اشاریہ
جانے کیا ہو!
مندر ہو مسجد یا دیر سب کا بھلا ہو سب کی خیر
یاد آؤ گے یاد کریں گے جانے کیا کچھ ٹھیری تھی
اب تو اک خواب ہوا اذن بیاں کا موسم
تو ہے جن کی جان انھیں کی تجھ کو نہیں پہچان سجن
طلسمی سر زمیں ہے جانے کیا ہو
ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
دل نے کیا ہے قصد سفر گھر سمیٹ لو
حالت حال کے سبب حالت حال ہی گئی
نشۂ شوق رنگ میں تجھ سے جدائی کی گئی
بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی
جان! ترے فراق میں شام سے شب جوکی گئی
تجھ میں پڑا ہوا ہوں حرکت نہیں ہے مجھ میں
اے غم! خیال خوں شدگاں غم خوش آمدید
کوئی دم بھی میں کب اندر رہا ہوں
ہم نے بھیجا تو اسے کیا بھیجا
کیا کہوں کیا ہے مرے کشکول میں
حال اک عکس حال ہے شاید
نہ کوئی ہجر نہ کوئی وصال ہے شاید
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
دھوپ اٹھاتا ہوں کہ اب سریہ کوئی بار نہیں
اے خرابی طلب خانۂ دل ! سن تو سہی
یادوں کا حساب رکھ رہا ہوں
مر مٹا ہوں خیال پر اپنے
ہم جو بے حال زار بیٹھے ہیں
نشۂ جاں کی وہ شراب کہاں
نذر میرتقی میرؔ
قابل رحم ہیں وہ دیوانے
فضائے رنگ میں رنگینیٔ جاں سے لڑائی ہے
سیر و سفر کریں ذرا سلسلۂ گماں چلے
میں بے حساب سود وزیاں کیا کروں بھلا
مرے مست ادا! ہر اک سے مت مل
ہر اعتبار حالت حالت گزر میں ہے
کوئی حالت بھی اب طاری نہیں ہے
عہد رفتہ کی متاع کارواں گم ہوگئی
پرتو جاں بہت ہی کم ٹھیرا
محفل رسمیں برتی جاتیں تھے آخر یکجا بیٹھے
کہتے ہیں جس کو ذات وہ گویا کہیں نہیں
گربہ تو افتدام نظر چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو
بخشش نرگس صنم دور بہ دور دم بہ دم
حشر دل شہر میں بپا تو ہو
کام مجھ سے کوئی ہوا ہی نہیں
تھا جب تک معیاد کے اندر عہد وصال شام فراق
ہم سب کے طرفدار ہیں پردل کے نہیں ہیں
نظر حیران دل ویران میرا جی نہیں لگتا
ہوئے جانا ہے پر لحن دم لے
لائی تھی شام دل کی عجب لہر میں ہمیں
جون! تمہارا دستۂ جہل عجب گماں میں ہے
کیا کہیں تم سے بود و باش اپنی
میرے مطلوب و مدعا! تو جا
مجھ میں مجھ دل میں تو ڈھلا تو جا
کیا ہوگیا ہے گیسوئے خمدار کو ترے
جازم پہ پڑے ہوئے ہیں جنگل
ہر گماں جس پہ وار ڈالا ہے
وہ پیشہ ور ہیں جو لوگوں کے زخم سیتے ہیں
چار سوئے نگاہ میں گرد اڑائی چاہیے
محبت ہوتے ہوتے اک ندامت ہو گئی آخر
شاخ امید جل گئی ہوگی
اپنا خاکہ لگتا ہوں
زندگی پروفائی کی ٹھیری
جو گزر دشمن ہے اس کا رہگزر رکھا ہے نام
زندگی سے بہت ہی بد ظن ہیں
اسی میں ہو چکا اب کیا نہ چاہوں
یہاں تاب سخن ہے کچھ نہ کہیو
غم ہے دل کے حساب کا جاناں
نشاط شوق کے صد شوق بے مآل کے لوگ
گفتگو جب محال کی ہوگی
انقلاب ایک خواب ہے سو ہے
دید کی ایک آن میں کار دوام ہو گیا
شوق کا بار اتار آیا ہوں
ہوں میں احوال فراموش مرے ساتھ رہو
اس گلی کچھ بھی کر نہیں اٹھتے
وہی دیوار ہے اپنی وہی در ہے در پیش
میں نہ کسی یقیں میں ہوں اور نہ کسی گماں میں ہوں
ہر جائے سے واپس آسکے ہم
شوق کی راہ پر اگر چلیے
مسکن ماہ وسال چھوڑ گیا
رنج ہے حالت سفر حال قیام رنج ہے
سر شام ایسی ہوا چلی تری یاد یار مہک اٹھی
اگر چاہو تو آنا کچھ نہیں دشوار آنکلو
کر رہا ہوں میں عمر فن برباد
دل نے جاناں کو جو شب نامۂ ہجراں لکھا
ہے وہ گروہ اپنا جو راہ پر نہ آیا
لازم ہے اپنے آپ کی امداد کچھ کروں
حال یہ ہے اب تم سے بچھڑے ہم کو ماہ وسال ہوئے
دل برباد کو آباد کیا ہے میں نے
تو سحر معجزہ بھی دکھا دے مقال کا
راز جو اب تک سر بستہ تھے عنوانوں تک آپہنچے
محفل اس شوخ کے خیال کی ہے
سخن کیوں یار ہی پر بار ٹھیرے
اب تو یہاں یونہی سی گزرچاہتا ہے دل
ہوں شہروں شہروں آوارہ تم جانے کس شہر میں ہو
وہ ادھر آئے لالہ کار اے کاش
ہم کہ دل زندہ ہیں اے نکہت نازاں! اب کے
مجھ پہ ہے اسے بڑا بھروسہ
سارے رشتے تباہ کر آیا
دید حیران اس گلی میں ہے
گلوں پہ حسن رقم کا گماں گزرتا ہے
دل کی ہر بات دھیان میں گزری
طور یہ پسند آئے دل کو شہر والوں کے
مت پوچھو جو رقص کے مستوں کی تھی حالت رات گئے
اپنا وہم اپنا گماں چاہا گیا
منصور زبیری کے شرابی آغوش میں
قطعات
نظمیں
زمان
قاتل
اے شہر! تیرے اہل قلم بے ضمیر ہیں
ایک گروہ
نقش کہن
ان کا جواب
انبوہ
صفا زادہ
شہپد چوک کے نام
تمنّا
ہجو معشوقان خود
بحر ہنرج
وہ
ناکارہ
دیکھنے چلو
جوانی
دو مشورے
بت شکن
مرگ مسیحائی
مرگ ناگہاں
قومی نظمیں
پرتو تنویر سحر
اے وطن
نگار فن
فروغ جو ہر پنہاں
سخنوروں کا سلام
شہید جیت گئے
سلام فتح
استفسار
یہ پوچھتی ہیں وقت سے خوددار بستیاں
مرہم جواب
سچائیوں کے ساتھ
ہماری مطبوعات ایک نظر میں
اشاریہ
جانے کیا ہو!
مندر ہو مسجد یا دیر سب کا بھلا ہو سب کی خیر
یاد آؤ گے یاد کریں گے جانے کیا کچھ ٹھیری تھی
اب تو اک خواب ہوا اذن بیاں کا موسم
تو ہے جن کی جان انھیں کی تجھ کو نہیں پہچان سجن
طلسمی سر زمیں ہے جانے کیا ہو
ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
دل نے کیا ہے قصد سفر گھر سمیٹ لو
حالت حال کے سبب حالت حال ہی گئی
نشۂ شوق رنگ میں تجھ سے جدائی کی گئی
بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئی
جان! ترے فراق میں شام سے شب جوکی گئی
تجھ میں پڑا ہوا ہوں حرکت نہیں ہے مجھ میں
اے غم! خیال خوں شدگاں غم خوش آمدید
کوئی دم بھی میں کب اندر رہا ہوں
ہم نے بھیجا تو اسے کیا بھیجا
کیا کہوں کیا ہے مرے کشکول میں
حال اک عکس حال ہے شاید
نہ کوئی ہجر نہ کوئی وصال ہے شاید
اک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
دھوپ اٹھاتا ہوں کہ اب سریہ کوئی بار نہیں
اے خرابی طلب خانۂ دل ! سن تو سہی
یادوں کا حساب رکھ رہا ہوں
مر مٹا ہوں خیال پر اپنے
ہم جو بے حال زار بیٹھے ہیں
نشۂ جاں کی وہ شراب کہاں
نذر میرتقی میرؔ
قابل رحم ہیں وہ دیوانے
فضائے رنگ میں رنگینیٔ جاں سے لڑائی ہے
سیر و سفر کریں ذرا سلسلۂ گماں چلے
میں بے حساب سود وزیاں کیا کروں بھلا
مرے مست ادا! ہر اک سے مت مل
ہر اعتبار حالت حالت گزر میں ہے
کوئی حالت بھی اب طاری نہیں ہے
عہد رفتہ کی متاع کارواں گم ہوگئی
پرتو جاں بہت ہی کم ٹھیرا
محفل رسمیں برتی جاتیں تھے آخر یکجا بیٹھے
کہتے ہیں جس کو ذات وہ گویا کہیں نہیں
گربہ تو افتدام نظر چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو
بخشش نرگس صنم دور بہ دور دم بہ دم
حشر دل شہر میں بپا تو ہو
کام مجھ سے کوئی ہوا ہی نہیں
تھا جب تک معیاد کے اندر عہد وصال شام فراق
ہم سب کے طرفدار ہیں پردل کے نہیں ہیں
نظر حیران دل ویران میرا جی نہیں لگتا
ہوئے جانا ہے پر لحن دم لے
لائی تھی شام دل کی عجب لہر میں ہمیں
جون! تمہارا دستۂ جہل عجب گماں میں ہے
کیا کہیں تم سے بود و باش اپنی
میرے مطلوب و مدعا! تو جا
مجھ میں مجھ دل میں تو ڈھلا تو جا
کیا ہوگیا ہے گیسوئے خمدار کو ترے
جازم پہ پڑے ہوئے ہیں جنگل
ہر گماں جس پہ وار ڈالا ہے
وہ پیشہ ور ہیں جو لوگوں کے زخم سیتے ہیں
چار سوئے نگاہ میں گرد اڑائی چاہیے
محبت ہوتے ہوتے اک ندامت ہو گئی آخر
شاخ امید جل گئی ہوگی
اپنا خاکہ لگتا ہوں
زندگی پروفائی کی ٹھیری
جو گزر دشمن ہے اس کا رہگزر رکھا ہے نام
زندگی سے بہت ہی بد ظن ہیں
اسی میں ہو چکا اب کیا نہ چاہوں
یہاں تاب سخن ہے کچھ نہ کہیو
غم ہے دل کے حساب کا جاناں
نشاط شوق کے صد شوق بے مآل کے لوگ
گفتگو جب محال کی ہوگی
انقلاب ایک خواب ہے سو ہے
دید کی ایک آن میں کار دوام ہو گیا
شوق کا بار اتار آیا ہوں
ہوں میں احوال فراموش مرے ساتھ رہو
اس گلی کچھ بھی کر نہیں اٹھتے
وہی دیوار ہے اپنی وہی در ہے در پیش
میں نہ کسی یقیں میں ہوں اور نہ کسی گماں میں ہوں
ہر جائے سے واپس آسکے ہم
شوق کی راہ پر اگر چلیے
مسکن ماہ وسال چھوڑ گیا
رنج ہے حالت سفر حال قیام رنج ہے
سر شام ایسی ہوا چلی تری یاد یار مہک اٹھی
اگر چاہو تو آنا کچھ نہیں دشوار آنکلو
کر رہا ہوں میں عمر فن برباد
دل نے جاناں کو جو شب نامۂ ہجراں لکھا
ہے وہ گروہ اپنا جو راہ پر نہ آیا
لازم ہے اپنے آپ کی امداد کچھ کروں
حال یہ ہے اب تم سے بچھڑے ہم کو ماہ وسال ہوئے
دل برباد کو آباد کیا ہے میں نے
تو سحر معجزہ بھی دکھا دے مقال کا
راز جو اب تک سر بستہ تھے عنوانوں تک آپہنچے
محفل اس شوخ کے خیال کی ہے
سخن کیوں یار ہی پر بار ٹھیرے
اب تو یہاں یونہی سی گزرچاہتا ہے دل
ہوں شہروں شہروں آوارہ تم جانے کس شہر میں ہو
وہ ادھر آئے لالہ کار اے کاش
ہم کہ دل زندہ ہیں اے نکہت نازاں! اب کے
مجھ پہ ہے اسے بڑا بھروسہ
سارے رشتے تباہ کر آیا
دید حیران اس گلی میں ہے
گلوں پہ حسن رقم کا گماں گزرتا ہے
دل کی ہر بات دھیان میں گزری
طور یہ پسند آئے دل کو شہر والوں کے
مت پوچھو جو رقص کے مستوں کی تھی حالت رات گئے
اپنا وہم اپنا گماں چاہا گیا
منصور زبیری کے شرابی آغوش میں
قطعات
نظمیں
زمان
قاتل
اے شہر! تیرے اہل قلم بے ضمیر ہیں
ایک گروہ
نقش کہن
ان کا جواب
انبوہ
صفا زادہ
شہپد چوک کے نام
تمنّا
ہجو معشوقان خود
بحر ہنرج
وہ
ناکارہ
دیکھنے چلو
جوانی
دو مشورے
بت شکن
مرگ مسیحائی
مرگ ناگہاں
قومی نظمیں
پرتو تنویر سحر
اے وطن
نگار فن
فروغ جو ہر پنہاں
سخنوروں کا سلام
شہید جیت گئے
سلام فتح
استفسار
یہ پوچھتی ہیں وقت سے خوددار بستیاں
مرہم جواب
سچائیوں کے ساتھ
ہماری مطبوعات ایک نظر میں
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔