سرورق
انتساب
مقدمہ صفدر مرزا پوری مرحوم
عرض حال
نظر آیا مجھے کثرت میں بھی جلوا تیرا
حمد ونعت
دیکھی شب معراج میں جب شان محمد
گلشن میں جب تصور میخانہ ہو گیا
بغیر تیغ کیا قتل یہ کمال ہوا
ہمسری کرکے خجل فتنۂ محشر ہوتا
گیا اب آفتاب حشر کا بھی جلوہ گر ہونا
وفا میں کچھ جو پوشیدہ نہ انداز جفا ہوتا
وہ دیکھ کر کنکھیوں سے محفل میں رہ گیا
کیوں خیال رخ محبوب کا احساں ہوتا
بھولے پن سے یہ اسے محفل جاناں سمجھا
اب ہو کہ نہ ہو حشر میں دیدار کسی کا
چپ رہا نادان اور میں دل کو یوں پوچھا کیا
تربت پہ وہ جو آئے تو عالم نیا ہوا
زانوے یار پہ اپنا جو کبھی سرپایا
تیغ کی طرح جو کھچتا ہوا قاتل آیا
آہ نے اب تک پتہ پایا نہ کچھ تاثیر کا
اجاڑے گا جو تو کیا فائدہ اے باغباں ہوگا
بات کہتے چمنستاں کا بیاباں ہونا
میری صورت کو دیکھو کچھ نہ پوچھو ماجرا میرا
مسکرا کر میرے شکوہ پر خفا ہو جانا
آسماں پر جومہ نوکر نمایاں دیکھا
سلامت رہے جو ہو قاتل کسی کا
پیام وصل پر قاصد انہیں کیا کچھ حجاب آیا
جگر میں پہلو میں دل میں کہاں گزر نہ کیا
ہمار ی آنکھ سے اس کو حجاب کیا ہوگا
جس نے بے ہوش کیا تھا وہی پھر یاد آیا
برق چمکی تھی کسی روز بس اتنا دیکھا
حسرت وصل نکل جاتی یہ ساماں نہ ہوا
شب غم کو کون میرا پوچھنے والا ہوتا
گرائیگی یہ بجلی جس طرف ان کا گزر ہوگا
بیاں کسی سے جوانی کا خواب کیا کرتا
خاکہ اڑے گا یوں مرے حال تباہ کا
حسرتیں تڑپیں لٹایا دل کو میں بسمل ہوا
بوسہ جو مانگا اس لب رنگیں کے خال کا
لکھا ہے خط میں ظالم نے یہ فقرہ کس قیامت کا
اک شور ہے گھر گھر میری شوریدہ سری کا
لیا یہ روز جزا کس نے نام قاتل کا
خیال یار سے بہتر وصال یار نہ تھا
قصد اس نے جو کیا آگ میں جل جانے کا
دور مجھ تک نہیں آتا کبھی پیمانے کا
دامن لئے تھا کل کسی مست شباب کا
جلوہ اس بت کا چراغ رہ عرفاں نکلا
اب کہاں وہ صحبتیں مدت کا ہوں ترسا ہوا
ملتے ہیں حسیں ہم سے مگر دل نہیں ملتا
کیسا مہ نو جب رخ جاناں نہیں دیکھا
دیوانہ ترا قبر سے سو کرنہ اٹھے گا
نیا عالم نظر آتا جو میں محو فغاں ہوتا
وہ بدنصیب ہوں صفدرؔ کہ میں جہاں ہوتا
ہمیں کیا ہے سارے زمانے سے مطلب
کلیم خوش ہیں کہ تو ان سے بے حجاب ہوا
شکوہ کرتے ہو کہ ملتا نہیں پیکاں میرا
غم نہیں ساتھ نہ دیں گے جو مسلماں میرا
تم آتے منظر گور غریباں اور ہو جاتا
ملے عدو کی طرح گاہ مہر باں کی طرح
یاد آئے گا ستانے کا مزا میرے بعد
باغ میں دیکھ رہے ہیں یہ کسے پیار سے آپ
بہت غصہ مجھےآتا ہے اپنی چشم گریاں پر
کچھ تلافی بھی نہیں اب چشم پرنم دیکھ کر
رہے مری طرف سے خون کیوں قاتل کی گردن پر
کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیونکر
اور تڑپالے مجھے درد جگر آج کی رات
آپ نے بستی بسائی تھی یہ ویراں دیکھ کر
درد سر کی جو دوا تھی کبھی فرہاد کے پاس
نکلتے ہیں مضامیں دل سے شاں لامکاں ہو کر
نکل کے اور گرائے گی بجلیاں دل پر
سوز غم کروں کس طرح سے نالے بلبل
نہ تھا ہائے صفدرؔ شباب اول اول
آئینہ ہے کہ ہے قاتل کے مقابل قاتل
رحم صیاد کو آیا جو گرفتاروں پر
عنایت اس قدر اللہ اکبر اپنے بسمل پر
آنے کو اہل کعبہ کہیں کس زباں سے ہم
وہ جو پڑھ کر پھینک دیتے ہیں یونہی دو چار خط
بسمل ہوئے تھے بزم میں جس کی نظر کی ہم
مایوسیوں کی ہجر میں اب انتہا نہیں
دم آخر مری بالیں سے کیوں اٹھے خفا ہو کر
لیا دل شعلہ رونے مسکرا کر
کوئی تو بات ہے یارب ہوائے کوئے جاناں میں
قامت یار ابھی مائل رفتار نہیں
نہ بجلی میں نہ یہ ہوگی نگاہ ناز قاتل میں
غم نہ تھا ہوتے نہ ہوتے وہ مری تقدیر میں
وہ چل کے ناز سے اے دل ادھر کو دیکھتے ہیں
وہ طاہر ہیں کہ پابندی سے ہم سب کا م کرتے ہیں
مررہا ہوں مری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں
ضرور بام پر آئے وہ بے نقاب کہیں
درد اد بیدرد کیسا ہے بتا سکتے نہیں
کیا تمہیں رنگ لئے بیٹھے ہو رخساروں میں
فکر بے سود ہے مرنے کا مرے غم نہ کریں
قربان قد پاک رسول مدنی ہوں
رکھے ہیں آپ ہاتھ جہاں اب وہاں نہیں
مجھ کو یہ چھیڑ کر تم سے بھی حسیں ہوتے ہیں
کون کہتا ہے اسے تری ادا آتی نہیں
خود ہی تارفتہ ہوا اللہ رے تاثیر حسن
نہ گل ہے نے شگوفہ نے کلی معلوم ہوتی ہے
لے ہی لیں گے مرا دل کہتے ہیں ناداں ہوں میں
نزع میں یار کو پیغام وفا دیت ہیں
چڑھی ہوئی ہے وہ مست شراب ہم بھی ہیں
کچھ آئینہ میں دیکھا ہے تو حیراں ہوتے جاتے ہیں
نہیں معلوم کہ کس گل سے ہوئیں چار آنکھیں
جس روز سے سوداتری الفت کا ہے سرمیں
مضامیں وصف کمر باندھتے ہیں
دل میں چبھتے ترے پیکاں نظر آتے ہیں
موسم گل ہے کہاں ہوش ہے دیوا نوں میں
کس کے کھوئے ہوئے اوسان چلے آتے ہیں
جانتی ہے جو مریض تپ ہجراں ہمکو
سنبل نہ کہیں دیکھ کے ہو رنگ چمن میں
ہزاروں نالہ کش گرد مکاں رہتے ہیں
جب کسی لائق نہیں جب کسی قابل نہیں
کیوں کہہ رہے ہو نزع میں ہم سے خفا نہ ہو
کہاں جاتے ہو مڑ کر وقت رخصت دیکھتے جاؤ
بری نگاہ سے دیکھا ہے آشیانوں کو
یاد ساقی میں چمن میں جو نکلتے ہیں
وہ جب انگڑائی لیکر حسن کا عالم دکھاتے ہیں
پہلے سنبھال لیجئے پھولوں کے ہار کو
جب سے آباد کیا قیس نے ویرانے کو
غم نہیں طوفاں ہو گرداب ہو منجھدھار ہو
ملا ہے کس قدر سامان فتنہ تیری چالوں کو
اجازت آج سے سیر چم کے دلفگاروں کو
رخ پہ برقع جو ترے اوستم ایجا د نہ ہو
نہ شرماؤ جھٹک بھی دو غبار آلودہ دامن کو
پھرے طور سے موسیٰ اٹھا دو تم بھی چلمن کو
گھڑی ساعت کا ہوں میں اور مہماں دیکھتے جاؤ
بس ہوا نالۂ وشیون سے یہ حاصل مجھ کو
ذرا وہ خاک میں ملنے نہ دے خون شہیداں کو
دم آخر برابر آرہی ہیں ہچکیاں مجھ کو
دل میں بھی آپ آئے تو ناز وادا کے ساتھ
ہمارے زخم کی کیا فکر چارہ جو کرتے
نظر کہتی ہے انکی طور کا جب نام آتا ہے
کہیں کیا تجھ سے ہم اور عہدو پیماں بھولنے والے
گلہ کچھ ان سے نہ انکی جفا طرازی سے
تری محفل میں جو آتا ہے بیتابانہ آتا ہے
حسرتیں رخصت ہوئیں سب عاشق دیگر سے
ہم اظہار درد جگر کرنے والے
بتائے دیتی ہے کم بخت راز سب دل کے
صدا یہ آئی جو ہم طالب مزار آئے
پوچھتے ہیں تری حسرت کیا ہے
وہ کافر آج مہماں مرے گھر ہے
طریق عشق میں یہ اک کمال ہوتا ہے
کہاں ہیں آئیں ادھر دل کے وار نے والے
وہاں گھاؤ عنایت کا بھی عتاب میں ہے
ظلم وستم کاآپ خوگر بنائیں گے
عہد پیری میں وہ انداز سخن بھول گئے
جدھران شوخ آنکھوں سے نگاہ فتنہ زا نکلے
دم رخصت کچھ ایسی شدت درد جگر ہوگی
آپ تنہا نہ کہیں جائیں ٹہلنے کیلئے
ناسمجھ کوئی ترے تیر کا پیکاں سمجھے
رخ پہ زلف اس نے جو بکھرائی ہے
میں جو مرجاؤں عجب عالم رہے
دیکھ کر رنگ حنا جاں فنا ہوتی ہے
شب فرقت فغاں پر یوں میرے تاثیر ہنستی ہے
اب دم نزع محبت نہ جتائے کوئی
تل ابروؤں میں جبیں پر شکن ابھی سے ہے
اشارے بزم میں کرتے ہو کیا بلا کے مجھے
اور ہی چیز تھے کعبے میں چلے آنے سے
دیکھا ادھر کسی نے ادھر میں نے آہ کی
مزے ہیں وصل کی شب بھی لڑائی ہوتی جاتی ہے
نظارۂ قاتل کا بس اس وقت مزا ہے
قبر پر بھی مری آئیں گے ڈرانے کے لئے
بال کھولے لب دریا جو نہانے کے لئے
شان اپنی ذرے ذرے میں پیدا کرے کوئی
بیتاب شب وصل میں حسرت ہو کسی کی
خیال آمد فصل بہار رہتا ہے
سونے دیتا نہیں شب بھر دل بیمار مجھے
دبی اس سے نگاہ خشمگیں معلوم ہوتی ہے
پھر نہ آئے گاکبھی ہائے اس غم میں رہے
جن سے اشارے چشم فسوں گر کے ہو گئے
جو ابھرے حشر بھی آگے ترے تو نقش ثانی ہے
داغ دل ناقص نہیں جو ماہ کامل میں رہے
فلک پر یہ زمیں جائے زمیں پر آسماں آئے
مار ڈالا آپ کی تیغ آزمائی نے مجھے
ظلم ڈھایا جو ستمگر تری رعنائی نے
باہم معاملے سر بازار ہوگئے
وابستہ تھے اسی سے سب لطف زندگی کے
دیکھ لو تم تو گلستاں ابھی میخانہ بنے
ہماری جان اے جان ادا وہ فتنہ ساماں ہے
ملے ہیں ہمیں گلبدن کیسے کیسے
دیکھا تھا اک نظر کہ جگر سے گزر گئی
آنکھ جب ساقی پہ ڈالی جائے گی
نہ التزام حسیناں مجھ کو بھاتا ہے نہ بھایا ہے
چودھویں شب کو سدھارے وہ سحر سے پہلے
جہاں دیکھی ہے چشم مست ساقی توڑ ڈالی ہے
کہہ دو ساقی سے کہ دم آنکھوں میں ہے جام چلے
جس کو ہوش عرض ہے حاجت روا کے سامنے
دل زمانے کا اسی زلف گرہ گیر میں ہے
نگاہ ناز تری دل میں ہیں چھپائے ہوئے
صبح شب وصال چلا کون گھر سے ہے
مایوسیوں سے انس ہے اس خاکسار سے
محل پردے کا اوقاتل نہیں ہے
پہلوئے قاتل میں تیغ جانستاں دیکھا کئے
دل میں پہلے تو کھٹکھٹا نہ تھا ارماں کوئی
مر کے کیا قبر میں راحت ہوگی
دن چڑھا اٹھ مرے بیدار نہ ہونے والے
جو نتیجہ بات نہیں اختیار کی
کبھی انجمن سے تری کبھی ساتوں آسماں سے
اے شمع یہ معنی نہیں آئین وفا کے
تفرقہ باز مجازی سے حقیقت نہ ہوئی
ہوئی ہے زندگانی دشت غربت میں بسر میری
اے دل بنے جس طرح منالا انہیں جاکے
جان تجھ میں نرگس بیمار کچھ یونہی سی ہے
بن گدائے میکدہ تو کچھ اگر ذی ہوش ہے
اس قدر دور سمجھنے لگے وہ دل سے مجھے
ان کا یہ طعنہ نہیں کم زہر قاتل سے مجھے
یہ اپنے چاہنے والوں کی قدردانی کی
کیا جو کام اس نے ہو نہیں سکتا ہے پیکاں سے
مدت طول اسیری کی اک تصویر ہے
کشش نگاہ میں ہے تشنگی بلا کی ہے
لہو جو رلاتا ہے وہ دل یہی ہے
ملا کے آنکھ تر ستے ہیں اک نظر کے لئے
جھکائے اب نہ یوں گردن کو چلئے
بہت بے چین ہیں محشر میں جلوا دیکھنے والے
آئینہ دیکھ کے جھینپا سر محفل کوئی
دل دکھاتی ہے دل مظلوم کی فریاد بھی
چھپنے والے یہ بھی چھپنے کا کوئی انداز ہے
ساتھ ان کے رہتے رہتے کیا سے کیا ہو جائے گا
دل دے کے ان سے پھر نہ تقاضا کریں گے ہم
دشت ہستی میں غبار چاک داماں کچھ نہیں
ذرا بھی دم ترے بیمار ناتواں میں نہیں
ساز وساماں ہے یہی بے سروساماں ہوں گے
دیکھ کر ان کی نگاہ ناز جی الجھن میں ہے
کشش نظر میں تھی بیگانہ بھی یگانہ تھا
پھول لائے ہیں سر قبر سنورنے والے
میں کیا اداس ہوں کہ ہر انساں اداس ہے
مجھ سے مانوس ہے اتنی ہے محبت میری
حسینوں پر کسی کا جب دل ناشاد آتا ہے
شمعیں روشن تجھ میں اے گور غریباں کر چکے
وہ داغ دے کے مرے دل کو ہائے جاتے ہیں
لطف کچھ سوز میں ہے اب نہ مزا سازمیں ہے
حقیقت پوچھتا ہے مجھ سے کیا اوباغیاں میری
مرجائے شب غم میں کچھ دور نہیں ہے
اب پوچھتی نہیں تری برق نظر مجھے
تو جلوہ نما آج لب جام نہیں ہے
ٹوٹے ہوئے دل کو مرے تم دل نہ سمجھنا
اے جنوں ہم کو جناں میں بھی یہ ساماں چاہئے
وعدہ رہا نہ یاد مرے مست خواب کو
ساری دنیا سے دل وارفتہ بیگان ہوا
دعائیں مانگی تھیں جو مرگ ناگہاں کےلئے
نقش ہستی کو غریبوں کی مٹاتے کیوں ہو
قطعہ تاریخ وصال حضرت حاجی مولانا عین القضاۃ صاحب
سرورق
انتساب
مقدمہ صفدر مرزا پوری مرحوم
عرض حال
نظر آیا مجھے کثرت میں بھی جلوا تیرا
حمد ونعت
دیکھی شب معراج میں جب شان محمد
گلشن میں جب تصور میخانہ ہو گیا
بغیر تیغ کیا قتل یہ کمال ہوا
ہمسری کرکے خجل فتنۂ محشر ہوتا
گیا اب آفتاب حشر کا بھی جلوہ گر ہونا
وفا میں کچھ جو پوشیدہ نہ انداز جفا ہوتا
وہ دیکھ کر کنکھیوں سے محفل میں رہ گیا
کیوں خیال رخ محبوب کا احساں ہوتا
بھولے پن سے یہ اسے محفل جاناں سمجھا
اب ہو کہ نہ ہو حشر میں دیدار کسی کا
چپ رہا نادان اور میں دل کو یوں پوچھا کیا
تربت پہ وہ جو آئے تو عالم نیا ہوا
زانوے یار پہ اپنا جو کبھی سرپایا
تیغ کی طرح جو کھچتا ہوا قاتل آیا
آہ نے اب تک پتہ پایا نہ کچھ تاثیر کا
اجاڑے گا جو تو کیا فائدہ اے باغباں ہوگا
بات کہتے چمنستاں کا بیاباں ہونا
میری صورت کو دیکھو کچھ نہ پوچھو ماجرا میرا
مسکرا کر میرے شکوہ پر خفا ہو جانا
آسماں پر جومہ نوکر نمایاں دیکھا
سلامت رہے جو ہو قاتل کسی کا
پیام وصل پر قاصد انہیں کیا کچھ حجاب آیا
جگر میں پہلو میں دل میں کہاں گزر نہ کیا
ہمار ی آنکھ سے اس کو حجاب کیا ہوگا
جس نے بے ہوش کیا تھا وہی پھر یاد آیا
برق چمکی تھی کسی روز بس اتنا دیکھا
حسرت وصل نکل جاتی یہ ساماں نہ ہوا
شب غم کو کون میرا پوچھنے والا ہوتا
گرائیگی یہ بجلی جس طرف ان کا گزر ہوگا
بیاں کسی سے جوانی کا خواب کیا کرتا
خاکہ اڑے گا یوں مرے حال تباہ کا
حسرتیں تڑپیں لٹایا دل کو میں بسمل ہوا
بوسہ جو مانگا اس لب رنگیں کے خال کا
لکھا ہے خط میں ظالم نے یہ فقرہ کس قیامت کا
اک شور ہے گھر گھر میری شوریدہ سری کا
لیا یہ روز جزا کس نے نام قاتل کا
خیال یار سے بہتر وصال یار نہ تھا
قصد اس نے جو کیا آگ میں جل جانے کا
دور مجھ تک نہیں آتا کبھی پیمانے کا
دامن لئے تھا کل کسی مست شباب کا
جلوہ اس بت کا چراغ رہ عرفاں نکلا
اب کہاں وہ صحبتیں مدت کا ہوں ترسا ہوا
ملتے ہیں حسیں ہم سے مگر دل نہیں ملتا
کیسا مہ نو جب رخ جاناں نہیں دیکھا
دیوانہ ترا قبر سے سو کرنہ اٹھے گا
نیا عالم نظر آتا جو میں محو فغاں ہوتا
وہ بدنصیب ہوں صفدرؔ کہ میں جہاں ہوتا
ہمیں کیا ہے سارے زمانے سے مطلب
کلیم خوش ہیں کہ تو ان سے بے حجاب ہوا
شکوہ کرتے ہو کہ ملتا نہیں پیکاں میرا
غم نہیں ساتھ نہ دیں گے جو مسلماں میرا
تم آتے منظر گور غریباں اور ہو جاتا
ملے عدو کی طرح گاہ مہر باں کی طرح
یاد آئے گا ستانے کا مزا میرے بعد
باغ میں دیکھ رہے ہیں یہ کسے پیار سے آپ
بہت غصہ مجھےآتا ہے اپنی چشم گریاں پر
کچھ تلافی بھی نہیں اب چشم پرنم دیکھ کر
رہے مری طرف سے خون کیوں قاتل کی گردن پر
کلیجہ منہ کو آتا ہے کریں تم سے بیاں کیونکر
اور تڑپالے مجھے درد جگر آج کی رات
آپ نے بستی بسائی تھی یہ ویراں دیکھ کر
درد سر کی جو دوا تھی کبھی فرہاد کے پاس
نکلتے ہیں مضامیں دل سے شاں لامکاں ہو کر
نکل کے اور گرائے گی بجلیاں دل پر
سوز غم کروں کس طرح سے نالے بلبل
نہ تھا ہائے صفدرؔ شباب اول اول
آئینہ ہے کہ ہے قاتل کے مقابل قاتل
رحم صیاد کو آیا جو گرفتاروں پر
عنایت اس قدر اللہ اکبر اپنے بسمل پر
آنے کو اہل کعبہ کہیں کس زباں سے ہم
وہ جو پڑھ کر پھینک دیتے ہیں یونہی دو چار خط
بسمل ہوئے تھے بزم میں جس کی نظر کی ہم
مایوسیوں کی ہجر میں اب انتہا نہیں
دم آخر مری بالیں سے کیوں اٹھے خفا ہو کر
لیا دل شعلہ رونے مسکرا کر
کوئی تو بات ہے یارب ہوائے کوئے جاناں میں
قامت یار ابھی مائل رفتار نہیں
نہ بجلی میں نہ یہ ہوگی نگاہ ناز قاتل میں
غم نہ تھا ہوتے نہ ہوتے وہ مری تقدیر میں
وہ چل کے ناز سے اے دل ادھر کو دیکھتے ہیں
وہ طاہر ہیں کہ پابندی سے ہم سب کا م کرتے ہیں
مررہا ہوں مری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں
ضرور بام پر آئے وہ بے نقاب کہیں
درد اد بیدرد کیسا ہے بتا سکتے نہیں
کیا تمہیں رنگ لئے بیٹھے ہو رخساروں میں
فکر بے سود ہے مرنے کا مرے غم نہ کریں
قربان قد پاک رسول مدنی ہوں
رکھے ہیں آپ ہاتھ جہاں اب وہاں نہیں
مجھ کو یہ چھیڑ کر تم سے بھی حسیں ہوتے ہیں
کون کہتا ہے اسے تری ادا آتی نہیں
خود ہی تارفتہ ہوا اللہ رے تاثیر حسن
نہ گل ہے نے شگوفہ نے کلی معلوم ہوتی ہے
لے ہی لیں گے مرا دل کہتے ہیں ناداں ہوں میں
نزع میں یار کو پیغام وفا دیت ہیں
چڑھی ہوئی ہے وہ مست شراب ہم بھی ہیں
کچھ آئینہ میں دیکھا ہے تو حیراں ہوتے جاتے ہیں
نہیں معلوم کہ کس گل سے ہوئیں چار آنکھیں
جس روز سے سوداتری الفت کا ہے سرمیں
مضامیں وصف کمر باندھتے ہیں
دل میں چبھتے ترے پیکاں نظر آتے ہیں
موسم گل ہے کہاں ہوش ہے دیوا نوں میں
کس کے کھوئے ہوئے اوسان چلے آتے ہیں
جانتی ہے جو مریض تپ ہجراں ہمکو
سنبل نہ کہیں دیکھ کے ہو رنگ چمن میں
ہزاروں نالہ کش گرد مکاں رہتے ہیں
جب کسی لائق نہیں جب کسی قابل نہیں
کیوں کہہ رہے ہو نزع میں ہم سے خفا نہ ہو
کہاں جاتے ہو مڑ کر وقت رخصت دیکھتے جاؤ
بری نگاہ سے دیکھا ہے آشیانوں کو
یاد ساقی میں چمن میں جو نکلتے ہیں
وہ جب انگڑائی لیکر حسن کا عالم دکھاتے ہیں
پہلے سنبھال لیجئے پھولوں کے ہار کو
جب سے آباد کیا قیس نے ویرانے کو
غم نہیں طوفاں ہو گرداب ہو منجھدھار ہو
ملا ہے کس قدر سامان فتنہ تیری چالوں کو
اجازت آج سے سیر چم کے دلفگاروں کو
رخ پہ برقع جو ترے اوستم ایجا د نہ ہو
نہ شرماؤ جھٹک بھی دو غبار آلودہ دامن کو
پھرے طور سے موسیٰ اٹھا دو تم بھی چلمن کو
گھڑی ساعت کا ہوں میں اور مہماں دیکھتے جاؤ
بس ہوا نالۂ وشیون سے یہ حاصل مجھ کو
ذرا وہ خاک میں ملنے نہ دے خون شہیداں کو
دم آخر برابر آرہی ہیں ہچکیاں مجھ کو
دل میں بھی آپ آئے تو ناز وادا کے ساتھ
ہمارے زخم کی کیا فکر چارہ جو کرتے
نظر کہتی ہے انکی طور کا جب نام آتا ہے
کہیں کیا تجھ سے ہم اور عہدو پیماں بھولنے والے
گلہ کچھ ان سے نہ انکی جفا طرازی سے
تری محفل میں جو آتا ہے بیتابانہ آتا ہے
حسرتیں رخصت ہوئیں سب عاشق دیگر سے
ہم اظہار درد جگر کرنے والے
بتائے دیتی ہے کم بخت راز سب دل کے
صدا یہ آئی جو ہم طالب مزار آئے
پوچھتے ہیں تری حسرت کیا ہے
وہ کافر آج مہماں مرے گھر ہے
طریق عشق میں یہ اک کمال ہوتا ہے
کہاں ہیں آئیں ادھر دل کے وار نے والے
وہاں گھاؤ عنایت کا بھی عتاب میں ہے
ظلم وستم کاآپ خوگر بنائیں گے
عہد پیری میں وہ انداز سخن بھول گئے
جدھران شوخ آنکھوں سے نگاہ فتنہ زا نکلے
دم رخصت کچھ ایسی شدت درد جگر ہوگی
آپ تنہا نہ کہیں جائیں ٹہلنے کیلئے
ناسمجھ کوئی ترے تیر کا پیکاں سمجھے
رخ پہ زلف اس نے جو بکھرائی ہے
میں جو مرجاؤں عجب عالم رہے
دیکھ کر رنگ حنا جاں فنا ہوتی ہے
شب فرقت فغاں پر یوں میرے تاثیر ہنستی ہے
اب دم نزع محبت نہ جتائے کوئی
تل ابروؤں میں جبیں پر شکن ابھی سے ہے
اشارے بزم میں کرتے ہو کیا بلا کے مجھے
اور ہی چیز تھے کعبے میں چلے آنے سے
دیکھا ادھر کسی نے ادھر میں نے آہ کی
مزے ہیں وصل کی شب بھی لڑائی ہوتی جاتی ہے
نظارۂ قاتل کا بس اس وقت مزا ہے
قبر پر بھی مری آئیں گے ڈرانے کے لئے
بال کھولے لب دریا جو نہانے کے لئے
شان اپنی ذرے ذرے میں پیدا کرے کوئی
بیتاب شب وصل میں حسرت ہو کسی کی
خیال آمد فصل بہار رہتا ہے
سونے دیتا نہیں شب بھر دل بیمار مجھے
دبی اس سے نگاہ خشمگیں معلوم ہوتی ہے
پھر نہ آئے گاکبھی ہائے اس غم میں رہے
جن سے اشارے چشم فسوں گر کے ہو گئے
جو ابھرے حشر بھی آگے ترے تو نقش ثانی ہے
داغ دل ناقص نہیں جو ماہ کامل میں رہے
فلک پر یہ زمیں جائے زمیں پر آسماں آئے
مار ڈالا آپ کی تیغ آزمائی نے مجھے
ظلم ڈھایا جو ستمگر تری رعنائی نے
باہم معاملے سر بازار ہوگئے
وابستہ تھے اسی سے سب لطف زندگی کے
دیکھ لو تم تو گلستاں ابھی میخانہ بنے
ہماری جان اے جان ادا وہ فتنہ ساماں ہے
ملے ہیں ہمیں گلبدن کیسے کیسے
دیکھا تھا اک نظر کہ جگر سے گزر گئی
آنکھ جب ساقی پہ ڈالی جائے گی
نہ التزام حسیناں مجھ کو بھاتا ہے نہ بھایا ہے
چودھویں شب کو سدھارے وہ سحر سے پہلے
جہاں دیکھی ہے چشم مست ساقی توڑ ڈالی ہے
کہہ دو ساقی سے کہ دم آنکھوں میں ہے جام چلے
جس کو ہوش عرض ہے حاجت روا کے سامنے
دل زمانے کا اسی زلف گرہ گیر میں ہے
نگاہ ناز تری دل میں ہیں چھپائے ہوئے
صبح شب وصال چلا کون گھر سے ہے
مایوسیوں سے انس ہے اس خاکسار سے
محل پردے کا اوقاتل نہیں ہے
پہلوئے قاتل میں تیغ جانستاں دیکھا کئے
دل میں پہلے تو کھٹکھٹا نہ تھا ارماں کوئی
مر کے کیا قبر میں راحت ہوگی
دن چڑھا اٹھ مرے بیدار نہ ہونے والے
جو نتیجہ بات نہیں اختیار کی
کبھی انجمن سے تری کبھی ساتوں آسماں سے
اے شمع یہ معنی نہیں آئین وفا کے
تفرقہ باز مجازی سے حقیقت نہ ہوئی
ہوئی ہے زندگانی دشت غربت میں بسر میری
اے دل بنے جس طرح منالا انہیں جاکے
جان تجھ میں نرگس بیمار کچھ یونہی سی ہے
بن گدائے میکدہ تو کچھ اگر ذی ہوش ہے
اس قدر دور سمجھنے لگے وہ دل سے مجھے
ان کا یہ طعنہ نہیں کم زہر قاتل سے مجھے
یہ اپنے چاہنے والوں کی قدردانی کی
کیا جو کام اس نے ہو نہیں سکتا ہے پیکاں سے
مدت طول اسیری کی اک تصویر ہے
کشش نگاہ میں ہے تشنگی بلا کی ہے
لہو جو رلاتا ہے وہ دل یہی ہے
ملا کے آنکھ تر ستے ہیں اک نظر کے لئے
جھکائے اب نہ یوں گردن کو چلئے
بہت بے چین ہیں محشر میں جلوا دیکھنے والے
آئینہ دیکھ کے جھینپا سر محفل کوئی
دل دکھاتی ہے دل مظلوم کی فریاد بھی
چھپنے والے یہ بھی چھپنے کا کوئی انداز ہے
ساتھ ان کے رہتے رہتے کیا سے کیا ہو جائے گا
دل دے کے ان سے پھر نہ تقاضا کریں گے ہم
دشت ہستی میں غبار چاک داماں کچھ نہیں
ذرا بھی دم ترے بیمار ناتواں میں نہیں
ساز وساماں ہے یہی بے سروساماں ہوں گے
دیکھ کر ان کی نگاہ ناز جی الجھن میں ہے
کشش نظر میں تھی بیگانہ بھی یگانہ تھا
پھول لائے ہیں سر قبر سنورنے والے
میں کیا اداس ہوں کہ ہر انساں اداس ہے
مجھ سے مانوس ہے اتنی ہے محبت میری
حسینوں پر کسی کا جب دل ناشاد آتا ہے
شمعیں روشن تجھ میں اے گور غریباں کر چکے
وہ داغ دے کے مرے دل کو ہائے جاتے ہیں
لطف کچھ سوز میں ہے اب نہ مزا سازمیں ہے
حقیقت پوچھتا ہے مجھ سے کیا اوباغیاں میری
مرجائے شب غم میں کچھ دور نہیں ہے
اب پوچھتی نہیں تری برق نظر مجھے
تو جلوہ نما آج لب جام نہیں ہے
ٹوٹے ہوئے دل کو مرے تم دل نہ سمجھنا
اے جنوں ہم کو جناں میں بھی یہ ساماں چاہئے
وعدہ رہا نہ یاد مرے مست خواب کو
ساری دنیا سے دل وارفتہ بیگان ہوا
دعائیں مانگی تھیں جو مرگ ناگہاں کےلئے
نقش ہستی کو غریبوں کی مٹاتے کیوں ہو
قطعہ تاریخ وصال حضرت حاجی مولانا عین القضاۃ صاحب
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔