سرورق
دیباچہ
ردیف الف
دیوان اول
شیدا ہوں نبی کے اس وصی کا
یہ تو معلوم کہ پھر آئے گا
وہاں سخی دل کو نہ لے جائیگا
رخ پر ہے ملا ل آج کیسا
ان کی چٹکی میں دل نہ مل جاتا
ناخوش جو ہو گلبدن کسی کا
دیکھنا ماجرا سمندر کا
وصل سے رہتا ہے انکا ر یہ کیا
کوہ میرا ہے بیاباں میرا
گل رخسار یار کیا کہنا
دھر دیکھتے ہو ادھر دیکھ لینا
الفت گیسوے دوتا لایا
تم اگر دونہ پیر ہن اپنا
نہیں ایسا رخ روشن کسی کا
دل ہی میرا فقط ہے مطلب کا
خوشی آپ کی خیر کل جائے گا
کعبہ تھا وہ میں جسے دل سمجھا
ہائے کیا بیکار میرا سن گیا
خیر گزری جو وہاں پہ سنبل تھا
دیکے دل چپ رہا نہیں جاتا
یوں تو ملنے کو کیا نہیں ملتا
میں نے پوچھا کہ پھر آنا ہوگا
آکے تربت پہ ایک صدا دینا
نیمچہ کس کی کمر یاد آیا
دیر سے سوے کعبہ ہوآیا
کیوں گئے تھے جو نہیں آنا تھا
غیر سے دان نفاق ہو جاتا
جاے واں باد صبا ہم کو کیا
پہلو میں بیٹھ کر وہ پاتے کیا
سخی سے چھوٹ کر جائیں گے گھر آپ
رخ روشن دیکھاے صاحب
ردیف ب
ردیف پ
دولہن بھی اگر بن کے آئیگی رات
ردیف ت
نہ بچپن میں کھو ہم کو کڑی بات
ترے پتھر ہیں انکی ہے بری ہت
گفتگو ہو بے زبان بہت
ردیف ٹ
ردیف ث
چاند دیکھوں کدھر ہوا ہے آج
غیر سے بات ہو ہمیں کیا بحث
ردیف جیم
بند افراط سے ہین خار کے بیچ
ردیف چ
عشق کرنے میں دل بھی کیا ہے شوخ
ردیف خ
ردیف ح
پھر الجھتے ہیں وہ گیسو کی طرح
گل کو کیا نہیں ہے یار گھمنڈ
ردیف ڈال
بام پر آتا ہے ہمارا چاند
ردیف دال
ردیف ر
ردیف ذال
چشم مے گوں وہاں شراب لذیذ
کرتے ہیں خوں پان کھا کر
ہجر میں میرا حال ہے کچھ اور
گالی دیکر نہ میری جان بگڑ
ردیف ز
ردیف ڑ
اسکو ہو گی نہ مروت ہر گز
کون سارخ ہے اے بہار نفیس
ردیف س
ردیف ش
بندۂ ہے کوچۂ حضور سے خوش
ردیف ض
ردیف ص
رہا کرتاہ ے ہم سے یار ناراض
ایک ادا ہو جفا کی کیا تخصیص
ردیف ط
عشق ہے یار کا خدا حافظ
پڑھ نہ لے غیر کہکے اپنا خط
ردیف ظ
ردیف ع
ہے جو اس ابروے خمدار کی قطع
ہجر میں ہے مثال داغ چراغ
ردیف غ
تمہارے پاس سے خنجر تو کیا لطف
ردیف ف
مجھے اس کی محبت سے تعلق
عاشق زار ہیں تصور معاف
ردیف ق
آئی دنیا میں آسماں سے دق
ردیف کاف
ردیف گاف
آہ سوزاں کی بھی ملائیں آگ
ان کی قسمت کا تھا ہمارا دل
ردیف ل
ردیف میم
شرمندہ لحد میں جائیں گے ہم
یاد کی گیسو ے دوتا کی قسم
گلشن میں تجھے جلا ئیں گے ہم
یار کے آگے کس شمار میں ہم
منکر بت ہے یہ جاہل تو نہیں
ردیف نون
ان کو نفرت اسے کیا کہتے ہیں
منکشف عاشق کا راز نہیں
حور میں حسن مہ میں نور نہیں
ان سے آنکھیں لڑائے بیٹھے ہیں
عاشق ان کے مزہ ہوتے ہیں
پھر وہ پہلو سے چلے جاتے ہیں
رخ کو اداس بت کے نہ قرآن کہیں
آئنے ان کے آگے جاتے ہیں
سر فروش اژدہام کرتے ہیں
قبر میں اب کسی کا دھیان نہیں
سخی دیر سے آج آئے ہوئے ہیں
چاند ہے جس طرح تاروں میں
اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں
کیوں نہ بہائیں حضور کی باتیں
دل میں ہم کس کی چاہ کرتے ہیں
بہار آکر جو گلشن میں وہ گائیں
ہم حسینوں کی چاہ کرتے ہیں
ردیف واؤ
تو بھی ہے بکارتا کسی کو
تم نہ آو و خیر جانے دو
گر نہ سمجھےمجھے غلام تو لو
کیا غم جو نہ نامہ بر صبا ہو
کون کہتا ہے کہ آیا نہ کرو
سخی وہ زلف دکھلائیں تو کیا ہو
ہم سے عاشق کو برا سمجھے
حور غلماں ساکنان لکھنؤ
کیوں حزیں ہیں ساکنان لکھنو
زلف خوباں کا مبتلا ہی نہ ہو
دل دیا دم شمار کرنے کو
سنکے میرے دلربا کی گفتگو
آج دل بیچتے ہیں ہم لے لو
اس محترم کا چاند گر دیکھو
یار بیزار ہے اور سنو
ردیف ہ
نہ ہم ہوں گے نہ یہ عالم ہمیشہ
دیکھئے زانو پہ رکھ کر آئینہ
طفل اشک آتو ادھر بسم اللہ
اس عشق سے ہے ہزار توبہ
اللہ رے سخی تم کو تمناے مدینہ
بجلیاں کانوں کی دکھلاتے رہے
گو حور مشکیل ہو رہی ہے
دشمن ان کی اور ہے کس کی
عشق دنداں میں یہ ٹہنی ہے
بت کا ہے پیار خدا خیر کرے
ناحق ایک بت کو مجھ سے کد ہے
مرغ دل لیگیا وہ یار ابھی
بہتر جو کلام میرا رو ہے
جس پر کہ گمان آسماں ہے
او کل پژمردہ ہو خزاں ہے
کیوں سمجھے نہ وہ کہ غیر بد ہے
آفتیں اسکی چال لائے گی
یہ آے ہو کس کس کے گھر ہوتے ہوتے
پوچھو نہ چمن میں کچھ صبا کی
الفت ہے گیسوے دوتا کی
تم سا جنت میں نہیں یار کوئی
آنکھ پھر تم نے چرائی دیکھئے
دم نہ دیکھا مرا نکلتے ہوئے
آج ہم پر عتاب ہوتا ہے
دل بھی وہ لیں گے جان بھی لیں گے
غیر کا ذکر ہر گھڑی کیا ہے
عجب یاد قامت میں آفت رہی
چلے پھر ہاتھ غیر وں کا پکڑ کے
جو رہنا دل میں منظور نظر ہے
چہر ہ پر کیوں نہیں بحالی ہے
آج غصہ سے منہ پہ لالی ہے
خمسہ
رباعیات
زمانہ ہے خوشی کا خور می کا شادیاں کا
دیوان سخی حصہ دوم
ردیف الف
ہو وصف کیا رسول علیہ السلام کا
حیف ثابت ہے نہ دامن ہ گریباں اپنا
باد یہ پیمائی ہیں بخت اپنا یاور ہو گیا
مرے قبر پر سے پھر آئے کیون یہ جمال کیوں نہ دیکھا
ہم مر جو گئے ہیں تو جلا یا نہیں جاتا
آہ سوزاں کا ہمارے جو شرارا ٹوٹا
یار شمع ساق پاد کہلائیگا
نہیں اور کے ہجر میں گھل کے کانٹا
کیا ہوا گر بند ہے منہ روزن دیوار کا
زلف شب آسا ہے یا کالی گھٹا
پھر مجھ کو عشق کاکل خمدا ر ہوگیا
عشق گیسوے صنم کاپھر اثر پیدا ہوا
کاٹنا ہجر میں محال ہوا
میرا قصہ نہ کچھ افسانہ ان کا
آگے زلفوں کا تمہیں سودا نہ تھا کیونکر ہوا
ردیف ب
نے دل کا پتہ ہے نہ نشاں مرے جگر کا
یہ نہ سمجھو نہیں مجھ کو ہوس جام شراب
ردیف پ
اگر سینے میں فرمائیں گزر آپ
ردیف ت
جئے وہ رہے تاقیامت سلامت
ردیف ٹ
وہاں زخم سے پیتے تھے ہم لہو کے گھونٹ
خط نہ اس گل نے لکھا کیا باعث
ردیف ث
ردیف ج
پہونچے ہم پھاند کے ایوان جفا کار میں آج
سچ ہے بلا کار کہتا ہے گیسوے یار پیچ
ردیف چ
ہلکی سی اس نے ہاتھ میں لی یاسمن کی شاخ
ردیف خ
لحد میں میں سوے جان جہاں روح
ردیف ح
ردیف دال
اس نے چھوڑی نہ اداے میرے بعد
ردیف ذال
ایسا پیارا نہ کبھی آنکھوں سے دیکھا تعویذ
غیر کرتے ہیں بار بار گھمنڈ
ردیف ڈال
ردیف رے
پہنتا پیر ہن کیا عشق میں مین ناتواں ہو کر
ردیف ڑ
ان حسینوں کو دل زار نہ چھوڑ
ردیف ز
سرد مہری نہ کر آجائیں نہ دو چار عزیز
ردیف س
ابروے یار نہیں ابروے خمدار کے پاس
ردیف شین
گہ اشک میں گہ بسوزش دل گہے بآب وگہے بآتش
ہر مرتبہ کرواتی ہے تکرار فراموش
بام پر چاندنی وان پہنچتے ہیں یاعرش پہ فرش
ردیف صاد
صدف کو دیکھتے ہیں پیش چشم تر ناقص
ردیف ط
کہتے ہی چاندنی ہے ماہ ضیا یار کا فیض
یار نے اب تلک نہ پہنچا خط
ردیف ض
انکے بیمار کا خدا حافظ
ردیف ظ
وہ میرے نظم کا کھلا ہے باغ
کردوں گا سامنا جو کریگی غرور شمع
ردیف عین
ردیف غین
اڑ کے بے منت میں جاؤں اس ستمگر کے طرف
ردیف ف
ردیف قاف
رہتا ہے قمر یار کی تصویر کا مشتاق
ردیف کاف
بے میرے وہ نہ آئیں گے میرے مکان تلک
ردیف گاف
خواب میں ہوں میں دیکھتا سنگ میں گل چمن میں آگ
رخ پر ہے گیسو گیسوے عنبر شکن میں گل
ردیف لام
اٹھاؤ ان کے ستم ہوں جو پیار کے قابل
ردیف میم
انکشاف راز الفت پر کیوں سر ہو قلم
یہ تمنا ہے کہ پہونچے وہ ترا سر ہو قلم
فرہاد وقیس نے جو الم پایا کم سے کم
بڑا اندیشہ ہے دیکھیں کدھر فرقت میں جاتے ہیں
ردیف نون
لعل لب کا خیال کرتے ہیں
دونوں رخسار وہ تمہارے ہیں
نہیں جانتے کالی بلا ہے یہی میرے حضرت دل کو خبر ہی نہیں
دل جب سے ہے زلف پر شکن میں
ساغر عمر بھرے بیٹھے ہیں
جستجو پر یوں میں یہی کی ہم نے پر ملتی نہیں
کیا بتاؤں او نہیں کہ کیسے ہیں
جمگھٹے عاشقوں کے بستے ہیں
پہلو سے نہیں وہ چھوٹتے ہیں
اٹھا کر آنکھ گر دیکھوں بناؤں دوست دشمن کو
ردیف واؤ
جو وہ رشک چمن عریاں گیا گلگشت گلشن کو
اے مہ جو تری کفش ذری دستیاب ہو
چھوٹے نہ ہجر میں بھی اب وصال ایسا ہو
کریں گے رشک سے گل پرزے پرزے اپنے داماں کو
کیا تعجب دل جو جاے دیدہ چشم یار کو
ہے چمن میں رحم گلچیں کو نہ کچھ صیاد کو
کیا دیکھیں ان کو بیٹھے ہیں تکرار کی جگہ
ردیف ہ
ردیف یا
نالہ اس دبدبہ وشان سے ایدل اٹھے
باغ جہاں میں کے نہ پونچھو کہاں رہے
یوں پریشان کبھی ہم بھی تو نہ تھے
صبا جو سینہ سے یاں لیکے بوے داغ اڑی
لب سے غنچہ دہن سے گلرو ہے
جی جاے مگر نہ وہ پری جاے
ہم پہ جوروستم کے کیا معنی
جو چاک اسکو ہم مثل داماں کریں گے
دل نہ لیں وہ تو نہ دو یو ہیں سہی
ہے خدا کون کوئی کیا جانے
کبھی میری گلی پروار ہو جاے
جاؤں نہ دید زلف چلیپا کیواسطے
ہجر میں دل نہیں سنبھلتا ہے
آکے پہلو سے بیٹھئے مل کے
رخ روشن پہ صفا لوت گئی
یہ گیسوں والا نہ ادھر جاے سحر سے
ماہ نور پردہ سحاب میں ہے
پوچھیں جو میری قبر کو کسکا مزار ہے
ہاتھ میں خنجر ہے اور زیب کمر شمشیر ہے
طبیعت ان دنوں یہ ناتواں ہماری ہے
رخ روشن جو وہ دیکھائیں گے
گھر میں ساقی مست کے چھلکے
ہوں مست پہ ہے ادب سبو سے
چھوڑے جو زلف تو وہ کمر سے لچک گئے
ہے خلش پر باغباں اور فکر میں صیاد ہے
دم یار تانزع بھر لیجئے
روے آتش ناک کا عساشق دل بیتا ب ہے
درجیب پہ جانیکی تم نے خوب کہی
بخدا ہم نہ کیمیا لے تے
قاصد ترے بار بار آئے
زیست ہی میں عذر کرتے تھے جو آنیکے لئے
یہ جہاں کس کاآفریدہ ہے
جو گلمیں رنگ وبو وہی انکے بدن میں ہے
بل کھاتے ہین گیسوں پہ کالے
فرقت میں ہے صدا دل سیماب وار کی
عشق گرجاں ہی کا در پے ہے
زلف شب رنگ جو بنائی ہے
دل جو زلف سیہ میں جاتا ہے
دھوتا منہ اپنا طشت میں گر وہ گل ایسے
نہ چاہوں بام جانا سے میں کوہ طور کی بدلی
ہجر میں ہیں دور اسکے زلف عنبر خام سے
آبادیسی وحشی جو تمہارے نکل آئے
نسبت وہی ماہ آسماں سے
بت پرستی مری بلا نہ کرے
داب بھی تیغ مختصر بھی ہے
مثلث
سوے گو غریباں سیر کو جس دم وہ جاتے ہیں
ہاتھوں کو ملا کہا کہ ہیہات
اشعار حاشیہ گلذار نسیم
رباعیات
ایک سمے نرجگ کا نیارا
مثنوی بہا کہ المعروف بہ پاتی
جب تریا اس بات بکھانیو
جب برہن کی لکھ گئی پاتی
جب سگنا ایسو سمجھایو
ٹھمریاں
قطعات تاریخ طبع دیوان
قطعہ
خاتمہ
غلط نامۂ دیوان سخی وانور مرحوم ومغفور
سرورق
دیباچہ
ردیف الف
دیوان اول
شیدا ہوں نبی کے اس وصی کا
یہ تو معلوم کہ پھر آئے گا
وہاں سخی دل کو نہ لے جائیگا
رخ پر ہے ملا ل آج کیسا
ان کی چٹکی میں دل نہ مل جاتا
ناخوش جو ہو گلبدن کسی کا
دیکھنا ماجرا سمندر کا
وصل سے رہتا ہے انکا ر یہ کیا
کوہ میرا ہے بیاباں میرا
گل رخسار یار کیا کہنا
دھر دیکھتے ہو ادھر دیکھ لینا
الفت گیسوے دوتا لایا
تم اگر دونہ پیر ہن اپنا
نہیں ایسا رخ روشن کسی کا
دل ہی میرا فقط ہے مطلب کا
خوشی آپ کی خیر کل جائے گا
کعبہ تھا وہ میں جسے دل سمجھا
ہائے کیا بیکار میرا سن گیا
خیر گزری جو وہاں پہ سنبل تھا
دیکے دل چپ رہا نہیں جاتا
یوں تو ملنے کو کیا نہیں ملتا
میں نے پوچھا کہ پھر آنا ہوگا
آکے تربت پہ ایک صدا دینا
نیمچہ کس کی کمر یاد آیا
دیر سے سوے کعبہ ہوآیا
کیوں گئے تھے جو نہیں آنا تھا
غیر سے دان نفاق ہو جاتا
جاے واں باد صبا ہم کو کیا
پہلو میں بیٹھ کر وہ پاتے کیا
سخی سے چھوٹ کر جائیں گے گھر آپ
رخ روشن دیکھاے صاحب
ردیف ب
ردیف پ
دولہن بھی اگر بن کے آئیگی رات
ردیف ت
نہ بچپن میں کھو ہم کو کڑی بات
ترے پتھر ہیں انکی ہے بری ہت
گفتگو ہو بے زبان بہت
ردیف ٹ
ردیف ث
چاند دیکھوں کدھر ہوا ہے آج
غیر سے بات ہو ہمیں کیا بحث
ردیف جیم
بند افراط سے ہین خار کے بیچ
ردیف چ
عشق کرنے میں دل بھی کیا ہے شوخ
ردیف خ
ردیف ح
پھر الجھتے ہیں وہ گیسو کی طرح
گل کو کیا نہیں ہے یار گھمنڈ
ردیف ڈال
بام پر آتا ہے ہمارا چاند
ردیف دال
ردیف ر
ردیف ذال
چشم مے گوں وہاں شراب لذیذ
کرتے ہیں خوں پان کھا کر
ہجر میں میرا حال ہے کچھ اور
گالی دیکر نہ میری جان بگڑ
ردیف ز
ردیف ڑ
اسکو ہو گی نہ مروت ہر گز
کون سارخ ہے اے بہار نفیس
ردیف س
ردیف ش
بندۂ ہے کوچۂ حضور سے خوش
ردیف ض
ردیف ص
رہا کرتاہ ے ہم سے یار ناراض
ایک ادا ہو جفا کی کیا تخصیص
ردیف ط
عشق ہے یار کا خدا حافظ
پڑھ نہ لے غیر کہکے اپنا خط
ردیف ظ
ردیف ع
ہے جو اس ابروے خمدار کی قطع
ہجر میں ہے مثال داغ چراغ
ردیف غ
تمہارے پاس سے خنجر تو کیا لطف
ردیف ف
مجھے اس کی محبت سے تعلق
عاشق زار ہیں تصور معاف
ردیف ق
آئی دنیا میں آسماں سے دق
ردیف کاف
ردیف گاف
آہ سوزاں کی بھی ملائیں آگ
ان کی قسمت کا تھا ہمارا دل
ردیف ل
ردیف میم
شرمندہ لحد میں جائیں گے ہم
یاد کی گیسو ے دوتا کی قسم
گلشن میں تجھے جلا ئیں گے ہم
یار کے آگے کس شمار میں ہم
منکر بت ہے یہ جاہل تو نہیں
ردیف نون
ان کو نفرت اسے کیا کہتے ہیں
منکشف عاشق کا راز نہیں
حور میں حسن مہ میں نور نہیں
ان سے آنکھیں لڑائے بیٹھے ہیں
عاشق ان کے مزہ ہوتے ہیں
پھر وہ پہلو سے چلے جاتے ہیں
رخ کو اداس بت کے نہ قرآن کہیں
آئنے ان کے آگے جاتے ہیں
سر فروش اژدہام کرتے ہیں
قبر میں اب کسی کا دھیان نہیں
سخی دیر سے آج آئے ہوئے ہیں
چاند ہے جس طرح تاروں میں
اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں
کیوں نہ بہائیں حضور کی باتیں
دل میں ہم کس کی چاہ کرتے ہیں
بہار آکر جو گلشن میں وہ گائیں
ہم حسینوں کی چاہ کرتے ہیں
ردیف واؤ
تو بھی ہے بکارتا کسی کو
تم نہ آو و خیر جانے دو
گر نہ سمجھےمجھے غلام تو لو
کیا غم جو نہ نامہ بر صبا ہو
کون کہتا ہے کہ آیا نہ کرو
سخی وہ زلف دکھلائیں تو کیا ہو
ہم سے عاشق کو برا سمجھے
حور غلماں ساکنان لکھنؤ
کیوں حزیں ہیں ساکنان لکھنو
زلف خوباں کا مبتلا ہی نہ ہو
دل دیا دم شمار کرنے کو
سنکے میرے دلربا کی گفتگو
آج دل بیچتے ہیں ہم لے لو
اس محترم کا چاند گر دیکھو
یار بیزار ہے اور سنو
ردیف ہ
نہ ہم ہوں گے نہ یہ عالم ہمیشہ
دیکھئے زانو پہ رکھ کر آئینہ
طفل اشک آتو ادھر بسم اللہ
اس عشق سے ہے ہزار توبہ
اللہ رے سخی تم کو تمناے مدینہ
بجلیاں کانوں کی دکھلاتے رہے
گو حور مشکیل ہو رہی ہے
دشمن ان کی اور ہے کس کی
عشق دنداں میں یہ ٹہنی ہے
بت کا ہے پیار خدا خیر کرے
ناحق ایک بت کو مجھ سے کد ہے
مرغ دل لیگیا وہ یار ابھی
بہتر جو کلام میرا رو ہے
جس پر کہ گمان آسماں ہے
او کل پژمردہ ہو خزاں ہے
کیوں سمجھے نہ وہ کہ غیر بد ہے
آفتیں اسکی چال لائے گی
یہ آے ہو کس کس کے گھر ہوتے ہوتے
پوچھو نہ چمن میں کچھ صبا کی
الفت ہے گیسوے دوتا کی
تم سا جنت میں نہیں یار کوئی
آنکھ پھر تم نے چرائی دیکھئے
دم نہ دیکھا مرا نکلتے ہوئے
آج ہم پر عتاب ہوتا ہے
دل بھی وہ لیں گے جان بھی لیں گے
غیر کا ذکر ہر گھڑی کیا ہے
عجب یاد قامت میں آفت رہی
چلے پھر ہاتھ غیر وں کا پکڑ کے
جو رہنا دل میں منظور نظر ہے
چہر ہ پر کیوں نہیں بحالی ہے
آج غصہ سے منہ پہ لالی ہے
خمسہ
رباعیات
زمانہ ہے خوشی کا خور می کا شادیاں کا
دیوان سخی حصہ دوم
ردیف الف
ہو وصف کیا رسول علیہ السلام کا
حیف ثابت ہے نہ دامن ہ گریباں اپنا
باد یہ پیمائی ہیں بخت اپنا یاور ہو گیا
مرے قبر پر سے پھر آئے کیون یہ جمال کیوں نہ دیکھا
ہم مر جو گئے ہیں تو جلا یا نہیں جاتا
آہ سوزاں کا ہمارے جو شرارا ٹوٹا
یار شمع ساق پاد کہلائیگا
نہیں اور کے ہجر میں گھل کے کانٹا
کیا ہوا گر بند ہے منہ روزن دیوار کا
زلف شب آسا ہے یا کالی گھٹا
پھر مجھ کو عشق کاکل خمدا ر ہوگیا
عشق گیسوے صنم کاپھر اثر پیدا ہوا
کاٹنا ہجر میں محال ہوا
میرا قصہ نہ کچھ افسانہ ان کا
آگے زلفوں کا تمہیں سودا نہ تھا کیونکر ہوا
ردیف ب
نے دل کا پتہ ہے نہ نشاں مرے جگر کا
یہ نہ سمجھو نہیں مجھ کو ہوس جام شراب
ردیف پ
اگر سینے میں فرمائیں گزر آپ
ردیف ت
جئے وہ رہے تاقیامت سلامت
ردیف ٹ
وہاں زخم سے پیتے تھے ہم لہو کے گھونٹ
خط نہ اس گل نے لکھا کیا باعث
ردیف ث
ردیف ج
پہونچے ہم پھاند کے ایوان جفا کار میں آج
سچ ہے بلا کار کہتا ہے گیسوے یار پیچ
ردیف چ
ہلکی سی اس نے ہاتھ میں لی یاسمن کی شاخ
ردیف خ
لحد میں میں سوے جان جہاں روح
ردیف ح
ردیف دال
اس نے چھوڑی نہ اداے میرے بعد
ردیف ذال
ایسا پیارا نہ کبھی آنکھوں سے دیکھا تعویذ
غیر کرتے ہیں بار بار گھمنڈ
ردیف ڈال
ردیف رے
پہنتا پیر ہن کیا عشق میں مین ناتواں ہو کر
ردیف ڑ
ان حسینوں کو دل زار نہ چھوڑ
ردیف ز
سرد مہری نہ کر آجائیں نہ دو چار عزیز
ردیف س
ابروے یار نہیں ابروے خمدار کے پاس
ردیف شین
گہ اشک میں گہ بسوزش دل گہے بآب وگہے بآتش
ہر مرتبہ کرواتی ہے تکرار فراموش
بام پر چاندنی وان پہنچتے ہیں یاعرش پہ فرش
ردیف صاد
صدف کو دیکھتے ہیں پیش چشم تر ناقص
ردیف ط
کہتے ہی چاندنی ہے ماہ ضیا یار کا فیض
یار نے اب تلک نہ پہنچا خط
ردیف ض
انکے بیمار کا خدا حافظ
ردیف ظ
وہ میرے نظم کا کھلا ہے باغ
کردوں گا سامنا جو کریگی غرور شمع
ردیف عین
ردیف غین
اڑ کے بے منت میں جاؤں اس ستمگر کے طرف
ردیف ف
ردیف قاف
رہتا ہے قمر یار کی تصویر کا مشتاق
ردیف کاف
بے میرے وہ نہ آئیں گے میرے مکان تلک
ردیف گاف
خواب میں ہوں میں دیکھتا سنگ میں گل چمن میں آگ
رخ پر ہے گیسو گیسوے عنبر شکن میں گل
ردیف لام
اٹھاؤ ان کے ستم ہوں جو پیار کے قابل
ردیف میم
انکشاف راز الفت پر کیوں سر ہو قلم
یہ تمنا ہے کہ پہونچے وہ ترا سر ہو قلم
فرہاد وقیس نے جو الم پایا کم سے کم
بڑا اندیشہ ہے دیکھیں کدھر فرقت میں جاتے ہیں
ردیف نون
لعل لب کا خیال کرتے ہیں
دونوں رخسار وہ تمہارے ہیں
نہیں جانتے کالی بلا ہے یہی میرے حضرت دل کو خبر ہی نہیں
دل جب سے ہے زلف پر شکن میں
ساغر عمر بھرے بیٹھے ہیں
جستجو پر یوں میں یہی کی ہم نے پر ملتی نہیں
کیا بتاؤں او نہیں کہ کیسے ہیں
جمگھٹے عاشقوں کے بستے ہیں
پہلو سے نہیں وہ چھوٹتے ہیں
اٹھا کر آنکھ گر دیکھوں بناؤں دوست دشمن کو
ردیف واؤ
جو وہ رشک چمن عریاں گیا گلگشت گلشن کو
اے مہ جو تری کفش ذری دستیاب ہو
چھوٹے نہ ہجر میں بھی اب وصال ایسا ہو
کریں گے رشک سے گل پرزے پرزے اپنے داماں کو
کیا تعجب دل جو جاے دیدہ چشم یار کو
ہے چمن میں رحم گلچیں کو نہ کچھ صیاد کو
کیا دیکھیں ان کو بیٹھے ہیں تکرار کی جگہ
ردیف ہ
ردیف یا
نالہ اس دبدبہ وشان سے ایدل اٹھے
باغ جہاں میں کے نہ پونچھو کہاں رہے
یوں پریشان کبھی ہم بھی تو نہ تھے
صبا جو سینہ سے یاں لیکے بوے داغ اڑی
لب سے غنچہ دہن سے گلرو ہے
جی جاے مگر نہ وہ پری جاے
ہم پہ جوروستم کے کیا معنی
جو چاک اسکو ہم مثل داماں کریں گے
دل نہ لیں وہ تو نہ دو یو ہیں سہی
ہے خدا کون کوئی کیا جانے
کبھی میری گلی پروار ہو جاے
جاؤں نہ دید زلف چلیپا کیواسطے
ہجر میں دل نہیں سنبھلتا ہے
آکے پہلو سے بیٹھئے مل کے
رخ روشن پہ صفا لوت گئی
یہ گیسوں والا نہ ادھر جاے سحر سے
ماہ نور پردہ سحاب میں ہے
پوچھیں جو میری قبر کو کسکا مزار ہے
ہاتھ میں خنجر ہے اور زیب کمر شمشیر ہے
طبیعت ان دنوں یہ ناتواں ہماری ہے
رخ روشن جو وہ دیکھائیں گے
گھر میں ساقی مست کے چھلکے
ہوں مست پہ ہے ادب سبو سے
چھوڑے جو زلف تو وہ کمر سے لچک گئے
ہے خلش پر باغباں اور فکر میں صیاد ہے
دم یار تانزع بھر لیجئے
روے آتش ناک کا عساشق دل بیتا ب ہے
درجیب پہ جانیکی تم نے خوب کہی
بخدا ہم نہ کیمیا لے تے
قاصد ترے بار بار آئے
زیست ہی میں عذر کرتے تھے جو آنیکے لئے
یہ جہاں کس کاآفریدہ ہے
جو گلمیں رنگ وبو وہی انکے بدن میں ہے
بل کھاتے ہین گیسوں پہ کالے
فرقت میں ہے صدا دل سیماب وار کی
عشق گرجاں ہی کا در پے ہے
زلف شب رنگ جو بنائی ہے
دل جو زلف سیہ میں جاتا ہے
دھوتا منہ اپنا طشت میں گر وہ گل ایسے
نہ چاہوں بام جانا سے میں کوہ طور کی بدلی
ہجر میں ہیں دور اسکے زلف عنبر خام سے
آبادیسی وحشی جو تمہارے نکل آئے
نسبت وہی ماہ آسماں سے
بت پرستی مری بلا نہ کرے
داب بھی تیغ مختصر بھی ہے
مثلث
سوے گو غریباں سیر کو جس دم وہ جاتے ہیں
ہاتھوں کو ملا کہا کہ ہیہات
اشعار حاشیہ گلذار نسیم
رباعیات
ایک سمے نرجگ کا نیارا
مثنوی بہا کہ المعروف بہ پاتی
جب تریا اس بات بکھانیو
جب برہن کی لکھ گئی پاتی
جب سگنا ایسو سمجھایو
ٹھمریاں
قطعات تاریخ طبع دیوان
قطعہ
خاتمہ
غلط نامۂ دیوان سخی وانور مرحوم ومغفور
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔