سرورق
فہرست
حیات قلق
جس روز حرف عشق ہم آہنگ صور تھا
برق سحاب مہر ہے ابروے مصطفا
ہے چاک سینہ دشنہ نما وا محمدا
کیا نکلتا ہے طریقہ دیکھے تعزیر کا
قاصد کی جلدیوں نے یہ بدگماں بنایا
شیوہ تری حیا کا رسواے عام نکلا
وصل ہو تا تو نزاکت کا بہا نا ہوتا
گہہ فتنہ ہوں زمیں کا گہہ شور آسماں کا
نامہ لکھا فلق نے سنتے ہیں اس کی جانب
کن نگاہوں سے دل مستانہ ہم پیمانہ تھا
شب سر شوریدہ بالیں پر مرا یک جانہ تھا
تم دید ہے، دیدار کا خواہاں ہونا
یہ کس کا نقش پا خاکا ہے عالم کی صفائی کا
حذر اک دم خیال مدعی سے ہو نہیں سکتا
ہو طرح جب اپنی مشکل کو نہ آسان دیکھنا
جب نقد حسن رونق بازار ہوگیا
لذت قتل سے مقتل کو بھی بسمل دیکھا
در کعبہ سے عجب قافلہ ناداں نکلا
آتے ہی سانس سینہ چاک ہوا
غم بھی کھانے کو نہ جی بھر کے میسر آیا
وادی عشق میں جز یاس نہ رھبر آیا
گر فلک تجھ کو خوار ہونا تھا
حسن کس طرح سے برقع کا نہ خواہاں ہوگا
کیوں نہ ہم پہ کھل جاتا پہلے ہی مآل اپنا
ایک ہاتھ اور بھی لگا جاتا
غیر مرتا ہے تو میرا امتحاں ہو جائے گا
جو ہر آسماں سے کیا نہ ہوا
کیا آشیاں بتائیں کہاں تھا کہاں نہ تھا
کب عید گاہ سجدہ ترا آستاں نہ تھا
وفا کی قدر ہوئی گر جفا شعار کیا
تری ادا کو نہ کس کس نے اختیار کیا
خود دیکھ خودی کو او خود آرا
ہوں وہ نشاں سراغ نہیں جس کے نام کا
لگتا یتا کہیں نہیں دامان یار کا
ہے خموش انتظار بلا
گلی سے اپنی ادادہ نہ کر اٹھانے کا
دریغ غیر کے مرنے کا میں اگر ہوتا
حرماں بھی تو ارماں کے برابر نہیں ہوتا
یہ صدمۂ ہجراں سے وصال اپنا قریں تھا
سر جھکا یاں تک کہ جھکنا بھی پشیماں ہو گیا
قدر دان دوست اب وہ شوخ پر فن ہوگیا
ہمارا رنگ پریدہ ہے آسماں کیسا
نہ رہا شکوۂ جفا نہ رہا
اتنا ہی واماندہ تھا جتنا کوئی چالاک تھا
درد دل و جگر مرے رخ سے عیاں ہے اب
اس ماہ نے یہ راہ دکھائی تمام شب
بے بھی اے مایۂ شباب شراب
تم سے کس کا نکل سکا مطلب
کیا خبر تھی نقد دل لیتے ہی کھو جائیں گے آپ
جلتا ہوں اپنی آگ میں مثل چنار آپ
بے نشانی ہو تو ہو شاید نشان کوے دوست
کوچۂ غیر میں گزاری رات
کہیے کیا اور فیصلے کی بات
خط زمیں پر نہ اے فسون گر کاٹ
ہر وقت لب پہ آپ کا اب نام ہے عبث
الفت میں اور کرتے ہیں بیداد، الغیاث
قول افلاطون غلط بالضد اگر ہوتا علاج
انبساط خوشی تمہارا رنج
دست نازک سے تو تلوار نہ کھینچ
بے کس کا کون ہے کہ اجل نے بھی دی طرح
نہ کس طرح سے ہوں دربان وپاسباں گستاخ
دیکھ کر حسرت شدّاد کی داد
ہے ابتداے عشق مگر انتہا کے بعد
رمز ہستی دھن ہوش ربا کا ایجاد
تلخی زندگی ہے مجھے کس قدر لذیذ
سر سنگ سنگ پر ہے قدم خار خار پر
ناتوانی مجھے لپٹی ہے توانا ہو کر
کچھ زیست پہ جینا ہے نہ کچھ موت اجل پر
اس قدر دھڑکا کلیجا حالت دل دیکھ کر
اعجاز ابرو ولب ہر دم دکھا دکھا کر
لے گا کیا وادی وحشت سے تو الٹا پھر کر
آشوب زلزلہ نہیں آشفتہ سر سے دور
رشتۂ رسم محبت مت توڑ
ویسا ہی بدگمان ہے وہ بد گماں ہنوز
کسی کو چین نہ دے دور آسماں شب وروز
اس قدر ہو گئے ہم زیست سے ناچار کہ بس
نہ رکی سیل چشم تر افسوس
ہوں وصل سے ہوں دور میں گل پیر ہن کے پاس
چمن سے کم نہیں اب خوے اعتکاف قفس
ہر آبلۂ پا ہے مرا اخگر آتش
الٰہی ہو غش سے مداواے غش
رھتا ہے واں حجاب میں شو رباب و رقص
اس عہد میں نہیں ہے بشر کو بشر سے فیض
دعوی ترک وفاداری غلط
ہم اور اس طرح سے کریں غیر کا لحاظ
چل دیے ہم اے غم عالم وداع
دیدۂ صرف انتظار ہے شمع
آن سے کہاں کہ صدق محبت مگر دروغ
سارے ہی سارے جسم میں روح رواں ہے داغ
رہنما کیا ہمیں در کاربیاباں کی طرف
نہیں جس کو خبر دل ہی کی وہ بر سے کیا واقف
تجھے کل ہی سے نہیں بے کلہی نہ کچھ آج ہی سے رہا قلق
وہ بعد مرگ دے شمن کو یہ تو قیر مٹی کی
ہر عدادوت کی ابتدا ہے عشق
ہو جدا اے چارہ گر ہے مجھ کو آزار فراق
نہ پہنچے ہاتھ جس کا ضعف سے تا زیست دامن تک
ناصح کی بات بات میں ہے کیا بلا نمک
جی سے ہے اپنے جاؤں آتا ہے کون یاں تک
ہے آس کی بزم میں رند خراب ایک پہ ایک
نہ جائے گا سر و سودا مرا زنہار گردن تک
اے ستم آزما جفا کب تک
ردیف الکاف فارسی
اتنے مجھے کہ دی ہوس خشک و تر میں آگ
ردیف ال
کس قدر دل ربا نما ہے دل
جز موج پیچ و تاب نہیں ماجراے دل
کوئی بھی مرحلہ نہیں تسکیں فزاے دل
بلبل نہ کس طرح ہو نثار اداے گل
ردیف المیم
زور آزمائی کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم
اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم
اس پر مٹے ہوئے ہیں تجھ پر نثار ہیں ہم
کیا آکے جہاں میں کر گئے ہم
خدا سے ڈرتے تو خوف خدا نہ کرتے ہم
آپ کے محرم اسرار تھے اغیار کہ ہم
نقش بر آپ نام ہے سیل فنا مقام
طرز نگہ یہ جامے سے باہر نقاب میں
جیتا ہوں ذوق دل سے مرے تن میں جاں نہیں
جیتے بے جان ہیں اور مرنے کو جاں رکھتے ہیں
نالہ کیا نہیں ہے کہ وہ بے قرار ہیں
دیکھ ہم تجھ سے اک امید وفا رکھتے ہیں
تیرے وعدے کا اختتام نہیں
جانے جانتے ہیں کہاں عزم کدھر رکھتے ہیں
دل بری چیز ہے تو ہم بھی دیے بیٹھے ہیں
ہم تشنہ کام بادگساری اگر کریں
آئے کیا تیرا تصور دھیان میں
اپنا گواہ کس کو میں تیرے سوا کروں
نالہ تو لب تک آہی گیا، کہے کیا کروں
تیرے در پر مقام رکھتے ہیں
کیا ہے برہم و درہم جہاں کو ایک ٹھو کر میں
انھیں پھر امتحان یادآگیا میدان محشر میں
غیر شایان رسم و راہ نہیں
ہم تو یاں مرتے ہیں واں اس کو خبر کچھ بھی نہیں
دوستی مدعی کس کس کے نقش دل نہیں
کیوں کریں حق وفا سے پئے انکار نہیں
نکالو ہم کو زنداں سے کہ آبادی ہو زنداں میں
اڑاؤں نہ کیوں تار تار گریباں
بیگانہ ادائی ہے ستم جور وستم میں
دل اس پہ ہے نثار میں دل پر نثار ہوں
مرنے والوں سے فرشتے بھی دبا کرتے ہیں
اس شرم پر تو خیرہ کشی کچھ ستم نہیں
نامۂ شوق اسے غصے میں رقم کرتے ہیں
خوشی میں بھی نواسنج فغاں ہوں
آٹھنے میں درد متصل ہوں میں
پھرے ہے دیکھے دنیا کدھر کو دیکھتے ہیں
ردیف الواؤ
ہے برق دید چشم تماشا جو تو نہ ہو
مثت غبار اپنا اگر کو بہ کو نہ ہو
ہم کو اگر خیال خم موبہ مو نہ ہو
فرط گریہ نے کیا قطرۂ سرگم مجھ کو
نہ پوچھو ناتوانی فغاں کو
تھک تھک گئے ہیں عاشق درماندۂ فغاں ہو
دل کو نظروں میں لے گیا دیکھو
اچھی سی مری جان چلی دل کا برا ہو
دیکھوں تجھے مگر تری جانب نظر نہ ہو
کھلا ہے پھر کے در مے کدہ مبارک ہو
تقدیر کا معارضہ تد بیر سے نہ ہو
پھرے ہے ساتھ میرے جور گردوں داد خواہی کو
گرشرم چشم یار میں دامن کشاں نہ ہو
طوفاں کشا ہے گریہ دم آتشیں کے ساتھ
قاتل نے میرے دل کو جو دیکھا لگا کے ہاتھ
نہ انتظار مسافت نہ فکر یار مجھے
ردیف الیا
کیا سرکشی پسند ہمارا نیاز ہے
پڑا ہے دیر و کعبے میں یہ کیسا غل خدا جانے
کوئی کیسا ہی ثابت ہو طبیعت آہی جاتی ہے
دل کے ہر جزو میں جدائی ہے
وہی وعدہ ہے، وہی آرزو وہی اپنی عمر تمام ہے
مجھ کو مارا ہے مروت نے وفا سے پہلے
در سے ترے گزر کر، گزرے ہم اپنی جاں سے
جو دلبر کی محبت دل سے بدلے
سامان عیش و ناز ہے آزار جاں مجھے
کیوں سر بہ گریباں ستم آرا مرے آگے
بند نقاب اس کا ہر دم کھلا رہا ہے
مٹ مٹ کے خاک طالب دیدار ہو گئے
غضب تھی آنکھ لگنی اک نظر کی
سدا الفت میں مر مر کر بسر کی
کیا کہیں تجھ سے ہم وفا کیا ہے
جس جگہ لے کے چشم تر بیٹھے
نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے
راز دل دوست کو سنا بیٹھے
زندگی مرگ کی مہلت ہی سہی
گریے میں نور نظر روز بہا کرتا ہے
جاں لب پہ یہ کب تک نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے
جدھر کو وہ ستم آرا لگام لیتا ہے
دوستی اس کی دشمنی ہی سہی
دوری میں کیوں کہ ہو نہ تمنا حضور کی
چشم کو دل سے چار ہونے دے
لب جاں بخش و جاں گزا ہے ہے
دل ٹھہرنے پہ ٹھہرے، نہ چلنے کو جی چلے
رباعیات
ردیف الباء
اے آہ نہیں کوئی ہم آہنگ اپنا
دروازے پہ تیرے ہی مروں گا یارب
گاہے تو کرم ہم پہ بھی فرمائیں آپ
ردیف التاء
پر لگ گئے ایسے کہ آڑائی غیرت
تاریخ صحت آشوب چشم
جب تک رمد آلود تھی چشم حضرت
دل سے مجھے آنے کی ہے ان کے آہٹ
تیرا ہے جہاں خالق یزداں محتاج
جاہل کی ہے میراث قلق تخت و تاج
ردیف الثاء مثلثہ
ردیف الجیم
خود رفتہ ہو بدمست ہو کیسا ہے مزاج
ردیف جیم فارسی
معیوب ہے ہر سحر کا آنا اے صبح
ژولیدہ معما ہے جہان پر پیچ
ردیف الخاء المعجمہ
زھّاد کا غفلت سے ہے اورادو سجود
اے چرخ تجھے کہتے ہیں سب پیر نہاد
ردیف الدال المہملہ
درتہنیت عید
ردیف الذال
فلک میں ضبط کو سمجھا تھا جو ہر الفت
افسانۂ یار بہر وصلت ہے لذیذ
ردیف الراء
کیا خستگی بخت ستاتی ہے مجھے پیماں ہے کر
ردیف الصاد مہملہ
غیروں کو شب وصل بلانے سے غرض
ردیف الظاء معجمہ
افسوس کہ ہے الفت دل خواہ غلط
ردیف الطاء مہملہ
ردیف الغین معجمہ
ردیف العین مہملہ
ردیف الفاء
ردیف الکاف
ردیف القاف
ردیف کاف فارسی
ردیف اللام
ہے بس کہ جوانی میں بڑھاپے کا غم
ردیف المیم
ردیف النون
اہے چشم غمیں تیرے عوض روئے کون
ردیف الواؤ
ردیف الہاے ہورّ
ردیف الیاے تحتانی
دریاد کافرہ منصوہ
درہجر یگانہ دل سوز اخی مولوی عبد الکریم سوز خلف مغفور صہبائی داغ ناصیۂ ناصیۂ شہادت برنائی
مرثیت
مرثیت
حصۂ مخمسات
تخمیس بر غزل شریف تبریزی
لب پر تھی جان چشم میں تھا انتظار دوست
تخمیس غزل بیدل میرزا عبد القادر مغفور دھلوی
تخمیس اردو غزل میرزا متخلص بہ سودا
حال قلق تو کیا کہوں افشا ہے چار سو
حصۂ مسدسات
مسدس ترجیع بند
ترجیع بند
کس طرح سے چھوڑ دوں وفا کو
دیوانہ ہوں ناز مدعی کا
یک لخت پھرا زمانہ ہے ہے
دل پر اگر اختیار ہوتا
بیزاری صبر وناز غم حیف
بے رحم کے خاک کام کا دل
گر عشق خود آشنا نہ ہوتا
ہر دم کی عیاں ہے تیغ رانی
دم سے پہلے ہوا ہوا تو
گر نالۂ دل نشیں اب آتا
جو تیرا قدیم آئنا تھا
متفرقات
روزے کہ شود اذالسماء انفطرت
اے خانہ برانداز حیا ہم سے پھرا تو
مرثیہ
مرثیہ امام ہمام حسین ابن علی ابن ابی طالب علیہ السلام
حصۂ قصائد
قصیدہ در مدح نواب مصطفی خاں شیفتہ
قسم ہے حکمت یزادن اہرمن کش کی
جو تو فشردہ جہاں معرکے میں ہو جائے
جو تیری تیغ نکل آئے فرق دشمن پر
ترا سمند جو کاوے پہ آئے میداں میں
جو تیرا فیل دم معرکہ ہوا میں بھرے
تو دل لگا کے سنے تو میں اپنے جی کی کہوں
نہ دے فریب اثر مجھ کو نالۂ نشاد
ہے جہان میں جب تک علاقہ و پیوند
قصیدہ در مدح لالہ نرائن داس
شب گزشتہ مری طبع میر بالیں پر
یہ سنتے ہی میں اٹھا اور لکھا یہ مطلع صاف
میں روؤں تجھ سے کہاں تک وبال گردوں کو
کہاں تلک میں تری گنج بخشیاں لکھوں
گرہ کشا ہے جبیں کرم تری ایسی
جو تیرے پیل سبک سیر کا میں لکھوں وصف
ترا سمند صبا سیر برق ہے گویا
میں تیری تیغ کے اوصاف کس طرح لکھوں
مدیح جیسا ہوں میں ویسا ہی ہے تو ممدوح
معما بہ اسیم نرائن داس ممدوح
رہے یہ عالم اسباب جب تلک یعنی
سچ تو یہ ہے کہ طبیعت نے کیا حیلۂ نظم
قصیدہ در مدح حیات خاں گرداور
گرچہ عالم کے لیے عید ہے صد مایۂ ناز
دل میں کچھ تو ہی سمجھ لے میں کہوں یا نہ کہوں
سایہ کوڑے کا اگر اسپ پہ تیرے پھر جائے
تیری بخشش سے زمانہ یہ ہوا مستغنی
تعریف اسپ
جب تلک روز نعم فاقہ کش و مفلس کو
قصیدہ در مدح مشفق فرخندہ سیر حافظ محمد اکبر ضلع دار نہر گنگ
زمیں سے جھگڑا ہے اے دل تو آسماں سے جنگ
محل جاہ کا تیرے فلک ہو جب ہم سنگ
قلق یہ ڈھنگ ہے نا آشنائیوں کا
نہ پوچھ قدرت دست سخا کو تو اپنے
تو عرش جاہ اب اہل زمیں میں کیوں کہ نہ ہو
تعریف شمشیر
نہ پوچھ تیغ کی جولانیوں کا کچھ تو حال
دعا کو ہاتھ اٹھاتا ہوں عاقبت میں بھی
قصیدہ درمدح نواب کلب علی خاں والی ریاست رام پور
تیغ خورشید حمائل کیے بیٹھا ہے حمل
انبساط اب وہ ہوا میں ہے سمائی آکر
کس قدر برق ہے شب دیز پری وش اس کا
پستی فکر سے ہے دور ترا اوج محل
تاب کیا ہے جو کوئی ظلم کسی پر کر جائے
گر تری تیغ کو آجائے سر قطع نور
گر ترا اسپ ہو جولان گر ادوار زماں
یشت پر فیل کی جلوہ ترایوں نور نظر
داورا فخر سخن ہیچ میں کیا تجھ سے کہوں
جب تلک غرۂ شوال سے توبہ ٹوٹے
در مدح محمد حیات خاں صاحب مغفور گرداور پرمٹ
اللہ رے تیرے جاہ کی تقسیم سلطنت
وقف فغاں رہے تو رہے نغمۂ طرب
جب تک کہ آئے روز خوشی شام غم کے بعد
دریاے بے کنار لقب فتح کا ہوا
قصیدہ در مدح رابرٹ جارج گری
جائے عرضی عرض ہے یہ قطعہ سینے حرف حرف
جب تلک ہے کام جو کا دیدۂ امید وا
قطعات ومسدس مدحیہ
حریف خام یہ شیوہ ترا نہیں بہتر
قطعہ درتہنیت عید در مدح منشی برکت علی صاحب
تری متانت انشا خلاصۂ فطرت
میں خانداں کا ترے وصف کس پہ خم کروں
طریق دھر ہو تا رسم شادی و ماتم
قطعہ در مدح ملکۂ انگلستان(وکٹوریہ) فرماں رواے ہند
حاکم ہر دو جہاں یعنی خدا وند ازل
اے خان حیات خان فرخ
قطعہ(۳) در طلب چار روپیہ بہ حدمت محمد حیت خان
قطعہ (۵) بہ خدمت سید احمد حسن فرقانی
اے محبت پناہ فرقانی
لائق شکر ہے وہے واہب بے ضنت وبخل
قطعہ (۶) بہ محب شیخ عبد الصمد فوق بہ استعفاے شکر رنجی
اے فوق آشنا ہے قلق غیر تو نہیں
مسدس (درمدح منشی برکت علی صاحب سلمہ ربہ)
بند دعائیہ
ہو جشن عید جب تک عالم میں عشر آرا
منظوم مسودۂ رقعہ
منظوم رقعہ شادی برخوردار عنایت احمد خلف صدق قاضی فضل احمد صاحب تحصیل دار
مثنوی مسودۂ رقعۂ شادی اجودھیا پرشاد خلف گردھاری لال ساہو کار ۱۲۸۳ ہجری
مثنوی مسودۂ رقعہ بزم ہولی از جانب لالہ گلاب سنگھ گماشتۂ کمسریٹ سرکاری
وقت عیش و نشاط آپہنچا
مثنوی دعوت نامۂ شادی کا متا پرشاد
مثنوی دعوت نامۂ شادی مقبول حسین
مثنوی دعوت نامۂ شادی محمد سعادت علی
مثنوی رقعہ شادی بسم اللہ کہ براے فرزند دل بند مولوی ہاشم علی گفتہ شد)
تقریظ
سپا سے کہ آغاز ہو کار زوست
وہ چہ خوش ففتہ اند کار آگاہ
تقریظ
تقریظ از حافظ امداد حسین صاحب ظہور میرٹھی
ریختۂ کلک گوھر سلک مولوی محمد عبد الحی صاحب المتخلص بہ صفا وکیل عدالت بلاری
قطعات تاریخ اجتماع وطبع کلیات حکیم غلام مولیٰ قلق
قطعات تاریخ از پنڈت امراؤ سنگھ صاحب متخلص بہ حباب ماسٹر کالج روڑکی
قطعہ تاریخ طبع زاد بابو خاں صاحب محب ساکن مرٹھ
می کند ناز روزگار اکنوں
خاتمۃ الطبع
تقریظ بہارستان ناؤ (طبع دوم ۱۲۸۵ء از لتائج طبع عالی حکیم مولا بخش صاحب قلق متوطن میرٹھ
لکھے کیا کوئی فکر اوج غالب
سرورق
فہرست
حیات قلق
جس روز حرف عشق ہم آہنگ صور تھا
برق سحاب مہر ہے ابروے مصطفا
ہے چاک سینہ دشنہ نما وا محمدا
کیا نکلتا ہے طریقہ دیکھے تعزیر کا
قاصد کی جلدیوں نے یہ بدگماں بنایا
شیوہ تری حیا کا رسواے عام نکلا
وصل ہو تا تو نزاکت کا بہا نا ہوتا
گہہ فتنہ ہوں زمیں کا گہہ شور آسماں کا
نامہ لکھا فلق نے سنتے ہیں اس کی جانب
کن نگاہوں سے دل مستانہ ہم پیمانہ تھا
شب سر شوریدہ بالیں پر مرا یک جانہ تھا
تم دید ہے، دیدار کا خواہاں ہونا
یہ کس کا نقش پا خاکا ہے عالم کی صفائی کا
حذر اک دم خیال مدعی سے ہو نہیں سکتا
ہو طرح جب اپنی مشکل کو نہ آسان دیکھنا
جب نقد حسن رونق بازار ہوگیا
لذت قتل سے مقتل کو بھی بسمل دیکھا
در کعبہ سے عجب قافلہ ناداں نکلا
آتے ہی سانس سینہ چاک ہوا
غم بھی کھانے کو نہ جی بھر کے میسر آیا
وادی عشق میں جز یاس نہ رھبر آیا
گر فلک تجھ کو خوار ہونا تھا
حسن کس طرح سے برقع کا نہ خواہاں ہوگا
کیوں نہ ہم پہ کھل جاتا پہلے ہی مآل اپنا
ایک ہاتھ اور بھی لگا جاتا
غیر مرتا ہے تو میرا امتحاں ہو جائے گا
جو ہر آسماں سے کیا نہ ہوا
کیا آشیاں بتائیں کہاں تھا کہاں نہ تھا
کب عید گاہ سجدہ ترا آستاں نہ تھا
وفا کی قدر ہوئی گر جفا شعار کیا
تری ادا کو نہ کس کس نے اختیار کیا
خود دیکھ خودی کو او خود آرا
ہوں وہ نشاں سراغ نہیں جس کے نام کا
لگتا یتا کہیں نہیں دامان یار کا
ہے خموش انتظار بلا
گلی سے اپنی ادادہ نہ کر اٹھانے کا
دریغ غیر کے مرنے کا میں اگر ہوتا
حرماں بھی تو ارماں کے برابر نہیں ہوتا
یہ صدمۂ ہجراں سے وصال اپنا قریں تھا
سر جھکا یاں تک کہ جھکنا بھی پشیماں ہو گیا
قدر دان دوست اب وہ شوخ پر فن ہوگیا
ہمارا رنگ پریدہ ہے آسماں کیسا
نہ رہا شکوۂ جفا نہ رہا
اتنا ہی واماندہ تھا جتنا کوئی چالاک تھا
درد دل و جگر مرے رخ سے عیاں ہے اب
اس ماہ نے یہ راہ دکھائی تمام شب
بے بھی اے مایۂ شباب شراب
تم سے کس کا نکل سکا مطلب
کیا خبر تھی نقد دل لیتے ہی کھو جائیں گے آپ
جلتا ہوں اپنی آگ میں مثل چنار آپ
بے نشانی ہو تو ہو شاید نشان کوے دوست
کوچۂ غیر میں گزاری رات
کہیے کیا اور فیصلے کی بات
خط زمیں پر نہ اے فسون گر کاٹ
ہر وقت لب پہ آپ کا اب نام ہے عبث
الفت میں اور کرتے ہیں بیداد، الغیاث
قول افلاطون غلط بالضد اگر ہوتا علاج
انبساط خوشی تمہارا رنج
دست نازک سے تو تلوار نہ کھینچ
بے کس کا کون ہے کہ اجل نے بھی دی طرح
نہ کس طرح سے ہوں دربان وپاسباں گستاخ
دیکھ کر حسرت شدّاد کی داد
ہے ابتداے عشق مگر انتہا کے بعد
رمز ہستی دھن ہوش ربا کا ایجاد
تلخی زندگی ہے مجھے کس قدر لذیذ
سر سنگ سنگ پر ہے قدم خار خار پر
ناتوانی مجھے لپٹی ہے توانا ہو کر
کچھ زیست پہ جینا ہے نہ کچھ موت اجل پر
اس قدر دھڑکا کلیجا حالت دل دیکھ کر
اعجاز ابرو ولب ہر دم دکھا دکھا کر
لے گا کیا وادی وحشت سے تو الٹا پھر کر
آشوب زلزلہ نہیں آشفتہ سر سے دور
رشتۂ رسم محبت مت توڑ
ویسا ہی بدگمان ہے وہ بد گماں ہنوز
کسی کو چین نہ دے دور آسماں شب وروز
اس قدر ہو گئے ہم زیست سے ناچار کہ بس
نہ رکی سیل چشم تر افسوس
ہوں وصل سے ہوں دور میں گل پیر ہن کے پاس
چمن سے کم نہیں اب خوے اعتکاف قفس
ہر آبلۂ پا ہے مرا اخگر آتش
الٰہی ہو غش سے مداواے غش
رھتا ہے واں حجاب میں شو رباب و رقص
اس عہد میں نہیں ہے بشر کو بشر سے فیض
دعوی ترک وفاداری غلط
ہم اور اس طرح سے کریں غیر کا لحاظ
چل دیے ہم اے غم عالم وداع
دیدۂ صرف انتظار ہے شمع
آن سے کہاں کہ صدق محبت مگر دروغ
سارے ہی سارے جسم میں روح رواں ہے داغ
رہنما کیا ہمیں در کاربیاباں کی طرف
نہیں جس کو خبر دل ہی کی وہ بر سے کیا واقف
تجھے کل ہی سے نہیں بے کلہی نہ کچھ آج ہی سے رہا قلق
وہ بعد مرگ دے شمن کو یہ تو قیر مٹی کی
ہر عدادوت کی ابتدا ہے عشق
ہو جدا اے چارہ گر ہے مجھ کو آزار فراق
نہ پہنچے ہاتھ جس کا ضعف سے تا زیست دامن تک
ناصح کی بات بات میں ہے کیا بلا نمک
جی سے ہے اپنے جاؤں آتا ہے کون یاں تک
ہے آس کی بزم میں رند خراب ایک پہ ایک
نہ جائے گا سر و سودا مرا زنہار گردن تک
اے ستم آزما جفا کب تک
ردیف الکاف فارسی
اتنے مجھے کہ دی ہوس خشک و تر میں آگ
ردیف ال
کس قدر دل ربا نما ہے دل
جز موج پیچ و تاب نہیں ماجراے دل
کوئی بھی مرحلہ نہیں تسکیں فزاے دل
بلبل نہ کس طرح ہو نثار اداے گل
ردیف المیم
زور آزمائی کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم
اے خار خار حسرت کیا کیا فگار ہیں ہم
اس پر مٹے ہوئے ہیں تجھ پر نثار ہیں ہم
کیا آکے جہاں میں کر گئے ہم
خدا سے ڈرتے تو خوف خدا نہ کرتے ہم
آپ کے محرم اسرار تھے اغیار کہ ہم
نقش بر آپ نام ہے سیل فنا مقام
طرز نگہ یہ جامے سے باہر نقاب میں
جیتا ہوں ذوق دل سے مرے تن میں جاں نہیں
جیتے بے جان ہیں اور مرنے کو جاں رکھتے ہیں
نالہ کیا نہیں ہے کہ وہ بے قرار ہیں
دیکھ ہم تجھ سے اک امید وفا رکھتے ہیں
تیرے وعدے کا اختتام نہیں
جانے جانتے ہیں کہاں عزم کدھر رکھتے ہیں
دل بری چیز ہے تو ہم بھی دیے بیٹھے ہیں
ہم تشنہ کام بادگساری اگر کریں
آئے کیا تیرا تصور دھیان میں
اپنا گواہ کس کو میں تیرے سوا کروں
نالہ تو لب تک آہی گیا، کہے کیا کروں
تیرے در پر مقام رکھتے ہیں
کیا ہے برہم و درہم جہاں کو ایک ٹھو کر میں
انھیں پھر امتحان یادآگیا میدان محشر میں
غیر شایان رسم و راہ نہیں
ہم تو یاں مرتے ہیں واں اس کو خبر کچھ بھی نہیں
دوستی مدعی کس کس کے نقش دل نہیں
کیوں کریں حق وفا سے پئے انکار نہیں
نکالو ہم کو زنداں سے کہ آبادی ہو زنداں میں
اڑاؤں نہ کیوں تار تار گریباں
بیگانہ ادائی ہے ستم جور وستم میں
دل اس پہ ہے نثار میں دل پر نثار ہوں
مرنے والوں سے فرشتے بھی دبا کرتے ہیں
اس شرم پر تو خیرہ کشی کچھ ستم نہیں
نامۂ شوق اسے غصے میں رقم کرتے ہیں
خوشی میں بھی نواسنج فغاں ہوں
آٹھنے میں درد متصل ہوں میں
پھرے ہے دیکھے دنیا کدھر کو دیکھتے ہیں
ردیف الواؤ
ہے برق دید چشم تماشا جو تو نہ ہو
مثت غبار اپنا اگر کو بہ کو نہ ہو
ہم کو اگر خیال خم موبہ مو نہ ہو
فرط گریہ نے کیا قطرۂ سرگم مجھ کو
نہ پوچھو ناتوانی فغاں کو
تھک تھک گئے ہیں عاشق درماندۂ فغاں ہو
دل کو نظروں میں لے گیا دیکھو
اچھی سی مری جان چلی دل کا برا ہو
دیکھوں تجھے مگر تری جانب نظر نہ ہو
کھلا ہے پھر کے در مے کدہ مبارک ہو
تقدیر کا معارضہ تد بیر سے نہ ہو
پھرے ہے ساتھ میرے جور گردوں داد خواہی کو
گرشرم چشم یار میں دامن کشاں نہ ہو
طوفاں کشا ہے گریہ دم آتشیں کے ساتھ
قاتل نے میرے دل کو جو دیکھا لگا کے ہاتھ
نہ انتظار مسافت نہ فکر یار مجھے
ردیف الیا
کیا سرکشی پسند ہمارا نیاز ہے
پڑا ہے دیر و کعبے میں یہ کیسا غل خدا جانے
کوئی کیسا ہی ثابت ہو طبیعت آہی جاتی ہے
دل کے ہر جزو میں جدائی ہے
وہی وعدہ ہے، وہی آرزو وہی اپنی عمر تمام ہے
مجھ کو مارا ہے مروت نے وفا سے پہلے
در سے ترے گزر کر، گزرے ہم اپنی جاں سے
جو دلبر کی محبت دل سے بدلے
سامان عیش و ناز ہے آزار جاں مجھے
کیوں سر بہ گریباں ستم آرا مرے آگے
بند نقاب اس کا ہر دم کھلا رہا ہے
مٹ مٹ کے خاک طالب دیدار ہو گئے
غضب تھی آنکھ لگنی اک نظر کی
سدا الفت میں مر مر کر بسر کی
کیا کہیں تجھ سے ہم وفا کیا ہے
جس جگہ لے کے چشم تر بیٹھے
نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے
راز دل دوست کو سنا بیٹھے
زندگی مرگ کی مہلت ہی سہی
گریے میں نور نظر روز بہا کرتا ہے
جاں لب پہ یہ کب تک نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے
جدھر کو وہ ستم آرا لگام لیتا ہے
دوستی اس کی دشمنی ہی سہی
دوری میں کیوں کہ ہو نہ تمنا حضور کی
چشم کو دل سے چار ہونے دے
لب جاں بخش و جاں گزا ہے ہے
دل ٹھہرنے پہ ٹھہرے، نہ چلنے کو جی چلے
رباعیات
ردیف الباء
اے آہ نہیں کوئی ہم آہنگ اپنا
دروازے پہ تیرے ہی مروں گا یارب
گاہے تو کرم ہم پہ بھی فرمائیں آپ
ردیف التاء
پر لگ گئے ایسے کہ آڑائی غیرت
تاریخ صحت آشوب چشم
جب تک رمد آلود تھی چشم حضرت
دل سے مجھے آنے کی ہے ان کے آہٹ
تیرا ہے جہاں خالق یزداں محتاج
جاہل کی ہے میراث قلق تخت و تاج
ردیف الثاء مثلثہ
ردیف الجیم
خود رفتہ ہو بدمست ہو کیسا ہے مزاج
ردیف جیم فارسی
معیوب ہے ہر سحر کا آنا اے صبح
ژولیدہ معما ہے جہان پر پیچ
ردیف الخاء المعجمہ
زھّاد کا غفلت سے ہے اورادو سجود
اے چرخ تجھے کہتے ہیں سب پیر نہاد
ردیف الدال المہملہ
درتہنیت عید
ردیف الذال
فلک میں ضبط کو سمجھا تھا جو ہر الفت
افسانۂ یار بہر وصلت ہے لذیذ
ردیف الراء
کیا خستگی بخت ستاتی ہے مجھے پیماں ہے کر
ردیف الصاد مہملہ
غیروں کو شب وصل بلانے سے غرض
ردیف الظاء معجمہ
افسوس کہ ہے الفت دل خواہ غلط
ردیف الطاء مہملہ
ردیف الغین معجمہ
ردیف العین مہملہ
ردیف الفاء
ردیف الکاف
ردیف القاف
ردیف کاف فارسی
ردیف اللام
ہے بس کہ جوانی میں بڑھاپے کا غم
ردیف المیم
ردیف النون
اہے چشم غمیں تیرے عوض روئے کون
ردیف الواؤ
ردیف الہاے ہورّ
ردیف الیاے تحتانی
دریاد کافرہ منصوہ
درہجر یگانہ دل سوز اخی مولوی عبد الکریم سوز خلف مغفور صہبائی داغ ناصیۂ ناصیۂ شہادت برنائی
مرثیت
مرثیت
حصۂ مخمسات
تخمیس بر غزل شریف تبریزی
لب پر تھی جان چشم میں تھا انتظار دوست
تخمیس غزل بیدل میرزا عبد القادر مغفور دھلوی
تخمیس اردو غزل میرزا متخلص بہ سودا
حال قلق تو کیا کہوں افشا ہے چار سو
حصۂ مسدسات
مسدس ترجیع بند
ترجیع بند
کس طرح سے چھوڑ دوں وفا کو
دیوانہ ہوں ناز مدعی کا
یک لخت پھرا زمانہ ہے ہے
دل پر اگر اختیار ہوتا
بیزاری صبر وناز غم حیف
بے رحم کے خاک کام کا دل
گر عشق خود آشنا نہ ہوتا
ہر دم کی عیاں ہے تیغ رانی
دم سے پہلے ہوا ہوا تو
گر نالۂ دل نشیں اب آتا
جو تیرا قدیم آئنا تھا
متفرقات
روزے کہ شود اذالسماء انفطرت
اے خانہ برانداز حیا ہم سے پھرا تو
مرثیہ
مرثیہ امام ہمام حسین ابن علی ابن ابی طالب علیہ السلام
حصۂ قصائد
قصیدہ در مدح نواب مصطفی خاں شیفتہ
قسم ہے حکمت یزادن اہرمن کش کی
جو تو فشردہ جہاں معرکے میں ہو جائے
جو تیری تیغ نکل آئے فرق دشمن پر
ترا سمند جو کاوے پہ آئے میداں میں
جو تیرا فیل دم معرکہ ہوا میں بھرے
تو دل لگا کے سنے تو میں اپنے جی کی کہوں
نہ دے فریب اثر مجھ کو نالۂ نشاد
ہے جہان میں جب تک علاقہ و پیوند
قصیدہ در مدح لالہ نرائن داس
شب گزشتہ مری طبع میر بالیں پر
یہ سنتے ہی میں اٹھا اور لکھا یہ مطلع صاف
میں روؤں تجھ سے کہاں تک وبال گردوں کو
کہاں تلک میں تری گنج بخشیاں لکھوں
گرہ کشا ہے جبیں کرم تری ایسی
جو تیرے پیل سبک سیر کا میں لکھوں وصف
ترا سمند صبا سیر برق ہے گویا
میں تیری تیغ کے اوصاف کس طرح لکھوں
مدیح جیسا ہوں میں ویسا ہی ہے تو ممدوح
معما بہ اسیم نرائن داس ممدوح
رہے یہ عالم اسباب جب تلک یعنی
سچ تو یہ ہے کہ طبیعت نے کیا حیلۂ نظم
قصیدہ در مدح حیات خاں گرداور
گرچہ عالم کے لیے عید ہے صد مایۂ ناز
دل میں کچھ تو ہی سمجھ لے میں کہوں یا نہ کہوں
سایہ کوڑے کا اگر اسپ پہ تیرے پھر جائے
تیری بخشش سے زمانہ یہ ہوا مستغنی
تعریف اسپ
جب تلک روز نعم فاقہ کش و مفلس کو
قصیدہ در مدح مشفق فرخندہ سیر حافظ محمد اکبر ضلع دار نہر گنگ
زمیں سے جھگڑا ہے اے دل تو آسماں سے جنگ
محل جاہ کا تیرے فلک ہو جب ہم سنگ
قلق یہ ڈھنگ ہے نا آشنائیوں کا
نہ پوچھ قدرت دست سخا کو تو اپنے
تو عرش جاہ اب اہل زمیں میں کیوں کہ نہ ہو
تعریف شمشیر
نہ پوچھ تیغ کی جولانیوں کا کچھ تو حال
دعا کو ہاتھ اٹھاتا ہوں عاقبت میں بھی
قصیدہ درمدح نواب کلب علی خاں والی ریاست رام پور
تیغ خورشید حمائل کیے بیٹھا ہے حمل
انبساط اب وہ ہوا میں ہے سمائی آکر
کس قدر برق ہے شب دیز پری وش اس کا
پستی فکر سے ہے دور ترا اوج محل
تاب کیا ہے جو کوئی ظلم کسی پر کر جائے
گر تری تیغ کو آجائے سر قطع نور
گر ترا اسپ ہو جولان گر ادوار زماں
یشت پر فیل کی جلوہ ترایوں نور نظر
داورا فخر سخن ہیچ میں کیا تجھ سے کہوں
جب تلک غرۂ شوال سے توبہ ٹوٹے
در مدح محمد حیات خاں صاحب مغفور گرداور پرمٹ
اللہ رے تیرے جاہ کی تقسیم سلطنت
وقف فغاں رہے تو رہے نغمۂ طرب
جب تک کہ آئے روز خوشی شام غم کے بعد
دریاے بے کنار لقب فتح کا ہوا
قصیدہ در مدح رابرٹ جارج گری
جائے عرضی عرض ہے یہ قطعہ سینے حرف حرف
جب تلک ہے کام جو کا دیدۂ امید وا
قطعات ومسدس مدحیہ
حریف خام یہ شیوہ ترا نہیں بہتر
قطعہ درتہنیت عید در مدح منشی برکت علی صاحب
تری متانت انشا خلاصۂ فطرت
میں خانداں کا ترے وصف کس پہ خم کروں
طریق دھر ہو تا رسم شادی و ماتم
قطعہ در مدح ملکۂ انگلستان(وکٹوریہ) فرماں رواے ہند
حاکم ہر دو جہاں یعنی خدا وند ازل
اے خان حیات خان فرخ
قطعہ(۳) در طلب چار روپیہ بہ حدمت محمد حیت خان
قطعہ (۵) بہ خدمت سید احمد حسن فرقانی
اے محبت پناہ فرقانی
لائق شکر ہے وہے واہب بے ضنت وبخل
قطعہ (۶) بہ محب شیخ عبد الصمد فوق بہ استعفاے شکر رنجی
اے فوق آشنا ہے قلق غیر تو نہیں
مسدس (درمدح منشی برکت علی صاحب سلمہ ربہ)
بند دعائیہ
ہو جشن عید جب تک عالم میں عشر آرا
منظوم مسودۂ رقعہ
منظوم رقعہ شادی برخوردار عنایت احمد خلف صدق قاضی فضل احمد صاحب تحصیل دار
مثنوی مسودۂ رقعۂ شادی اجودھیا پرشاد خلف گردھاری لال ساہو کار ۱۲۸۳ ہجری
مثنوی مسودۂ رقعہ بزم ہولی از جانب لالہ گلاب سنگھ گماشتۂ کمسریٹ سرکاری
وقت عیش و نشاط آپہنچا
مثنوی دعوت نامۂ شادی کا متا پرشاد
مثنوی دعوت نامۂ شادی مقبول حسین
مثنوی دعوت نامۂ شادی محمد سعادت علی
مثنوی رقعہ شادی بسم اللہ کہ براے فرزند دل بند مولوی ہاشم علی گفتہ شد)
تقریظ
سپا سے کہ آغاز ہو کار زوست
وہ چہ خوش ففتہ اند کار آگاہ
تقریظ
تقریظ از حافظ امداد حسین صاحب ظہور میرٹھی
ریختۂ کلک گوھر سلک مولوی محمد عبد الحی صاحب المتخلص بہ صفا وکیل عدالت بلاری
قطعات تاریخ اجتماع وطبع کلیات حکیم غلام مولیٰ قلق
قطعات تاریخ از پنڈت امراؤ سنگھ صاحب متخلص بہ حباب ماسٹر کالج روڑکی
قطعہ تاریخ طبع زاد بابو خاں صاحب محب ساکن مرٹھ
می کند ناز روزگار اکنوں
خاتمۃ الطبع
تقریظ بہارستان ناؤ (طبع دوم ۱۲۸۵ء از لتائج طبع عالی حکیم مولا بخش صاحب قلق متوطن میرٹھ
لکھے کیا کوئی فکر اوج غالب
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔