سرورق
ادب الکاتب والشاعر غزل
ترے جلوہ کے آگے اپنی ہستی کو فنا پایا
کلام حق ہے تو ریت اب مجھے یہ اعتبارآیا
جہاں کو مژدہ اس جان جہاں کی آمد آمد کا
نظر آتا ہے ابرآسا گزرنا کوہساروں کا
جفا وجور کی حد ہو گئی سمجھیں گے ہم اچھا
کہاں تک راستہ دیکھا کریں ہم برق خرمن کا
تجمل دیکھ کر تیرے شہیدان محبت کا
سوا جلوہ کے تیرے اور میرے دل میں کیا ہوتا
مٹا دی اس نے ہستی آستینوں کو اگر الٹا
صواب اپنی خطا کو اپنے عیبوں کو ہنر جانا
ادا میں سادگی میں کنگھی چوٹی نے خلل ڈالا
وہ دیکھو روند کر مدفن کسی کا
بڑے معرکے سے ہے آیا ہوا
ایک سے ایک اس قدر افگن کا احساں بڑھ گیا
ساقیا خالی نہ جائے ابر یہ آیا ہوا
بسکہ سیلاب فنا دار محن ثابت ہوا
آپ کی محفل میں آکر دل مکدر لے چلا
آج محشر میں بھی ہوں تشنہ تری بیداد کا
ہر زہ گردی سے قدم سودی سے سپر پیدا ہوا
ہم فقیروں کا ٹھکانہ بھی کہیں ہو جائے گا
دل نے پھر وارفتہ حسن بت پر فن کیا
کھینچنےآئے گا سینہ سے جو پیکاں اپنا
اس نے دکھلا کے جھلک اپنی جو دیوانہ کیا
ہے ستم چرخ چمن شور مچانا تیرا
مژدہ اے بادہ کشو ابر بہارآ پہنچا
دل کا طالب وہ ہوا جان کا خواہاں نہ ہوا
دیکھتا ہوں کبھی حسرت سے تو کہتا ہے وہ شوخ
مختصر مرحلہ طول امل کیا ہوگا
سرو کی طرح اگر برزدہ داماں ہوتا
آنکھ پھرنے میں جو رنجش کا نہ پہلو ہوتا
جلوہ گر آنکھوں میں بھی دل میں بھی پنہاں دیکھا
راہ الفت میں پس وپیش یہ کب دل آیا
زندگی کیا ہے اک افسانہ کا دہراتا جانا
تن خاکی کی میں ہے افسردہ مرا دل ایسا
آگیا پھر رمضاں کیا ہوگا
نہ ہوا مآل حباب کا جو ہوا میں بھر کے اپھر کیا
کہیں قابل سماعت مرا حال زار ہوتا
جہاں میں کوئی نہ کوئی عدوئے جاں ہوگا
کہا جو تونے دل ناصبور میں نے کیا
ہزارآنکھ پڑی جب فراز بام آیا
بہ شہوت وغضب آلودۂ دل مارا
من ونگاہ تو باکیف میٔ چہ کارمرا
دل راز عشق کا متحمل نہیں ملا
یادش بخیر جلوۂ دلکش بہار کا
سینہ میں دل ہو دل میں کچھ ارماں نہ ہو تو کیا
بندہ کسی طرح نہ سزائے جحیم تھا
میں پاکے اس سے عفو کا پروانہ چھٹ گیا
پرسش جو ہوگی تجھ سے جلاد کیا کرے گا
واعظ نے در کعبۂ عرفاں نہیں دیکھا
سب دل کا بخار آنسووں کے تار نے کھینچا
باور سخن غیر کو فرہاد نہ کرنا
کبھی تیوری چڑھا کے دیکھ لیا
کام آخر نہ ہونا تھا نہ ہوا
دم گیا شوق جستجو نہ گیا
خیال وخواب سا گزر نظر مثل سراب آیا
اٹھا ہوں مثل گد قدم کی صدا سے کب
حرف (ب)
کھائی مئے دے یا نہ دے ہم رند بے پروا ہیں آپ
حرف (ت)
سخن میں ہے گہر آبدار کی صورت
کرتا ہے ظلم وجور یہ چرخ کہن بہت
پر تو حسن تو در آئینہ افتادہ است
عشق از سوز دل من طرح آتش خانہ ریخت
ہوس برغم خرد ومدعائے دیگر داشت
زکنہ واجب داوار ہیچ نتواں گفت
کا مکار است ہر کہ ناکام ست
مرکب ماست کوکب سیار
دل ہمہ زخم دود زلفش شکن اندر شکن است
آورد غرض بار امانت چناں شکست
دور کھینچے نہ گریباں کی طرح
حرف ح
اس مہینہ بھر کہاں تھا ساقیا اچھی طرح
حرف خ
سمجھا ہوں عیش وطیش جہاں خراب تلخ
نظر پڑا جو مجھے دام مشک و بو صیاد
حرف د
آئینہ ازپر تو او وادی ایمن شود
جوش سرشک تاسرمژگاں نمی رسد
بدام ایں نفس از افسوں نہ از افسانہ می آید
نگاہ ناز سے بسمل گریں گے بسمل پر
حرف ر
گو چہ کوئی نکلے جو رگ جاں کے قریں اور
احسان لے نہ ہمت مردانہ چھوڑ کر
بت کہتے ہیں کبھی کبھی تصور دیکھ کر
مجھ کو یارب تو عطا کر دل نالاں دو چار
روئے ناصح بے درد کے سمجھانے پر
دوش پر رہتے ہیں افعی کبھی رخساروں پر
کروٹوں میں یہ رہا پھولوں کے شامل کیونکر
دھوکا زلفوں نے دیا عنبرسا را بن کر
درد زماں یہ چھپے صاعقہ افگن ہو کر
سروقد حشر اٹھا قامت دل جوہر کر
آستینیں تو چڑھائی ہیں مری تعزیر پر
ہنسی میں وہ بات میں نے کہہ دی کہ رہ گئے آپ دنگ ہو کر
جنوں کے ولولے جب گھٹ گئے دل میں نہاں ہو کر
وہی سمجھیں گے اس کو جو نظر رکھتے ہیں جوہر پر
آفریں شوق گام فرسا پر
خار حسرت کو ہے جگر کی تلاش
حرف ش
شب قدرست زلف عنبرنیش
طلسمے بیش نبودلجۂ ہستی وسیلا بش
کچھ ابر نے اڑتی ہوئی دی ہے خسر فیض
حرف ض
حرف (ف)
پھری ہوئی ہیں مری آنکھیں تیغ زن کی طرف
یوں میں سیدھا گیا وحشت میں بیاباں کی طرف
حرف ق
خاک جاں بر ہو مبتلائے فراق
نہ پاسکے گل مقصود اس بہار سے ہم
حرف م
جاں در ہواے بادۂ اطہر فروختیم
ہمتے از باد صبح گاہ گرفتم
مزہ بیاں میں نہیں اب اثر فغاں میں نہیں
حرف ن
حریف تم نہ سہی دوستدار بھی تو نہیں
تو ایک آہ میں اے چرخ کج مدار نہیں
نہ اہل دل سے نہ اہل نظر سے پوچھتا ہوں
جو دل کو پیس کے پھیکیں تو آرزو نہ کریں
چھٹکی ہے چاندنی سی دل پاکبار میں
مبرم قضا سے عشوہ سحر آفریں نہیں
کیا ہو یقیں ملیگا ہو ہم کو یہاں کہیں
تیور قدم قدم پہ مجھے آئے جاتے ہیں
اس واسطے عدم کی منزل کو ڈھونڈھتے ہیں
کیا کارواں ہستی گزرا رواروی میں
صبح غم کی یہ شعاعیں نیشتر سے کم نہیں
یاس و امید اس طرح ہے خاطر دلگیر میں
درد دل سے عشق کے بے پردگی ہوتی نہیں
دل نہ ہوتا گر تو پھر کچھ دل لگی ہوتی نہیں
حرص راخون کروں ودل راتونگر داشتن
آپ کو میرے دل زار سے کچھ کام نہیں
امن اس دور قمر میں فلک بیر نہیں
کچھ غبار دل شیدا کی خبر ہے کہ نہیں
خم گیسو میں دل زار کو ہم دیکھتے ہیں
نفس جب تک ہے آنکھیں دیدو داوید جہاں کر لیں
گزرتے ہیں تو مثل سیل عالم سے گزرتے ہیں
تری محفل میں جو آتے ہیں کچھ کھو کر نکلتےہیں
ثنائے ساقی کوثر میں شعر تر نکلتے ہیں
کھٹک ہر سانس میں ہے ہر نفس کے ساتھ نالے ہیں
ہوئی یہ کثرت نشو ونما فضل بہاری میں
ابھی تک بحث امر کن فکاں جاری ہے عالم میں
گمراہ کیا نفس نے دنیائے دنی میں
اندیشہ ہے رہزن کا بھی ہر راہ گزر میں
سنگ جفا کا غم نہیں دست طلب کا ڈر نہیں
ندامت ہے بنا کر اس چمن میں آشیاں مجھ کو
حرف واؤ
نہیں پروا جو ظالم نے مٹایا میری تربت کو
عجب شوریست از حرف دل دیوانہ در پہلو
عبث ہے ناز استغنا پہ کل کی کیا خبر کیا ہو
مجھی کو کہہ رہے ہو سب کہ سرکرم فغاں کیوں ہو
ملے ہیں نقش جو ہم بوریا نشینوں کو
کیا شراب نے رنگین آبگینوں کو
اتنا تو میں ضرور کہوں گا خفا نہ ہو
مجھ کو سمجھو یاد گار رفتگان لکھنؤ
فغاں از آہ وزاری دل دیوانہ در پہلو
حرف ہ
کس لئے پھرتے ہیں یہ شمش وقمر دونوں ساتھ
حرف ی
یوں تو نہ تری جسم نہ ہیں زینہار ہاتھ
جھگڑا پڑا ہواہے نکلنے میں جان کے
روکے ہوے ہے بن کے حصار آسمان مجھے
گزری نسیم باغ کوشاداں کئے ہوئے
اتنا ہی شکر نعمت وراحت میں چاہیئے
اعمال کے سبب سے گراں بار ہو گئے
پہلو میں دل ہے آرزوئے یار کے لئے
آخر ہوا شباب وہ صحبت نہیں رہی
میں دیکھتا ہی رہ گیا وہ چال چل گئے
بول اس کے سامنے ہے وہ ہے دل کے سامنے
نشہ میں سوجھتی ہے مجھے دور دور کی
دل میں شرارت اسکے سمائی ہوئی سی ہے
تنہا نہیں ہوں گر دل دیوانہ ساتھ ہے
باندھے تھے ان کے ہاتھ لگا کر جنا کبھی
نظروں سے تو نہاں وہ مثال نظر رہے
کیا طرفہ عاریت نفس مستعار ہے
میں ہی رہا نہ اے شب عشرت نہ تو رہی
خاموش ہیں فغاں سے لب آشنا نہیں ہے
بسان نکہت گل ساتھ ہم صبا کے چلے
اگر تو آرزوئے خدمت مغاں داری
کتاں کیطرح جو نازک جگر نہیں رکھتے
جہاں کس کا ہے عمر گریز پاکس کی
ترقیب کستے ہیں آوازے شر یہ کس کا ہے
نہ اترے بام سے جب تک نہ دوپہر گزرے
شب فراق میں کب تک قضا نہیں آتی
نکالے پیچ مجھی پر مرے سکھائے ہوئے
حسیں ہو کے تبختر ضرور ہوتا ہے
کہے سنے سے ذرا پاس آکے بیٹھ گئے
ہوئے نہ ہم تو پشیماں کبھی وفا کرکے
مزہ بہار کا اب کے تو اے جنوں نکلے
چلی صبا کہ چمن میں گزر نہیں نہ سہی
یہ نہ میں سمجھا نکالا تو نے بزم انس سے
ہو گئے کیا کیا ستم اب تو نہیں کچھ یاد بھی
چور ہوں میں جب سے جوش عشق میرے دل میں ہے
زندگی جن سے تھی وہ مجمع پریشاں ہو گئے
دیکھنا شورش وفور گریۂ سرشار کی
آکے مجھ تک کشتیٔ مے ساقیا الٹی پھری
ایک دم کو حسن گل سے گلشن آرائی ہوئی
عشق میں جب تک جنوں کی کار فرمائی نہ تھی
شرم یہ کیوں یہ تبسم ہائے پنہاں کس لئے
مے پلا ساقی ارے فصل بہار ایسے میں ہے
سنگ پانی ہونے کو بانی ہوا ہوانے کو ہے
لہر میں دریائے ہستی کی حباب آنیکو ہے
جشن جم کا ماجرا باد صبا سے پوچھ لے
منزلوں کو عشق کی اہل جنوں سے پوچھئے
عشق خط سے ہے سو الفت لب خاموش کی
کیا کہیں کیونکر تھمے کیوں کر چلے
تندیٔ مے حیرت افزا ہو گئی
سبحہ ہے زنار کیوں کیسی کہی
ہیچ نظروں میں اگر عالم فانی ہو جائے
وہ جو برہم ہیں تو بگڑی ہوئی تدبیر بھی ہے
لے کے ساغر سروپا کا نہ رہا ہوش مجھے
دیکھے وہ زلف کمر یا قد رعنا دیکھے
جلوۂ کن فیکون سے ترے فرمانے سے
یاد تھے ہم کو بہت ذکر پرستانوں کے
مجھے کو اے یار ذرا چشم نمائی ہوتی
جان جاتی رہے شکوہ نہیں کرنیوالے
شمع خورشید ہے اس بزم میں چلنے کیلئے
کہنیوں تک مرا بہ بہ کے لہو آتا ہے
نہ مروت نہ مدارانہ وفا آتی ہے
پاک کر اشک نہ اے شاہد خوش خو میرے
رنگ خوں اشک میں گہرا نظر آتا ہے مجھے
حسن پر خلق خدا لوٹ گئی
خبر ہوئی خود بخود یہ دل کو دہر دارالاماں نہیں ہے
بھرا ساقی کس آب آتشیں سے
خیال چشم فتاں ہر گھڑی ہے
وہ آئی فوج گل وہ برق چمکی
چہ سامان سیہ کاری نہ کردی
نہ جی بہلا مرا بوئے گل ورنگ گلستاں سے
نہ اب نکلوں گا ساری عمرکوئے مے پرستاں سے
رعایا خوش ہے شہ کے بذل ظاہر فیض پنہاں سے
نہ قصردلکشا رکھے نہ باغ جانفزا رکھے
میں ہوں بندوں میں اسکے جو محبت کی نظر رکھے
ملا تھا ایک ساغر زہر غم سے نیلگوں وہ بھی
ملی تھی راہ میں منزل سراب عمر فانی کی
بڑا غم ہوگا قتل عاشق ناشاد ومضطر سے
شب زمیں اگر یاد آئے فلک وہ آفتاب آئے
ادھر دل میں مرے حسرت پہ حسر ت بڑھتی جاتی ہے
بیان سوز غم کاہیکو اک طومار ہوتا ہے
پھنسا دیں گے غزالان حرم اپنا حرم پہلے
اڑا کر کاگ شیشہ سے مے گلگوں نکلتی ہے
ہے تل کو یہ منظور کہ چھپ جائے نظر سے
چھائی ہے محبت جو دھواں دھار کسی کی
کیا عاشق ناشاد کو وہ شاد کریں گے
یہ ذوق تماشا کا حاصل نظر آتا ہے
ہوں جو مہمان رات بھر کے لئے
راز افشا کہٰں نہ ہو جائے
طرز دکھلا دے اس کی قامت کے
جو نالے لب پیر کنعاں سے نکلے
تاریخیں
اگر گوش گل تک رسا ہو گئی
بدعت مسنون ہو گئی ہے
تضمین دعائیہ
غزل وقصیدہ بمدح خسروی
دزدیدہ نگاہیکہ پر تیر قضا داشت
صد لطف بہر عاجز ومسکن شہ ماداشت
جوش گل جوش طرف جوش بہار است اینجا
رباعی
تہنیت عقد ثانی اعلی حضرت خلد اللہ ملکہ وسلطنۃ
تاریخ تعمیر کتب خانہ آصفیہ
تاریخ ترجمہ وکار آف ویکفیلڈ
تاریخ طبع دیوان میر ذاکر حسین یاسؔ مرحوم
تاریخ ولادت نواب شہنواز جنگ بہادر
تاریخ مثنوی ضیائے دکن
تاریخ دیوان نواب بنو صاحب رفعت مرحوم
تاریخ دیوان حبیب کنتوری مرحوم
تاریخ وفات نواب معتمد الدولہ بہادر مرحوم
تاریخ وفات علی فرزند سید محمد علی صاحب
تایخ وفات سید بلگرامی مرحوم
سہرا بتقریب عروسی آغا سید حسن اطال اللہ عمرہ
عبارت خاتمہ
غلط نامہ ’’صورت تعزل‘‘
سرورق
ادب الکاتب والشاعر غزل
ترے جلوہ کے آگے اپنی ہستی کو فنا پایا
کلام حق ہے تو ریت اب مجھے یہ اعتبارآیا
جہاں کو مژدہ اس جان جہاں کی آمد آمد کا
نظر آتا ہے ابرآسا گزرنا کوہساروں کا
جفا وجور کی حد ہو گئی سمجھیں گے ہم اچھا
کہاں تک راستہ دیکھا کریں ہم برق خرمن کا
تجمل دیکھ کر تیرے شہیدان محبت کا
سوا جلوہ کے تیرے اور میرے دل میں کیا ہوتا
مٹا دی اس نے ہستی آستینوں کو اگر الٹا
صواب اپنی خطا کو اپنے عیبوں کو ہنر جانا
ادا میں سادگی میں کنگھی چوٹی نے خلل ڈالا
وہ دیکھو روند کر مدفن کسی کا
بڑے معرکے سے ہے آیا ہوا
ایک سے ایک اس قدر افگن کا احساں بڑھ گیا
ساقیا خالی نہ جائے ابر یہ آیا ہوا
بسکہ سیلاب فنا دار محن ثابت ہوا
آپ کی محفل میں آکر دل مکدر لے چلا
آج محشر میں بھی ہوں تشنہ تری بیداد کا
ہر زہ گردی سے قدم سودی سے سپر پیدا ہوا
ہم فقیروں کا ٹھکانہ بھی کہیں ہو جائے گا
دل نے پھر وارفتہ حسن بت پر فن کیا
کھینچنےآئے گا سینہ سے جو پیکاں اپنا
اس نے دکھلا کے جھلک اپنی جو دیوانہ کیا
ہے ستم چرخ چمن شور مچانا تیرا
مژدہ اے بادہ کشو ابر بہارآ پہنچا
دل کا طالب وہ ہوا جان کا خواہاں نہ ہوا
دیکھتا ہوں کبھی حسرت سے تو کہتا ہے وہ شوخ
مختصر مرحلہ طول امل کیا ہوگا
سرو کی طرح اگر برزدہ داماں ہوتا
آنکھ پھرنے میں جو رنجش کا نہ پہلو ہوتا
جلوہ گر آنکھوں میں بھی دل میں بھی پنہاں دیکھا
راہ الفت میں پس وپیش یہ کب دل آیا
زندگی کیا ہے اک افسانہ کا دہراتا جانا
تن خاکی کی میں ہے افسردہ مرا دل ایسا
آگیا پھر رمضاں کیا ہوگا
نہ ہوا مآل حباب کا جو ہوا میں بھر کے اپھر کیا
کہیں قابل سماعت مرا حال زار ہوتا
جہاں میں کوئی نہ کوئی عدوئے جاں ہوگا
کہا جو تونے دل ناصبور میں نے کیا
ہزارآنکھ پڑی جب فراز بام آیا
بہ شہوت وغضب آلودۂ دل مارا
من ونگاہ تو باکیف میٔ چہ کارمرا
دل راز عشق کا متحمل نہیں ملا
یادش بخیر جلوۂ دلکش بہار کا
سینہ میں دل ہو دل میں کچھ ارماں نہ ہو تو کیا
بندہ کسی طرح نہ سزائے جحیم تھا
میں پاکے اس سے عفو کا پروانہ چھٹ گیا
پرسش جو ہوگی تجھ سے جلاد کیا کرے گا
واعظ نے در کعبۂ عرفاں نہیں دیکھا
سب دل کا بخار آنسووں کے تار نے کھینچا
باور سخن غیر کو فرہاد نہ کرنا
کبھی تیوری چڑھا کے دیکھ لیا
کام آخر نہ ہونا تھا نہ ہوا
دم گیا شوق جستجو نہ گیا
خیال وخواب سا گزر نظر مثل سراب آیا
اٹھا ہوں مثل گد قدم کی صدا سے کب
حرف (ب)
کھائی مئے دے یا نہ دے ہم رند بے پروا ہیں آپ
حرف (ت)
سخن میں ہے گہر آبدار کی صورت
کرتا ہے ظلم وجور یہ چرخ کہن بہت
پر تو حسن تو در آئینہ افتادہ است
عشق از سوز دل من طرح آتش خانہ ریخت
ہوس برغم خرد ومدعائے دیگر داشت
زکنہ واجب داوار ہیچ نتواں گفت
کا مکار است ہر کہ ناکام ست
مرکب ماست کوکب سیار
دل ہمہ زخم دود زلفش شکن اندر شکن است
آورد غرض بار امانت چناں شکست
دور کھینچے نہ گریباں کی طرح
حرف ح
اس مہینہ بھر کہاں تھا ساقیا اچھی طرح
حرف خ
سمجھا ہوں عیش وطیش جہاں خراب تلخ
نظر پڑا جو مجھے دام مشک و بو صیاد
حرف د
آئینہ ازپر تو او وادی ایمن شود
جوش سرشک تاسرمژگاں نمی رسد
بدام ایں نفس از افسوں نہ از افسانہ می آید
نگاہ ناز سے بسمل گریں گے بسمل پر
حرف ر
گو چہ کوئی نکلے جو رگ جاں کے قریں اور
احسان لے نہ ہمت مردانہ چھوڑ کر
بت کہتے ہیں کبھی کبھی تصور دیکھ کر
مجھ کو یارب تو عطا کر دل نالاں دو چار
روئے ناصح بے درد کے سمجھانے پر
دوش پر رہتے ہیں افعی کبھی رخساروں پر
کروٹوں میں یہ رہا پھولوں کے شامل کیونکر
دھوکا زلفوں نے دیا عنبرسا را بن کر
درد زماں یہ چھپے صاعقہ افگن ہو کر
سروقد حشر اٹھا قامت دل جوہر کر
آستینیں تو چڑھائی ہیں مری تعزیر پر
ہنسی میں وہ بات میں نے کہہ دی کہ رہ گئے آپ دنگ ہو کر
جنوں کے ولولے جب گھٹ گئے دل میں نہاں ہو کر
وہی سمجھیں گے اس کو جو نظر رکھتے ہیں جوہر پر
آفریں شوق گام فرسا پر
خار حسرت کو ہے جگر کی تلاش
حرف ش
شب قدرست زلف عنبرنیش
طلسمے بیش نبودلجۂ ہستی وسیلا بش
کچھ ابر نے اڑتی ہوئی دی ہے خسر فیض
حرف ض
حرف (ف)
پھری ہوئی ہیں مری آنکھیں تیغ زن کی طرف
یوں میں سیدھا گیا وحشت میں بیاباں کی طرف
حرف ق
خاک جاں بر ہو مبتلائے فراق
نہ پاسکے گل مقصود اس بہار سے ہم
حرف م
جاں در ہواے بادۂ اطہر فروختیم
ہمتے از باد صبح گاہ گرفتم
مزہ بیاں میں نہیں اب اثر فغاں میں نہیں
حرف ن
حریف تم نہ سہی دوستدار بھی تو نہیں
تو ایک آہ میں اے چرخ کج مدار نہیں
نہ اہل دل سے نہ اہل نظر سے پوچھتا ہوں
جو دل کو پیس کے پھیکیں تو آرزو نہ کریں
چھٹکی ہے چاندنی سی دل پاکبار میں
مبرم قضا سے عشوہ سحر آفریں نہیں
کیا ہو یقیں ملیگا ہو ہم کو یہاں کہیں
تیور قدم قدم پہ مجھے آئے جاتے ہیں
اس واسطے عدم کی منزل کو ڈھونڈھتے ہیں
کیا کارواں ہستی گزرا رواروی میں
صبح غم کی یہ شعاعیں نیشتر سے کم نہیں
یاس و امید اس طرح ہے خاطر دلگیر میں
درد دل سے عشق کے بے پردگی ہوتی نہیں
دل نہ ہوتا گر تو پھر کچھ دل لگی ہوتی نہیں
حرص راخون کروں ودل راتونگر داشتن
آپ کو میرے دل زار سے کچھ کام نہیں
امن اس دور قمر میں فلک بیر نہیں
کچھ غبار دل شیدا کی خبر ہے کہ نہیں
خم گیسو میں دل زار کو ہم دیکھتے ہیں
نفس جب تک ہے آنکھیں دیدو داوید جہاں کر لیں
گزرتے ہیں تو مثل سیل عالم سے گزرتے ہیں
تری محفل میں جو آتے ہیں کچھ کھو کر نکلتےہیں
ثنائے ساقی کوثر میں شعر تر نکلتے ہیں
کھٹک ہر سانس میں ہے ہر نفس کے ساتھ نالے ہیں
ہوئی یہ کثرت نشو ونما فضل بہاری میں
ابھی تک بحث امر کن فکاں جاری ہے عالم میں
گمراہ کیا نفس نے دنیائے دنی میں
اندیشہ ہے رہزن کا بھی ہر راہ گزر میں
سنگ جفا کا غم نہیں دست طلب کا ڈر نہیں
ندامت ہے بنا کر اس چمن میں آشیاں مجھ کو
حرف واؤ
نہیں پروا جو ظالم نے مٹایا میری تربت کو
عجب شوریست از حرف دل دیوانہ در پہلو
عبث ہے ناز استغنا پہ کل کی کیا خبر کیا ہو
مجھی کو کہہ رہے ہو سب کہ سرکرم فغاں کیوں ہو
ملے ہیں نقش جو ہم بوریا نشینوں کو
کیا شراب نے رنگین آبگینوں کو
اتنا تو میں ضرور کہوں گا خفا نہ ہو
مجھ کو سمجھو یاد گار رفتگان لکھنؤ
فغاں از آہ وزاری دل دیوانہ در پہلو
حرف ہ
کس لئے پھرتے ہیں یہ شمش وقمر دونوں ساتھ
حرف ی
یوں تو نہ تری جسم نہ ہیں زینہار ہاتھ
جھگڑا پڑا ہواہے نکلنے میں جان کے
روکے ہوے ہے بن کے حصار آسمان مجھے
گزری نسیم باغ کوشاداں کئے ہوئے
اتنا ہی شکر نعمت وراحت میں چاہیئے
اعمال کے سبب سے گراں بار ہو گئے
پہلو میں دل ہے آرزوئے یار کے لئے
آخر ہوا شباب وہ صحبت نہیں رہی
میں دیکھتا ہی رہ گیا وہ چال چل گئے
بول اس کے سامنے ہے وہ ہے دل کے سامنے
نشہ میں سوجھتی ہے مجھے دور دور کی
دل میں شرارت اسکے سمائی ہوئی سی ہے
تنہا نہیں ہوں گر دل دیوانہ ساتھ ہے
باندھے تھے ان کے ہاتھ لگا کر جنا کبھی
نظروں سے تو نہاں وہ مثال نظر رہے
کیا طرفہ عاریت نفس مستعار ہے
میں ہی رہا نہ اے شب عشرت نہ تو رہی
خاموش ہیں فغاں سے لب آشنا نہیں ہے
بسان نکہت گل ساتھ ہم صبا کے چلے
اگر تو آرزوئے خدمت مغاں داری
کتاں کیطرح جو نازک جگر نہیں رکھتے
جہاں کس کا ہے عمر گریز پاکس کی
ترقیب کستے ہیں آوازے شر یہ کس کا ہے
نہ اترے بام سے جب تک نہ دوپہر گزرے
شب فراق میں کب تک قضا نہیں آتی
نکالے پیچ مجھی پر مرے سکھائے ہوئے
حسیں ہو کے تبختر ضرور ہوتا ہے
کہے سنے سے ذرا پاس آکے بیٹھ گئے
ہوئے نہ ہم تو پشیماں کبھی وفا کرکے
مزہ بہار کا اب کے تو اے جنوں نکلے
چلی صبا کہ چمن میں گزر نہیں نہ سہی
یہ نہ میں سمجھا نکالا تو نے بزم انس سے
ہو گئے کیا کیا ستم اب تو نہیں کچھ یاد بھی
چور ہوں میں جب سے جوش عشق میرے دل میں ہے
زندگی جن سے تھی وہ مجمع پریشاں ہو گئے
دیکھنا شورش وفور گریۂ سرشار کی
آکے مجھ تک کشتیٔ مے ساقیا الٹی پھری
ایک دم کو حسن گل سے گلشن آرائی ہوئی
عشق میں جب تک جنوں کی کار فرمائی نہ تھی
شرم یہ کیوں یہ تبسم ہائے پنہاں کس لئے
مے پلا ساقی ارے فصل بہار ایسے میں ہے
سنگ پانی ہونے کو بانی ہوا ہوانے کو ہے
لہر میں دریائے ہستی کی حباب آنیکو ہے
جشن جم کا ماجرا باد صبا سے پوچھ لے
منزلوں کو عشق کی اہل جنوں سے پوچھئے
عشق خط سے ہے سو الفت لب خاموش کی
کیا کہیں کیونکر تھمے کیوں کر چلے
تندیٔ مے حیرت افزا ہو گئی
سبحہ ہے زنار کیوں کیسی کہی
ہیچ نظروں میں اگر عالم فانی ہو جائے
وہ جو برہم ہیں تو بگڑی ہوئی تدبیر بھی ہے
لے کے ساغر سروپا کا نہ رہا ہوش مجھے
دیکھے وہ زلف کمر یا قد رعنا دیکھے
جلوۂ کن فیکون سے ترے فرمانے سے
یاد تھے ہم کو بہت ذکر پرستانوں کے
مجھے کو اے یار ذرا چشم نمائی ہوتی
جان جاتی رہے شکوہ نہیں کرنیوالے
شمع خورشید ہے اس بزم میں چلنے کیلئے
کہنیوں تک مرا بہ بہ کے لہو آتا ہے
نہ مروت نہ مدارانہ وفا آتی ہے
پاک کر اشک نہ اے شاہد خوش خو میرے
رنگ خوں اشک میں گہرا نظر آتا ہے مجھے
حسن پر خلق خدا لوٹ گئی
خبر ہوئی خود بخود یہ دل کو دہر دارالاماں نہیں ہے
بھرا ساقی کس آب آتشیں سے
خیال چشم فتاں ہر گھڑی ہے
وہ آئی فوج گل وہ برق چمکی
چہ سامان سیہ کاری نہ کردی
نہ جی بہلا مرا بوئے گل ورنگ گلستاں سے
نہ اب نکلوں گا ساری عمرکوئے مے پرستاں سے
رعایا خوش ہے شہ کے بذل ظاہر فیض پنہاں سے
نہ قصردلکشا رکھے نہ باغ جانفزا رکھے
میں ہوں بندوں میں اسکے جو محبت کی نظر رکھے
ملا تھا ایک ساغر زہر غم سے نیلگوں وہ بھی
ملی تھی راہ میں منزل سراب عمر فانی کی
بڑا غم ہوگا قتل عاشق ناشاد ومضطر سے
شب زمیں اگر یاد آئے فلک وہ آفتاب آئے
ادھر دل میں مرے حسرت پہ حسر ت بڑھتی جاتی ہے
بیان سوز غم کاہیکو اک طومار ہوتا ہے
پھنسا دیں گے غزالان حرم اپنا حرم پہلے
اڑا کر کاگ شیشہ سے مے گلگوں نکلتی ہے
ہے تل کو یہ منظور کہ چھپ جائے نظر سے
چھائی ہے محبت جو دھواں دھار کسی کی
کیا عاشق ناشاد کو وہ شاد کریں گے
یہ ذوق تماشا کا حاصل نظر آتا ہے
ہوں جو مہمان رات بھر کے لئے
راز افشا کہٰں نہ ہو جائے
طرز دکھلا دے اس کی قامت کے
جو نالے لب پیر کنعاں سے نکلے
تاریخیں
اگر گوش گل تک رسا ہو گئی
بدعت مسنون ہو گئی ہے
تضمین دعائیہ
غزل وقصیدہ بمدح خسروی
دزدیدہ نگاہیکہ پر تیر قضا داشت
صد لطف بہر عاجز ومسکن شہ ماداشت
جوش گل جوش طرف جوش بہار است اینجا
رباعی
تہنیت عقد ثانی اعلی حضرت خلد اللہ ملکہ وسلطنۃ
تاریخ تعمیر کتب خانہ آصفیہ
تاریخ ترجمہ وکار آف ویکفیلڈ
تاریخ طبع دیوان میر ذاکر حسین یاسؔ مرحوم
تاریخ ولادت نواب شہنواز جنگ بہادر
تاریخ مثنوی ضیائے دکن
تاریخ دیوان نواب بنو صاحب رفعت مرحوم
تاریخ دیوان حبیب کنتوری مرحوم
تاریخ وفات نواب معتمد الدولہ بہادر مرحوم
تاریخ وفات علی فرزند سید محمد علی صاحب
تایخ وفات سید بلگرامی مرحوم
سہرا بتقریب عروسی آغا سید حسن اطال اللہ عمرہ
عبارت خاتمہ
غلط نامہ ’’صورت تعزل‘‘
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔