سرورق
دل ہے نہ ہوا خواہ چمن کا نہ صبا کا
دم جس نے مسیحا کو بتایا دہن ایسا
پھڑک کے جان نہ دیتا تو آہ کیا کرتا
جلاتے ہیں تجھے اے دل یہ شمع رو کیا کیا
جھٹپتا وقت ہے بہتا ہوا دریا ٹھہرا
کس دن ہمارے گھر میں وہ بے نقاب ہوگا
چراغ شاعری آتش کے سامنے گل تھا
ہزار طرح کی آفت ہے جان پرلینا
حنا مل کر کف رنگیں جو اے غنچہ دہن ہوتا
جمال و جلوہ دکھاتا جو اے حضور نہ تھا
صبرو شکیب کا مخمل نہ ہو سکا
نیا ستم چمن روزگار میں دیکھا
زمانہ شور قیامت سے جانجان اٹھا
ثواب ہوگا لحد میں عذاب کیا ہوگا
سہل مرے کی مہم بھی مرا دل سمجھا
جب دل پہ نظر کی سوے گیسو نظر آیا
تیر نظر سے چھد کے دل افکار ہی رہا
سامن مر کے ہوا گور کی اندھیاری کا
جہاں میں حسن پرستوں کا کارواں نہ رہا
کیوں جنوں اسکو ہوا تھا کسکے دیوانوں میں تھا
اللہ رے فروغ رخ لاجواب کا
نہیں ہے رنگ گلوں کا بہار سے پیدا
تم ہو یکتا ہے جہاں کوئی بھی تم سا نہ ہوا
عالم میں ہرے ہونگے اشجار جو میں رویا
ہوئے خود رفتہ نقشہ کھینچ کر اس یار جانی کا
ان انکھڑیوں میں نہ سرمہ کبھی دیا جاتا
فروغ حسن مرے دل پذیر ہونا تھا
کمر پہ طرۂ گیسو دلستاں پہونچا
زہے شرف نہ کہیں اور جاکے دم نکلا
دفن میں تجھ میں جو اے کوچۂ جاناں ہوتا
نہ ہم سے پوچھو کہ کرتے ہیں ہم ستم کیسا
میں جان دے رہا ہوں پھر اس دل شکن کو کیا
فصل گل میں ہے ارادہ سوے صحرا اپنا
تیرہے ایدل لب معشوق تجھ میں یار کا
تیرے عالم کا یار کیا کہنا
جشن تھا عیش وطرب کی انتہا تھی میں نہ تھا
دم بھر کو جو پھر دم کسی نخچیر میں آتا
نہیں معلوم کب جلوہ دکھا کر تم نے یار اپنا
ارمان مرا تونے بھی صرصر نہ نکالا
کچھ بھی نہ جھانک تاک کی تدبیر سے ہوا
شب کو نظارہ دلدار نے سونے نہ دیا
بہرہ ور تیری ہوس میں کوئی دم بھر نہ ہوا
بھولے سے فراموش مری یاد نہ کرتا
ہم نہ دیکھیں گے ترے در کے سوا در دوسرا
ہوئے ایسے بدل ترے شیفتہ ہم دل وجان کو ہمیشہ نثار کیا
سودے میں نہ زنجیر کو زنجیر میں سمجھا
سوجھا کبھی نہ عشق میں کچھ پیارکے سوا
دل کو بچاؤں یار کی ترچھی نظر سے کیا
دم بھر رہے ہیں عیسی اس شوخ کے دہن کا
بجھ گیا بزم میں ان کے نہ ہوا دل ٹھنڈھا
جوش وحشت میں قیامت کی مہم سر سمجھا
کونسا جرم یہ مجھ خستہ جگر پر رکھا
اک فسانہ ہے پرستان میں اس افسانے کا
شب کو خفیہ میں بغل میں ترے اے یار رہا
انکساری میں جو میں بیدم ہوا
میں وہ گل ہوں جو ہم آغوش کبھی تو ہوتا
لگا کے سرمہ جہاں اسنے اک نظر دیکھا
بیقراری نے جو کی یاس نظر میں پیدا
تم جو کہتے ہو کہ کچھ کیجئے چرچا دل کا
ترا خدنگ کلیجے کے پار ہو جاتا
لرزاں رہی زمیں جو مرا امتحاں رہا
پتلی رہا وہ آنکھ میں قالب میں جان رہا
رخ دکھایا کبھی غنچہ سا دہن دکھلایا
گلی میں یار کے میں سر بکف جس وقت جانکلا
جو نخچیر اس شہ خوباں کے صدقے میں پا ہوتا
دل لگی اس کی نہ تھی خوش اس لئے قاتل نہ تھا
خدا نخواستہ واقف جو چاہ سے ہوتا
جب تک کہ نمک زخموں میں قاتل نہیں بھرتا
جو سامنا بھی کبھی یار خوبرو سے ہوا
تڑپے جو مرا دل تو مرے دل سے نہ پھرنا
کیجئے ناز خدائی سے خود آرائی کا
نوجوانی میں وہ عالم اس ستمگر پر ہوا
اسکے فرمانوں کا قرآن ہو کے اک دفتر ہوا
ہے عجب دلچسپ افسانہ میری تدبیر کا
اف نہ کی ظلم کی برداشت میں کامل ایسا
دل کو قالب سے خدنگ جانجان لیجائیگا
تصور سے غش آیا سامنا ہوتا تو کیا ہوتا
وہ چراغ آپ کا شباب ہوا
بہار خلد ہوگا سوز خورشید قیامت کا
چہرہ مری تربت میں جو گلنار ہے میرا
غم ہے کس بات کا سونچ آٹھ پہر ہے کس کا
دنیا تباہ کرکے برباد کیا کریگا
خود ہی تو زندہ باغ ریاض جہاں کیا
نشوونما جو کرکے مجھے بے نشان کیا
گلے سے مل کے وہ بے حجاب ہو جاتا
نکل کے جاؤں کدھر تیرے انجمن کے سوا
جس دم لہو میں غرق ترے تیرنے کیا
اے رشک پری انس جو انسان میں نہ ہوتا
نالاں میں اس قدر دل ناشاد سے ہوا
عاشقی میں ہم نے دل سے دوست کو دشمن کیا
چاہیے تھا جو مزا وصل کا اے یار ملا
غارت سے دست جنوں دو دن میں پیراہن کیا
کر و پروانے جو تھے وہ کرو فر کیا ہو گیا
پر جو بلبل نے قفس کے چاک سے باہر کیا
فروغ خوبیٔ داغ جگر لکھا تو کیا لکھا
تمہیں جو چاہ کی میں بے چھری حلال ہوا
جگر کا درد جو معشوق دلربا سے کہا
بے سرمہ ہوے آنکھوں میں گہر ہو نہیں سکتا
ہمارا دل انہیں کے پاس نکلا ہم نے پہچانا
جب سے ہوا ہے عشق ترے اسم ذات کا
دل کو پہلو سے اڑا کے خون پیکاں میں نہ تھا
پرنور جسکے حسن سے مدفن تھا کون تھا
کلیجا کا ہے کو تیر نظر سے اڑ جاتا
دکھائے رنگ تم نے قدرتی ایجا سے کیا کیا
کیا رعب حسن آئینہ وانجمن میں تھا
دم دلاسے سے نہ آیا نہ بمشکل آیا
خوب ہی نام نکالو گے مری جان اپنا
ارادہ اس سے کرے کیا کوئی لڑائی کا
اگر تم پیستے مجھ کو تو میں شکر خدا کرتا
دل کبھی بوے بہار نے خوش اسکا نہ کیا
گلزار حسن وعشق میں رہ کر مکان سے کیا
لبوں پر دم ہے وہ عیسی شمائل کیوں نہیں آتا
جلا وطن کو وطن کی خبر سے کیا مطلب
دیکھ کر مجھ کو وہ بولے اپنی محفل کے قریب
بے نیازی تجھ کو زیبا تیری باتیں لاجواب
فرصت ملے گی بات کی اس نازنیں سے کب
قفس میں شاد ہوں میں نالۂ شیون سے کیا مطلب
تیری اوج حسن سے ہے پست چاہ آفتاب
اسکے دیدار کی بھی ہم نے اگر کی صورت
باغ میں روتا ہوں خون ایں گل دیگر شگفت
خلعت فاخرہ دوں کا اسی جاگیر سمیت
ہو رہے ہیں زخم دل صد چاک زخم تن سمیت
پروانوں میں تڑپتے رہے ہم تمام رات
دے رہے ہو مجھے ایذا دم تکبیر عبث
یہاں پھول سونگھنے کو نہیں باغباں نہ لوٹ
لٹا ہے باغ گل ولالہ زار کے باعث
کھالیں گے زہر تو جو نہ آئیگا یار آج
کردار عاشقی کا اگر ہے مآل رنج
خونریزیوں کو چھوڑ دے جلاد کس طرح
ہوا لحد میں ہم کو فروغ گہر کی طرح
کیا کروں بیتاب بجلی ہے جو بسمل کی طرح
غم نے گھلا دیا مجھےے آزار کی طرح
عرش کا تارا ہوا مہر درخشاں کی طرح
دم مسیحا بھرتے ہیں مری جان ہے وہ شوخ
تڑپ تڑپ کے نکلتی ہے ہجر یا رمیں روح
ہے قدرتی جلوس عروس بہار سرخ
کس قدر تو نے کیا ہے اسے قاتل گستاخ
قفس میں جان سے دق ہوں میں ناتواں صیاد
عذر مرنے میں کریں کیا خط تقدیر کے بعد
ہزار شکر کروں ذبح کر جو تو صیاد
چمن کے گرد لیے پھر مرا قفس صیاد
ہو جائیں گے آخر قفس گو رمیں ہم بند
رخصت کرے گی سب کو سحر دو گھڑی کے بعد
بیکسی کا مرے صدمہ جو ہوا میرے بعد
مر مٹے گا یار کی محفل کو تو اے دل نہ ڈھونڈ
پردہ ہے روز وعدۂ دیدار شاذ شاذ
دل نکل جاے جو دیوانۂ گیسو ہو کر
مہم الفت میں دیکھ لے تو ہمیں بھی اے یار آزما کر
روانہ ہو کے مٹا دے گی روح تن کی بہار
مسکراؤ تو نہ عشاق کی فریادوں پر
امید معراج کی ہے انکو جھکے ہیں تیرے جو آستاں پر
خوب رسوائی ہوئی عشق جنوں زا ہو کر
ضبط کیا تو نے کیا ہے متحمل ہو کر
دیا اس نے جو چرکا میرے دل پر نوجواں ہوکر
ہوا جو حسن پرنازاں وہ گلرو نوجواں ہو کر
گیا تھا لانے کو اس شوخ فتنہ گر کی خبر
پھڑکتا ہوں میں بلبل کی طرح اس روے رنگیں پر
رجوع ہوتے ہیں یارب یہ خوبرو کیونکر
روح غائب ہوگئی افسوس تن سے چھوٹ کر
جان غش ہے مرج عشق پر اے یار عزیز
مجھ کو بھی دم توڑنے دے دم ابھی بسمل نہ توڑ
گوش زدوقت سحر ہو جو گجر کی آواز
ہوا ہے گریۂ مجنوں سے سبزہ کیا سرسبز
حسرت افزا کے اس نے خوب حاصل کی ہوس
یوں ہجوم داغ حسرت ہمارے دل کے پاس
رت کے پھر جانے سے گلہاے چمن ہیں مایوس
مرنے کے بعد بھی نہ گئی یار کی تلاش
دیکھتے ہی اس پری کو ایسے اڑ جاتے ہیں ہوش
حاضر ہے جان لے لو کیوں ہو رہی ہوناخوش
جس وقت ہوے جاکے ہم اس گل سے ہم آغوش
کس حسن سے وہ صاحب توقیر ہے خاموش
جانجان سنکے ترا دہر میں افسانۂ خاص
مطلب ارم سے گلشن شداد سے غرض
ہو نہیں سکتا جو کرتے ہیں ترے بیمار ضبط
آرزو ہے یار کا پیغام لائے وقت نزع
کس ستم کے تیز دم ہے اسکی شمشیر الحفیظ
درد دل کہ ہون جو آئے یار جانی وقت نزع
فروع طور سے بڑھ کر فروغ پائے چراغ
کھینچے ہوئے اجل لیے جاتی ہے سوے تیغ
ہزار دل مٹ گیا ہے میرا ہوا ہے گلرو نہیں گئی ہے
عمر رفتہ نے جو میری نوجوانی کی تلف
ہم ہیں اے یار چڑھائے ہوے پیمانۂ عشق
خاطر میں کسی کو بھی نہیں لاتے ہیں معشوق
دم آگیا لبوں پر آیا نہ یار ابتک
بڑھیگا زلف معنبر سے کیا زمانۂ مشک
لاتی ہے تیغ یار بھی کیا تازہ چل کے رنگ
ہم کو دھمکائے گا اے قاتل کہاں تک کب تلک
کس طرح دل ہوابروے خمدار سے الگ
معشوق بے نیاز کا گہر ہے مکان دل
داغوں کا ہو رہا ہے جو مجمع میان دل
شمیم گل ہے جو ہووے ہزار کے قابل
باغ ارم کی مجھ کو دکھا دیں بہار پھول
نہ مجھے میں ہے نہ بتاتا ہے یار میرا دل
نامہ وہ مرا پڑھتے تحریر سے کیا حاصل
ہمدرد اسکو جانکے شورو فغاں سے ہم
شمع سان رکھ کے ترے کوچے میں اے یار قدم
اجل گرفتہ گئے کس طرف کو کیا معلوم
شکوۂ حبس کو راضی برضا سے کیا کام
خبر ہوئے نہ کبھی رنگ وبوے یار سے ہم
کیا ہنستے ہو تم کو مری فریاد سے کیا کام
وہ جھروکے سے جو جھانکے تو کہیں یار سے ہم
ترے واسطے جان پہ کھیلیں ہم یہ سمائی ہے دل میں خدا کی قسم
ناحق وحق کا انہیں خوف وخطر کچھ بھی نہیں
مرجائیں گے نکل کے تری انجمن سے ہم
پایا ترے کشتوں نے جو میدان بیاباں
رہا کرتے ہیں یوں عشاق تیری یاد و حسرت میں
ہوا جاتا ہوں خود رفتنہ وطن جانے کی حسرت میں
چونکا ہوں جب سے دیکھ کے اس گل کو خواب میں
معشوق ہو کے دخل اس سے بیداد میں نہیں
ترچھی نظر نہ ہو طرف دل تو کیا کروں
ناچار ہوں میں اے مرے اللہ کیا کروں
رلواکے مجھ کو یار گنہگار کر نہیں
الٰہی خیر جو شروان نہیں تو یہاں بھی نہیں
دیا ہے دل انہیں اس پر تہ شمشیر ہوتے ہیں
چلتے ہیں گلشن فردوس میں گھر لیتے ہیں
غم کا معشوقوں سے افشا اے زباں اچھا نہیں
ہے بھرا کس بیگنہ کا خون تری شمشیر میں
روح قالب میں نہیں کوئی ہوس دل میں نہیں
پھرا کرتی ہے اس محبوب کی تصویر آنکھوں میں
تو نہیں جس بزم میں اس میں کوئی خورشید نہیں
رہیگا بلبل سدرہ کو وجداے جانجاں پرسوں
کیا خدا ہیں جو بلا میں تو وہ آہی نہ سکیں
گداے دولت دیدار یار ہم بھی ہیں
واجب الرحم ہوں رحمت کا سزا وار ہوں میں
تری ہوس میں اگر آپ سے گزر جاؤں
ہواہے طور بربادی جوبے دستور پہلو میں
ہو کے سودائی پری زادوں کی تصویروں میں
تری گلی میں جو دھوتی رمائے بیٹھے ہیں
سناٹے کا عالم قبر میں ہے ہے خواب عدم آرام نہیں
پری پیکر جو مجھ وحشی کا پیراہن بناتے ہیں
گلزار میں یہ پھول جو مرجھائے ہوئے ہیں
ممکن اس آئینہ روکی مجھے تصویر کہاں
درد دل کہہ نہ سکے ہوگئی وقت شیون خامشی قفل دہن
وہ دل کو تاکتے ہیں یا جگر کو دیکھتے ہیں
وہ نازنیوں میں کل ہے نگار صحبت میں
کس کے ہاتھوں بک گیا کس کے خریداروں میں ہوں
ضبطی چمن میں جاکے اگر لالہ روکریں
موسم گل میں جو گھر گھر کے گھٹائیں آئیں
جس میں تری ہوس ہے اس دل کو ڈھونڈتے ہیں
بجا بزم جہاں کو مجلس ماتم سمجھتے ہیں
چاہئیں مجھ کو نہیں زریں قفس کی پتلیاں
دل کو افسوس جوانی ہے جوانی اب کہاں
دل کو لٹکا لیا ہے گیسو میں
لکھی جاتی ہے طاعت جو اطاعت انکی کرتے ہیں
ہوں تو اک بندۂ ناچیز مگر پاک ہوں میں
بیوفائی ختم ہے اس کی ادا اچھی نہیں
مٹ کے بھی ناآشنا کو آشنا کہتا ہوں
نجد قلزم تری قدرت سے ہوں دریا میں
غش تو یوسف پہ کیا وصل کی تدبیر نہیں
کلیجا پھٹ رہا ہے غم کے مارے دم نہیں تن میں
منزل عشق کا حال آپ میں آلوں کو کہوں
اڑے پرزے جو ہو ہو کر گریباں آستیں دامن
جم رہا ہے لخت دل خونناب چشم تر نہیں
پھیک دوں پیس کے دل کو جو تری یاد نہ ہو
افسردہ دلی کیوں کسی ناشاد سے پوچھو
ہٹ گیا دنیا سے دل ٹکڑے جگر کیونکر نہ ہو
روتے ہی دیکھتے ہیں ہم ابر بہار کو
مار ڈالا ہے جو بے جرم قضا نے ہم کو
مٹتے ہیں اے قیس اس دیوانے پن میں ہم کہ تو
کس طرح تیری یار رہے یاد گفتگو
چوم لوں گا انکا مکھڑا نازل آفت ہو تو ہو
آزار محبت میں سوا یاس کے کیا ہو
بشر کی جان لے لیتے ہو ایسا آزماتے ہو
دلوں سے عشق نے چھینا ہے اختیار وں کو
کیون نہ ہوں شاد شاد ہم سنکے بیاں آرزو
بہتے ہین سر زلف گرہ گیر میں آنسو
خدا پہ چھوڑ دو مجھ کو مری دوانہ کرو
جان آرائش وہ گلگوں پیرہن کیونکر نہ ہو
مست ہے ڈھونڈتی ہے اپنے طلبگاروں کو
صیاد سے کیا خاک کہوں سیر چمن کو
مرقع غم کا دکھلاتا ہوں میں حسرت زدہ دل کو
خدائی میں چمکواؤں میں کیونکر اپنی قسمت کو
آتش افروزی وضبط سوز اے جانا نہ دیکھ
خوروں کے اشتیاق کا سودا ہے سر کے ساتھ
اس پری تک جائیں جب چاہیں مگر کیا فائدہ
پری سی شکل کا تیری ازل سے ہوں میں دیوانہ
ہم شبیہ یار سے تصویر پشت آئینہ
نکلے ہیں موج عشق میں اک آشنا کے ساتھ
مرنا ہے تجھ کو دور نہ ا پنی قضا سمجھ
رہے گی غنچے میں رنگت نہ گل میں بو باقی
آمد مرے کلیجے میں تیرنظر کی ہے
غربت یہ میری نازل رحمت ہوئی خدا کی
ہلیں گے دل جو یہ روئیں گے رفتگاں کے لئے
بہت دشوار ہے وابستگی زلف معبر سے
خدا ہی ہے جو وہ نادیدہ آشنا مل جائے
دہائی دوں میں کیوں ایدل خدا کی
صحبت ادا شوخ سے گرم آٹھ پہر کب ہوئی
جانجان سیر چمن دید کے قابل ہو جائے
کیون نہ ہوں کونین میں شہر ے تری امداد کے
کون سی میرے گل زخم سے بو آتی ہے
بلبل کا دل خزاں کے صدمے سے ہل رہا ہے
مرتے ہیں بیان صدمۂ ہجراں نہیں کرتے
اس قدر کا صدمۂ وغم ہے جوانی کے لیے
گھستے گھستے پانؤں میں زنجیر آدھی رہ گئی
بھری ہوئی ہےمرے دل میں آرزو تیری
اوجھل کبھی تو ہو گا جو اے یار نظر سے
خاک میں وہ مل گئے جو وارد دنیا ہوئے
شہرت اڑی ہے کس کے بھبھوکا سے گال کی
ہمارا دل تری محفل میں یوں درانہ آتا ہے
یوں بہار عالم ایجاد مٹ جانی نہ تھی
تلاش قبر میں یوں گہر سے ہم نکل کے چلے
تڑپنے میں مقابل کیا کوئی ہوگا مرے دل سے
وہ شکل ہو اس رونے کی آزار سے کوئی
شادابیٔ گلشن کی ہوا اور ہی کچھ ہے
چورنگ بھی ہوکے وہ چشم ہے
عشق دہن میں گزری ہے کیا کچھ نہ پوچھئے
کوئی دم میں گور میں چنوانے کی تدبیر ہے
فردوس میں پہونچا شہ والا کی دلا سے
جب تک الفت تری اے شوخ ستمگار نہ تھی
در پیش اجل سے گنج شہیداں خریدیے
بڑی تو یہ خوشی ہے ہم کو بزم یار میں آئے
گھبرا رہی ہے روح جو تن میں سفر کرے
ہزار موج سے بھاگا ہوا حباب چلے
ہمارے ساتھ وہ کھل کہیے بے حجاب چلے
پری زادوں نے بھی اکثر کیا ہے عشق مردم سے
بیقراری اور درد دل فزوں در کا رہی
ترسائیو نہ شربت دیدار کے لیے
خاک میں مل کے مری روح کو فرحت ہوگی
ترے کوچے میں رہ کر صاحب ادراک ہوتا ہے
دم توڑتا ہوں اس گل رعنا کے سامنے
تمہارے دید کی قدرت بشر نہیں رکھتے
جہاں تو جائے یہ اڑ کر ہواے تیر میں آئے
کی قدم بوسی ہوئی توقیر میرے پانؤں کی
خوش تمہاری سہی یار رفع شر نہ سہی
گل سابدن تو خاک ہوا کس میں جان رہے
کدھر سجدہ کروں اللہ نے یہ دن دکھایا ہے
سلف سے لوگ ان پہ مر رہے ہیں ہمیشہ جانیں لیا کریں گے
دولت یہ ملی لپٹی جو دامن سے تمہارے
حیران ہوں کہ تاکتی ہے چشم تر کسے
گل ولالہ ہیں پژمردہ ہواے بوستاں بدلی
جب تک بلائے گا نہ وہ خلوت نشیں مجھے
وہاں سے جب کبھی نخچیروں کی پکار آئی
جانجاں اللہ رے شاک کبریائی اسکی
وہ رنگت تونے اے گلرو نکالی
نادیدہ آشنا بھی ہے ناآشنا بھی ہے
میرے لہو سے ناز ہے بوے وفا بھی ہے
ناز پھر کون اٹھائیگا ادا کیا ہوگی
آتے ہیں تڑکے دفن کو وہ اژہام سے
پہونچائی بوے زلف جو باد بہار نے
آخر ہے شب وصل قیامت کی گھڑی ہے
خونریزیوں کا شور تیر انجمن میں ہے
شنوائی نہ کی او ستم ایجاد کسی کی
اک داغ اٹھا کے اسکی ہم انجمن سے نکلے
عشق میں اف نہ کر یں گے کبھی نالے کیسے
پھر کے آئے نہ تری بزم کے جانے والے
ہوتا ہے کون عشق میں ممتاز دیکھئے
ترے شہید کی تربت جو لالہ زار میں ہے
جوانی آئی مراد پر جب امنگ جاتی رہی بشر کی
خدا معلوم کس کی چاند سے تصویر مٹی کی
نوازی سرفرازی روح نے تصویر مٹی کی
نظر آتا نہیں پیش نظر ہر باررہتا ہے
ڈبڈبانے کو ہیں آنسو چشم تر ہونے کو ہے
یار سے مجھ سے ملاقات نہ ہو کیا معنی
ٹھنڈے ٹھنڈے ہم جو پہونچے وہ ہوا کھانے گئے
آگ لگا دی پہلے گلوں نے باغ میں وہ شادابی کی
اڑکر سراغ کوچۂ دلبر لگایئے
غش ان پہ روح وقت قضا ہو جانیئے
جنوں سے ہوش آجاتا اگر تقدیر پھر جاتی
حسرت جو کی وصال کی تدبیر کے لیے
آفت کی یاد زلف میں تعذیر ہو گئی
بشر تومنزل حسرت سے کیا نکل جاتے
تمناے شہادت میں جو پیراہن بنایا ہے
نظر ان کی جو مشتاقوں سے بے تقصیر پھر جاتی
کیوں مستعد گر یہ ہوئی چشم تر ایسی
عالم میں وہ چراغ تمہارا شباب ہے
حسرت تیری رہے نہ کسی کی خبر رہے
بعد حشر انکو گنہگاروں کی چاہت پھر ہوئی
تری گلی میں اک افسانہ جانجان رہجاے
پھاڑتے ہیں باغ میں غنچے گریباں کیلئے
حسرت ورقت کی ہے تدبیر کس کے واسطے
کسی کے بھی نہ جلنے میں نہ گھلنے میں قدم ٹھہرے
تمہارے اجمن سے رات کو باہر جو ہم ٹھہرے
باغ میں لا کے رہا کر گیا صیاد مجھے
رخصت روح ہے سامان عزا حاضر ہے
اجل ارم کا مرقع دکھائی جاتی ہے
نداے لن ترانی سنکے ٹھہرے بھی تو کیا ٹھہرے
کہا آیا ہے دل کے مرا تیرکہاں سے
ہم ہواے شوق میں جو داغ پنہاں لے چلے
اب نشیمن ہی مجھ کو آشیاں درکار ہے
کم سن ہیں طبیعت میں ہے بیداد ابھی سے
دل جو لٹکا ہوا اس زلف گرہگیر میں ہے
مجھ پہ بے اذن ترے حکم قضا کیا کرتے
در پردہ ہو گی خلوت معراج کی خبر ہے
حسرت ہے گرم خلوت جانا نہ کیجئے
چین سے پہلوتھی ہے کیا کروں دل کے لئے
جنوں کرتا جو آمیزش مری تقدیر سے پہلے
مٹے اس پر تو اسکو بھی مروت آہی جاتی ہے
مرے صیاد نے رکھ کر میرا سر پانؤں کے نیچے
الفت کرے تو جان سے گزرنا ہے چاہیے
کس کی بو انکے دماغوں میں ہے آنے کے لیے
زندگی کو ہے خوشی موت کو مایوسی ہے
محافظت میں مری رہتی ہے قضا مری
لٹاتے ہیں وہ باغ عشق جاے جسکا جی چاہے
آئینہ بن کے جو پیش آئی محبت تیری
رنگ جنکے مٹ گئے ہیں ان میں یار آنے کو ہے
جانجان تجھ کو مری توقیر ایسی چاہیے
کہیں بھی وہ نہیں ہے اور پھر وہ جابجا بھی ہے
تری ہوس میں جو دل سے پوچھا نکل کے گہر سے کدھر کو چلیئے
وقت رخصت مری آنکھوں سے جو آنسو ٹپکے
تمہارے کوچے میں دھونی جو ہیں رمائے ہوئے
داغ کو دل کے نہ پھر لخت جگر تک پہونچے
واسوخت
مخمس برغزل خواجۂ حیدر علی مرحوم متخلص بہ آتشؔ استاد مصنف
مخمس برغزل صاحب عالم وعالمیان مرزا ولی عہد بہادر دام اقبالہ
مخمس برغزل مبارک حضور پرنور دام اقبالہ
مخمس برغزل مبارک حضور پرنور مرزا ولی عہد بہادر دام اقبالہ
قطعات تواریخ نو
سرورق
دل ہے نہ ہوا خواہ چمن کا نہ صبا کا
دم جس نے مسیحا کو بتایا دہن ایسا
پھڑک کے جان نہ دیتا تو آہ کیا کرتا
جلاتے ہیں تجھے اے دل یہ شمع رو کیا کیا
جھٹپتا وقت ہے بہتا ہوا دریا ٹھہرا
کس دن ہمارے گھر میں وہ بے نقاب ہوگا
چراغ شاعری آتش کے سامنے گل تھا
ہزار طرح کی آفت ہے جان پرلینا
حنا مل کر کف رنگیں جو اے غنچہ دہن ہوتا
جمال و جلوہ دکھاتا جو اے حضور نہ تھا
صبرو شکیب کا مخمل نہ ہو سکا
نیا ستم چمن روزگار میں دیکھا
زمانہ شور قیامت سے جانجان اٹھا
ثواب ہوگا لحد میں عذاب کیا ہوگا
سہل مرے کی مہم بھی مرا دل سمجھا
جب دل پہ نظر کی سوے گیسو نظر آیا
تیر نظر سے چھد کے دل افکار ہی رہا
سامن مر کے ہوا گور کی اندھیاری کا
جہاں میں حسن پرستوں کا کارواں نہ رہا
کیوں جنوں اسکو ہوا تھا کسکے دیوانوں میں تھا
اللہ رے فروغ رخ لاجواب کا
نہیں ہے رنگ گلوں کا بہار سے پیدا
تم ہو یکتا ہے جہاں کوئی بھی تم سا نہ ہوا
عالم میں ہرے ہونگے اشجار جو میں رویا
ہوئے خود رفتہ نقشہ کھینچ کر اس یار جانی کا
ان انکھڑیوں میں نہ سرمہ کبھی دیا جاتا
فروغ حسن مرے دل پذیر ہونا تھا
کمر پہ طرۂ گیسو دلستاں پہونچا
زہے شرف نہ کہیں اور جاکے دم نکلا
دفن میں تجھ میں جو اے کوچۂ جاناں ہوتا
نہ ہم سے پوچھو کہ کرتے ہیں ہم ستم کیسا
میں جان دے رہا ہوں پھر اس دل شکن کو کیا
فصل گل میں ہے ارادہ سوے صحرا اپنا
تیرہے ایدل لب معشوق تجھ میں یار کا
تیرے عالم کا یار کیا کہنا
جشن تھا عیش وطرب کی انتہا تھی میں نہ تھا
دم بھر کو جو پھر دم کسی نخچیر میں آتا
نہیں معلوم کب جلوہ دکھا کر تم نے یار اپنا
ارمان مرا تونے بھی صرصر نہ نکالا
کچھ بھی نہ جھانک تاک کی تدبیر سے ہوا
شب کو نظارہ دلدار نے سونے نہ دیا
بہرہ ور تیری ہوس میں کوئی دم بھر نہ ہوا
بھولے سے فراموش مری یاد نہ کرتا
ہم نہ دیکھیں گے ترے در کے سوا در دوسرا
ہوئے ایسے بدل ترے شیفتہ ہم دل وجان کو ہمیشہ نثار کیا
سودے میں نہ زنجیر کو زنجیر میں سمجھا
سوجھا کبھی نہ عشق میں کچھ پیارکے سوا
دل کو بچاؤں یار کی ترچھی نظر سے کیا
دم بھر رہے ہیں عیسی اس شوخ کے دہن کا
بجھ گیا بزم میں ان کے نہ ہوا دل ٹھنڈھا
جوش وحشت میں قیامت کی مہم سر سمجھا
کونسا جرم یہ مجھ خستہ جگر پر رکھا
اک فسانہ ہے پرستان میں اس افسانے کا
شب کو خفیہ میں بغل میں ترے اے یار رہا
انکساری میں جو میں بیدم ہوا
میں وہ گل ہوں جو ہم آغوش کبھی تو ہوتا
لگا کے سرمہ جہاں اسنے اک نظر دیکھا
بیقراری نے جو کی یاس نظر میں پیدا
تم جو کہتے ہو کہ کچھ کیجئے چرچا دل کا
ترا خدنگ کلیجے کے پار ہو جاتا
لرزاں رہی زمیں جو مرا امتحاں رہا
پتلی رہا وہ آنکھ میں قالب میں جان رہا
رخ دکھایا کبھی غنچہ سا دہن دکھلایا
گلی میں یار کے میں سر بکف جس وقت جانکلا
جو نخچیر اس شہ خوباں کے صدقے میں پا ہوتا
دل لگی اس کی نہ تھی خوش اس لئے قاتل نہ تھا
خدا نخواستہ واقف جو چاہ سے ہوتا
جب تک کہ نمک زخموں میں قاتل نہیں بھرتا
جو سامنا بھی کبھی یار خوبرو سے ہوا
تڑپے جو مرا دل تو مرے دل سے نہ پھرنا
کیجئے ناز خدائی سے خود آرائی کا
نوجوانی میں وہ عالم اس ستمگر پر ہوا
اسکے فرمانوں کا قرآن ہو کے اک دفتر ہوا
ہے عجب دلچسپ افسانہ میری تدبیر کا
اف نہ کی ظلم کی برداشت میں کامل ایسا
دل کو قالب سے خدنگ جانجان لیجائیگا
تصور سے غش آیا سامنا ہوتا تو کیا ہوتا
وہ چراغ آپ کا شباب ہوا
بہار خلد ہوگا سوز خورشید قیامت کا
چہرہ مری تربت میں جو گلنار ہے میرا
غم ہے کس بات کا سونچ آٹھ پہر ہے کس کا
دنیا تباہ کرکے برباد کیا کریگا
خود ہی تو زندہ باغ ریاض جہاں کیا
نشوونما جو کرکے مجھے بے نشان کیا
گلے سے مل کے وہ بے حجاب ہو جاتا
نکل کے جاؤں کدھر تیرے انجمن کے سوا
جس دم لہو میں غرق ترے تیرنے کیا
اے رشک پری انس جو انسان میں نہ ہوتا
نالاں میں اس قدر دل ناشاد سے ہوا
عاشقی میں ہم نے دل سے دوست کو دشمن کیا
چاہیے تھا جو مزا وصل کا اے یار ملا
غارت سے دست جنوں دو دن میں پیراہن کیا
کر و پروانے جو تھے وہ کرو فر کیا ہو گیا
پر جو بلبل نے قفس کے چاک سے باہر کیا
فروغ خوبیٔ داغ جگر لکھا تو کیا لکھا
تمہیں جو چاہ کی میں بے چھری حلال ہوا
جگر کا درد جو معشوق دلربا سے کہا
بے سرمہ ہوے آنکھوں میں گہر ہو نہیں سکتا
ہمارا دل انہیں کے پاس نکلا ہم نے پہچانا
جب سے ہوا ہے عشق ترے اسم ذات کا
دل کو پہلو سے اڑا کے خون پیکاں میں نہ تھا
پرنور جسکے حسن سے مدفن تھا کون تھا
کلیجا کا ہے کو تیر نظر سے اڑ جاتا
دکھائے رنگ تم نے قدرتی ایجا سے کیا کیا
کیا رعب حسن آئینہ وانجمن میں تھا
دم دلاسے سے نہ آیا نہ بمشکل آیا
خوب ہی نام نکالو گے مری جان اپنا
ارادہ اس سے کرے کیا کوئی لڑائی کا
اگر تم پیستے مجھ کو تو میں شکر خدا کرتا
دل کبھی بوے بہار نے خوش اسکا نہ کیا
گلزار حسن وعشق میں رہ کر مکان سے کیا
لبوں پر دم ہے وہ عیسی شمائل کیوں نہیں آتا
جلا وطن کو وطن کی خبر سے کیا مطلب
دیکھ کر مجھ کو وہ بولے اپنی محفل کے قریب
بے نیازی تجھ کو زیبا تیری باتیں لاجواب
فرصت ملے گی بات کی اس نازنیں سے کب
قفس میں شاد ہوں میں نالۂ شیون سے کیا مطلب
تیری اوج حسن سے ہے پست چاہ آفتاب
اسکے دیدار کی بھی ہم نے اگر کی صورت
باغ میں روتا ہوں خون ایں گل دیگر شگفت
خلعت فاخرہ دوں کا اسی جاگیر سمیت
ہو رہے ہیں زخم دل صد چاک زخم تن سمیت
پروانوں میں تڑپتے رہے ہم تمام رات
دے رہے ہو مجھے ایذا دم تکبیر عبث
یہاں پھول سونگھنے کو نہیں باغباں نہ لوٹ
لٹا ہے باغ گل ولالہ زار کے باعث
کھالیں گے زہر تو جو نہ آئیگا یار آج
کردار عاشقی کا اگر ہے مآل رنج
خونریزیوں کو چھوڑ دے جلاد کس طرح
ہوا لحد میں ہم کو فروغ گہر کی طرح
کیا کروں بیتاب بجلی ہے جو بسمل کی طرح
غم نے گھلا دیا مجھےے آزار کی طرح
عرش کا تارا ہوا مہر درخشاں کی طرح
دم مسیحا بھرتے ہیں مری جان ہے وہ شوخ
تڑپ تڑپ کے نکلتی ہے ہجر یا رمیں روح
ہے قدرتی جلوس عروس بہار سرخ
کس قدر تو نے کیا ہے اسے قاتل گستاخ
قفس میں جان سے دق ہوں میں ناتواں صیاد
عذر مرنے میں کریں کیا خط تقدیر کے بعد
ہزار شکر کروں ذبح کر جو تو صیاد
چمن کے گرد لیے پھر مرا قفس صیاد
ہو جائیں گے آخر قفس گو رمیں ہم بند
رخصت کرے گی سب کو سحر دو گھڑی کے بعد
بیکسی کا مرے صدمہ جو ہوا میرے بعد
مر مٹے گا یار کی محفل کو تو اے دل نہ ڈھونڈ
پردہ ہے روز وعدۂ دیدار شاذ شاذ
دل نکل جاے جو دیوانۂ گیسو ہو کر
مہم الفت میں دیکھ لے تو ہمیں بھی اے یار آزما کر
روانہ ہو کے مٹا دے گی روح تن کی بہار
مسکراؤ تو نہ عشاق کی فریادوں پر
امید معراج کی ہے انکو جھکے ہیں تیرے جو آستاں پر
خوب رسوائی ہوئی عشق جنوں زا ہو کر
ضبط کیا تو نے کیا ہے متحمل ہو کر
دیا اس نے جو چرکا میرے دل پر نوجواں ہوکر
ہوا جو حسن پرنازاں وہ گلرو نوجواں ہو کر
گیا تھا لانے کو اس شوخ فتنہ گر کی خبر
پھڑکتا ہوں میں بلبل کی طرح اس روے رنگیں پر
رجوع ہوتے ہیں یارب یہ خوبرو کیونکر
روح غائب ہوگئی افسوس تن سے چھوٹ کر
جان غش ہے مرج عشق پر اے یار عزیز
مجھ کو بھی دم توڑنے دے دم ابھی بسمل نہ توڑ
گوش زدوقت سحر ہو جو گجر کی آواز
ہوا ہے گریۂ مجنوں سے سبزہ کیا سرسبز
حسرت افزا کے اس نے خوب حاصل کی ہوس
یوں ہجوم داغ حسرت ہمارے دل کے پاس
رت کے پھر جانے سے گلہاے چمن ہیں مایوس
مرنے کے بعد بھی نہ گئی یار کی تلاش
دیکھتے ہی اس پری کو ایسے اڑ جاتے ہیں ہوش
حاضر ہے جان لے لو کیوں ہو رہی ہوناخوش
جس وقت ہوے جاکے ہم اس گل سے ہم آغوش
کس حسن سے وہ صاحب توقیر ہے خاموش
جانجان سنکے ترا دہر میں افسانۂ خاص
مطلب ارم سے گلشن شداد سے غرض
ہو نہیں سکتا جو کرتے ہیں ترے بیمار ضبط
آرزو ہے یار کا پیغام لائے وقت نزع
کس ستم کے تیز دم ہے اسکی شمشیر الحفیظ
درد دل کہ ہون جو آئے یار جانی وقت نزع
فروع طور سے بڑھ کر فروغ پائے چراغ
کھینچے ہوئے اجل لیے جاتی ہے سوے تیغ
ہزار دل مٹ گیا ہے میرا ہوا ہے گلرو نہیں گئی ہے
عمر رفتہ نے جو میری نوجوانی کی تلف
ہم ہیں اے یار چڑھائے ہوے پیمانۂ عشق
خاطر میں کسی کو بھی نہیں لاتے ہیں معشوق
دم آگیا لبوں پر آیا نہ یار ابتک
بڑھیگا زلف معنبر سے کیا زمانۂ مشک
لاتی ہے تیغ یار بھی کیا تازہ چل کے رنگ
ہم کو دھمکائے گا اے قاتل کہاں تک کب تلک
کس طرح دل ہوابروے خمدار سے الگ
معشوق بے نیاز کا گہر ہے مکان دل
داغوں کا ہو رہا ہے جو مجمع میان دل
شمیم گل ہے جو ہووے ہزار کے قابل
باغ ارم کی مجھ کو دکھا دیں بہار پھول
نہ مجھے میں ہے نہ بتاتا ہے یار میرا دل
نامہ وہ مرا پڑھتے تحریر سے کیا حاصل
ہمدرد اسکو جانکے شورو فغاں سے ہم
شمع سان رکھ کے ترے کوچے میں اے یار قدم
اجل گرفتہ گئے کس طرف کو کیا معلوم
شکوۂ حبس کو راضی برضا سے کیا کام
خبر ہوئے نہ کبھی رنگ وبوے یار سے ہم
کیا ہنستے ہو تم کو مری فریاد سے کیا کام
وہ جھروکے سے جو جھانکے تو کہیں یار سے ہم
ترے واسطے جان پہ کھیلیں ہم یہ سمائی ہے دل میں خدا کی قسم
ناحق وحق کا انہیں خوف وخطر کچھ بھی نہیں
مرجائیں گے نکل کے تری انجمن سے ہم
پایا ترے کشتوں نے جو میدان بیاباں
رہا کرتے ہیں یوں عشاق تیری یاد و حسرت میں
ہوا جاتا ہوں خود رفتنہ وطن جانے کی حسرت میں
چونکا ہوں جب سے دیکھ کے اس گل کو خواب میں
معشوق ہو کے دخل اس سے بیداد میں نہیں
ترچھی نظر نہ ہو طرف دل تو کیا کروں
ناچار ہوں میں اے مرے اللہ کیا کروں
رلواکے مجھ کو یار گنہگار کر نہیں
الٰہی خیر جو شروان نہیں تو یہاں بھی نہیں
دیا ہے دل انہیں اس پر تہ شمشیر ہوتے ہیں
چلتے ہیں گلشن فردوس میں گھر لیتے ہیں
غم کا معشوقوں سے افشا اے زباں اچھا نہیں
ہے بھرا کس بیگنہ کا خون تری شمشیر میں
روح قالب میں نہیں کوئی ہوس دل میں نہیں
پھرا کرتی ہے اس محبوب کی تصویر آنکھوں میں
تو نہیں جس بزم میں اس میں کوئی خورشید نہیں
رہیگا بلبل سدرہ کو وجداے جانجاں پرسوں
کیا خدا ہیں جو بلا میں تو وہ آہی نہ سکیں
گداے دولت دیدار یار ہم بھی ہیں
واجب الرحم ہوں رحمت کا سزا وار ہوں میں
تری ہوس میں اگر آپ سے گزر جاؤں
ہواہے طور بربادی جوبے دستور پہلو میں
ہو کے سودائی پری زادوں کی تصویروں میں
تری گلی میں جو دھوتی رمائے بیٹھے ہیں
سناٹے کا عالم قبر میں ہے ہے خواب عدم آرام نہیں
پری پیکر جو مجھ وحشی کا پیراہن بناتے ہیں
گلزار میں یہ پھول جو مرجھائے ہوئے ہیں
ممکن اس آئینہ روکی مجھے تصویر کہاں
درد دل کہہ نہ سکے ہوگئی وقت شیون خامشی قفل دہن
وہ دل کو تاکتے ہیں یا جگر کو دیکھتے ہیں
وہ نازنیوں میں کل ہے نگار صحبت میں
کس کے ہاتھوں بک گیا کس کے خریداروں میں ہوں
ضبطی چمن میں جاکے اگر لالہ روکریں
موسم گل میں جو گھر گھر کے گھٹائیں آئیں
جس میں تری ہوس ہے اس دل کو ڈھونڈتے ہیں
بجا بزم جہاں کو مجلس ماتم سمجھتے ہیں
چاہئیں مجھ کو نہیں زریں قفس کی پتلیاں
دل کو افسوس جوانی ہے جوانی اب کہاں
دل کو لٹکا لیا ہے گیسو میں
لکھی جاتی ہے طاعت جو اطاعت انکی کرتے ہیں
ہوں تو اک بندۂ ناچیز مگر پاک ہوں میں
بیوفائی ختم ہے اس کی ادا اچھی نہیں
مٹ کے بھی ناآشنا کو آشنا کہتا ہوں
نجد قلزم تری قدرت سے ہوں دریا میں
غش تو یوسف پہ کیا وصل کی تدبیر نہیں
کلیجا پھٹ رہا ہے غم کے مارے دم نہیں تن میں
منزل عشق کا حال آپ میں آلوں کو کہوں
اڑے پرزے جو ہو ہو کر گریباں آستیں دامن
جم رہا ہے لخت دل خونناب چشم تر نہیں
پھیک دوں پیس کے دل کو جو تری یاد نہ ہو
افسردہ دلی کیوں کسی ناشاد سے پوچھو
ہٹ گیا دنیا سے دل ٹکڑے جگر کیونکر نہ ہو
روتے ہی دیکھتے ہیں ہم ابر بہار کو
مار ڈالا ہے جو بے جرم قضا نے ہم کو
مٹتے ہیں اے قیس اس دیوانے پن میں ہم کہ تو
کس طرح تیری یار رہے یاد گفتگو
چوم لوں گا انکا مکھڑا نازل آفت ہو تو ہو
آزار محبت میں سوا یاس کے کیا ہو
بشر کی جان لے لیتے ہو ایسا آزماتے ہو
دلوں سے عشق نے چھینا ہے اختیار وں کو
کیون نہ ہوں شاد شاد ہم سنکے بیاں آرزو
بہتے ہین سر زلف گرہ گیر میں آنسو
خدا پہ چھوڑ دو مجھ کو مری دوانہ کرو
جان آرائش وہ گلگوں پیرہن کیونکر نہ ہو
مست ہے ڈھونڈتی ہے اپنے طلبگاروں کو
صیاد سے کیا خاک کہوں سیر چمن کو
مرقع غم کا دکھلاتا ہوں میں حسرت زدہ دل کو
خدائی میں چمکواؤں میں کیونکر اپنی قسمت کو
آتش افروزی وضبط سوز اے جانا نہ دیکھ
خوروں کے اشتیاق کا سودا ہے سر کے ساتھ
اس پری تک جائیں جب چاہیں مگر کیا فائدہ
پری سی شکل کا تیری ازل سے ہوں میں دیوانہ
ہم شبیہ یار سے تصویر پشت آئینہ
نکلے ہیں موج عشق میں اک آشنا کے ساتھ
مرنا ہے تجھ کو دور نہ ا پنی قضا سمجھ
رہے گی غنچے میں رنگت نہ گل میں بو باقی
آمد مرے کلیجے میں تیرنظر کی ہے
غربت یہ میری نازل رحمت ہوئی خدا کی
ہلیں گے دل جو یہ روئیں گے رفتگاں کے لئے
بہت دشوار ہے وابستگی زلف معبر سے
خدا ہی ہے جو وہ نادیدہ آشنا مل جائے
دہائی دوں میں کیوں ایدل خدا کی
صحبت ادا شوخ سے گرم آٹھ پہر کب ہوئی
جانجان سیر چمن دید کے قابل ہو جائے
کیون نہ ہوں کونین میں شہر ے تری امداد کے
کون سی میرے گل زخم سے بو آتی ہے
بلبل کا دل خزاں کے صدمے سے ہل رہا ہے
مرتے ہیں بیان صدمۂ ہجراں نہیں کرتے
اس قدر کا صدمۂ وغم ہے جوانی کے لیے
گھستے گھستے پانؤں میں زنجیر آدھی رہ گئی
بھری ہوئی ہےمرے دل میں آرزو تیری
اوجھل کبھی تو ہو گا جو اے یار نظر سے
خاک میں وہ مل گئے جو وارد دنیا ہوئے
شہرت اڑی ہے کس کے بھبھوکا سے گال کی
ہمارا دل تری محفل میں یوں درانہ آتا ہے
یوں بہار عالم ایجاد مٹ جانی نہ تھی
تلاش قبر میں یوں گہر سے ہم نکل کے چلے
تڑپنے میں مقابل کیا کوئی ہوگا مرے دل سے
وہ شکل ہو اس رونے کی آزار سے کوئی
شادابیٔ گلشن کی ہوا اور ہی کچھ ہے
چورنگ بھی ہوکے وہ چشم ہے
عشق دہن میں گزری ہے کیا کچھ نہ پوچھئے
کوئی دم میں گور میں چنوانے کی تدبیر ہے
فردوس میں پہونچا شہ والا کی دلا سے
جب تک الفت تری اے شوخ ستمگار نہ تھی
در پیش اجل سے گنج شہیداں خریدیے
بڑی تو یہ خوشی ہے ہم کو بزم یار میں آئے
گھبرا رہی ہے روح جو تن میں سفر کرے
ہزار موج سے بھاگا ہوا حباب چلے
ہمارے ساتھ وہ کھل کہیے بے حجاب چلے
پری زادوں نے بھی اکثر کیا ہے عشق مردم سے
بیقراری اور درد دل فزوں در کا رہی
ترسائیو نہ شربت دیدار کے لیے
خاک میں مل کے مری روح کو فرحت ہوگی
ترے کوچے میں رہ کر صاحب ادراک ہوتا ہے
دم توڑتا ہوں اس گل رعنا کے سامنے
تمہارے دید کی قدرت بشر نہیں رکھتے
جہاں تو جائے یہ اڑ کر ہواے تیر میں آئے
کی قدم بوسی ہوئی توقیر میرے پانؤں کی
خوش تمہاری سہی یار رفع شر نہ سہی
گل سابدن تو خاک ہوا کس میں جان رہے
کدھر سجدہ کروں اللہ نے یہ دن دکھایا ہے
سلف سے لوگ ان پہ مر رہے ہیں ہمیشہ جانیں لیا کریں گے
دولت یہ ملی لپٹی جو دامن سے تمہارے
حیران ہوں کہ تاکتی ہے چشم تر کسے
گل ولالہ ہیں پژمردہ ہواے بوستاں بدلی
جب تک بلائے گا نہ وہ خلوت نشیں مجھے
وہاں سے جب کبھی نخچیروں کی پکار آئی
جانجاں اللہ رے شاک کبریائی اسکی
وہ رنگت تونے اے گلرو نکالی
نادیدہ آشنا بھی ہے ناآشنا بھی ہے
میرے لہو سے ناز ہے بوے وفا بھی ہے
ناز پھر کون اٹھائیگا ادا کیا ہوگی
آتے ہیں تڑکے دفن کو وہ اژہام سے
پہونچائی بوے زلف جو باد بہار نے
آخر ہے شب وصل قیامت کی گھڑی ہے
خونریزیوں کا شور تیر انجمن میں ہے
شنوائی نہ کی او ستم ایجاد کسی کی
اک داغ اٹھا کے اسکی ہم انجمن سے نکلے
عشق میں اف نہ کر یں گے کبھی نالے کیسے
پھر کے آئے نہ تری بزم کے جانے والے
ہوتا ہے کون عشق میں ممتاز دیکھئے
ترے شہید کی تربت جو لالہ زار میں ہے
جوانی آئی مراد پر جب امنگ جاتی رہی بشر کی
خدا معلوم کس کی چاند سے تصویر مٹی کی
نوازی سرفرازی روح نے تصویر مٹی کی
نظر آتا نہیں پیش نظر ہر باررہتا ہے
ڈبڈبانے کو ہیں آنسو چشم تر ہونے کو ہے
یار سے مجھ سے ملاقات نہ ہو کیا معنی
ٹھنڈے ٹھنڈے ہم جو پہونچے وہ ہوا کھانے گئے
آگ لگا دی پہلے گلوں نے باغ میں وہ شادابی کی
اڑکر سراغ کوچۂ دلبر لگایئے
غش ان پہ روح وقت قضا ہو جانیئے
جنوں سے ہوش آجاتا اگر تقدیر پھر جاتی
حسرت جو کی وصال کی تدبیر کے لیے
آفت کی یاد زلف میں تعذیر ہو گئی
بشر تومنزل حسرت سے کیا نکل جاتے
تمناے شہادت میں جو پیراہن بنایا ہے
نظر ان کی جو مشتاقوں سے بے تقصیر پھر جاتی
کیوں مستعد گر یہ ہوئی چشم تر ایسی
عالم میں وہ چراغ تمہارا شباب ہے
حسرت تیری رہے نہ کسی کی خبر رہے
بعد حشر انکو گنہگاروں کی چاہت پھر ہوئی
تری گلی میں اک افسانہ جانجان رہجاے
پھاڑتے ہیں باغ میں غنچے گریباں کیلئے
حسرت ورقت کی ہے تدبیر کس کے واسطے
کسی کے بھی نہ جلنے میں نہ گھلنے میں قدم ٹھہرے
تمہارے اجمن سے رات کو باہر جو ہم ٹھہرے
باغ میں لا کے رہا کر گیا صیاد مجھے
رخصت روح ہے سامان عزا حاضر ہے
اجل ارم کا مرقع دکھائی جاتی ہے
نداے لن ترانی سنکے ٹھہرے بھی تو کیا ٹھہرے
کہا آیا ہے دل کے مرا تیرکہاں سے
ہم ہواے شوق میں جو داغ پنہاں لے چلے
اب نشیمن ہی مجھ کو آشیاں درکار ہے
کم سن ہیں طبیعت میں ہے بیداد ابھی سے
دل جو لٹکا ہوا اس زلف گرہگیر میں ہے
مجھ پہ بے اذن ترے حکم قضا کیا کرتے
در پردہ ہو گی خلوت معراج کی خبر ہے
حسرت ہے گرم خلوت جانا نہ کیجئے
چین سے پہلوتھی ہے کیا کروں دل کے لئے
جنوں کرتا جو آمیزش مری تقدیر سے پہلے
مٹے اس پر تو اسکو بھی مروت آہی جاتی ہے
مرے صیاد نے رکھ کر میرا سر پانؤں کے نیچے
الفت کرے تو جان سے گزرنا ہے چاہیے
کس کی بو انکے دماغوں میں ہے آنے کے لیے
زندگی کو ہے خوشی موت کو مایوسی ہے
محافظت میں مری رہتی ہے قضا مری
لٹاتے ہیں وہ باغ عشق جاے جسکا جی چاہے
آئینہ بن کے جو پیش آئی محبت تیری
رنگ جنکے مٹ گئے ہیں ان میں یار آنے کو ہے
جانجان تجھ کو مری توقیر ایسی چاہیے
کہیں بھی وہ نہیں ہے اور پھر وہ جابجا بھی ہے
تری ہوس میں جو دل سے پوچھا نکل کے گہر سے کدھر کو چلیئے
وقت رخصت مری آنکھوں سے جو آنسو ٹپکے
تمہارے کوچے میں دھونی جو ہیں رمائے ہوئے
داغ کو دل کے نہ پھر لخت جگر تک پہونچے
واسوخت
مخمس برغزل خواجۂ حیدر علی مرحوم متخلص بہ آتشؔ استاد مصنف
مخمس برغزل صاحب عالم وعالمیان مرزا ولی عہد بہادر دام اقبالہ
مخمس برغزل مبارک حضور پرنور دام اقبالہ
مخمس برغزل مبارک حضور پرنور مرزا ولی عہد بہادر دام اقبالہ
قطعات تواریخ نو
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.