سرورق
حرفے چند
پیش گفتار
دیوان میر رضا عظیم آبادی
ایمن کی تھی نہ وادی نہ نخل طور تھا
دل اب ویراں ہے کیوں کا شانہ تیرا
کیا جانیے کس طرح کی لے کر خبر آیا
سنتے ہیں رہ رووں سے شاید وہی رضا تھا
تماشا باغ کا بھائے نہ اس بن ہم کو صحرا کو
رہا گر یہی طور اس بے وفا کا
کل مزاج اس تند خو کا سخت بے حمانہ تھا
دل کی بے تابیوں سے عشق چھپایا نہ گیا
کل یار سیر کرنے گل زار کو گیا تھا
جس کو جانا دوست سو دشمن ہی آخر ہو گیا
نہ ہم نے سرد نہ شمشاد کا خیال کیا
بھرے اس بے خبر دنیا میں کوئی کیا پنا پیمانہ
حال جس نے مرا سنا ہوگا
ہمیں قاصد خبر اس کی کرے گا
نہیں معلوم صدمہ کس کے غم کا رات اس پر تھا
بوسہ ہی لینے پہ طالم نے نہ جمد ہر کھینچا
ذکر ہر ایک آن ہے تیرا
جب سے میں گل رخاں کا یار ہوا
رضا کا یار سے ہونا جدا ہی ہم کو اچھا تھا
دنیا کا جب کہ خوب پریکھا کہا سنا
یار کے رخ نے کبھی اتنا نہ حیراں کیا
آنکھوں سے جاے اشک گراخوں جلا ہوا
مری جانا بھلاہے میر رضا
جفاے عشق کا جب بزم میں بیان ہوا
جوترے در پہ میری جاں آیا
ہم کو کس منہ سے منہ دکھائے گا
جوں شمع تاکہ سب تن اشرف زباں نہ ہوگا
تو ہی دشمن مرا کچھ اے بت پرفن نہ رہا
روز ازل ہر ایک نے ایک ایک فن لیا
کرو اس شوخ سے اے غم گسارو ذکر غم گیں کا
پرا ہے درد وغم سے بس کہ پیارے کام اب اپنا
شب اپنے دل میں اس کا جلوہ شررفشاں تھا
یار کو بے باکی میں اپنا سا ہم نے کر لیا
شب مہتاب میں جو بادہ گل فام دیوے گا
جانتے تھے ہم بھی مرنا ہجر میں بہتر نہ تھا
مت نکال اپنی گلی سے کیا رضا گھر جائے گا
حرف بہ گویاں سے فتنہ کیا کہوں کیا کیا اٹھا
دیکھنے میں تو قضا نے عشق ہی تنہا دیا
شرمندہ نہیں کون ترے عشوہ گری کا
ذوق اپنے دل کو تلخی غم کا سدا رہا
اس چشم نے کہ طوطوں کو نکتہ واں کیا
اپنا چپ ہونا عجب ماتم کا شور افگن ہوا
مجھے حیرت ہے یارب اس کا کیا انجام ہوئے گا
دیکھتے ہی اس کی صورت کو میں دیوانہ ہوا
جو ستم اس نے کیا اب تئیں دشوار نہ تھا
مرا مدت سے دل رنجور ہے اچھا نہیں ہوتا
جیتے جی گر یہاں سے جانئے گا
گورکے منہ سے ہم پھر آئے تم نے کبھی بھی آدیکھا
میرےنالے پر نہیں تجھ کو تغافل کے سوا
بر میں وہ سیم بر نہیں آتا
جوروستم کسی پہ کرے کوئی کیا سبب
بزم افروز وہ اک شب ستم ایجاد ہوا
کہتے ہیں آپ جو کچھ سو سب سہی ہے صاحب
نہ اس کی کو ہے اور نہ کہا غیر کا سبب
ابر ہے ابر ہے شراب شراب
ٹک تو محل کا نشاں دے جلد اے صورت زرا
سنتے ہو تم تو دل سے میاں ہر کسی کی بات
ہم مر گئے پہ شکوے کی منہ پر نہ آئی بات
زلف کھولے تھا کہاں اپنی وہ پھر بے باک رات
یہ کہتا نہیں ہوں مان لو بات
مت پوچھ دل جلا کہ جگر تھا کباب رات
کہتے ہیں ہم غیروں سے بے فائدہ مت مل عبث
کیا نہ دیدوں سے زمانے کو سروکار ہے آج
سچ کہہ رضا یہ کس سے لگائی ہے ساٹ باٹ
کرتا ہے تن پہ نالۂ دل ہر نفس کے بیچ
بے پردہ ہو جو وہ رخ حیرت فزاے صبح
ہائے زندگانی فرہاد
ناز کا مارا ہوا ہوں میں ادا کی سوگند
نکل مت گھر سے تو اے خانہ آباد
اس کے لبوں کے مقابل ہر گز اے خضر آب حیات نہ کر
نہ کہیو نکہت گل ہاے باغ نازک تر
اب رضا کا ملال ہے کچھ اور
جان دینے پہ ملے ہے جاناں
بھر نظر دیکھیں گے ہم اس کو ملا جاناں اگر
ہاتھ اس کے نہ آیا دامن ناز
نہ رکھ فانوس اے فراش محفل شمع روشن پر
مری خبر نہیں تجھ کو ستم شعار افسوس
فسوں تیرا کرے گا مختلط سیماب اور آتش
پہنچی ہے ناتوانی مری اب یہاں تلک
شور بلبل ہے فغاں دل زار عاشق
تجھ سے یوں مل گیا ہمارا دل
دکھلا چکی یاں تک تو مری جلوہ گری رنگ
نہ نامہ بھیج سکتے ہیں نہ پیغام زبانی ہم
وسعت مشرب سے ہیں ہر نیک وبد کے یار ہم
دیکھیں ہماری ہوتی ہے کب شام غم تمام
آخر تو عیاں تجھ سے ہو نومید چلے ہم
ہر نفس مورد سفر ہیں ہم
اے بت ناآشنا کب تجھ سے بیگانے ہیں ہم
گرچہ ہیں لاچار اپنے اس مضطر سے ہم
سینہ نشانہ گاہ تیروسناں کریں ہم
اب تو تم بھی جواں ہوئے ہو دیکھیں گے دل کو بچاؤگے تم
نہ کھلا ہوں لالہ ساں نہ مثل گل خندیدہ ہوں
تنہا گھر ہی کا سرخ یہ دیوار ودر نہیں
دل کا لینا تمہیں اے یار جو منظور نہیں
لاچارہوں جو عرض غم بے کراں کروں
خواب میں صورت خیال آکر دکھاتا ہے ہمیں
کب تک ہر دم کے آنے جانے سے مضطر رہیں
نہ کعبہ ہے یہاں میرے نہ ہے بت خانہ پہلو میں
ایسے خرام ناز سے جدھر ورد کریں
کوئی کشمکش ہے زلف کی کیوں کر بچائے جان
روز محشر کی مت کرو باتیں
اس طرح بزم میں وصف رخ جانا نہ کروں
سن صاحب معنی سے دل زار کی باتیں
کس گرم خو کے ہاے پڑا دل تو ہاتھ میں
دل میرا چک چکا ہے اک بوسے کے بدل میں
عشق کی بیماری ہے جن کو دل ہی دل میں گلتے ہیں
عاشق ہیں تمہارے میر رضا صاحب کہیے غلام انہیں
وبال جان ہر اک بال ہے میاں
مجھ کو کیا جو کہتے ہومیاں تم ہو کہاں تم ہو کہاں
دشمنوں کو نہیں میں چاہتا سرور کروں
جو ہستی کو اپنی عدم جانتے ہیں
ایک ہی سمجھے ہے وہ تو شکر وشکوہ کیا کریں
کیا ہو گر ایک نگہ تجھ پہ اے مہ پارہ کروں
نہ باغ ہی ہے یہاں نہ بہار رکھتے ہیں
خستہ جگر ہیں غم زدہ ہیں دل فگار ہیں
بتوں کو فائدہ کیا ہے جو ہم سے جنگ کرتے ہیں
نہ خاطر خوش نہ دل آرمیدہ ہوں
مت رکھ رضا تو خوبوں سے صاحب سلامتیں
نالے کا ڈھنڈورا نہ دے ا ے آہ نگر میں
دل میں اب خوں نظر آتا ہے نہ تم چشموں میں
عشق کے جاں نثار جیتے ہیں
کوں دم ہے ترا ملال نہیں
بے قراری وہاں منظور نہیں
دل ہے یہ غم نہ رہیو تو اس میں
دل کی ہم سے حیر دنیا میں کوئی ہوتی نہیں
میں تو گیا تھا کب کا ترے کو چے سے پر آہ
دل گرفتار دیکھے کیا ہو
یہ تن بدن سے شمع زباں ہے تمام ہو
ہجر ایسی بدبلا کا کوئی مبتلا نہ ہو
نہ کفر کی ہوس ہے نہ ایماں کی آرزو
کیا عداوت تھی چشم تر تجھ کو
لازم ہے بلند آہ کی رایت نہ کرے تو
نسبت ہمارے دل سے ہے اس درجہ داغ کو
جس میں دل خوش ہو تراخوشی یاں مجھ کو
ابر کے بن دیکھے ہر گز خوش دل مستان نہ ہو
یار ہے گردن کا سر گر ترا سودا نہ ہو
بہت سے یاد تھے فریاد کے انداز عاشق کو
کہاں ایسا جنوں جو لے چلے راہ بیاباں کو
پڑا ہے وعدے سے اب کاروبار مت پوچھو
کہتا ہے مجھ سے وہ خبردار ہو
عاشق پہ جو کرتے ہیں ثابت گناہ کو
کرتا ہے کج روے نئی ہر ایک آن تو
جس طرح خواب سے آرام ہے بیماروں کو
موت بھی آتی نہیں ہجر کے بیماروں کو
نہ خواہش بازی نہیں رضا بازی
اس گھڑی کچھ تھے اور اب کچھ ہو
حسرت ہوئی دونی گئے جب پاس زیادہ
بھرا ہے خون مرے ہاتھوں میں یارنگ حنا سچ کہہ
دل جا پڑا نہ اس بت نا آشنا کے ہاتھ
کیا قتل ایک دم میں اپنے خنجر کا تماشا دیکھ
کیوں کے وہ عاشق دل سوختہ سے ساز کرے
دل لگانے کا چاہ ہوتا ہے
مجھ خاک سے جو لالہ اگا کیا عجب یہ ہے
گر چشم تری جام صہبا کے برابر ہے
غیر کے گھر وہ ہاے جاتا ہے
کیا جانے کس کی صورت دل سے دوچار ہے اب
اٹھے ہیں گہہ زمیں سے گہہ آسماں سے
اس خستہ جاں کو کون سی یارب دوا لگے
میں ہی نہیں ہوں برہم اس زلف کج ادا سے
انسان ہے یہ یا فلک یا حور ہے یہ یا پری
ہمیں مرجائیں اب کہ یارآئے
کہاں کا پیغام اور نامہ غرض یہ احوال نامہ بر ہے
یو ہیں مری جان لیا چاہیے
گل عشاق رنگ باختہ ہے
جب اٹھے تیرے آستانے سے
کس طرح چھپائیں محبت ہم نالوں سے چاہ نکلتی ہے
عاشق کو زندگی شب ہجراں نہ چاہیے
یعقوب خوش نہ ہوگا بوے گل دشمن سے
میں جان دیتا ہوں مژۂ یار کے لیے
نالہ نہ کہیے اس کوجو شعلہ ور نہ ہوئے
رویئے کس کے لیے اور کس کا ماتم کیجئے
کشش دل کی کوئی مرنے سے بےتاثیر ہوتی ہے
ہر اک کا حوصلہ چاہے ہے بحروبر لیوے
کس لیے صحرا کے محتاج تماشا ہو جیے
یاد ہے ان روزوں کی جب تم ہم سے محبت رکھتے تھے
غرور حسن سے تم کب ہماری دا د کو پہونچے
زخم جگر شگفتہ ہوں سینے کے داغ دیکھنے
تری تو بوے پیراہن نے یعقوب آنکھ روشن کی
گالی بھی تو جودے اسے استانہ دے
کلمۃ الحق جو کیا عشق نے ارشاد مجھے
ہم کو یارب ایسے کہاں سے چشم ملے طوفاں بھرے
عرض ہے وقف سفر اس ظالم بیداد سے
غیر ہی سے نہیں شاکی ہوں میں دل بر سے بھی
نہ تم سمجھے نہ طاقت دل میں درد رشک سہنے کی
بھری اک آہ ہم سے ان نے پوچھی عرکی سب کی
مت آوے زمانہ سمجھو کہ نارسا ہے
مت شاد ہو جو تجھ کو سارا جہاں دیوے
نالہ جب اپنی جان سے اٹھتا ہے
ضمیمہ
دیوان رضا تصحیحات
سرورق
حرفے چند
پیش گفتار
دیوان میر رضا عظیم آبادی
ایمن کی تھی نہ وادی نہ نخل طور تھا
دل اب ویراں ہے کیوں کا شانہ تیرا
کیا جانیے کس طرح کی لے کر خبر آیا
سنتے ہیں رہ رووں سے شاید وہی رضا تھا
تماشا باغ کا بھائے نہ اس بن ہم کو صحرا کو
رہا گر یہی طور اس بے وفا کا
کل مزاج اس تند خو کا سخت بے حمانہ تھا
دل کی بے تابیوں سے عشق چھپایا نہ گیا
کل یار سیر کرنے گل زار کو گیا تھا
جس کو جانا دوست سو دشمن ہی آخر ہو گیا
نہ ہم نے سرد نہ شمشاد کا خیال کیا
بھرے اس بے خبر دنیا میں کوئی کیا پنا پیمانہ
حال جس نے مرا سنا ہوگا
ہمیں قاصد خبر اس کی کرے گا
نہیں معلوم صدمہ کس کے غم کا رات اس پر تھا
بوسہ ہی لینے پہ طالم نے نہ جمد ہر کھینچا
ذکر ہر ایک آن ہے تیرا
جب سے میں گل رخاں کا یار ہوا
رضا کا یار سے ہونا جدا ہی ہم کو اچھا تھا
دنیا کا جب کہ خوب پریکھا کہا سنا
یار کے رخ نے کبھی اتنا نہ حیراں کیا
آنکھوں سے جاے اشک گراخوں جلا ہوا
مری جانا بھلاہے میر رضا
جفاے عشق کا جب بزم میں بیان ہوا
جوترے در پہ میری جاں آیا
ہم کو کس منہ سے منہ دکھائے گا
جوں شمع تاکہ سب تن اشرف زباں نہ ہوگا
تو ہی دشمن مرا کچھ اے بت پرفن نہ رہا
روز ازل ہر ایک نے ایک ایک فن لیا
کرو اس شوخ سے اے غم گسارو ذکر غم گیں کا
پرا ہے درد وغم سے بس کہ پیارے کام اب اپنا
شب اپنے دل میں اس کا جلوہ شررفشاں تھا
یار کو بے باکی میں اپنا سا ہم نے کر لیا
شب مہتاب میں جو بادہ گل فام دیوے گا
جانتے تھے ہم بھی مرنا ہجر میں بہتر نہ تھا
مت نکال اپنی گلی سے کیا رضا گھر جائے گا
حرف بہ گویاں سے فتنہ کیا کہوں کیا کیا اٹھا
دیکھنے میں تو قضا نے عشق ہی تنہا دیا
شرمندہ نہیں کون ترے عشوہ گری کا
ذوق اپنے دل کو تلخی غم کا سدا رہا
اس چشم نے کہ طوطوں کو نکتہ واں کیا
اپنا چپ ہونا عجب ماتم کا شور افگن ہوا
مجھے حیرت ہے یارب اس کا کیا انجام ہوئے گا
دیکھتے ہی اس کی صورت کو میں دیوانہ ہوا
جو ستم اس نے کیا اب تئیں دشوار نہ تھا
مرا مدت سے دل رنجور ہے اچھا نہیں ہوتا
جیتے جی گر یہاں سے جانئے گا
گورکے منہ سے ہم پھر آئے تم نے کبھی بھی آدیکھا
میرےنالے پر نہیں تجھ کو تغافل کے سوا
بر میں وہ سیم بر نہیں آتا
جوروستم کسی پہ کرے کوئی کیا سبب
بزم افروز وہ اک شب ستم ایجاد ہوا
کہتے ہیں آپ جو کچھ سو سب سہی ہے صاحب
نہ اس کی کو ہے اور نہ کہا غیر کا سبب
ابر ہے ابر ہے شراب شراب
ٹک تو محل کا نشاں دے جلد اے صورت زرا
سنتے ہو تم تو دل سے میاں ہر کسی کی بات
ہم مر گئے پہ شکوے کی منہ پر نہ آئی بات
زلف کھولے تھا کہاں اپنی وہ پھر بے باک رات
یہ کہتا نہیں ہوں مان لو بات
مت پوچھ دل جلا کہ جگر تھا کباب رات
کہتے ہیں ہم غیروں سے بے فائدہ مت مل عبث
کیا نہ دیدوں سے زمانے کو سروکار ہے آج
سچ کہہ رضا یہ کس سے لگائی ہے ساٹ باٹ
کرتا ہے تن پہ نالۂ دل ہر نفس کے بیچ
بے پردہ ہو جو وہ رخ حیرت فزاے صبح
ہائے زندگانی فرہاد
ناز کا مارا ہوا ہوں میں ادا کی سوگند
نکل مت گھر سے تو اے خانہ آباد
اس کے لبوں کے مقابل ہر گز اے خضر آب حیات نہ کر
نہ کہیو نکہت گل ہاے باغ نازک تر
اب رضا کا ملال ہے کچھ اور
جان دینے پہ ملے ہے جاناں
بھر نظر دیکھیں گے ہم اس کو ملا جاناں اگر
ہاتھ اس کے نہ آیا دامن ناز
نہ رکھ فانوس اے فراش محفل شمع روشن پر
مری خبر نہیں تجھ کو ستم شعار افسوس
فسوں تیرا کرے گا مختلط سیماب اور آتش
پہنچی ہے ناتوانی مری اب یہاں تلک
شور بلبل ہے فغاں دل زار عاشق
تجھ سے یوں مل گیا ہمارا دل
دکھلا چکی یاں تک تو مری جلوہ گری رنگ
نہ نامہ بھیج سکتے ہیں نہ پیغام زبانی ہم
وسعت مشرب سے ہیں ہر نیک وبد کے یار ہم
دیکھیں ہماری ہوتی ہے کب شام غم تمام
آخر تو عیاں تجھ سے ہو نومید چلے ہم
ہر نفس مورد سفر ہیں ہم
اے بت ناآشنا کب تجھ سے بیگانے ہیں ہم
گرچہ ہیں لاچار اپنے اس مضطر سے ہم
سینہ نشانہ گاہ تیروسناں کریں ہم
اب تو تم بھی جواں ہوئے ہو دیکھیں گے دل کو بچاؤگے تم
نہ کھلا ہوں لالہ ساں نہ مثل گل خندیدہ ہوں
تنہا گھر ہی کا سرخ یہ دیوار ودر نہیں
دل کا لینا تمہیں اے یار جو منظور نہیں
لاچارہوں جو عرض غم بے کراں کروں
خواب میں صورت خیال آکر دکھاتا ہے ہمیں
کب تک ہر دم کے آنے جانے سے مضطر رہیں
نہ کعبہ ہے یہاں میرے نہ ہے بت خانہ پہلو میں
ایسے خرام ناز سے جدھر ورد کریں
کوئی کشمکش ہے زلف کی کیوں کر بچائے جان
روز محشر کی مت کرو باتیں
اس طرح بزم میں وصف رخ جانا نہ کروں
سن صاحب معنی سے دل زار کی باتیں
کس گرم خو کے ہاے پڑا دل تو ہاتھ میں
دل میرا چک چکا ہے اک بوسے کے بدل میں
عشق کی بیماری ہے جن کو دل ہی دل میں گلتے ہیں
عاشق ہیں تمہارے میر رضا صاحب کہیے غلام انہیں
وبال جان ہر اک بال ہے میاں
مجھ کو کیا جو کہتے ہومیاں تم ہو کہاں تم ہو کہاں
دشمنوں کو نہیں میں چاہتا سرور کروں
جو ہستی کو اپنی عدم جانتے ہیں
ایک ہی سمجھے ہے وہ تو شکر وشکوہ کیا کریں
کیا ہو گر ایک نگہ تجھ پہ اے مہ پارہ کروں
نہ باغ ہی ہے یہاں نہ بہار رکھتے ہیں
خستہ جگر ہیں غم زدہ ہیں دل فگار ہیں
بتوں کو فائدہ کیا ہے جو ہم سے جنگ کرتے ہیں
نہ خاطر خوش نہ دل آرمیدہ ہوں
مت رکھ رضا تو خوبوں سے صاحب سلامتیں
نالے کا ڈھنڈورا نہ دے ا ے آہ نگر میں
دل میں اب خوں نظر آتا ہے نہ تم چشموں میں
عشق کے جاں نثار جیتے ہیں
کوں دم ہے ترا ملال نہیں
بے قراری وہاں منظور نہیں
دل ہے یہ غم نہ رہیو تو اس میں
دل کی ہم سے حیر دنیا میں کوئی ہوتی نہیں
میں تو گیا تھا کب کا ترے کو چے سے پر آہ
دل گرفتار دیکھے کیا ہو
یہ تن بدن سے شمع زباں ہے تمام ہو
ہجر ایسی بدبلا کا کوئی مبتلا نہ ہو
نہ کفر کی ہوس ہے نہ ایماں کی آرزو
کیا عداوت تھی چشم تر تجھ کو
لازم ہے بلند آہ کی رایت نہ کرے تو
نسبت ہمارے دل سے ہے اس درجہ داغ کو
جس میں دل خوش ہو تراخوشی یاں مجھ کو
ابر کے بن دیکھے ہر گز خوش دل مستان نہ ہو
یار ہے گردن کا سر گر ترا سودا نہ ہو
بہت سے یاد تھے فریاد کے انداز عاشق کو
کہاں ایسا جنوں جو لے چلے راہ بیاباں کو
پڑا ہے وعدے سے اب کاروبار مت پوچھو
کہتا ہے مجھ سے وہ خبردار ہو
عاشق پہ جو کرتے ہیں ثابت گناہ کو
کرتا ہے کج روے نئی ہر ایک آن تو
جس طرح خواب سے آرام ہے بیماروں کو
موت بھی آتی نہیں ہجر کے بیماروں کو
نہ خواہش بازی نہیں رضا بازی
اس گھڑی کچھ تھے اور اب کچھ ہو
حسرت ہوئی دونی گئے جب پاس زیادہ
بھرا ہے خون مرے ہاتھوں میں یارنگ حنا سچ کہہ
دل جا پڑا نہ اس بت نا آشنا کے ہاتھ
کیا قتل ایک دم میں اپنے خنجر کا تماشا دیکھ
کیوں کے وہ عاشق دل سوختہ سے ساز کرے
دل لگانے کا چاہ ہوتا ہے
مجھ خاک سے جو لالہ اگا کیا عجب یہ ہے
گر چشم تری جام صہبا کے برابر ہے
غیر کے گھر وہ ہاے جاتا ہے
کیا جانے کس کی صورت دل سے دوچار ہے اب
اٹھے ہیں گہہ زمیں سے گہہ آسماں سے
اس خستہ جاں کو کون سی یارب دوا لگے
میں ہی نہیں ہوں برہم اس زلف کج ادا سے
انسان ہے یہ یا فلک یا حور ہے یہ یا پری
ہمیں مرجائیں اب کہ یارآئے
کہاں کا پیغام اور نامہ غرض یہ احوال نامہ بر ہے
یو ہیں مری جان لیا چاہیے
گل عشاق رنگ باختہ ہے
جب اٹھے تیرے آستانے سے
کس طرح چھپائیں محبت ہم نالوں سے چاہ نکلتی ہے
عاشق کو زندگی شب ہجراں نہ چاہیے
یعقوب خوش نہ ہوگا بوے گل دشمن سے
میں جان دیتا ہوں مژۂ یار کے لیے
نالہ نہ کہیے اس کوجو شعلہ ور نہ ہوئے
رویئے کس کے لیے اور کس کا ماتم کیجئے
کشش دل کی کوئی مرنے سے بےتاثیر ہوتی ہے
ہر اک کا حوصلہ چاہے ہے بحروبر لیوے
کس لیے صحرا کے محتاج تماشا ہو جیے
یاد ہے ان روزوں کی جب تم ہم سے محبت رکھتے تھے
غرور حسن سے تم کب ہماری دا د کو پہونچے
زخم جگر شگفتہ ہوں سینے کے داغ دیکھنے
تری تو بوے پیراہن نے یعقوب آنکھ روشن کی
گالی بھی تو جودے اسے استانہ دے
کلمۃ الحق جو کیا عشق نے ارشاد مجھے
ہم کو یارب ایسے کہاں سے چشم ملے طوفاں بھرے
عرض ہے وقف سفر اس ظالم بیداد سے
غیر ہی سے نہیں شاکی ہوں میں دل بر سے بھی
نہ تم سمجھے نہ طاقت دل میں درد رشک سہنے کی
بھری اک آہ ہم سے ان نے پوچھی عرکی سب کی
مت آوے زمانہ سمجھو کہ نارسا ہے
مت شاد ہو جو تجھ کو سارا جہاں دیوے
نالہ جب اپنی جان سے اٹھتا ہے
ضمیمہ
دیوان رضا تصحیحات
Thanks, for your feedback
Please enter the code to continue. It is required as a security measure. We truly appreciate your cooperation.