سر ورق
فہرست
حیات نسیم دہلوی
اصغر علی خاں
ورود لکھنؤ 1244
خوش نویسی
شادی اور اولاد
معاصرین
تصانیف
شاگردان نسیم
اصغر علی نسیم دہلوی کی غزل
کلیات نسیم دہلوی
واہ کیا رتبہ ہے فکر طبع حق آگاہ کا
ہوں عاشق دیوانہ جو معشوق خدا کا
بزم غم کو دیکھ کر دل خوش ہوا جلاد کا
منظور ہے ناپنا کمر کا
صد چاک ہے مانند کناں چاک جگر کا
تم تک مجھے لایا تھا جوش اس دل مضطر کا
تنگ کرتا ہے بدل جاتا یہ سو سو بار کا
بند کی شب آنکھ دھیان آیا جو روے یار کا
پھر غلغلہ ہے آمد فصل بہار کا
سنگ تربت لال ہے میرے تن محرور کا
بس کہ ہوں محو تصور شاہد مستور کا
ہر کڑی کرتی ہے غل محرومئی تقدیر کا
کم نہیں وحشت میں بھی رتبہ مری توقیر کا
نکل آیا وہ گھبرا کر دل اس کا اس قدر دھرکا
فصل گل آئی زمانہ ہے جنوں کے جوش کا
اس درجہ تھا قلق مجھے رد سوال کا
حرفوں کے ملے جوڑ بڑھا حسن رقم کا
اٹھانا بار منت شاق تھا پیراہن تن کا
اثر پیدا کیا ہے پیرہن نے جسم بے جاں کا
انہیں ہٹ تھی مجھے خواہش، رہا جھگڑا نہیں ہاں کا
عروس فکر رنگیں کو خیال آیا جو تزئیں کا
ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا
جو عاشق ہو تو کچھ سمجھے یہ نکتہ آشنائی کا
سامنا ہونے نہ پائے اے خدا برسات کا
حیا بڑھنے نہیں دیتی ارادہ نوجوانی کا
مرگ اغیار لب پہ لانہ سکا
آباد غم و درد سے ویرانہ ہے اس کا
بگڑے وہ لاکھ طرح مگر غل نہ ہو سکا
ہے رخصت جاں حال میں بتلا نہیں سکتا
مختصر ہونے میں اے یار جو قابو ہوتا
چھپ چھپ کے وہ پردے سے نظارا نہیں ہوتا
گو طوق بڑا بوجھ مگر تن نہیں رکھتا
شکوا ہے نہ غصہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وہ شعلے ہیں ہجوم آۂ آتشناک سے پیدا
کوئی شیشہ نہیں اے رونق محفل ٹوٹا
خدا جانے ہوا کس تفتہ دل کی خاک سے پیدا
وصل کے واسطے کل کہہ گیا جاناں میرا
دل ہی قابو میں نہیں زور چلے کیا میرا
مبدل بے سبب کب ہے احبا رنگ رو میرا
حشر کے روز اگر داد طلب دل ہوگا
اس سے مرنا مجھے اپنا قلق جاں ہوگا
زمانے میں کوئی ایسا نہ ہو گا
ہم پہ جو جو کچھ ہوا سب آپ پر کھل جائے گا
قصۂ روز گزشتہ آنکھ کو شرمائے گا
ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگایئے گا
بڑھتے بڑھتے لاغری پنہاں بدن ہو جائے گا
چار دن کے بعد فرق درمیاں ہو جائے گا
رنگ کیا کیا نہ نئے چرخ جفا جو بدلا
مزا دیوانگی کا زیر شمشیر دو دم نکلا
ہوس یہ رہ گئی دل میں خہ مدعا نہ ملا
ساغر پلا کے بے خبر دو جہاں بنا
پوشیدہ ہے پھاہوں میں ہر اک زخم تن اپنا
کسی صورت تو دل کو شاد کرنا
ان کے آنے کے بھروسے پر جو شاداں دل ہوا
یہاں تک اوج جنوں میں مجھے کمال ہوا
چھیڑا جو میں نے یار کو سب میں خجل ہوا
میں وہ ایذا دوست تھا راحت سے مجھ کو غم ہوا
خوں ٹپک کر آنکھ سے پھر اشک تر پیدا ہوا
عاشقوں میں کون مجھ سا ناتواں پیدا ہوا
ہر حرف سے پیدا اثر جوش بلا تھا
خلش نا آشنا گوہر عدو تھا
بل بے تیری کاوشیں جینا مجھے دشوار تھا
کھل گئی ہر ہر کڑی مجھ کو وہ افسوں یاد تھا
کب اس زمیں پہ مجھے آرسیدہ ہونا تھا
لب بستگی سے لطف عروسی سخن میں تھا
بعد از فراغ روح بھی قید عدو میں تھا
کچھ خون میں تر تیر نظر تھا کہ نہیں تھا
لو مسلماں مجھے وہ طفل برہمن سمجھا
پیار سے دشمن کے وہ عالم ترا جاتا رہا
کب میں فارغ قید وحشت سے لڑکپن میں رہا
بنانے سے یہ مطلب ہم نے پایا
کب یہاں میں خلش غیر سے دل شاد آیا
ہوئیں جب بند آنکھیں خوف پرسش کا یقیں آیا
غرض کیا مے سے پھر ساقی جو وہ مے کش نہیں آیا
مجھ کو احسان نظر یاد آیا
پریوں کا پس و پیش جو ساماں نظر آیا
رخ پر جو ترے سایۂ گیسو نظر آیا
گلے میں بخت کے ان کا بھی کچھ قصہ نکل آیا
قلق سے دم لبوں پر خواہش دیدار میں آیا
بھلا کیا خاک زیر خاک پایا
یقیں کو اپنے عاشق نے ہمیشہ بے خلل پایا
جہاں میں نقص پیری سے مفر ظالم نے کم پایا
مقام شکر ہے جلاد سے گر زخم تن پایا
افتادگی نے اور ہی عالم دکھادیا
دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا
شکایت سے غرض کیا مدعا کیا
رحم سوئے خاطر ناشاد کیا
وہ نہیں تم کو نہ ہو گے یاد کیا
اے مرگ دیکھتی ہے انہیں بار بار کیا
قالب ہوا خراب ترے غائبانہ کیا
وہ نہ مانیں گے احبا ان کو سمجھائیں گے کیا
اضطراب دل مرا آخر مزا دکھلا گیا
خندہ کیوں لب پہ ترے او محو بے داد آگیا
زخم بالیدہ ہوئے داغوں پہ جو بن آگیا
کیا آج جلد تیر نظر کام کر گیا
کس منہ سے کہتے ہو کہ ترا وقت ٹل گیا
ٹھہری اکھڑ کے سانس برا وقت ٹل گیا
ہیبت سے مرغ روح بدن سے نکل گیا
جب اختیار قید سخن سے نکل گیا
دل کے آتے ہی یہ نقشہ ہو گیا
مجھ کو سمجھاتا تھا یا تو آپ شید ا ہوگیا
تیری بالائی کا شہرہ سب سے بالا ہو گیا
جاں بہ لب ہوں جب سے وہ بے رحم بدظن ہو گیا
لو فراغب ہو گئی کیسا سبک جاں ہو گیا
ہر رفیق بے کسی منزل بہ منزل رہ گیا
دونوں جانب شرم مطلب شوق پنہا رہ گیا
میں نگاہوں میں بہار زلف جاناں ہو گیا
پابند زیست تھا نہ اسیر مزار تھا
نہیں شکوہ جدا ہے گو کہ ہر پارہ مرے دل کا
عجب عالم ہے اس گل پیرہن کی یاد میں دل کا
مژدۂ صحت سنا دل دکھ گیا آزار کا
بلبل سے کرتی کب ہے عروس چمن حجاب
جی میں آتا ہے دکھائیں مستیاں پی کر شراب
کیا دیکھتا ہے طائر بسمل کا اضطراب
جتنے قصے ہیں مرے شکوۂ بے داد ہیں سب
گر ابروے کشیدہ ہیں شمشیر کا جواب
طرۂ مشک بار ہے جلوۂ آب دار شب
پہنچے ہیں تحفہ ہاے دل دوستاں قریب
تیوری چڑھی ہوئی ہے کشیدہ نظر ہیں آپ
پھر خفا رہنے لگے عاشق ناچار سے آپ
جانتے ہیں ہم سے شرمائیں گے آپ
بیٹھ رہتے ، نہ ملی ایسی کوئی جا دل چسپ
لہرا رہے ہیں طرۂ زلف دوتا کے سانپ
چشم فلکی سے بھی نہاں میں تو رہا رات
افزائشوں پہ تھا قلق دل تمام رات
تھا وصلت جنوں کا جو ساماں تمام رات
غنچے نے تاج، گل نے کیا پیرہن درست
کعبہ نہیں ہے زاہد غافل نشان دوست
آئنہ بن کر رہوں ہر وقت پیش روے دوست
ناصحالے راہ اپنی جاتے ہیں اب سوے دوست
میں یوں ہوا عقوبت قاتل سے دل اوچاٹ
گل رخوں کی ہے ہوس اے دل ناشاد عبث
مہربانی ہے دم مرگ یہ اے یار عبث
کہہ تو کیا اے چارہ گرتجھ کو ہوا منظور آج
بال آئنے میں آیا خود نمائی ہے عبث
پیا جام مے چشم بتاں آج
حکم تھا روز گزشتہ میں کہ ہم آتے ہیں آج
بے خبر ہے انجمن بے ہوش ہے جانا نہ آج
جسم میں موجود ہے کیفیت مے خانہ آج
بھائی ہے جب سے دلبر عیار کی طرح
نہیں دیکھے یہ تصور کی بھی زنجیر کے پیچ
رہی ہمیشہ اسیری کے اختیار میں روح
رکھتی ہے کب اعتبار اے جان روح
تن ضعف سے کہا ںکہ جو ہوتی بدن میں روح
نہیں جلاد کی کچھ آستیں سرخ
نہ جائے گی ترے وحشی کی رائگاں فریاد
سنائے کیا تمہیں بیمار ناتواں فریاد
اپنی ہستی پر نہ کیوں ہو منفعل ہر بار درد
نقاب منہ سے اٹھا دے اگر ہمارا چاند
کس قدر خاطر غم دیدہ ہے دشوار پسند
ہوش باقی نہیں جس دم سے کہ دیکھا تعویذ
ڈورا بھی چاہئے ایسا جو ہو ایسا تعویذ
صدقے ترے جاؤں مرے پیارے مرے دل پر، تو کیوں ہے مکدر
جس نے دیکھی ہو ترے رخسار روشن کی بہار
پھر شجر سر سبز ہیں کہتے ہیں آتی ہے بہار
آنسو نہیں ہیں یہ مژدۂ اشک بار پر
ہوں میں عاشق جاں جاتی ہے مری اس نور پر
کل اگر آہیں کریں گے خاک پر
جما ہے قطرۂ جگر شمشیر دشمن پر
رحم آجاتا ہے دشمن کی پریشانی پر
غیر ممکن ہے کہ ہو ہجر میں اے یار سحر
زخم تیغ یار نے بخشا دھاں بالائے سر
ہے بلندی میں بھی ہستی کا نشاں بالائے سر
مرگئی افسوس اے بلبل نہ کیوں سر توڑ کر
جس طرح آہو نہ آئے دشت اے جاں چھوڑ کر
مخلصی پائے بلا سے دل مضطر کیوں کر
عضو تن میرے دکھتے رہے اخگر ہو کر
کبھی ہوتا ہوں ظاہر جلوۂ حسن نکو ہوکر
میں جو بے خود ہوں کسی کا روے زیبا دیکھ کر
میں مرگیا ہوں تیرے خریدار دیکھ کر
اشک آمڈے نہ دامن سے ٹپک کر باہر
قربان ہو رہی ہے مری جاں ادھر ادھر
کیوں کر اٹھائے طرۂ زلف دوتا کے ناز
باقی ہے شوق قاتل شمشیرزن ہنوز
کل چہرے پائیں گے جتنی ہیں اسیران قفس
صاف طینت کو کدورت ہے بدن کی خواہش
آ دیکھ لے بے تابی بسمل کا ذرا رقص
اے دل سمجھ نہ پاس عزیز و یگانہ فرض
قاصد جو پڑھ چکیں وہ مرا ماجراےخط
پاک ہے لذت عشرت سے زبان واعظ
ہجر میں میرے سیہ خانے کی رکھ پروانہ شمع
حسن معشوق میں بھی رکھتی یہی ناسور شمع
سرد محفل کیے رکھتی ہے جو یہ دستور شمع
اس فروغ چند ساعت پر نہ ہو مغزور شمع
دل میں رہتا ہے ضیائے داغ سے روشن چراغ
باعث بے رونقی ہے جاے ویراں میں چراغ
ہاں کیوں نہ پیش بزم رہے بے سخن چراغ
لائے نصیب کھینچ کے بیداد کی طرف
بھلا وہ کیا ہو مرے حال زار سے واقف
میں دیکھ کر یہ طول نہ کیوں ہوں فدائے زلف
ہم غریبوں کو بھی مل جاتے ہیں بیانۂ عشق
پہنچی جو دم شوق نظر یار کے سر تک
خدا را لے چلو یارو مجھے اس شوخ بد ظن تک
حجاب ابر مانع ہے گذر کیوں کر ہو گلشن تک
پہنچی برون سینہ سلگ کر جگر میں آگ
کس منہ سے کہتی ہے کہ میں ہوں آشنائے گل
دیکھ او قاتل بسر کرتے ہیں کس مشکل سے ہم
زرگر و حداد خوش ہوں ہو کریں تدبیر ہم
پیچھا کریں وہ افعی رہ زن تو نہیں ہم
بدلی نہ گالیوں سے کبھی یار کی زباں
بجلی سی کوند اٹھے جو کھلیں سیم تین کے پاؤں
بھولوں تمہیں وہ بشر نہیں ہوں
جب تیر نظر تابہ جگر جائیں گے لاکھوں
یہاں تک طول تھا اے ہم نفس کل ہجری کی شب میں
تم کو بھی مشکل پڑے گی عاشقوں کی داد میں
لطف کہاں اب وہ ملاقات میں
دل جگر باہم ہدف ہوں سینۂ نخچیر میں
ہے عجب تاثیر بے ہوشی ہمارے حال میں
مر چکے جس پر کہ مرتا تھا ہمیں
وہ کسی ڈھب سے اگر آے کہیں قابو میں
سمجھ کے تازہ خریدار گرم جوش ہمیں
غرق بحر اشک ہمیں کیا حاجت دامن ہمیں
سب ستم سارے وہ سامان مصیبت یاد ہمیں
یہ لب چوسے ہوئے کیوں کر نہیں ہیں
الفاظ و معانی کی کروٹ جو بدلتے ہیں
رہی دو چار دن کی سیر اب بستر اٹھاتے ہیں
کرشمے غمزے سب او فتنۂ عالم سمجھتے ہیں
کیوں حوصلہ ستم کا مری جاں رہا نہیں
اے بخیہ گر! معاف، یہ احسان کری نہیں
میرے مرنے کی خبر سن کر وہ کچھ شاداں نہیں
تم سے کیا تشبیہ دوں فکر دوی یک سو نہیں
اظہار مدعا مری تقریر میں نہیں
جو کہ ممسک ہیں کسی کو دل میں جا دیتے نہیں
دوستی رکھتے ہیں کس درجہ برابر آنسو
کس سے مثال دوں بدن لا مثال کو
غور کرنا دوستو! مجھ ناتواں کے حمال کو
اور چندے صبر کر دل، ہے فنا ہر کام کو
دی ہے عجب تاثیر خدا نے کچھ میرے افسانے کو
ڈرتا ہوں آپ کی خفگی کا سبب نہ ہو
اے جان کیوں نہ عاشق مغرور بل میں ہو
مزہ مطلع کا دے، فکر دو پہلو ہو تو ایسی ہو
عجب سے کیا احبا دیکھتے ہو
کس کو غرض، رہے جو اسیر بلا کے ساتھ
ہو اہل کرم کیا میں کہوں تم سے زیادہ
ہستی چھپی ہوئی ہے عدم کی خبر کے ساتھ
راحت سے جو تکلیف کی تاثیر بدل جائے
بے تابی فراق سے عالم بدل نہ جائے
کیا دل میں ارادہ ہے جو باندھے کمر آئے
جو اب دیکھے کب لے کے نامہ بر آئے
لو دل کی رہی دل ہی میں حسرت نہ بر آئی
آیا ہے خیال بے وفائی
اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی
ہم نفس پھر آہ و زاری ہو گئی
الطاف جو وہ آپ کے پائے نہیں جاتے
کب آکے مرے پاس وہ برہم نہیں ہوتے
اے جان لڑکپن کی تری مت نہیں جاتی
ملنے کے نہیں نشاں ہمارے
ہم تاب سوال لب سائل نہیں رکھتے
اب تک تو نہ بگڑے تھے گرفتار تمہارے
لڑکپن میں یہ ضد ہے جانی تمہاری
شکایت کے عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے
پہلو کو چیر کاش مرا دل نکل پڑے
برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے
خالی نہیں فلک بھی جنوں کے عذاب سے
کیا سبب کیوں چپ ہیں زخموں کے دہن تصویر سے
اے ہم نفس شب وصل کی گذرے گی خاک آرام سے
بزم بن جاتی ہے مقتل تری مہجوری سے
ہوتا ہے حسینوں کے مقابل کئی دن سے
ہے ہر سر مژگاں سے چکاں اشک تر ایسے
باہم بلند و پست ہیں کیف شراب کے
زاہد نے خاک لطف آٹھائے شباب کے
ہنس رہے ہیں شور سن س ن کر مری فریاد کے
ارمان نکل جائیں کچھ عاشق مضطر کے
تا فلک پہنچے ہیں شہر یار کے
ہو گئے سب عضو تن سیدھے ترے رنجور کے
نہ سمجھے مگر کے آنسو ہیں اس غارت گر جاں کے
تھے شب ہجر میں کیا کیا دھڑکے
کہتے ہیں سن کے تذکرے مجھ غم رسیدہ کے
اشک آنکھوں میں ڈر سے لانہ سکے
اب آئے ہو صدا سن کر گجر کی
کرتی ہے بے قرار صدا بے قرار کی
بس کہ ہے دل میں ہوس نظارہ ہاے یار کی
ناصح مشفق یہ مشق تازہ فرمانے لگے
تھی سزا کتنی حلاوت زا مری تقصیر کی
فصل گل آئی ہے، کل اور ہی ساماں ہوں گے
یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے
وصل کی رات ہے، آخر کبھی عرباں ہوں گے
رشک عدو میں دیکھو جاں تک گنوا ہی دیں گے
جب اور کسی پر کوئی بیداد کروگے
صفائی دیر میں قاتل سے ہوگی
تاعرش تیری شوزش بیداد جائے گی
حقیقت سے زباں آگاہ کرلے
لازم ہے کہ آغاز ہو انجام سے پہلے
عزت دیوانگی بخشی مجھے تقدیر نے
دیکھی دل دے کے قدردانی
کچھ سمجھتے ہیں جو اس ظالم کی سمجھائے ہوے
سوال طرز سخن سے تمہارے پیدا ہے
غزل ذو بحرین
شب وصلت میں گھڑیالی ہمیں کیا کیا رلاتا ہے
رنج باہم میں زباں پر جو گلہ آتا ہے
گنگ ہیں، جن کو خموشی کا مزا ہوتاہے
بہار غنچگی دیتا ہے جو دل خستہ ہوتاہے
دکھاتا ہے چھری، پھر مژدۂ بے داد دیتا ہے
قفس بردوش صیاد جفا طینت کا پھیرا ہے
یہ حالت ہے تشقی کیا تو اے دمباز دیتا ہے
محتسب مانع مے ہے ہمیں، دیوانہ ہے
نئے ڈھب کا کچھ جوش سودا ہوا ہے
لب پر اک پردہ نشیں کا شکوۂ بیداد ہے
پیتے ہیں مے، گناہ بقصد ثواب ہے
عجب تیر نگہ میں کچھ اثر ہے
راز مخفی لب تلک آتے، کہاں مقدور ہے
پاس ہو کر کچھ دنوں ہم چشم بسمل میں رہے
کس قدر قید تعلق سے طبیعت پاک ہے
سفر ہے دشوار خواب کب تک بہت بڑی منزل عدم ہے
لو ضعف سے اب یہ حال تن ہے
یہ نہ سمجھے ہاے یہ آغاز بد انجام ہے
سوز فرقت سے یہ گرمی پہ مرا شیون ہے
کہیں کیا دست وحشت کا کہاں تک ہم پہ احساں ہے
بلا ہے، کون جاں بر ہو سکے، آفت کا ساماں ہے
اثر نصیب کی سر گشتگی کا سر میں ہے
وصل کے نام سے آزردہ جو تو اے جاں ہے
اس گل کا جلوہ گر جو سراپا نظر میں ہے
بلندیوں پر ہے اپنی پستی یہ اوج کس خاکسار میں ہے
مخلصی کب ہے کہ مرغ روغ قید تن میں ہے
نہیں ہیں اس درجہ بے ادب ہم کہیں جو ان کے دہن نہیں ہے
گشت نہ کر ادھر ادھر بے خبری جہاں میں ہے
ہم کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے
سن لے یہ التماس مرا دوستانہ ہے
مست کس درجہ نگاہ ساقی مستانہ ہے
گلے پر آج رکھ کر تیغ قاتل نے اٹھائی ہے
چوں نظم نمود ، ایں فسانہ
کھلی ہے آنکھ جو ش انتظار یار جانی ہے
دیتے ہو بوسہ تو کہیں لاؤ بھی
پھر اس کے پھندے میں جار ہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے
ملا ہے دل بھی محبت سے داغ دار مجھے
خوف مانع ہے ترا اوستم ایجاد مجھے
کیے سجدے ہوے کافر نہ کچھ دل میں ذرا سمجھے
مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے
آجائے موت بلبل ناشاد کے لیے
نہ یوں نیچی کیے گردن کو چلیے
جو چوٹ ہے اے دل تری خالی نہیں جاتی
متفرقات
مخمسات
بوسہ دینے میں غضب لائیے گا
حکم پوچھیں گے تو فرمایئے گا
کچھ خبر دیتی ہے فریاد عنادل باغ میں
رباعیات
تن آتش غم سے، بے جلائے نہ رہوں
قصائد
پیرہن میں ہے مرا شاہد مضموں پنہاں
ربط رکھتی ہے جو تخییل مجسم سے زباں
بہر ترتیب سخن در حرف بھی ممکن کہاں
کس قدر مغرور کرتا ہے مرا فیض زباں
کیوں نہ گنجائش مضموں میں نظر آئے خلل
حفظ آداب میں آئے نہ کسی طرح خلل
کیا ملے روے جہاں تاب کی شاعر کو مثل
شوخیاں کرتی ہے کیا کیا دم دیدار نظر
حسن وہ دیکھ سکے، ہے یہ کہاں تاب نظر
برشتگی ہے نگہ میں یہ گرم ہے جوبن
کہاں ہے ایک طرح پر یہ دور لیل و نہار
دیکھ تو رفعت افسونِ بتانِ طرار
بعد مدت فکر کا کرتے ہیں ہم آج امتحاں
صورت مینا ہیں لبریزِ سخن کام و دہاں
اب نظر خوف ادب سے لغزشیں کرنے لگی
نور حق کا عارض روشن پہ ہوتا ہے گماں
کثرت عیش سے یہ بے خبری ہے ہر دم
مجمع خلق و حیا، زینت قوم آدم
یہ رفعت کلام کسی کے لئے کہاں
اے خامہ ہوشیار کہ ہے وقت امتحاں
تحریر کا وقت آگیا، لکھ نام اقدس اے قلم
ذرا تو چین دے او دل تجھے خدا کی قسم
بہار آئی کھلے ہیں غنچے زمردیں ہے چمن کا ساماں
سپہر جاہ و جلال و شوکت، فروغ خورشید جودو احساں
مانند شانہ ہے خلشوں پر جو روزگار
تا آسماں خطاب معلیٰ کی ہے پکار
اے فلک افسوس! کیوں کرتا ہے ہم سے امتحاں
دریغا کہ یہ دور لیل و نہار
میر محسن علی حمیدہ صفات
سر عدو یہ تراش و نویس آن چہ بماند
زہے طالع منشی با کرم
چوں جناب وصی علی خاں را
فضل حق پورے بہ خاں صاحب بداد
رحمت حق لا تعد بر روح آں مغفور باد
میرزا مہدی علی خان ’’قبول‘‘ استاد وقت
مثنوی تاریخ طبع دیوان قبول
فداے منشی والا ہمم، رئیس زماں
نیست دو عالم کریم، اکنوں دگر
خواجہ وزیر شاعر بے مثل روزگار
شریف و کامل ویکتاے وقت خواجہ وزیر
یافتم چوں مصرع تاریخ در دور رمل
تقریظ از منشی امیر اللہ تسلیم لکھنوی
قطعات تاریخ وفات
خاتمۃ الطبع
چھپا عمدہ جو دیوان نسیم دہلوی شاعر
قطعات تاریخ طبع کلیات نسیم دہلوی
حمد للہ طبع شد در مطبع شخص کریم
بہر دیوان نسیم خوش فکر
طبع چوں گردید دیوان نسیم خوش بیاں
چو طبع گشت بہ فضل خداے بے ہمتا
خدا کے فضل سے یہ انتخاب دفتر معنی
چھپا دیواں، نسیم موجد طرز فصاحت کا
طبع چوں گردید ایں دیوان پاک
چھب چکا فضل خدا سے آج ارشا نسیم
طبع شد چوں کلام بلبل ہند
چھپا جب یہ دیوان راحت فزا
جب یہ مرقع شعر کا تیار چھپ کر ہو چکا
ہوا طبع دیوان استاد کا
اے ثریا نہیں کلام نسیم
واہ کیا خوب یہ چھپا دیوان
تشریحات
ضمیمہ(۱)
ضمیمہ(۲)
ارادہ کچھ دل آگاہ میں ہے
الہٰی درد دے میرے سخن میں
روایت اور گزری ہے نظر سے
اٹھ اے ساقی، کہاں تک خواب آرام
زباں خامہ کو اب شانہ کردوں
الہٰی ہوں ادا کس منہ سے احساں
روایت اور مجھ کو یاد آئی
رقم کرتا ہے یوں راوی مکرر
ثبوت سے ہوے جس دم سرفراز
حرف آخر
سر ورق
فہرست
حیات نسیم دہلوی
اصغر علی خاں
ورود لکھنؤ 1244
خوش نویسی
شادی اور اولاد
معاصرین
تصانیف
شاگردان نسیم
اصغر علی نسیم دہلوی کی غزل
کلیات نسیم دہلوی
واہ کیا رتبہ ہے فکر طبع حق آگاہ کا
ہوں عاشق دیوانہ جو معشوق خدا کا
بزم غم کو دیکھ کر دل خوش ہوا جلاد کا
منظور ہے ناپنا کمر کا
صد چاک ہے مانند کناں چاک جگر کا
تم تک مجھے لایا تھا جوش اس دل مضطر کا
تنگ کرتا ہے بدل جاتا یہ سو سو بار کا
بند کی شب آنکھ دھیان آیا جو روے یار کا
پھر غلغلہ ہے آمد فصل بہار کا
سنگ تربت لال ہے میرے تن محرور کا
بس کہ ہوں محو تصور شاہد مستور کا
ہر کڑی کرتی ہے غل محرومئی تقدیر کا
کم نہیں وحشت میں بھی رتبہ مری توقیر کا
نکل آیا وہ گھبرا کر دل اس کا اس قدر دھرکا
فصل گل آئی زمانہ ہے جنوں کے جوش کا
اس درجہ تھا قلق مجھے رد سوال کا
حرفوں کے ملے جوڑ بڑھا حسن رقم کا
اٹھانا بار منت شاق تھا پیراہن تن کا
اثر پیدا کیا ہے پیرہن نے جسم بے جاں کا
انہیں ہٹ تھی مجھے خواہش، رہا جھگڑا نہیں ہاں کا
عروس فکر رنگیں کو خیال آیا جو تزئیں کا
ماتم بہت رہا مجھے اشک چکیدہ کا
جو عاشق ہو تو کچھ سمجھے یہ نکتہ آشنائی کا
سامنا ہونے نہ پائے اے خدا برسات کا
حیا بڑھنے نہیں دیتی ارادہ نوجوانی کا
مرگ اغیار لب پہ لانہ سکا
آباد غم و درد سے ویرانہ ہے اس کا
بگڑے وہ لاکھ طرح مگر غل نہ ہو سکا
ہے رخصت جاں حال میں بتلا نہیں سکتا
مختصر ہونے میں اے یار جو قابو ہوتا
چھپ چھپ کے وہ پردے سے نظارا نہیں ہوتا
گو طوق بڑا بوجھ مگر تن نہیں رکھتا
شکوا ہے نہ غصہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وہ شعلے ہیں ہجوم آۂ آتشناک سے پیدا
کوئی شیشہ نہیں اے رونق محفل ٹوٹا
خدا جانے ہوا کس تفتہ دل کی خاک سے پیدا
وصل کے واسطے کل کہہ گیا جاناں میرا
دل ہی قابو میں نہیں زور چلے کیا میرا
مبدل بے سبب کب ہے احبا رنگ رو میرا
حشر کے روز اگر داد طلب دل ہوگا
اس سے مرنا مجھے اپنا قلق جاں ہوگا
زمانے میں کوئی ایسا نہ ہو گا
ہم پہ جو جو کچھ ہوا سب آپ پر کھل جائے گا
قصۂ روز گزشتہ آنکھ کو شرمائے گا
ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگایئے گا
بڑھتے بڑھتے لاغری پنہاں بدن ہو جائے گا
چار دن کے بعد فرق درمیاں ہو جائے گا
رنگ کیا کیا نہ نئے چرخ جفا جو بدلا
مزا دیوانگی کا زیر شمشیر دو دم نکلا
ہوس یہ رہ گئی دل میں خہ مدعا نہ ملا
ساغر پلا کے بے خبر دو جہاں بنا
پوشیدہ ہے پھاہوں میں ہر اک زخم تن اپنا
کسی صورت تو دل کو شاد کرنا
ان کے آنے کے بھروسے پر جو شاداں دل ہوا
یہاں تک اوج جنوں میں مجھے کمال ہوا
چھیڑا جو میں نے یار کو سب میں خجل ہوا
میں وہ ایذا دوست تھا راحت سے مجھ کو غم ہوا
خوں ٹپک کر آنکھ سے پھر اشک تر پیدا ہوا
عاشقوں میں کون مجھ سا ناتواں پیدا ہوا
ہر حرف سے پیدا اثر جوش بلا تھا
خلش نا آشنا گوہر عدو تھا
بل بے تیری کاوشیں جینا مجھے دشوار تھا
کھل گئی ہر ہر کڑی مجھ کو وہ افسوں یاد تھا
کب اس زمیں پہ مجھے آرسیدہ ہونا تھا
لب بستگی سے لطف عروسی سخن میں تھا
بعد از فراغ روح بھی قید عدو میں تھا
کچھ خون میں تر تیر نظر تھا کہ نہیں تھا
لو مسلماں مجھے وہ طفل برہمن سمجھا
پیار سے دشمن کے وہ عالم ترا جاتا رہا
کب میں فارغ قید وحشت سے لڑکپن میں رہا
بنانے سے یہ مطلب ہم نے پایا
کب یہاں میں خلش غیر سے دل شاد آیا
ہوئیں جب بند آنکھیں خوف پرسش کا یقیں آیا
غرض کیا مے سے پھر ساقی جو وہ مے کش نہیں آیا
مجھ کو احسان نظر یاد آیا
پریوں کا پس و پیش جو ساماں نظر آیا
رخ پر جو ترے سایۂ گیسو نظر آیا
گلے میں بخت کے ان کا بھی کچھ قصہ نکل آیا
قلق سے دم لبوں پر خواہش دیدار میں آیا
بھلا کیا خاک زیر خاک پایا
یقیں کو اپنے عاشق نے ہمیشہ بے خلل پایا
جہاں میں نقص پیری سے مفر ظالم نے کم پایا
مقام شکر ہے جلاد سے گر زخم تن پایا
افتادگی نے اور ہی عالم دکھادیا
دل کسی مشتاق کا ٹھنڈا کیا
شکایت سے غرض کیا مدعا کیا
رحم سوئے خاطر ناشاد کیا
وہ نہیں تم کو نہ ہو گے یاد کیا
اے مرگ دیکھتی ہے انہیں بار بار کیا
قالب ہوا خراب ترے غائبانہ کیا
وہ نہ مانیں گے احبا ان کو سمجھائیں گے کیا
اضطراب دل مرا آخر مزا دکھلا گیا
خندہ کیوں لب پہ ترے او محو بے داد آگیا
زخم بالیدہ ہوئے داغوں پہ جو بن آگیا
کیا آج جلد تیر نظر کام کر گیا
کس منہ سے کہتے ہو کہ ترا وقت ٹل گیا
ٹھہری اکھڑ کے سانس برا وقت ٹل گیا
ہیبت سے مرغ روح بدن سے نکل گیا
جب اختیار قید سخن سے نکل گیا
دل کے آتے ہی یہ نقشہ ہو گیا
مجھ کو سمجھاتا تھا یا تو آپ شید ا ہوگیا
تیری بالائی کا شہرہ سب سے بالا ہو گیا
جاں بہ لب ہوں جب سے وہ بے رحم بدظن ہو گیا
لو فراغب ہو گئی کیسا سبک جاں ہو گیا
ہر رفیق بے کسی منزل بہ منزل رہ گیا
دونوں جانب شرم مطلب شوق پنہا رہ گیا
میں نگاہوں میں بہار زلف جاناں ہو گیا
پابند زیست تھا نہ اسیر مزار تھا
نہیں شکوہ جدا ہے گو کہ ہر پارہ مرے دل کا
عجب عالم ہے اس گل پیرہن کی یاد میں دل کا
مژدۂ صحت سنا دل دکھ گیا آزار کا
بلبل سے کرتی کب ہے عروس چمن حجاب
جی میں آتا ہے دکھائیں مستیاں پی کر شراب
کیا دیکھتا ہے طائر بسمل کا اضطراب
جتنے قصے ہیں مرے شکوۂ بے داد ہیں سب
گر ابروے کشیدہ ہیں شمشیر کا جواب
طرۂ مشک بار ہے جلوۂ آب دار شب
پہنچے ہیں تحفہ ہاے دل دوستاں قریب
تیوری چڑھی ہوئی ہے کشیدہ نظر ہیں آپ
پھر خفا رہنے لگے عاشق ناچار سے آپ
جانتے ہیں ہم سے شرمائیں گے آپ
بیٹھ رہتے ، نہ ملی ایسی کوئی جا دل چسپ
لہرا رہے ہیں طرۂ زلف دوتا کے سانپ
چشم فلکی سے بھی نہاں میں تو رہا رات
افزائشوں پہ تھا قلق دل تمام رات
تھا وصلت جنوں کا جو ساماں تمام رات
غنچے نے تاج، گل نے کیا پیرہن درست
کعبہ نہیں ہے زاہد غافل نشان دوست
آئنہ بن کر رہوں ہر وقت پیش روے دوست
ناصحالے راہ اپنی جاتے ہیں اب سوے دوست
میں یوں ہوا عقوبت قاتل سے دل اوچاٹ
گل رخوں کی ہے ہوس اے دل ناشاد عبث
مہربانی ہے دم مرگ یہ اے یار عبث
کہہ تو کیا اے چارہ گرتجھ کو ہوا منظور آج
بال آئنے میں آیا خود نمائی ہے عبث
پیا جام مے چشم بتاں آج
حکم تھا روز گزشتہ میں کہ ہم آتے ہیں آج
بے خبر ہے انجمن بے ہوش ہے جانا نہ آج
جسم میں موجود ہے کیفیت مے خانہ آج
بھائی ہے جب سے دلبر عیار کی طرح
نہیں دیکھے یہ تصور کی بھی زنجیر کے پیچ
رہی ہمیشہ اسیری کے اختیار میں روح
رکھتی ہے کب اعتبار اے جان روح
تن ضعف سے کہا ںکہ جو ہوتی بدن میں روح
نہیں جلاد کی کچھ آستیں سرخ
نہ جائے گی ترے وحشی کی رائگاں فریاد
سنائے کیا تمہیں بیمار ناتواں فریاد
اپنی ہستی پر نہ کیوں ہو منفعل ہر بار درد
نقاب منہ سے اٹھا دے اگر ہمارا چاند
کس قدر خاطر غم دیدہ ہے دشوار پسند
ہوش باقی نہیں جس دم سے کہ دیکھا تعویذ
ڈورا بھی چاہئے ایسا جو ہو ایسا تعویذ
صدقے ترے جاؤں مرے پیارے مرے دل پر، تو کیوں ہے مکدر
جس نے دیکھی ہو ترے رخسار روشن کی بہار
پھر شجر سر سبز ہیں کہتے ہیں آتی ہے بہار
آنسو نہیں ہیں یہ مژدۂ اشک بار پر
ہوں میں عاشق جاں جاتی ہے مری اس نور پر
کل اگر آہیں کریں گے خاک پر
جما ہے قطرۂ جگر شمشیر دشمن پر
رحم آجاتا ہے دشمن کی پریشانی پر
غیر ممکن ہے کہ ہو ہجر میں اے یار سحر
زخم تیغ یار نے بخشا دھاں بالائے سر
ہے بلندی میں بھی ہستی کا نشاں بالائے سر
مرگئی افسوس اے بلبل نہ کیوں سر توڑ کر
جس طرح آہو نہ آئے دشت اے جاں چھوڑ کر
مخلصی پائے بلا سے دل مضطر کیوں کر
عضو تن میرے دکھتے رہے اخگر ہو کر
کبھی ہوتا ہوں ظاہر جلوۂ حسن نکو ہوکر
میں جو بے خود ہوں کسی کا روے زیبا دیکھ کر
میں مرگیا ہوں تیرے خریدار دیکھ کر
اشک آمڈے نہ دامن سے ٹپک کر باہر
قربان ہو رہی ہے مری جاں ادھر ادھر
کیوں کر اٹھائے طرۂ زلف دوتا کے ناز
باقی ہے شوق قاتل شمشیرزن ہنوز
کل چہرے پائیں گے جتنی ہیں اسیران قفس
صاف طینت کو کدورت ہے بدن کی خواہش
آ دیکھ لے بے تابی بسمل کا ذرا رقص
اے دل سمجھ نہ پاس عزیز و یگانہ فرض
قاصد جو پڑھ چکیں وہ مرا ماجراےخط
پاک ہے لذت عشرت سے زبان واعظ
ہجر میں میرے سیہ خانے کی رکھ پروانہ شمع
حسن معشوق میں بھی رکھتی یہی ناسور شمع
سرد محفل کیے رکھتی ہے جو یہ دستور شمع
اس فروغ چند ساعت پر نہ ہو مغزور شمع
دل میں رہتا ہے ضیائے داغ سے روشن چراغ
باعث بے رونقی ہے جاے ویراں میں چراغ
ہاں کیوں نہ پیش بزم رہے بے سخن چراغ
لائے نصیب کھینچ کے بیداد کی طرف
بھلا وہ کیا ہو مرے حال زار سے واقف
میں دیکھ کر یہ طول نہ کیوں ہوں فدائے زلف
ہم غریبوں کو بھی مل جاتے ہیں بیانۂ عشق
پہنچی جو دم شوق نظر یار کے سر تک
خدا را لے چلو یارو مجھے اس شوخ بد ظن تک
حجاب ابر مانع ہے گذر کیوں کر ہو گلشن تک
پہنچی برون سینہ سلگ کر جگر میں آگ
کس منہ سے کہتی ہے کہ میں ہوں آشنائے گل
دیکھ او قاتل بسر کرتے ہیں کس مشکل سے ہم
زرگر و حداد خوش ہوں ہو کریں تدبیر ہم
پیچھا کریں وہ افعی رہ زن تو نہیں ہم
بدلی نہ گالیوں سے کبھی یار کی زباں
بجلی سی کوند اٹھے جو کھلیں سیم تین کے پاؤں
بھولوں تمہیں وہ بشر نہیں ہوں
جب تیر نظر تابہ جگر جائیں گے لاکھوں
یہاں تک طول تھا اے ہم نفس کل ہجری کی شب میں
تم کو بھی مشکل پڑے گی عاشقوں کی داد میں
لطف کہاں اب وہ ملاقات میں
دل جگر باہم ہدف ہوں سینۂ نخچیر میں
ہے عجب تاثیر بے ہوشی ہمارے حال میں
مر چکے جس پر کہ مرتا تھا ہمیں
وہ کسی ڈھب سے اگر آے کہیں قابو میں
سمجھ کے تازہ خریدار گرم جوش ہمیں
غرق بحر اشک ہمیں کیا حاجت دامن ہمیں
سب ستم سارے وہ سامان مصیبت یاد ہمیں
یہ لب چوسے ہوئے کیوں کر نہیں ہیں
الفاظ و معانی کی کروٹ جو بدلتے ہیں
رہی دو چار دن کی سیر اب بستر اٹھاتے ہیں
کرشمے غمزے سب او فتنۂ عالم سمجھتے ہیں
کیوں حوصلہ ستم کا مری جاں رہا نہیں
اے بخیہ گر! معاف، یہ احسان کری نہیں
میرے مرنے کی خبر سن کر وہ کچھ شاداں نہیں
تم سے کیا تشبیہ دوں فکر دوی یک سو نہیں
اظہار مدعا مری تقریر میں نہیں
جو کہ ممسک ہیں کسی کو دل میں جا دیتے نہیں
دوستی رکھتے ہیں کس درجہ برابر آنسو
کس سے مثال دوں بدن لا مثال کو
غور کرنا دوستو! مجھ ناتواں کے حمال کو
اور چندے صبر کر دل، ہے فنا ہر کام کو
دی ہے عجب تاثیر خدا نے کچھ میرے افسانے کو
ڈرتا ہوں آپ کی خفگی کا سبب نہ ہو
اے جان کیوں نہ عاشق مغرور بل میں ہو
مزہ مطلع کا دے، فکر دو پہلو ہو تو ایسی ہو
عجب سے کیا احبا دیکھتے ہو
کس کو غرض، رہے جو اسیر بلا کے ساتھ
ہو اہل کرم کیا میں کہوں تم سے زیادہ
ہستی چھپی ہوئی ہے عدم کی خبر کے ساتھ
راحت سے جو تکلیف کی تاثیر بدل جائے
بے تابی فراق سے عالم بدل نہ جائے
کیا دل میں ارادہ ہے جو باندھے کمر آئے
جو اب دیکھے کب لے کے نامہ بر آئے
لو دل کی رہی دل ہی میں حسرت نہ بر آئی
آیا ہے خیال بے وفائی
اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی
ہم نفس پھر آہ و زاری ہو گئی
الطاف جو وہ آپ کے پائے نہیں جاتے
کب آکے مرے پاس وہ برہم نہیں ہوتے
اے جان لڑکپن کی تری مت نہیں جاتی
ملنے کے نہیں نشاں ہمارے
ہم تاب سوال لب سائل نہیں رکھتے
اب تک تو نہ بگڑے تھے گرفتار تمہارے
لڑکپن میں یہ ضد ہے جانی تمہاری
شکایت کے عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے
پہلو کو چیر کاش مرا دل نکل پڑے
برہم ہیں وہ غیر بے حیا سے
خالی نہیں فلک بھی جنوں کے عذاب سے
کیا سبب کیوں چپ ہیں زخموں کے دہن تصویر سے
اے ہم نفس شب وصل کی گذرے گی خاک آرام سے
بزم بن جاتی ہے مقتل تری مہجوری سے
ہوتا ہے حسینوں کے مقابل کئی دن سے
ہے ہر سر مژگاں سے چکاں اشک تر ایسے
باہم بلند و پست ہیں کیف شراب کے
زاہد نے خاک لطف آٹھائے شباب کے
ہنس رہے ہیں شور سن س ن کر مری فریاد کے
ارمان نکل جائیں کچھ عاشق مضطر کے
تا فلک پہنچے ہیں شہر یار کے
ہو گئے سب عضو تن سیدھے ترے رنجور کے
نہ سمجھے مگر کے آنسو ہیں اس غارت گر جاں کے
تھے شب ہجر میں کیا کیا دھڑکے
کہتے ہیں سن کے تذکرے مجھ غم رسیدہ کے
اشک آنکھوں میں ڈر سے لانہ سکے
اب آئے ہو صدا سن کر گجر کی
کرتی ہے بے قرار صدا بے قرار کی
بس کہ ہے دل میں ہوس نظارہ ہاے یار کی
ناصح مشفق یہ مشق تازہ فرمانے لگے
تھی سزا کتنی حلاوت زا مری تقصیر کی
فصل گل آئی ہے، کل اور ہی ساماں ہوں گے
یہ وہ نالے ہیں جو لب تک آئیں گے
وصل کی رات ہے، آخر کبھی عرباں ہوں گے
رشک عدو میں دیکھو جاں تک گنوا ہی دیں گے
جب اور کسی پر کوئی بیداد کروگے
صفائی دیر میں قاتل سے ہوگی
تاعرش تیری شوزش بیداد جائے گی
حقیقت سے زباں آگاہ کرلے
لازم ہے کہ آغاز ہو انجام سے پہلے
عزت دیوانگی بخشی مجھے تقدیر نے
دیکھی دل دے کے قدردانی
کچھ سمجھتے ہیں جو اس ظالم کی سمجھائے ہوے
سوال طرز سخن سے تمہارے پیدا ہے
غزل ذو بحرین
شب وصلت میں گھڑیالی ہمیں کیا کیا رلاتا ہے
رنج باہم میں زباں پر جو گلہ آتا ہے
گنگ ہیں، جن کو خموشی کا مزا ہوتاہے
بہار غنچگی دیتا ہے جو دل خستہ ہوتاہے
دکھاتا ہے چھری، پھر مژدۂ بے داد دیتا ہے
قفس بردوش صیاد جفا طینت کا پھیرا ہے
یہ حالت ہے تشقی کیا تو اے دمباز دیتا ہے
محتسب مانع مے ہے ہمیں، دیوانہ ہے
نئے ڈھب کا کچھ جوش سودا ہوا ہے
لب پر اک پردہ نشیں کا شکوۂ بیداد ہے
پیتے ہیں مے، گناہ بقصد ثواب ہے
عجب تیر نگہ میں کچھ اثر ہے
راز مخفی لب تلک آتے، کہاں مقدور ہے
پاس ہو کر کچھ دنوں ہم چشم بسمل میں رہے
کس قدر قید تعلق سے طبیعت پاک ہے
سفر ہے دشوار خواب کب تک بہت بڑی منزل عدم ہے
لو ضعف سے اب یہ حال تن ہے
یہ نہ سمجھے ہاے یہ آغاز بد انجام ہے
سوز فرقت سے یہ گرمی پہ مرا شیون ہے
کہیں کیا دست وحشت کا کہاں تک ہم پہ احساں ہے
بلا ہے، کون جاں بر ہو سکے، آفت کا ساماں ہے
اثر نصیب کی سر گشتگی کا سر میں ہے
وصل کے نام سے آزردہ جو تو اے جاں ہے
اس گل کا جلوہ گر جو سراپا نظر میں ہے
بلندیوں پر ہے اپنی پستی یہ اوج کس خاکسار میں ہے
مخلصی کب ہے کہ مرغ روغ قید تن میں ہے
نہیں ہیں اس درجہ بے ادب ہم کہیں جو ان کے دہن نہیں ہے
گشت نہ کر ادھر ادھر بے خبری جہاں میں ہے
ہم کہے دیتے ہیں زحمت خوردہ ہے
سن لے یہ التماس مرا دوستانہ ہے
مست کس درجہ نگاہ ساقی مستانہ ہے
گلے پر آج رکھ کر تیغ قاتل نے اٹھائی ہے
چوں نظم نمود ، ایں فسانہ
کھلی ہے آنکھ جو ش انتظار یار جانی ہے
دیتے ہو بوسہ تو کہیں لاؤ بھی
پھر اس کے پھندے میں جار ہے ہیں کہ جس کے پھندے میں جا چکے تھے
ملا ہے دل بھی محبت سے داغ دار مجھے
خوف مانع ہے ترا اوستم ایجاد مجھے
کیے سجدے ہوے کافر نہ کچھ دل میں ذرا سمجھے
مری جان رنج گھٹائیے قدم آگے اب نہ بڑھائیے
آجائے موت بلبل ناشاد کے لیے
نہ یوں نیچی کیے گردن کو چلیے
جو چوٹ ہے اے دل تری خالی نہیں جاتی
متفرقات
مخمسات
بوسہ دینے میں غضب لائیے گا
حکم پوچھیں گے تو فرمایئے گا
کچھ خبر دیتی ہے فریاد عنادل باغ میں
رباعیات
تن آتش غم سے، بے جلائے نہ رہوں
قصائد
پیرہن میں ہے مرا شاہد مضموں پنہاں
ربط رکھتی ہے جو تخییل مجسم سے زباں
بہر ترتیب سخن در حرف بھی ممکن کہاں
کس قدر مغرور کرتا ہے مرا فیض زباں
کیوں نہ گنجائش مضموں میں نظر آئے خلل
حفظ آداب میں آئے نہ کسی طرح خلل
کیا ملے روے جہاں تاب کی شاعر کو مثل
شوخیاں کرتی ہے کیا کیا دم دیدار نظر
حسن وہ دیکھ سکے، ہے یہ کہاں تاب نظر
برشتگی ہے نگہ میں یہ گرم ہے جوبن
کہاں ہے ایک طرح پر یہ دور لیل و نہار
دیکھ تو رفعت افسونِ بتانِ طرار
بعد مدت فکر کا کرتے ہیں ہم آج امتحاں
صورت مینا ہیں لبریزِ سخن کام و دہاں
اب نظر خوف ادب سے لغزشیں کرنے لگی
نور حق کا عارض روشن پہ ہوتا ہے گماں
کثرت عیش سے یہ بے خبری ہے ہر دم
مجمع خلق و حیا، زینت قوم آدم
یہ رفعت کلام کسی کے لئے کہاں
اے خامہ ہوشیار کہ ہے وقت امتحاں
تحریر کا وقت آگیا، لکھ نام اقدس اے قلم
ذرا تو چین دے او دل تجھے خدا کی قسم
بہار آئی کھلے ہیں غنچے زمردیں ہے چمن کا ساماں
سپہر جاہ و جلال و شوکت، فروغ خورشید جودو احساں
مانند شانہ ہے خلشوں پر جو روزگار
تا آسماں خطاب معلیٰ کی ہے پکار
اے فلک افسوس! کیوں کرتا ہے ہم سے امتحاں
دریغا کہ یہ دور لیل و نہار
میر محسن علی حمیدہ صفات
سر عدو یہ تراش و نویس آن چہ بماند
زہے طالع منشی با کرم
چوں جناب وصی علی خاں را
فضل حق پورے بہ خاں صاحب بداد
رحمت حق لا تعد بر روح آں مغفور باد
میرزا مہدی علی خان ’’قبول‘‘ استاد وقت
مثنوی تاریخ طبع دیوان قبول
فداے منشی والا ہمم، رئیس زماں
نیست دو عالم کریم، اکنوں دگر
خواجہ وزیر شاعر بے مثل روزگار
شریف و کامل ویکتاے وقت خواجہ وزیر
یافتم چوں مصرع تاریخ در دور رمل
تقریظ از منشی امیر اللہ تسلیم لکھنوی
قطعات تاریخ وفات
خاتمۃ الطبع
چھپا عمدہ جو دیوان نسیم دہلوی شاعر
قطعات تاریخ طبع کلیات نسیم دہلوی
حمد للہ طبع شد در مطبع شخص کریم
بہر دیوان نسیم خوش فکر
طبع چوں گردید دیوان نسیم خوش بیاں
چو طبع گشت بہ فضل خداے بے ہمتا
خدا کے فضل سے یہ انتخاب دفتر معنی
چھپا دیواں، نسیم موجد طرز فصاحت کا
طبع چوں گردید ایں دیوان پاک
چھب چکا فضل خدا سے آج ارشا نسیم
طبع شد چوں کلام بلبل ہند
چھپا جب یہ دیوان راحت فزا
جب یہ مرقع شعر کا تیار چھپ کر ہو چکا
ہوا طبع دیوان استاد کا
اے ثریا نہیں کلام نسیم
واہ کیا خوب یہ چھپا دیوان
تشریحات
ضمیمہ(۱)
ضمیمہ(۲)
ارادہ کچھ دل آگاہ میں ہے
الہٰی درد دے میرے سخن میں
روایت اور گزری ہے نظر سے
اٹھ اے ساقی، کہاں تک خواب آرام
زباں خامہ کو اب شانہ کردوں
الہٰی ہوں ادا کس منہ سے احساں
روایت اور مجھ کو یاد آئی
رقم کرتا ہے یوں راوی مکرر
ثبوت سے ہوے جس دم سرفراز
حرف آخر
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.