سر ورق
فہرست
حیات سالک
سالک کی ولادت
سالک کی والدہ کا انتقال
دہلی میں آمد
آغاز شاعری
تعلیم سے فراغت
سلسلۂ تعلیم
دہلی کے نوخیز شعرا
الور کے مشاعرے
حیدرآباد کا سفر
رسالہ مخزن الفوائد
وفات
اولاد
تالیفات
معاصرین
شاگردان سالک
شخصیت
فارسی کلام
قطعہ تاریخ بناے مسجد نواب محمد ابراہیم خاں
تفریظ
دیباچہ
قصائد
چہرہ آرائی شاہد نیکو جمال سخن ترازی
مطلع ثانی
قدر انداز چرخ، میں نخچیر
مطلع ثانی
مطلع ثالث
محمل بستنِ کاروانِ مضامین ومعانی۔۔۔۔۔
مطلع ثانی
ایضاً
مطلع ثانی
آراستن شاہد، سخن بہ زیورِ مدحت کستری۔۔۔۔
مطلع ثانی
ایضاً
مطلع ثانی
مدحت طرازیِ نواب میر باور علی خاں بہادر ۔۔۔۔۔
مطلعِ ثانی
مطلعِ ثالث
غضب ہم پر اور لطف اغیار پر
ایضاً
ایضاً
غزلیات
واں دخل وہم کو، نہ گزر ہے خیال کا
حامل ہے صفحہ، حمدِ خداے کریم کا
کیا رشک عرشیوں کی مجھے پاے گاہ کا
جاتا ہے تیر جس طرف اس کی نگاہ کا
سینے میں خوں ہؤا دلِ حسرت پناہ کا
جنوں میں اس قدر قائل ہوں میں توحیدِ یزداں کا
چاکِ جگر و دل کا جب شکوہ بجا ہوتا
عشق اور جامہ اس آدم زاد کا
لطف میں واں ڈھنگ ہے بیداد کا
نالہ جو دل سے نکالا شرر افشاں نکلا
کچھ ہو پر اس کو جانبِ اغیار دیکھنا
بارے کچھ تو اثرِ نالہ و فریاد ہوا
چھوٹا ہے ہاتھ قاتلِ گستاخ دست کا
دیدار عام روزِ قیامت ضرور تھا
رہے گا دوشِ صبا پر ہی جسمِ زار اپنا
یوں ہی دل غم سے اگر ہجر میں خوگر ہوگا
یاں ذکر اس کے طرۂ عنبر شمیم کا
اب تو یہ حال، اے غمِ ہجرِ بتاں بنا
صدمہ اٹھا کےتارک عشق بتاں بنا
ملے گا اجر جس دن شیخ کو طاعت گزاری کا
جس راہ سے وہ سروِ خراماں نکل گیا
یوں آن پہ حال کھولیے رنج و ملال کا
بھول کر بھی ادھر نہیں آتا
حال کیا پوچھتے ہو چشمِ تماشائی کا
شکوہ کیا غیر کا وہ دل ہی جب اپنا نہ ہوا
دشمن مری دعا کا ہجوم فغاں ہوا
کیا شکرہ نہ سننے کا مرا دھیان کہیں تھا
مجھ جیسے سخت جاں پر، کیا بس چلے قضا کا
بے مروت ہیں یہ بت، جھوٹ ہے کہنا ان کا
قتلِ قاصد پر گلا کیا اس جفا کردار کا
کیوں کہ خالی نہ پڑا روزِ دبستاں ہوگا
یاں وقت نزع چہرے سے کیا کچھ عیاں نہ تھا
جس میں نہ بہار آے وہ گلشن ہے ہمارا
کچھ بھی جو روزِ حشر بڑھایا نہ جاے گا
گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا
جذبۂ شوق ہی بن جاے گا رہبر اپنا
انسانِ ہوس پیشہ سے کیا ہو نہیں سکتا
خیال گزرے کہاں کہاں کا، ارادہ ان کو ہو گر یہیں کا
منہ نہ کھلوا نہ تجاہل سے یہ کہہ، کیا دیکھا
دل محبت مکاں ہے گویا
میرا ہو آشیانہ اور آدھا جلا ہوا
جس قدر ضبط کیا، اور بھی رونا آیا
مجھ کو مستِ شراب ہونا تھا
رشکِ کلام، باعثِ یاسِ خبر ہوا
ہے اس سے ملتے ہی اندیشہ جاں کے جانے کا
شورِ نشور خوابِ عدم سے جگا گیا
گماں مجھ پر ہے اس کو داد خواہی سے شکایت کا
غم سے بھاری ہی رہا قبر میں بھی دل میرا
چرخ کو وہمِ سکوں ہے بسِ مردن کیا
یہ کیا لطف شورِ فغاں رہ گیا
یہ نالہ شب کو جس پر شعلہ زن تھا
کب عکس پذیرِ رخِ دلبر نہیں ہوتا
سرِ غیر اور ہاتھ قاتل کا
مجھ پہ احسان ہے جذبۂ دل کا
عمر بھر تیری گلی سے نہیں باہر ہونا
ہزار وعدے کیے ہیں تم نے، کبھی کسی کو وفا نہ کرنا
دم دے کے تیرا عاشقِ ناشاد رہ گیا
نہ پوچھو کہ نظروں سے گزرا ہے کیا کیا
سودا جو ستانے کا یہی سر میں رہے گا
غیر یوں اس سے مرے بعد گلا کرتا تھا
بتوں کی بزم کہ کوئی نہیں جہاں اپنا
جوش ہے دل سے لبوں تک نالۂ پسر شور کا
کام آگیا جنوں بھی عشاقِ خستہ تن کا
یو ں بھی ہوتے ہیں خوار کیا کہنا
کیا پوچھتے ہو حال شبِ انتظار کا
بے ہوش و بے خود اپنی طرح کون سا نہ تھا
تھا چین رات کو مجھے بے مہر ، یا نہ تھا
توڑ اے بت بے مہر مجھی پر ہے جفا کا
پردہ ابھی اٹھ جاے اگر غیر خدا کا
آوارہ ہوں اس وادی پر خوف و خطر
خوبان طلم دوست گو میں نے برا کہا
کیا کہا ہے میں نے حالِ دل جو ہو کر بے دماغ
تیرے آنے کی ہو پھر کیا مجھے امید کہ میں
کیا میں اظہار مدعا کرتا
یہ بھی عہدِ وفا سے پھر جاتا
جو میں نالوں سے گرمِ شکوۂ بیداد ہو جاتا
ہجومِ خلق رہا، تا وہ زیبِ بام رہا
شراب خانے میں یہ کون تشنہ کام رہا
ہر ایک ستم اس کا مقبول جہاں ہوتا
قیامت کی کہ عاشق کو سمجھ کر ناتواں چھیڑا
وہ اشک بار دیکھ کے مجھ کو حزیں ہوا
اس قددر سیلاب گریہ نے کیا ہے گھر خراب
یوں جان دی کہ جس کی بنی داستاں ہے اب
اب کیا کریں گے خط کا مرے بھیج کر جواب
جیا اس جور پر میں ناتواں کب
لے کے اڑ جانے کی طاقت گر نہ پاے عندلیب
ہے عمر بھر قفس میں تری جاے عندلیب
واعظ ملے گی خلد میں کب اس قدر شراب
کچھ مجھے کہہ کے نہ کہوایئے آپ
کیوں رشک حور کہنے سے اتنے خفا ہیں آپ
سن لیں جو کبھی مری فغاں آپ
یا رب ہے جس قدر کہ مجھے آرزوے دوست
یاد ہے واعظ مجھے بھی داستان کوے دوست
ڈھونڈھا گیا، ملا نہ ترا در، تمام رات
آنسوں بہائے ہجر میں اے چشمِ تر بہت
واں فکر جور، ہوش نہیں اپنے یاں درست
گھیرے رہا مجھے غمِ ہجراں تمام رات
کس طرح کہہ دوں ارم ہے گلستان کوے دوست
اچھی ہوئی ہے اور نہ ہوگی جگر کی چوٹ
مخلوق کوئی چیز جہاں مین نہیں عبث
مجھ کو یوں خاک میں ملانے کا
ساقی کے دل میں لطف کی گر کچھ بھی آے موت
طوفا ں ہے جوش زن جو یہی چشمِ تر سے آج
لب پر فغان شورِ نشور آفریں ہے آج
بستر سے ایک جان ہوا تار کی طرح
فقد جاں تک بھی دوں بہاے قدح
وہ چال دے رہی ہے صدا مرگ عام کی
فتنے جائیں گے کہا ں میرے بعد
آے ہیں حسرتِ دیدار میں کس شوق سے ہم
اب انتظار روزِ جزا ہے فنا کے بعد
یہ صفت تجھ میں نئی ہوگئی بد خو ہوکر
تیری رفتار سے کیا جاتے رہے کیا ہوکر
ملی ہے چشمِ عبرت ضعف سے خوار وزبوں ہو کر
ہے در و دیوار زنداں سے مرے پیدا بہار
کیا کہیے کیوں ستم میں ہوا آسمان شیر
زور چلتا ہے مجھی سے ناتوان و زار پر
نالاں نہیں کچھ ترے ستم پر
گلی سے تیری جو گزرا کبھی اے دل ستاں ہو کر
دیکھ لیتے ہیں جو دروازے کے اکثر باہر
جنوں میں دشت گردی ہے مرے آثار سے ظاہر
آکے دنیا میں رہا میں بے عقبیٰ بے صبر
پھری ہوئی ہے کسی کی نظر الہی خیر
افکارِ وصلِ غیر میں خجلت ہے آشکار
وہ بہانہ جو جو سن کر نہ لکھے جواب ہرگز
مل مل کے رونے کو گیا احبابِ صاحب دل کے پاس
جی ہیچ، جاں ہیچ، نہ دل، نے جگر عزیز
میں ہوا زینتِ مکانِ قفس
عالم ستم کشی میں یہ میرا ہوا کہ بس
قیمت دل کو نہ پوچھو کہ کہے کیا کوئی
کیجے بیان خاک ترے روبرو ہوس
ملی نہ فرصت جہاں ہو غش سے اٹھی جو کچھ بھی نقابِ عارض
پند کا ناصح ہے اور میں دردِ الفت کا مریض
مجھ ناتواں پہ حشر میں وہمِ فغاں غلط
فتنہ پاتا ہے چین یاں رہ کر
اس شعلہ روکے سامنے جس وقت آئے شمع
انصاف کی ہے مرگ سے اے فتنہ گر طمع
کب تگ غمِ فراق میں انساں اٹھائے داغ
روشن ہماری قبر کا ہے جاوداں چراغ
میں عدم سے جو چلا عالمِ امکاں کی طرف
دراز اتنی نہ ہوئی جو داستانِ فراق
آبِ سرشک کیوں کہ ہو چشمِ پر آب صاف
نہ دیتے رخصت ان کو، دیتے سرتک
اک عمر سے ہے لب یہ مرے ہاے ہاے دل
چھڑکا ہے ایک کان کا زخموں پہ یاں نمک
اٹھ کے در سے ترے کیوں کر نہ ہو جانا مشکل
مایوس و ناامید ہیں کیا مدعا سے ہم
آخر تو لائیں گے کوئی آفت فغاں سے ہم
یوں عیاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
حسن کی کس شے سے پیدائی نہیں
رسمِ الفت سے نہیں آگاہ ہم
یاد اس کی بزم کب آئی نہیں
دل جہاں سے اٹھاے بیٹھے ہیں
گزاری زندگی کوے بتاں میں
احباب عبادت کو مری آئے ہوئے ہیں
مریضِ عشق ہوں کب تک دوا کیے جاؤں
ترکِ کیفیتِ دنیا ہمیں منظور نہیں
دام دل کے واسطے رکھتے ہیں دلبر ہاتھ میں
کیا کہوں حالتِ بے تابیِ امید جواب
ہم ابھی جو نالہ اے فلکِ کینہ جو کریں
ہوا ہوں جادہ پیما جب سے میں دشتِ مغیلاں میں
ادھر پہنچے ترے در پر ادھر آئے شبستاں میں
اے کائنات سیر کو تجھ سا چمن کہاں
یوں تو ناچیز خاکسار ہوں میں
تم جسے اچھا کہو، لازم ہے میں اچھا کہوں
لہو کا رنگ مری چشمِ تر میں خاک نہیں
طلبِ وصل پہ کہتے ہوبہ تکرار نہیں
نے گرد سامنے نہ جرس کی صدا کہیں
تم کو کیا، تار جو باقی مرے داماں میں نہیں
مجھ کو گردش مرے ہاتھوں سے بیاباں میں نہیں
جو خواب میں تجھ کو دیکھ پائیں
جاتا عدو کی بوا لہو سی کو برا نہیں
کیوں مرے نامے کا جواب نہیں
برق بن کر ترے مہجور جیا کرتے ہیں
عشق ہے غیر سے، چھپتے ترے انداز نہیں
یہ انقلاب اس نگہ فتنہ زا کے ہیں
ان سے ظالم کا امتحاں اور میں
لذتِ نیشِ غمِ پنہاں مگر رکھتے ہیں
لاغری سے نظر آتا کہیں نخچیر نہیں
یہ نہیں ممکن کہ افزائش نہ ہو تاثیر میں
ہم کو کیا پروا اگر برش نہیں شمشیر میں
عشق میں کیوں کہ کئی عمر ذرا یاد نہیں
غیر کے گھر وہ گیا خیر نہیں
جلوۂ حسن تو ہے گرمیِ بازار کہاں
بہت صبر اس جا پر اے ستم ایجاد کرتے ہیں
میں کیا کہ ان کو شوق مرے امتحاں کے ہیں
نالہ ہی کرکے جلا دوں نہ انہیں خاک کروں
غلط نہیں ہے کہ دل ہی مکانِ یار نہیں
یہ صورت اے شکار افگن! ترے نخچیر رکھتے ہیں
میں دفترِ شکایتِ جاناں جو وا کروں
کیا ناپسند کج رویِ آسماں نہیں
اب تابِ ضبط نالۂ آتش فشاں نہیں
جفائیں بے وجہ سہیں تمہارا شکوہ ہی نہیں
ابھی تو کوئی دم جوڑے رہو تم تیر چٹکی میں
واں معطر نکہتِ کل ہاے تر سے آستیں
غمِ دوری کا بیاں مجھ سے وہ کب سنتے ہیں
کہنے کا غیر کے تو کسی کو یقیں نہیں
اپنے در پر مجھے رونے دے کہ سائل ہر روز
تری بیداد کا قیامت میں
دل پہ آفت آئی اب اک آن میں
غیر کو واقف اسرار کروں یا نہ کروں
کیوں مرا انصاف اس کو دیکھ کر
مرضِ عشق کا علاج نہیں
کبھی برسوں میں خط اس مہ جبیں کا ہم جو پاتے ہیں
صداے غیر پر بھی آے جو سو ناز سے در تک
نزع میں مطلب دل کس سے کہا جاتا ہے
کہہ حالِ غیر مجھ سے قسم لے اگر کہوں
غیر سے مشورۂ ظلم و ستم کرتے ہیں
کیا جانے ہے کیا سحر بتوں کی نظروں میں
آتش فشاں نفس ہو جب موسمِ خزاں میں
فریاد رات بھر مری سن سن کے یوں کہا
جو دل میں غم نہ ہو چشم اشک بار کیوں کر ہو
نہیں ممکن کہ سیدھا آسماں ہو
وہ دشمن دوست ہو یا آسماں ہو
مہلت اک دم گرد پھر لینے کی دے نخچیر کو
ترا کرم ہو تو کیوں کر وصالِ یار نہ ہو
اٹھاؤں ہجر میں زانو سے کس لئے سر کو
کیوں کر کہوں کہ نزع میں خاطر حزیں نہ ہو
لگے پھاہے بہت حق اجر دے اس ناوک افگن کو
جاؤں جنت میں کہ واں چین ملے حور بھی ہو
ظاہر کیا ہے فتنۂ رفتار یار کو
دیکھوں اگر گھٹا کے شب انتظار کو
شق ہے لوحِ مزار ہونے کو
منظور ہے خلافِ عدو کوئی کام ہو
کھینچوں میں اگر نالہ تو کہ جانیے کیا ہو
ہے حضر خوش کہ نام رہے اور نشاں نہ ہو
شکر کیجے کہ نہیں تاب تکلم مجھ کو
ہو چکا وعدہ وفا اس بے وفا سے رات کو
زینت ہے چرخ کہ یہ اثر کیا پسند ہو
اعجاز نے مانا جو تری جنبشِ لب کو
اثرِ نالہ نہ ہو آہ کی تاثیر نہ ہو
دل وہ شے ہے کہ جو دیکھے تو کھچے یار کے ساتھ
چشمِ خوں بار سے ٹپکا ہے مگر خوں سالک
اچھی نبھی بتانِ ستم آشنا کے ساتھ
رکھتے ہیں وہ سامنے عارض کے اکثر آئینہ
قدر کیا عاشق کے دل کے بے قراری گر نہ ہو
کیا کیا گناہ کرتے ہیں اور پھر رسید ہے
کہتا ہوں اپنا حال بہت اختصار سے
فرطِ جذبِ شوق کا ڈر ہے دل نخچیر سے
روئے جنت میں بھی ہم کرکے بیانِ دہلی
مجھ پر ایسی جفا کی کثرت کی
غلط ہے ضبطِ الفت سوے ظن ہے
انتہا صبر آزمائی کی
اٹھیے آج ان سے فیصلا کرکے
نشاطِ وصل کا حاصل مقرر ہجر کا غم ہے
نہ پوچھو مجھ سے نالے کو کہ کیا ہے
ہے عبث چارہ گرو فکر دوا دینے کی
گریے کے میرے بعد بھی آثار رہ گئے
کیوں جاتے جاتے جانبِ اغیار رہ گئے
اس کی سی اک جہاں نے کہی حشر میں تو کیا
آئی صبا کے ساتھ جو بو زلفِ یار کی
کیا خوب، تم تو دیتے ہو یوں گالیاں مجھے
بس شکایت کیا میری فریاد کی
کھٹکے خزاں کے، نے خلشِ خار و خس مجھے
بڑھائی ماہ نے خوبی تمہارے روے انور کی
مائل کیا ہے کس پہ دلِ بے قرار نے
خفا ہی آئے وہ کل اور گئے خفا ہم سے
گر سینے میں ہے آگ تو آنکھوں میں ہے پانی
داغ دل کا مدام روشن ہے
جو پھر لیں ایک چٹکی صاحبِ تاثیر مٹی کی
آپ کی چال قیامت ہی سہی
گو لبوں پر جاں ہے لیکن ضبط افغاں چاہیے
دیر و کعبہ کو رہ گزر سمجھے
رونگٹے ان پہ کھڑے ہوتے ہیں در سے میرے
اس بزم سے نکل کے نہیں یہ خبر مجھے
مضطرب ہوں اب، یہ جی کی بات ہے
مرگیے لیکن خیالِ روے جاناں ساتھ ہے
اب تو لب سے نہ جائے گاآگے
کیفیتِ وصال ہے اغیار کے لئے
آتی ہے یہ آواز مجھے کوے صنم سے
مری خاطر میں ساقی کب ترا پیمانہ آتا ہے
ہاتھ میں لے کر نہ خنجر بیٹھے
ہو گئی دامِ بلا، الفتِ صیاد مجھے
ہم ان سے آج غیر کی تحقیر کرچکے
نہیں وہ فتنہ تری شوخیِ ادا کے لئے
ہے رشک کہ نالہ مرا اور غیر کے گھر جائے
لب پہ ہر دم جو فغاں رہتی ہے
کچھ مجھ کو فکرِ ضعف و نقاہت نہیں رہی
یوں حال اس گلی کا سنا نا نہ تھا مجھے
ظہور ہیبتِ چنگیز روزگار میں ہے
در پہ تھا قاصد، نویدِ وصل یار آنے کو تھی
کنجِ مزار میں بھی وہی اضطراب ہے
کب یہ طریقِ اہلِ وفا میں صواب ہے
بڑھی لو اور زینت آسماں کی
رنج و حسرت کے سوا حاصل ِ دنیا کیا ہے
وہ زیبِ شبستاں ہوا چاہتا ہے
رکھو وہ شیوہ مدِ نظر، نظر میں رہے
ارم میں آگئے کوے بتاں سے
بھروں گا دہر کو شورِ فغاں سے
دہر کو نسبت نہیں ایجاد سے
مدعا کہنے کی دل میں تو ہوس آتی ہے
کب کرم دیکھے ہجراں میں قضا کرتی ہے
اکیلے ہم نہ تیری بزم سے اے بے وفا نکلے
اب نہیں آئے تو موت آئی مری
اب لافِ ضبطِ الفتِ پنہاں کے ہو چکے
دنیا میں اس طرح سے رہے ہم جہاں رہے
کام آیا قبر میں یہ اضطراب دل مجھے
آسودہ جو کہ خاطرِ بے مدعا سے ہے
لطف دشمن پہ کیوں کیا تونے
تم سے کبھی کریں گے نہ خواہش وصال کی
اس نالہ و زاری سے یہ آیا مرے آگے
بے پردہ چلے آئے وہ تنہا مرے آگے
مژدہ فناے دہر کا پہنچے گا صور سے
جو ہوا کوے یار میں گزری
جو آستیں کو دھوئے نہ خنجر چھپا سکے
کب ہے منظور کہ یوں جنسِ دلِ زار بکے
زباں زد ہے یہ قصہ ہو کسی کے
روکے آفاتِ سماوی کو مری فریاد ہے
عاشقانِ تفتہ دل کی برق اگر فریاد ہے
اس سے کچھ اور ہی ہنگامے کی صورت ہوگی
رخصت وہ دیں اگر مجھے فریاد کے لئے
موت آتی ہے الفت میں شفا ہوتے ہی ہوتے
مقتولِ بے گنہ سے نہ یوں ہاتھ آٹھایئے
کھائیے یاں زخم پر سو زخم ، یاں یہ دل میں ہے
قتل دشمن کا گماں ہے رشت کیا کیا دل میں ہے
انساں حقیقت اپنی اگر جانتا رہے
دوست کے نامے میں دشمن کی بدی تحریر کی
صحراے محبت میں جو گزرے وہی جانے
زخم کس کس کے خدا جانے نمک سے ہیں بھرے
وہ اور میرے گھر میں قدم رنجگی کریں
یاں نالہ و فریاد، وہاں فکر ستم ہے
زہر کھانا ہی پڑا ہجر میں تیرے آخر
ونگ گل دیکھ لیں گے گر سچ ہے
میں اور عشق نکویان زشت خو ہے ہے
شش سوے کائنات وہ ہے جلوہ گر اگر
واں جفا آتی ہے یاں شکرِ جفا آتا ہے
بحر کیا ابر بھی نہ بر آوے
ہے غلط، سر ہے تو سودا ہے کہ تیغ قاتل
شغل اس قاتل کو ٹھہرا اب یہی دن رات ہے
شب بلا ہے تو روز آفت ہے
ایک دم بھر بھی نہیں لگتی زباں تالو سے یاں
دمِ کشتن بر آئی حسرتِ دیدار بسمل کی
عقل رہتی نہیں جس وقت قضا آتی ہے
شائقِ دیدارِ یار از بس ہمارا دیدہ ہے
ہماری ہر زہ گردی پوچھیے کوہ و بیاباں سے
آنکھ انتظار میں نہ لگی میری یا لگی
رکھ حلق پہ، شمشیر میں گو آب نہیں ہے
ہم تو سمجھ چکے ہیں مصیبت میں جاں گئی
یاد رکھو اعتبار چارہ گر جانے کو ہے
ازل سے ہم دلِ شاہد پرست کیا لائے
غلط کی راہ گھر سے ڈھونڈھنے کو جب کہ ہم نکلے
نالے ہزار کیجیے یا آہ کیجیے
کس ستم گار سے دعواے وفا کرتا ہے
متفرق اشعار
اشعار متفرقات
رباعیات
رباعیات در وفاتِ برادر
رباعیات تاریخی
مثلث (بر غزل مرزا علی قلی میلی)
مخمس (بر غزل حافظ، شیراز علیہ الرحمۃ)
مخمس ( بر غزل مرزا قلی ’میلی‘)
مخمس (بر غزل جناب اوستادی نجم الدولہ۔۔۔۔۔)
مخمس (برغزل جناب اوستادی حکیم محمد مومن خاں صاحب مومن)
مخمس (برغزل شیخ ابراہیم ذوق المخاطب (بہ) خاقانی ہند)
مخمس ( دریبانِ تبِ ’ سونوخس‘ کہ تمامی اطراف ہند وعرب را مستولی شدہ ۔۔۔)
مسدس (شہر آشوب - دہلی کی تباہی پر، 1857 کی آزادی میں)
واسوخت
ترکیب بند (در مدح شیودان سنگھ والیِ الور)
تاثیر تک ہوئی ہے رسائی فغاں کو آج
اے دل ملا فراغ تجھے اضطراب سے
میں اور ہاتھ آئے یہ بختِ رسا مجھے
ایسا وہ کون ہے کہ سلیماں کہیں جسے
وہ تاجور کہ ان سا کوئی تاجور نہیں
سر رکھ کے ان کے پاؤں پہ قیصر گو ناز ہے
کسریٰ کی ان کے عہد میں شہرت نہیں رہی
تشبیہ کیا ہو اس کفِ دریا نوال کی
کب تھیں سمندِ خامہ کو میرے یہ شوخیاں
تحریر وصفِ پیل میں اتنا گراں ہوا
دار الریاست ان کی الور ہے جس کا نام
سب اہل کار ان کے عطارد نظیر ہیں
یہ جشنِ فرخی ہو مبارک حضور کو
جو نور مہر میں ہے وہ ان کی جبیں میں ہے
جب تک نظر میں گردشِ ہفت آسماں رہے
ترجیع بند (در مدح میر محبوب علی خاں والی ریاست حیدرآباد دکن)
ملک پھر رشک بہاراں بن گیا
جب گیا دہلی میں وہ گردوں جناب
لشکر آپہنچا، تماشا دیکھیے
تا رہے پھولا زمانے کا چمن
مرثیہ ( دروفات محمد تفضل حسین خاں ’کوکب‘
وہ کوکبِ سہر محبت کہاں گیا
کیا جانے اب یہ دیدۂ تر کیا دکھائے گا
مرثیہ (در وفات میرزا شمشاد علی بیگ ’رضوان‘ تخلص برادر، خرد راقم)
سیرِ سراے دہر میں کیوں مبتلا ہوا
آنکھیں یہ ڈھونڈھتی ہیں کہ رضواں کدھر گیا
یارب نجات کیوں کہ مری اس محن سے ہے
بیگانۂ وفا ہوے کیوں تم نے کیا کیا
پرسش میں ہے کہ ہے ہدفِ آسماں کہاں
کیا احتیاج شرح کی، کیا حاجتِ بیاں
جز مرگ اس الم سے ہو مجھ کو قرار کیا
ہر دم نہ کس طرح مرے لب پر فغاں رہے
ترجیع بند (مرثیہ)
اب نہیں ہوش میں رہا کوئی
جس میں رہتا تھا ہاے جلوۂ یار
نہ کروں گا علاجِ دردِ جگر
خضر راہِ سخن جہاں سے گیا
غمِ استاد ہے اگر یہ ہی
دی حر جان مجرئی اعدا کے سامنے
سلام (۱)
مجرئی شہ کا بیاں ہونے کوہے
مثنوی
سہرے
بہ تقریب شادی حکیم عبد المجید خاں خلف حکیم غلام محمود خاں دہلوی)
بہ تقریب شادی حکیم محمد واصل خاں خلف حکیم غلام محمود خاں دہلوی)
بہ تقریب ِ شادی محمد سلیمان
بہ تقریب تسمیہ خوانی فرزند ارجمند نواب میر ابراہیم علی خاں
قطعہ مدحیہ
ایضاً
بہ تقریب سال گرہ فرزند اقبال پیوند مہارا و راجہ شودان سنگھ بہادر والیِ الور
قطعہ
قطعہ: بہ طلب کشتۂ مرجان بہ خدمت جناب حکیم محمود خاں دام افاضتہم
کوکب دوست نوازا و ملاذِ سالک
قطعہ ( مدح کوکب)
قطعہ (بہ فرمائش دوستے بہ تعریف فلفل سرخ)
قطعۂ دربیان کثرت اموات کہ بعد زمانۂ غدر واقع 1273 ہجری رودادہ
قطعات تاریخی ( قطعۂ تاریخ وفات عظیم الدین)
قطعہ تاریخ وفات زبدۃ العارفین۔۔۔۔
قطعہ ( تاریخ وفات عارف، مومن، تسکین)
قطعہ ٔ تاریخ وفات مرزا زین العابدین خاں عارف
قطعہ( بناے مسجد محمد شکور)
قطعۂ تاریخِ وفات میر کاظم علی سجادہ نشین حضرت سلیم چشتی ؒ
قطعہ تاریخ تعمیرِ مکان نواب غوث محمد خاں۔۔۔۔۔
قطعہ ( تاریخ خود کشی میر جان)
قطعہ (تاریخ وفات ثناءاللہ )
قطعۂ تاریخ میلادِ فرزندد سید محمد حسین تحصیل دار چونیہ
قطعہ (ولادت فرزند فتح جنگ)
قطعہ (تاریخ ولادت فرزند محمد نعیم خاں)
قطعۂ تاریخ طبع ’’شرح دساتیر‘‘ ۔۔۔
قطعہ ( تاریخ بناے مسجد و چاہ و سرا و باغ خرم علی خاں)
قطعۂ (تاریخ وفات دختران کوکب)
قطعہ (تاریخ وفات آثم )
قطعہ (مسجد جامع سہارن پور)
قطعہ (تاریخِ وفات یوسف میرزا)
قطعہ (تاریخ عطاے خلعتِ ہفت بارچہ بہ مرزا اسد اللہ خاں غالب)
قطعہ (تاریخ وفات میر افصل حسن)
قطعۂ تاریخ وفات نواب امین الدین خاں بہادر رئیس لوہارو
قطعہ ( تاریخ ولادت فرزند تفصل حسین خاں کوکب)
قطعہ تاریخ تولد نواب محمد رضا علی خاں
قطعہ تاریخ وفات مرزا اسد اللہ خاں غالب
قطعہ ایضاً
قطعہ ( تاریخِ وفات غالب)
قطعہ تاریخ وفات جناب مولوی محمد صدر الدین خاں مرحوم
قطعہ تاریخ انتقال فرزند محمد تفضل حسین خاں کوکب
قطعۂ تاریخ بہ تقریب جشنِ مسند نشیبی مہاراو راجہ شودان سنگھ بہادر والیِ الور
قطعہ تاریخ وفات نواب محمد امین اللہ خاں المعروف منشی امو جان
تاریخ طبع ترجمہ بوستان خیال خواجہ بد ر الدین
قطعہ (تاریخ وفات قدرت اللہ بیگ خاں)
قطعہ (بناے باغ)
قطعہ تاریخ عقد مولوی محمد عبد الرحیم خاں بیدل
قطعہ تاریخ کد خدائی حکیم عبد المجید خاں حکیم۔۔۔۔
قطعہ تاریخ کدخدائی حکیم عبد المجید خاں
قطعہ تاریخ مکتب نشینی فرزند میر ابراہیم علی خاں فدا خلف میر اکبر علی خاں مغفور
قطعہ (تاریخ ترجمہ اخلاقِ محسنی از گلزاری ناتھ)
قطعہ تاریخ ولادت فرزند مولوی محمد عبد الرحیم خاں بیدل
قطعۂ تاریخ تولد فرزند ارجمند آغا سید علی طوبیٰ تخلص شوستری
قطعہ تاریخ وفات دختر و ولادت فرزند حافظ محمد غلام دست گیر
قطعہ تاریخ وفات محمد عثمان خاں مدار المہام ریاست رام پور۔۔۔۔
قطعہ (تاریخ صحت لطف علی خاں)
تاریخ ولادت یادگار اصغر مولوی محمد عنایت الرحمان خاں صاحب۔۔۔
تاریخ وفات محمد تفضل حسین خان کوکب
تاریخ وفات میر حیدر حسین خاں عرف میر نواب
تاریخ تعمیر چاہ بنا کر دۂ خواجہ فرحت اللہ خاں
قطعہ تاریخ وفات نواب عبد الرسول خاں
قطعہ تاریخ وفات مولوی ہدایت اللہ صاحب جالیسری
قطعہ (تہنیت عید الاضحیٰ بہ میر یاور علی خاں شہاب جنگ)
قطعہ (تاریخ تصویر شاگرد پیشہ)
قطعہ الشاے مصنفہ مولوی محمد زین العابدین عرف سلطان میاں
قطعۂ تاریخ تولد فرزند سید حبیب شاہ برادر خرد سید فضل شاہ صاحب
قطعہ تاریخ وفات فرزند دل بند حافظ محمد عبد الغفور تجلی تخلص
قطعہ (تاریخ طبع شرف نامہ؟ از حکیم احمد)
قطعہ تاریخِ مثنویِ صفدر حسین خاں از اولاد ٹیپو سلطان۔۔۔۔
قطعہ تاریخ طبع قصہ ’’طلسم حیرت‘‘ مصنفۂ غلام رسول فوق تخلص۔۔۔۔
قطعہ (تاریخِ افتادنِ جام مملوکہ میر عالم علی)
قطعہ (تاریخ وفاتِ احمد حسن خاں)
قطعہ تاریخ وفتا محمد عبد المجید حیدرآبادی
قطعہ تاریخ مثنوی مصنفہ حافظ محمد کریم بخش احقر
قطعہ تاریخِ مسجد بنا کردۂ قصابانِ شہرِ احمد آباد
قطعہ تاریخ یافتن خطاب نواب میر غلام بابا خاں نقب خانی و بہادری از سرکار الکاشیہ
قطعۂ تاریخ وفات عندلیب چمنستان سخن وری محمد سرفراز علی وصفی
تاریخ وفات خواجہ بدر الدین خاں عرف خواجہ امان مترجم بوستان خیال
تاریخ طبع دیوان نواب مرزا خاں داغ موسوم یہ گلزار داغ
تاریخ شریک کردن حسن خاں باغ نو خرید را در باغ دل افروز
قطعہ تاریخ ولادت پسر میر عبد الجلیل
قطعہ تاریخ وفات شرف الدین
قطعہ تاریخ وفات مولوی غلام امام شہید تخلص
قطعہ (تاریخِ تمثال شریف بیگ)
قطعہ تاریخ تعمیر مکاں عبد الرحمان خاں صاحب کوتوال چھاؤں سکندر آباد
قطعۂ تاریخ کدخدای محمد عبد الوارث خاں ۔۔۔۔
قطعۂ غیر تاریخی
متفرقات
قطعات تاریخ طباعت کلیات سالک
ضمیمہ
سر ورق
فہرست
حیات سالک
سالک کی ولادت
سالک کی والدہ کا انتقال
دہلی میں آمد
آغاز شاعری
تعلیم سے فراغت
سلسلۂ تعلیم
دہلی کے نوخیز شعرا
الور کے مشاعرے
حیدرآباد کا سفر
رسالہ مخزن الفوائد
وفات
اولاد
تالیفات
معاصرین
شاگردان سالک
شخصیت
فارسی کلام
قطعہ تاریخ بناے مسجد نواب محمد ابراہیم خاں
تفریظ
دیباچہ
قصائد
چہرہ آرائی شاہد نیکو جمال سخن ترازی
مطلع ثانی
قدر انداز چرخ، میں نخچیر
مطلع ثانی
مطلع ثالث
محمل بستنِ کاروانِ مضامین ومعانی۔۔۔۔۔
مطلع ثانی
ایضاً
مطلع ثانی
آراستن شاہد، سخن بہ زیورِ مدحت کستری۔۔۔۔
مطلع ثانی
ایضاً
مطلع ثانی
مدحت طرازیِ نواب میر باور علی خاں بہادر ۔۔۔۔۔
مطلعِ ثانی
مطلعِ ثالث
غضب ہم پر اور لطف اغیار پر
ایضاً
ایضاً
غزلیات
واں دخل وہم کو، نہ گزر ہے خیال کا
حامل ہے صفحہ، حمدِ خداے کریم کا
کیا رشک عرشیوں کی مجھے پاے گاہ کا
جاتا ہے تیر جس طرف اس کی نگاہ کا
سینے میں خوں ہؤا دلِ حسرت پناہ کا
جنوں میں اس قدر قائل ہوں میں توحیدِ یزداں کا
چاکِ جگر و دل کا جب شکوہ بجا ہوتا
عشق اور جامہ اس آدم زاد کا
لطف میں واں ڈھنگ ہے بیداد کا
نالہ جو دل سے نکالا شرر افشاں نکلا
کچھ ہو پر اس کو جانبِ اغیار دیکھنا
بارے کچھ تو اثرِ نالہ و فریاد ہوا
چھوٹا ہے ہاتھ قاتلِ گستاخ دست کا
دیدار عام روزِ قیامت ضرور تھا
رہے گا دوشِ صبا پر ہی جسمِ زار اپنا
یوں ہی دل غم سے اگر ہجر میں خوگر ہوگا
یاں ذکر اس کے طرۂ عنبر شمیم کا
اب تو یہ حال، اے غمِ ہجرِ بتاں بنا
صدمہ اٹھا کےتارک عشق بتاں بنا
ملے گا اجر جس دن شیخ کو طاعت گزاری کا
جس راہ سے وہ سروِ خراماں نکل گیا
یوں آن پہ حال کھولیے رنج و ملال کا
بھول کر بھی ادھر نہیں آتا
حال کیا پوچھتے ہو چشمِ تماشائی کا
شکوہ کیا غیر کا وہ دل ہی جب اپنا نہ ہوا
دشمن مری دعا کا ہجوم فغاں ہوا
کیا شکرہ نہ سننے کا مرا دھیان کہیں تھا
مجھ جیسے سخت جاں پر، کیا بس چلے قضا کا
بے مروت ہیں یہ بت، جھوٹ ہے کہنا ان کا
قتلِ قاصد پر گلا کیا اس جفا کردار کا
کیوں کہ خالی نہ پڑا روزِ دبستاں ہوگا
یاں وقت نزع چہرے سے کیا کچھ عیاں نہ تھا
جس میں نہ بہار آے وہ گلشن ہے ہمارا
کچھ بھی جو روزِ حشر بڑھایا نہ جاے گا
گرہ لب پہ جو مدعا ہو گیا
جذبۂ شوق ہی بن جاے گا رہبر اپنا
انسانِ ہوس پیشہ سے کیا ہو نہیں سکتا
خیال گزرے کہاں کہاں کا، ارادہ ان کو ہو گر یہیں کا
منہ نہ کھلوا نہ تجاہل سے یہ کہہ، کیا دیکھا
دل محبت مکاں ہے گویا
میرا ہو آشیانہ اور آدھا جلا ہوا
جس قدر ضبط کیا، اور بھی رونا آیا
مجھ کو مستِ شراب ہونا تھا
رشکِ کلام، باعثِ یاسِ خبر ہوا
ہے اس سے ملتے ہی اندیشہ جاں کے جانے کا
شورِ نشور خوابِ عدم سے جگا گیا
گماں مجھ پر ہے اس کو داد خواہی سے شکایت کا
غم سے بھاری ہی رہا قبر میں بھی دل میرا
چرخ کو وہمِ سکوں ہے بسِ مردن کیا
یہ کیا لطف شورِ فغاں رہ گیا
یہ نالہ شب کو جس پر شعلہ زن تھا
کب عکس پذیرِ رخِ دلبر نہیں ہوتا
سرِ غیر اور ہاتھ قاتل کا
مجھ پہ احسان ہے جذبۂ دل کا
عمر بھر تیری گلی سے نہیں باہر ہونا
ہزار وعدے کیے ہیں تم نے، کبھی کسی کو وفا نہ کرنا
دم دے کے تیرا عاشقِ ناشاد رہ گیا
نہ پوچھو کہ نظروں سے گزرا ہے کیا کیا
سودا جو ستانے کا یہی سر میں رہے گا
غیر یوں اس سے مرے بعد گلا کرتا تھا
بتوں کی بزم کہ کوئی نہیں جہاں اپنا
جوش ہے دل سے لبوں تک نالۂ پسر شور کا
کام آگیا جنوں بھی عشاقِ خستہ تن کا
یو ں بھی ہوتے ہیں خوار کیا کہنا
کیا پوچھتے ہو حال شبِ انتظار کا
بے ہوش و بے خود اپنی طرح کون سا نہ تھا
تھا چین رات کو مجھے بے مہر ، یا نہ تھا
توڑ اے بت بے مہر مجھی پر ہے جفا کا
پردہ ابھی اٹھ جاے اگر غیر خدا کا
آوارہ ہوں اس وادی پر خوف و خطر
خوبان طلم دوست گو میں نے برا کہا
کیا کہا ہے میں نے حالِ دل جو ہو کر بے دماغ
تیرے آنے کی ہو پھر کیا مجھے امید کہ میں
کیا میں اظہار مدعا کرتا
یہ بھی عہدِ وفا سے پھر جاتا
جو میں نالوں سے گرمِ شکوۂ بیداد ہو جاتا
ہجومِ خلق رہا، تا وہ زیبِ بام رہا
شراب خانے میں یہ کون تشنہ کام رہا
ہر ایک ستم اس کا مقبول جہاں ہوتا
قیامت کی کہ عاشق کو سمجھ کر ناتواں چھیڑا
وہ اشک بار دیکھ کے مجھ کو حزیں ہوا
اس قددر سیلاب گریہ نے کیا ہے گھر خراب
یوں جان دی کہ جس کی بنی داستاں ہے اب
اب کیا کریں گے خط کا مرے بھیج کر جواب
جیا اس جور پر میں ناتواں کب
لے کے اڑ جانے کی طاقت گر نہ پاے عندلیب
ہے عمر بھر قفس میں تری جاے عندلیب
واعظ ملے گی خلد میں کب اس قدر شراب
کچھ مجھے کہہ کے نہ کہوایئے آپ
کیوں رشک حور کہنے سے اتنے خفا ہیں آپ
سن لیں جو کبھی مری فغاں آپ
یا رب ہے جس قدر کہ مجھے آرزوے دوست
یاد ہے واعظ مجھے بھی داستان کوے دوست
ڈھونڈھا گیا، ملا نہ ترا در، تمام رات
آنسوں بہائے ہجر میں اے چشمِ تر بہت
واں فکر جور، ہوش نہیں اپنے یاں درست
گھیرے رہا مجھے غمِ ہجراں تمام رات
کس طرح کہہ دوں ارم ہے گلستان کوے دوست
اچھی ہوئی ہے اور نہ ہوگی جگر کی چوٹ
مخلوق کوئی چیز جہاں مین نہیں عبث
مجھ کو یوں خاک میں ملانے کا
ساقی کے دل میں لطف کی گر کچھ بھی آے موت
طوفا ں ہے جوش زن جو یہی چشمِ تر سے آج
لب پر فغان شورِ نشور آفریں ہے آج
بستر سے ایک جان ہوا تار کی طرح
فقد جاں تک بھی دوں بہاے قدح
وہ چال دے رہی ہے صدا مرگ عام کی
فتنے جائیں گے کہا ں میرے بعد
آے ہیں حسرتِ دیدار میں کس شوق سے ہم
اب انتظار روزِ جزا ہے فنا کے بعد
یہ صفت تجھ میں نئی ہوگئی بد خو ہوکر
تیری رفتار سے کیا جاتے رہے کیا ہوکر
ملی ہے چشمِ عبرت ضعف سے خوار وزبوں ہو کر
ہے در و دیوار زنداں سے مرے پیدا بہار
کیا کہیے کیوں ستم میں ہوا آسمان شیر
زور چلتا ہے مجھی سے ناتوان و زار پر
نالاں نہیں کچھ ترے ستم پر
گلی سے تیری جو گزرا کبھی اے دل ستاں ہو کر
دیکھ لیتے ہیں جو دروازے کے اکثر باہر
جنوں میں دشت گردی ہے مرے آثار سے ظاہر
آکے دنیا میں رہا میں بے عقبیٰ بے صبر
پھری ہوئی ہے کسی کی نظر الہی خیر
افکارِ وصلِ غیر میں خجلت ہے آشکار
وہ بہانہ جو جو سن کر نہ لکھے جواب ہرگز
مل مل کے رونے کو گیا احبابِ صاحب دل کے پاس
جی ہیچ، جاں ہیچ، نہ دل، نے جگر عزیز
میں ہوا زینتِ مکانِ قفس
عالم ستم کشی میں یہ میرا ہوا کہ بس
قیمت دل کو نہ پوچھو کہ کہے کیا کوئی
کیجے بیان خاک ترے روبرو ہوس
ملی نہ فرصت جہاں ہو غش سے اٹھی جو کچھ بھی نقابِ عارض
پند کا ناصح ہے اور میں دردِ الفت کا مریض
مجھ ناتواں پہ حشر میں وہمِ فغاں غلط
فتنہ پاتا ہے چین یاں رہ کر
اس شعلہ روکے سامنے جس وقت آئے شمع
انصاف کی ہے مرگ سے اے فتنہ گر طمع
کب تگ غمِ فراق میں انساں اٹھائے داغ
روشن ہماری قبر کا ہے جاوداں چراغ
میں عدم سے جو چلا عالمِ امکاں کی طرف
دراز اتنی نہ ہوئی جو داستانِ فراق
آبِ سرشک کیوں کہ ہو چشمِ پر آب صاف
نہ دیتے رخصت ان کو، دیتے سرتک
اک عمر سے ہے لب یہ مرے ہاے ہاے دل
چھڑکا ہے ایک کان کا زخموں پہ یاں نمک
اٹھ کے در سے ترے کیوں کر نہ ہو جانا مشکل
مایوس و ناامید ہیں کیا مدعا سے ہم
آخر تو لائیں گے کوئی آفت فغاں سے ہم
یوں عیاں تجھ کو دیکھتے ہیں ہم
حسن کی کس شے سے پیدائی نہیں
رسمِ الفت سے نہیں آگاہ ہم
یاد اس کی بزم کب آئی نہیں
دل جہاں سے اٹھاے بیٹھے ہیں
گزاری زندگی کوے بتاں میں
احباب عبادت کو مری آئے ہوئے ہیں
مریضِ عشق ہوں کب تک دوا کیے جاؤں
ترکِ کیفیتِ دنیا ہمیں منظور نہیں
دام دل کے واسطے رکھتے ہیں دلبر ہاتھ میں
کیا کہوں حالتِ بے تابیِ امید جواب
ہم ابھی جو نالہ اے فلکِ کینہ جو کریں
ہوا ہوں جادہ پیما جب سے میں دشتِ مغیلاں میں
ادھر پہنچے ترے در پر ادھر آئے شبستاں میں
اے کائنات سیر کو تجھ سا چمن کہاں
یوں تو ناچیز خاکسار ہوں میں
تم جسے اچھا کہو، لازم ہے میں اچھا کہوں
لہو کا رنگ مری چشمِ تر میں خاک نہیں
طلبِ وصل پہ کہتے ہوبہ تکرار نہیں
نے گرد سامنے نہ جرس کی صدا کہیں
تم کو کیا، تار جو باقی مرے داماں میں نہیں
مجھ کو گردش مرے ہاتھوں سے بیاباں میں نہیں
جو خواب میں تجھ کو دیکھ پائیں
جاتا عدو کی بوا لہو سی کو برا نہیں
کیوں مرے نامے کا جواب نہیں
برق بن کر ترے مہجور جیا کرتے ہیں
عشق ہے غیر سے، چھپتے ترے انداز نہیں
یہ انقلاب اس نگہ فتنہ زا کے ہیں
ان سے ظالم کا امتحاں اور میں
لذتِ نیشِ غمِ پنہاں مگر رکھتے ہیں
لاغری سے نظر آتا کہیں نخچیر نہیں
یہ نہیں ممکن کہ افزائش نہ ہو تاثیر میں
ہم کو کیا پروا اگر برش نہیں شمشیر میں
عشق میں کیوں کہ کئی عمر ذرا یاد نہیں
غیر کے گھر وہ گیا خیر نہیں
جلوۂ حسن تو ہے گرمیِ بازار کہاں
بہت صبر اس جا پر اے ستم ایجاد کرتے ہیں
میں کیا کہ ان کو شوق مرے امتحاں کے ہیں
نالہ ہی کرکے جلا دوں نہ انہیں خاک کروں
غلط نہیں ہے کہ دل ہی مکانِ یار نہیں
یہ صورت اے شکار افگن! ترے نخچیر رکھتے ہیں
میں دفترِ شکایتِ جاناں جو وا کروں
کیا ناپسند کج رویِ آسماں نہیں
اب تابِ ضبط نالۂ آتش فشاں نہیں
جفائیں بے وجہ سہیں تمہارا شکوہ ہی نہیں
ابھی تو کوئی دم جوڑے رہو تم تیر چٹکی میں
واں معطر نکہتِ کل ہاے تر سے آستیں
غمِ دوری کا بیاں مجھ سے وہ کب سنتے ہیں
کہنے کا غیر کے تو کسی کو یقیں نہیں
اپنے در پر مجھے رونے دے کہ سائل ہر روز
تری بیداد کا قیامت میں
دل پہ آفت آئی اب اک آن میں
غیر کو واقف اسرار کروں یا نہ کروں
کیوں مرا انصاف اس کو دیکھ کر
مرضِ عشق کا علاج نہیں
کبھی برسوں میں خط اس مہ جبیں کا ہم جو پاتے ہیں
صداے غیر پر بھی آے جو سو ناز سے در تک
نزع میں مطلب دل کس سے کہا جاتا ہے
کہہ حالِ غیر مجھ سے قسم لے اگر کہوں
غیر سے مشورۂ ظلم و ستم کرتے ہیں
کیا جانے ہے کیا سحر بتوں کی نظروں میں
آتش فشاں نفس ہو جب موسمِ خزاں میں
فریاد رات بھر مری سن سن کے یوں کہا
جو دل میں غم نہ ہو چشم اشک بار کیوں کر ہو
نہیں ممکن کہ سیدھا آسماں ہو
وہ دشمن دوست ہو یا آسماں ہو
مہلت اک دم گرد پھر لینے کی دے نخچیر کو
ترا کرم ہو تو کیوں کر وصالِ یار نہ ہو
اٹھاؤں ہجر میں زانو سے کس لئے سر کو
کیوں کر کہوں کہ نزع میں خاطر حزیں نہ ہو
لگے پھاہے بہت حق اجر دے اس ناوک افگن کو
جاؤں جنت میں کہ واں چین ملے حور بھی ہو
ظاہر کیا ہے فتنۂ رفتار یار کو
دیکھوں اگر گھٹا کے شب انتظار کو
شق ہے لوحِ مزار ہونے کو
منظور ہے خلافِ عدو کوئی کام ہو
کھینچوں میں اگر نالہ تو کہ جانیے کیا ہو
ہے حضر خوش کہ نام رہے اور نشاں نہ ہو
شکر کیجے کہ نہیں تاب تکلم مجھ کو
ہو چکا وعدہ وفا اس بے وفا سے رات کو
زینت ہے چرخ کہ یہ اثر کیا پسند ہو
اعجاز نے مانا جو تری جنبشِ لب کو
اثرِ نالہ نہ ہو آہ کی تاثیر نہ ہو
دل وہ شے ہے کہ جو دیکھے تو کھچے یار کے ساتھ
چشمِ خوں بار سے ٹپکا ہے مگر خوں سالک
اچھی نبھی بتانِ ستم آشنا کے ساتھ
رکھتے ہیں وہ سامنے عارض کے اکثر آئینہ
قدر کیا عاشق کے دل کے بے قراری گر نہ ہو
کیا کیا گناہ کرتے ہیں اور پھر رسید ہے
کہتا ہوں اپنا حال بہت اختصار سے
فرطِ جذبِ شوق کا ڈر ہے دل نخچیر سے
روئے جنت میں بھی ہم کرکے بیانِ دہلی
مجھ پر ایسی جفا کی کثرت کی
غلط ہے ضبطِ الفت سوے ظن ہے
انتہا صبر آزمائی کی
اٹھیے آج ان سے فیصلا کرکے
نشاطِ وصل کا حاصل مقرر ہجر کا غم ہے
نہ پوچھو مجھ سے نالے کو کہ کیا ہے
ہے عبث چارہ گرو فکر دوا دینے کی
گریے کے میرے بعد بھی آثار رہ گئے
کیوں جاتے جاتے جانبِ اغیار رہ گئے
اس کی سی اک جہاں نے کہی حشر میں تو کیا
آئی صبا کے ساتھ جو بو زلفِ یار کی
کیا خوب، تم تو دیتے ہو یوں گالیاں مجھے
بس شکایت کیا میری فریاد کی
کھٹکے خزاں کے، نے خلشِ خار و خس مجھے
بڑھائی ماہ نے خوبی تمہارے روے انور کی
مائل کیا ہے کس پہ دلِ بے قرار نے
خفا ہی آئے وہ کل اور گئے خفا ہم سے
گر سینے میں ہے آگ تو آنکھوں میں ہے پانی
داغ دل کا مدام روشن ہے
جو پھر لیں ایک چٹکی صاحبِ تاثیر مٹی کی
آپ کی چال قیامت ہی سہی
گو لبوں پر جاں ہے لیکن ضبط افغاں چاہیے
دیر و کعبہ کو رہ گزر سمجھے
رونگٹے ان پہ کھڑے ہوتے ہیں در سے میرے
اس بزم سے نکل کے نہیں یہ خبر مجھے
مضطرب ہوں اب، یہ جی کی بات ہے
مرگیے لیکن خیالِ روے جاناں ساتھ ہے
اب تو لب سے نہ جائے گاآگے
کیفیتِ وصال ہے اغیار کے لئے
آتی ہے یہ آواز مجھے کوے صنم سے
مری خاطر میں ساقی کب ترا پیمانہ آتا ہے
ہاتھ میں لے کر نہ خنجر بیٹھے
ہو گئی دامِ بلا، الفتِ صیاد مجھے
ہم ان سے آج غیر کی تحقیر کرچکے
نہیں وہ فتنہ تری شوخیِ ادا کے لئے
ہے رشک کہ نالہ مرا اور غیر کے گھر جائے
لب پہ ہر دم جو فغاں رہتی ہے
کچھ مجھ کو فکرِ ضعف و نقاہت نہیں رہی
یوں حال اس گلی کا سنا نا نہ تھا مجھے
ظہور ہیبتِ چنگیز روزگار میں ہے
در پہ تھا قاصد، نویدِ وصل یار آنے کو تھی
کنجِ مزار میں بھی وہی اضطراب ہے
کب یہ طریقِ اہلِ وفا میں صواب ہے
بڑھی لو اور زینت آسماں کی
رنج و حسرت کے سوا حاصل ِ دنیا کیا ہے
وہ زیبِ شبستاں ہوا چاہتا ہے
رکھو وہ شیوہ مدِ نظر، نظر میں رہے
ارم میں آگئے کوے بتاں سے
بھروں گا دہر کو شورِ فغاں سے
دہر کو نسبت نہیں ایجاد سے
مدعا کہنے کی دل میں تو ہوس آتی ہے
کب کرم دیکھے ہجراں میں قضا کرتی ہے
اکیلے ہم نہ تیری بزم سے اے بے وفا نکلے
اب نہیں آئے تو موت آئی مری
اب لافِ ضبطِ الفتِ پنہاں کے ہو چکے
دنیا میں اس طرح سے رہے ہم جہاں رہے
کام آیا قبر میں یہ اضطراب دل مجھے
آسودہ جو کہ خاطرِ بے مدعا سے ہے
لطف دشمن پہ کیوں کیا تونے
تم سے کبھی کریں گے نہ خواہش وصال کی
اس نالہ و زاری سے یہ آیا مرے آگے
بے پردہ چلے آئے وہ تنہا مرے آگے
مژدہ فناے دہر کا پہنچے گا صور سے
جو ہوا کوے یار میں گزری
جو آستیں کو دھوئے نہ خنجر چھپا سکے
کب ہے منظور کہ یوں جنسِ دلِ زار بکے
زباں زد ہے یہ قصہ ہو کسی کے
روکے آفاتِ سماوی کو مری فریاد ہے
عاشقانِ تفتہ دل کی برق اگر فریاد ہے
اس سے کچھ اور ہی ہنگامے کی صورت ہوگی
رخصت وہ دیں اگر مجھے فریاد کے لئے
موت آتی ہے الفت میں شفا ہوتے ہی ہوتے
مقتولِ بے گنہ سے نہ یوں ہاتھ آٹھایئے
کھائیے یاں زخم پر سو زخم ، یاں یہ دل میں ہے
قتل دشمن کا گماں ہے رشت کیا کیا دل میں ہے
انساں حقیقت اپنی اگر جانتا رہے
دوست کے نامے میں دشمن کی بدی تحریر کی
صحراے محبت میں جو گزرے وہی جانے
زخم کس کس کے خدا جانے نمک سے ہیں بھرے
وہ اور میرے گھر میں قدم رنجگی کریں
یاں نالہ و فریاد، وہاں فکر ستم ہے
زہر کھانا ہی پڑا ہجر میں تیرے آخر
ونگ گل دیکھ لیں گے گر سچ ہے
میں اور عشق نکویان زشت خو ہے ہے
شش سوے کائنات وہ ہے جلوہ گر اگر
واں جفا آتی ہے یاں شکرِ جفا آتا ہے
بحر کیا ابر بھی نہ بر آوے
ہے غلط، سر ہے تو سودا ہے کہ تیغ قاتل
شغل اس قاتل کو ٹھہرا اب یہی دن رات ہے
شب بلا ہے تو روز آفت ہے
ایک دم بھر بھی نہیں لگتی زباں تالو سے یاں
دمِ کشتن بر آئی حسرتِ دیدار بسمل کی
عقل رہتی نہیں جس وقت قضا آتی ہے
شائقِ دیدارِ یار از بس ہمارا دیدہ ہے
ہماری ہر زہ گردی پوچھیے کوہ و بیاباں سے
آنکھ انتظار میں نہ لگی میری یا لگی
رکھ حلق پہ، شمشیر میں گو آب نہیں ہے
ہم تو سمجھ چکے ہیں مصیبت میں جاں گئی
یاد رکھو اعتبار چارہ گر جانے کو ہے
ازل سے ہم دلِ شاہد پرست کیا لائے
غلط کی راہ گھر سے ڈھونڈھنے کو جب کہ ہم نکلے
نالے ہزار کیجیے یا آہ کیجیے
کس ستم گار سے دعواے وفا کرتا ہے
متفرق اشعار
اشعار متفرقات
رباعیات
رباعیات در وفاتِ برادر
رباعیات تاریخی
مثلث (بر غزل مرزا علی قلی میلی)
مخمس (بر غزل حافظ، شیراز علیہ الرحمۃ)
مخمس ( بر غزل مرزا قلی ’میلی‘)
مخمس (بر غزل جناب اوستادی نجم الدولہ۔۔۔۔۔)
مخمس (برغزل جناب اوستادی حکیم محمد مومن خاں صاحب مومن)
مخمس (برغزل شیخ ابراہیم ذوق المخاطب (بہ) خاقانی ہند)
مخمس ( دریبانِ تبِ ’ سونوخس‘ کہ تمامی اطراف ہند وعرب را مستولی شدہ ۔۔۔)
مسدس (شہر آشوب - دہلی کی تباہی پر، 1857 کی آزادی میں)
واسوخت
ترکیب بند (در مدح شیودان سنگھ والیِ الور)
تاثیر تک ہوئی ہے رسائی فغاں کو آج
اے دل ملا فراغ تجھے اضطراب سے
میں اور ہاتھ آئے یہ بختِ رسا مجھے
ایسا وہ کون ہے کہ سلیماں کہیں جسے
وہ تاجور کہ ان سا کوئی تاجور نہیں
سر رکھ کے ان کے پاؤں پہ قیصر گو ناز ہے
کسریٰ کی ان کے عہد میں شہرت نہیں رہی
تشبیہ کیا ہو اس کفِ دریا نوال کی
کب تھیں سمندِ خامہ کو میرے یہ شوخیاں
تحریر وصفِ پیل میں اتنا گراں ہوا
دار الریاست ان کی الور ہے جس کا نام
سب اہل کار ان کے عطارد نظیر ہیں
یہ جشنِ فرخی ہو مبارک حضور کو
جو نور مہر میں ہے وہ ان کی جبیں میں ہے
جب تک نظر میں گردشِ ہفت آسماں رہے
ترجیع بند (در مدح میر محبوب علی خاں والی ریاست حیدرآباد دکن)
ملک پھر رشک بہاراں بن گیا
جب گیا دہلی میں وہ گردوں جناب
لشکر آپہنچا، تماشا دیکھیے
تا رہے پھولا زمانے کا چمن
مرثیہ ( دروفات محمد تفضل حسین خاں ’کوکب‘
وہ کوکبِ سہر محبت کہاں گیا
کیا جانے اب یہ دیدۂ تر کیا دکھائے گا
مرثیہ (در وفات میرزا شمشاد علی بیگ ’رضوان‘ تخلص برادر، خرد راقم)
سیرِ سراے دہر میں کیوں مبتلا ہوا
آنکھیں یہ ڈھونڈھتی ہیں کہ رضواں کدھر گیا
یارب نجات کیوں کہ مری اس محن سے ہے
بیگانۂ وفا ہوے کیوں تم نے کیا کیا
پرسش میں ہے کہ ہے ہدفِ آسماں کہاں
کیا احتیاج شرح کی، کیا حاجتِ بیاں
جز مرگ اس الم سے ہو مجھ کو قرار کیا
ہر دم نہ کس طرح مرے لب پر فغاں رہے
ترجیع بند (مرثیہ)
اب نہیں ہوش میں رہا کوئی
جس میں رہتا تھا ہاے جلوۂ یار
نہ کروں گا علاجِ دردِ جگر
خضر راہِ سخن جہاں سے گیا
غمِ استاد ہے اگر یہ ہی
دی حر جان مجرئی اعدا کے سامنے
سلام (۱)
مجرئی شہ کا بیاں ہونے کوہے
مثنوی
سہرے
بہ تقریب شادی حکیم عبد المجید خاں خلف حکیم غلام محمود خاں دہلوی)
بہ تقریب شادی حکیم محمد واصل خاں خلف حکیم غلام محمود خاں دہلوی)
بہ تقریب ِ شادی محمد سلیمان
بہ تقریب تسمیہ خوانی فرزند ارجمند نواب میر ابراہیم علی خاں
قطعہ مدحیہ
ایضاً
بہ تقریب سال گرہ فرزند اقبال پیوند مہارا و راجہ شودان سنگھ بہادر والیِ الور
قطعہ
قطعہ: بہ طلب کشتۂ مرجان بہ خدمت جناب حکیم محمود خاں دام افاضتہم
کوکب دوست نوازا و ملاذِ سالک
قطعہ ( مدح کوکب)
قطعہ (بہ فرمائش دوستے بہ تعریف فلفل سرخ)
قطعۂ دربیان کثرت اموات کہ بعد زمانۂ غدر واقع 1273 ہجری رودادہ
قطعات تاریخی ( قطعۂ تاریخ وفات عظیم الدین)
قطعہ تاریخ وفات زبدۃ العارفین۔۔۔۔
قطعہ ( تاریخ وفات عارف، مومن، تسکین)
قطعہ ٔ تاریخ وفات مرزا زین العابدین خاں عارف
قطعہ( بناے مسجد محمد شکور)
قطعۂ تاریخِ وفات میر کاظم علی سجادہ نشین حضرت سلیم چشتی ؒ
قطعہ تاریخ تعمیرِ مکان نواب غوث محمد خاں۔۔۔۔۔
قطعہ ( تاریخ خود کشی میر جان)
قطعہ (تاریخ وفات ثناءاللہ )
قطعۂ تاریخ میلادِ فرزندد سید محمد حسین تحصیل دار چونیہ
قطعہ (ولادت فرزند فتح جنگ)
قطعہ (تاریخ ولادت فرزند محمد نعیم خاں)
قطعۂ تاریخ طبع ’’شرح دساتیر‘‘ ۔۔۔
قطعہ ( تاریخ بناے مسجد و چاہ و سرا و باغ خرم علی خاں)
قطعۂ (تاریخ وفات دختران کوکب)
قطعہ (تاریخ وفات آثم )
قطعہ (مسجد جامع سہارن پور)
قطعہ (تاریخِ وفات یوسف میرزا)
قطعہ (تاریخ عطاے خلعتِ ہفت بارچہ بہ مرزا اسد اللہ خاں غالب)
قطعہ (تاریخ وفات میر افصل حسن)
قطعۂ تاریخ وفات نواب امین الدین خاں بہادر رئیس لوہارو
قطعہ ( تاریخ ولادت فرزند تفصل حسین خاں کوکب)
قطعہ تاریخ تولد نواب محمد رضا علی خاں
قطعہ تاریخ وفات مرزا اسد اللہ خاں غالب
قطعہ ایضاً
قطعہ ( تاریخِ وفات غالب)
قطعہ تاریخ وفات جناب مولوی محمد صدر الدین خاں مرحوم
قطعہ تاریخ انتقال فرزند محمد تفضل حسین خاں کوکب
قطعۂ تاریخ بہ تقریب جشنِ مسند نشیبی مہاراو راجہ شودان سنگھ بہادر والیِ الور
قطعہ تاریخ وفات نواب محمد امین اللہ خاں المعروف منشی امو جان
تاریخ طبع ترجمہ بوستان خیال خواجہ بد ر الدین
قطعہ (تاریخ وفات قدرت اللہ بیگ خاں)
قطعہ (بناے باغ)
قطعہ تاریخ عقد مولوی محمد عبد الرحیم خاں بیدل
قطعہ تاریخ کد خدائی حکیم عبد المجید خاں حکیم۔۔۔۔
قطعہ تاریخ کدخدائی حکیم عبد المجید خاں
قطعہ تاریخ مکتب نشینی فرزند میر ابراہیم علی خاں فدا خلف میر اکبر علی خاں مغفور
قطعہ (تاریخ ترجمہ اخلاقِ محسنی از گلزاری ناتھ)
قطعہ تاریخ ولادت فرزند مولوی محمد عبد الرحیم خاں بیدل
قطعۂ تاریخ تولد فرزند ارجمند آغا سید علی طوبیٰ تخلص شوستری
قطعہ تاریخ وفات دختر و ولادت فرزند حافظ محمد غلام دست گیر
قطعہ تاریخ وفات محمد عثمان خاں مدار المہام ریاست رام پور۔۔۔۔
قطعہ (تاریخ صحت لطف علی خاں)
تاریخ ولادت یادگار اصغر مولوی محمد عنایت الرحمان خاں صاحب۔۔۔
تاریخ وفات محمد تفضل حسین خان کوکب
تاریخ وفات میر حیدر حسین خاں عرف میر نواب
تاریخ تعمیر چاہ بنا کر دۂ خواجہ فرحت اللہ خاں
قطعہ تاریخ وفات نواب عبد الرسول خاں
قطعہ تاریخ وفات مولوی ہدایت اللہ صاحب جالیسری
قطعہ (تہنیت عید الاضحیٰ بہ میر یاور علی خاں شہاب جنگ)
قطعہ (تاریخ تصویر شاگرد پیشہ)
قطعہ الشاے مصنفہ مولوی محمد زین العابدین عرف سلطان میاں
قطعۂ تاریخ تولد فرزند سید حبیب شاہ برادر خرد سید فضل شاہ صاحب
قطعہ تاریخ وفات فرزند دل بند حافظ محمد عبد الغفور تجلی تخلص
قطعہ (تاریخ طبع شرف نامہ؟ از حکیم احمد)
قطعہ تاریخِ مثنویِ صفدر حسین خاں از اولاد ٹیپو سلطان۔۔۔۔
قطعہ تاریخ طبع قصہ ’’طلسم حیرت‘‘ مصنفۂ غلام رسول فوق تخلص۔۔۔۔
قطعہ (تاریخِ افتادنِ جام مملوکہ میر عالم علی)
قطعہ (تاریخ وفاتِ احمد حسن خاں)
قطعہ تاریخ وفتا محمد عبد المجید حیدرآبادی
قطعہ تاریخ مثنوی مصنفہ حافظ محمد کریم بخش احقر
قطعہ تاریخِ مسجد بنا کردۂ قصابانِ شہرِ احمد آباد
قطعہ تاریخ یافتن خطاب نواب میر غلام بابا خاں نقب خانی و بہادری از سرکار الکاشیہ
قطعۂ تاریخ وفات عندلیب چمنستان سخن وری محمد سرفراز علی وصفی
تاریخ وفات خواجہ بدر الدین خاں عرف خواجہ امان مترجم بوستان خیال
تاریخ طبع دیوان نواب مرزا خاں داغ موسوم یہ گلزار داغ
تاریخ شریک کردن حسن خاں باغ نو خرید را در باغ دل افروز
قطعہ تاریخ ولادت پسر میر عبد الجلیل
قطعہ تاریخ وفات شرف الدین
قطعہ تاریخ وفات مولوی غلام امام شہید تخلص
قطعہ (تاریخِ تمثال شریف بیگ)
قطعہ تاریخ تعمیر مکاں عبد الرحمان خاں صاحب کوتوال چھاؤں سکندر آباد
قطعۂ تاریخ کدخدای محمد عبد الوارث خاں ۔۔۔۔
قطعۂ غیر تاریخی
متفرقات
قطعات تاریخ طباعت کلیات سالک
ضمیمہ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔