
جہاں سے جاتے ہیں اب جی کو ہارنے والے
سینہ وہی ہے دل وہی ہم وہی مدعا وہی
بڑھی جاتی ہے ناتوانی ہماری
کہاں اے جوش سودائے جنوں آشفتہ تر ہم سے
تھکے تو بیٹھ گئے راستے میں آخر کار
عوض تدبیر غم کے جان کھونا ہم کو آتا ہے
شراب دیکھ کے دل بے قرار ہوتاہے
نئے عذاب میں خود روح مبتلا ہیں
گر مجھے بھی پر پرواز میسر ہوتے
کہیں گرفت نہ میری زباں کی ہوتی
رقیبوں سے جفاؤں کے عوض کچھ تو لئے ہوتے
نہ کیوں نگاہ میں واعظ کی مے بری ہوتی
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
شراب ناب کی قیمت اگر سوا ہو جائے
دل کو آرام ملے بات جو اک سو ہو جائے
دل پہ نگہ کا زخم ہے کاری ہو چکا جینا اب نہ جئیں گے
رہے بھی ہم تو سریع الزوال ہوکے رہے
زندگی تک ہجر کی حد ہو گئی
بدلی وہ وضع طور سے بے طور ہو گئی
ایسی ہی وجہ تھی جو وہ مجبور ہو گئے
ترے انتظار میں جب مری چشم باز ہوگی
سر گراں اور گنہگار پہ رحمت ہوگی
نہ آرزو نہ کسی شیٔ کی جستجو ہو گی
چھری بغیر ادا پر حلال ہونے لگے
پانی ہوئے کہ خاک ہوئے یا ہوا ہوئے
گستاخ بلبلوں سے بھی بڑھ کر صبا ہوئی
آنکھوں سے سدھاری بینائی سنّے سے معطل گوش ہوئے
تب تو مرنے پہ بھی ضائع مری اوقات ہوئی
کون سی بات نئی اے دل ناکام ہوئی
دیکھنا غافل ذرا دنیا کو پہچانے ہوئے
ہر اک طرف سے جو بیٹھے ہیں ہاتھ اٹھائے ہوئے
عمر بھر تھے جو ترے ہجر میں دکھ پائے ہوئے
بزرگان عظیم آباد ! گہری نیند سے چونکو
کٹھن ہے خوف و رجا کی منزل اسی کا رہرو کو سامنا ہے
فدا ہے رنگ صبح پر دل نمونہ صبح بہشت کا ہے
تکلم کا مرا دم میں ہوا ہے
پروا نہیں گر مرتکب جرم و خطاہے
جلوۂ حسن خدا ساز ستم ڈھاتا ہے
بجز اس نازنیں کے کب کوئی دل میں سماتا ہے
اگر اک آبلہ بھی دل کا اپنے پھوٹ جاتا ہے
گلے میں طوق بیڑی پاؤں میں ہاتھوں میں پھندا ہے
نہ درد دل پہ حکومت نہ تو ہمارا ہے
سیہ خانہ ہے دنیا نور کو ظلمت نے گھیرا ہے
پس ازمعشوق مرنا عشق کو بدنام کرنا ہے
سوچ کر اور بھی جی کھونا ہے
گھتا کرتا ہوں جی لگتا نہیں یہ کون جینا ہے
آپ ہیں اور مجمع احباب ہے
سمجھ لے فضل نہ جب تک کہ تو معاتب ہے
پچاس سال کی برباد سب ریاضت ہے
فلک روئے نہ کیوں کر اب عظیم آباد کے اوپر
میں جان وطن بھی ہوں قربان وطن بھی ہوں
کالی کالی آنکھیں ہیں اور گوری گوری رنگت ہے
بڑوں کی عزت وحرمت سے اپنی عزت ہے
اے عشق حسن کو نہ تجھی کو ثبات ہے
برسوں سے خوگرفتۂ فرقت مزاج ہے
دو جان اس کے درپہ ہماری صلاح ہے
بت کدہ ہے کہ خرابات ہے یا مسجد ہے
درد دست پر ہوں جھکائے سر مرے دل کو شوق نیاز ہے
کیوں ہر اک فقرہ نشاط انگیز ومعنی خیزہے
ہے شیخ تارک دنیا مگر تکلف ہے
مکتب میں عاشقی کے پہلا یہی سبق ہے
ترے ہجر میں زندگی جاں گسل ہے
حاضر ہے گر پسند ہو کیا دل کا مول ہے
ہو سفر ملک عدم کا مجھ کو خود تعجیل ہے
کمال دل کو خوشی ہوئی تھی کہ عشق دنیا میں مغتنم ہے
اے چشم رات دن تجھے رونے سے کام ہے
ہمیں کیا ہوا جو بدل گئے بڑی حیرتوں کا مقام ہے
کسی کی لو ہے جو سینے کا داغ روشن ہے
اب اس زندگانی کا سودا گراں ہے
بند آنکھیں ہیں کسی کا دھیان ہے
غرض نہ کچھ ماہ و مشتری سے نہ مجھ کو سورج سے گفتگو ہے
وہ سبق سیکھ کہ دل جس پہ نظر دوختہ ہے
زمیں میں ہم ہیں بالائے زمیں اپنا فسانہ ہے
سرکار دل کے ہوش ربائےزمانہ ہے
ان لغزشوں کا اصلی سبب ان کی چاہ ہے
نہ دن آتا نہ جاتا ہے نہ رات آتی نہ جاتی ہے
ہزار مژدۂ تازہ صبا سناتی ہے
مست وہ ہے کہ جسے الفت مے ذاتی ہے
یہاں تو شوق میں اے موت جان جاتی ہے
پروانے کی میت جب یوں آگ میں جلتی ہے
کس سے تاراجی گلزار کی فریادی ہے
سحر سے آہ بہت مضمحل ہماری ہے
یہ رات زخمی تیغ نگہ پہ بھاری ہے
گل بھی وہ رخ بھی گو لباسی ہے
تمہارا وعدۂ فروائے وصل کافی ہے
لکھا برگ گل پر بہ خط جلی ہے
مصیبت پر خموشی مقتضائے طبع عالی ہے
ہزاروں آرزوئیں ساتھ ہیں اس پر اکیلی ہے
دل نہیں مانتا مرا یہ بھی گلہ ہے آپ سے
خوف کی منزل راہ عدم ہے جاگ کے سواے نیند کے ماتے
درد وغم نقش ترا دل سے مٹاتے ہی رہے
ان سے رستے کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی
جگر اور دل کی کیا کہئے عجب بے غم یہ دونوں تھے
رخ کو ترے کہتا ہوں کہ قرآن یہی ہے
رباعیات
حقا کوئی صابر نہیں جز آل عبا
ضمیمہ ۱
ضمیمہ ۲
پہلے مصرعوں کا اشاریہ
غلط نامہ کلیات شاد ، جلد اول
غلط نامہ کلیات شاد ، جلد دوم
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔