سرورق
فہرست دیوان ماتم
عرض ناشر
پیش لفظ
فضل محمد ماتم
ردیف الف
عاشق ہوں میں کسی کے رخ بے نظیر کا
بہار آئی گلستاں میں ہے ہو سو شور بلبل کا
ابر باراں ہے نمونہ دیدۂ پر آب کا
احوال عاشقی کا میرے عام ہوگیا
رخ وگیسو سے کس کے کام رہا
مشکل عشق کو دل جب سے کہ آساں سمجھا
عشاق کو کچھ سوچ نہیں آدمی پن کا
چیے کہ زلف پریشاں سے سلسلہ ہوگا
میں نہ مہرووفا سے در گزرا
زلف سے جس کا سلسلہ ہوگا
زلف کا ہم نے سلسلہ چھوڑا
پھر آکے کوئی آتشیں چہرہ دکھا گیا
بعد مدت جو ملا آج مجھے وہ لالا
لب دلبر سے لذت ہے عجب دشنام کھانے کا
رکھتا ہے عشق میں ہر ایک مجھے خوار جدا
عاشق ہے جو تمہارے رخ سرخ رنگ کا
دل ناکام کام کرنا تھا
یار مجرا تو لے سلامی کا
رہوں مرہون منت خنجر مژگان قاتل کا
یاد آتا ہے زمانہ مجھے شیدائی کا
ہم سب انتظار آمد دلبر میں اختر ہا
اک رشک مہ کے گھر میں ہمارا گزار تھا
ہے ہے وہ دن کہ یار سے بوس وکنار تھا
کیا کروں میں بیاں جدائی کا
کسی محبوب گل رو سے لگا ہے عشق کیا دل کا
رنگ مجھ رخ سے عیاں ہے عشق کے آزار کا
دل ہے شیدا یار کے رخسار کا
گرچہ صورت میں ہے پہلے بتوالبشتر پیدا ہوا
جب سے دیکھا ہے ترے حسن کا پیارا چمکا
شوق ہے یار تیرے دیدن کا
یاد آتا ہے زمانہ مجھے سودا پن کا
کس کو کہوں میں حال دل زار تجھ سوا
کیا کہوں میں کس طرح دلبر سے دلبر لے گیا
کیا کہوں میں رات یارو یار بن کیونکر رہا
کریں کس سے بیاں ہم حالت رنج ومحن اپنا
کروں میں شکوۂ بیداد کیا چرخ ستمگر کا
جاں فزا دل سے ہوں میں اس مصرع استاد کا
ردیف ب
کون کہتا ہے تو ملو صاحب
آج گلشن سے نہیں آتی صدائے عندلیب
تجھ بن آتا ہی نہیں اے غیرت گلزار خواب
کیا کروں میں تجھ سوا اے یارخواب
اب تو للہ اے صنم رخسار سے الٹو نقاب
اب تو للہ اے صنم الٹو نقاب
ہم سدا ہیں عاشق محبوب رب
کیونکر کہے کوئی شہ بیداد گر ہیں آپ
ردیف پ
گرچہ انساں کے لئے ہے بہتر اے دلدار چپ
ردیف ت
کہاں کے ہم تھے کہاں کے تم تھے کہاں تو دیکھو
یار سنتا نہیں ہماری بات
کیا کہوں کیا ہے کیونکر ہے نشان کوئے دوست
آیا نہ میرا وہ مہ انور تمام رات
والفجر اے دوستاں ہے داستان روئے دوست
چبھائے ہے دل میں تاخار محبت
ازل سے ہوں میں قربان محبت
ردیف ٹ
آج تو سو مجھ سے اے جانی لپٹ
آپ کو عاشق بیدل سے نہ تو یار لپیٹ
الغیاث اے شاہ خوباں الغیاث
ردیف ث
نہیں ملتا ہے جو ہم سے ہمارا یار کیا باعث
صندلی رنگوں کی الفت گر ہے خفقاں کا علاج
ردیف ج
کیا کرے گا عاشقوں کا چارہ گر ناداں علاج
ردیف چ
گر مجھے سمجھے پری رو اپنی تسخیروں کے بیچ
گنتے ہیں ہر چند ہم کو اب تو دیوانوں کے بیچ
تند رستوں میں نہ بیماروں کے بیچ
پھر آئی موسم گل پھر چلی ہوائے قدح
ردیف ح
کیا کون کیوں کریں کسی کی مدح
راستی ہے رونق بازار صبح
ردیف خ
کیا کہوں کیا ہے میرا یار شوخ
جس طرح ہے دل جانانہ جفا سے گستاخ
الایا شاہ خوباں کیجئے شاد
ردیف د
میں مشت پر ہوں فقط چند استخواں صیاد
شیخ کو ہے دینداروں پر گھمنڈ
ردیف ڈ
حسن دو روزہ پہ مت کر اے گل احمر گھمنڈ
ردیف ذ
کتنے آخوند جی صاحب سے لکھائے تعویذ
اے دل زار لکھو جانب جاناں کاغذ
خنوبرویاں عشق سے ہیں بے خبر
ردیف ر
قیس گر ویراں بیاباں دیکھتا روتا ضرور
عاشق ہیں ہم تو یار تمہارے جمال پر
با وفا تھی اس قدر یا بیوفائی اس قدر
مت کھپا اے ناصح ناداں مرا سر زینہار
عندلیباں مژدہ پھر آئی بہار
یار جاتے ہو کہاں عاشق کو نالاں چھوڑ کر
ردیف ڑ
بسکہ پچھتائے گا اے دل کوچۂ جاناں کو چھوڑ
مجھے میخانہ میں دو دوستاں چھوڑ
ضید سے ناقوس زنار توڑ
بار من عشاق سے مت منہ کو موڑ
اے عزیزاں کیا کروں کس کو کہوں میں دھاڑ دھاڑ
زلف پری کا ہے مجھے سودا بمن ہنوز
ردیف ز
نہ ہوا تھا ہی بنا تختۂ گلزار ہنوز
دکھلائی نہ اےآتش دل کچھ اثر افسوس
ردیف س
یار اغیار مرا یار ہے افسوس افسوس
ہم کو دکھلایا خوش آوازی نے دیدار قفس
ردیف ش
وہ مرغ مقفس ہوں میں صیاد فراموش
عشاق کے دل کو نہ رکھو یار مشوش
عالم دنیا میں ہے جس طرح بدنام حریص
ردیف ص
جس پہ عاشق ہوں میں بصد اخلاص
ہم کو ہے کوچۂ سجن سے غرض
ردیف ص
نے سرو سے غرض ہے نہ گلنار سے غرض
تجھ لب کے آگے ذکر شکر ہے غلط غلط
ردیف ط
ہم کو شہر علم نبوی کے ہے در سے اختلاط
چھوڑ دے آج تو اے دلبر دلدار لحاظ
ردیف ظ
ہم تو ہیں یار ترے جور جفا سے محفوظ
یار کے دربار میں پاتی ہے ہر شب یار شمع
ردیف ع
پیدا کرے فروغ ہزاروں ہزار شمع
ردیف غ
ہے بدن سراسر سے لے تا پائے داغ
اے گل خوبی تو ہے سینگار باغ
ردیف ف
عاشقی ومفلسی ہے حیف حیف
پھر ہمارا آگیا دل لعل جاناں کی طرفہ
ردیف ق
آج کل ہے گرم بازاریٔ عشق
رات دن پڑھتا ہوں میں قرآن عشق
کوشش کریں گے عشق میں ہم دل سے جاں تلک
ردیف ک
دلا جو راہ جاناں میں ہوا خاک
تیرے غم سے ہوں میں اے سروچالاک
شعلوں سے محبت کی میری جاں میں لگی آگ
ردیف گ
پیدا کرے ہزار گل لالہ زار رنگ
عجب کچھ خوبرو ہیں دلربا لوگ
یاد آتا ہے جب زمان وصال
ردیف ل
گر دیکھ لے تجھے کبھی اے آرزوئے گل
ہزاراں شکر پھر آئی بہار غمزاد بلبل
ہاتھ جاتے ہٰں میرے سمت گریباں آجکل
ردیف م
رات دن صبح ومسا بوئے گل افشاں ہے نسیم
یار گرچاہتے ہیں ترک تو بادام سے دام
خالق نے خلق کی ہے ہماری برائے غم
کل قسم کھائی ہے باز آئے ہیں خونخواری سے ہم
دودمان درد کی شادی ہیں ہم
ردیف ن
مؤمناں ہوں میں خاکہائے حسن
بخدا خاصۂ خدا ہے حسن
تیرے عشاق تو فراواں ہیں
کیا کہیں ہم چنیں چناں چوں ہیں
یہ تمنا ہے عشق مولیٰ میں
گلرخوں میں وفا کی باس نہیں
نہ گلوں میں ہوں نہ خاروں میں
نے امیروں میں نے وزیروں میں
حال دل کا بیاں کروں نہ کروں
کون ہے وہ تجھ پہ جو شیدا نہیں
دکھائی دیتا ہے پردیس کی وطن تجھ بن
اگر اے دلربا دیکھیں ترا رخ اک نظر پریاں
گلشن دنیا میں ہیں اے دوست دلبر سیکروں
دل ناداں کو ہم ساتھ لئے پھرتے ہیں
دل چاک کئے الفت غنچہ دہنوں میں
لعل لب تو لعل بدخشاں سے کم نہیں
نہ ملا ہوں نہ مفتی ہوں نہ واعظ ہوں نہ قاضی ہوں
دل ہے دو معشوق سے مقصور کس کا ہو رہوں
دعا ہے رات دن میری یہ درگاہ الٰہی میں
جو مزا یارو بھرا ہے نالۂ شبگیر میں
جاؤں کوچہ سے ترے پر یار جا سکتا نہیں
پوچھتے ہو مجھ سے کیا اس مہ کی منزل کہاں
عشق کے ہوں میں دل طپیدوں میں
گرچہ دیندارو خدا حیدر نہیں
ردیف و
ولی کبریا حیدر ہے یارو
احوال یار سے مرا اے آشنا کہو
بر لاؤ اے کریم مرے دل کسی آرزو
آتی بہار مجھ کو ہے جنگل کی آرزو
مجھ کو ہے کوئے سجن کی آرزو
عید قربانی ہے قربانی کرو
دلبر مرا ہے خسرو شیریں لبان مندہ
ردیف ہ
ان روزوں تو دلدار کا دلدار ہے حقہ
کس لئے جاتا ہے مجھ سے یار روٹھ
خوش نہیں ہے دوستو زنہار جوٹھ
دلبر مرا ہے کشور خوبی کا بادشاہ
جب سے دیکھا ہے تمہارا روئے رخشاں آئینہ
ردیف ے
دل ہے فدائے حسن وجمال محمدی
ازل سے دوستوہوں میں تو دوستدار علی
یا رسول کریم ختم نبی
یاد تجھ کو نہاں عیاں ہے سبی
ہم احمد وحیدر کے دل وجاں سے ہیں بردے
خوباں جہاں ہیں ہمہ اے جاں ترے پردے
میرے مہرو کا وہ عالی مکاں ہے
کہوں میں کیا مکاں اس کا کہاں ہے
دیگر اے دل کوچۂ جاناں میں جانا چاہیئے
آشنا ہوں میں اس بت کے زمانہ چاہئے
پلا ساقی شراب ارغوانی
خدا کو ہے مسلم میزبانی
اب مہرباں مجھ پہ مرا گلعذار ہے
جس کو نصیب دولت دیدار یار ہے
اک رشک مہ کے گھر میں ہمارا گزار ہے
افسوس تو رقیب کا اے یار یار ہے
الٰہی تو حمایت کو ہماری
خدا میں مجھے مجھے امید واری
چمن میں آئی پھر باد بہاری
خدا نے تم کو دی لالہ عذاری
اے دل کرو و دفتر فگرات عقل ملے
بحمد اللہ بہار آئی گئی دے
ڈرتا ہوں خال گوشۂ ابروئے یار سے
مرتے ہیں زندہ تری رفتار سے
فرقت دلبر میں دل بیتاب ہے
حسن کو آب تاب باقی ہے
یار جو لذت تمہارے بوسۂ غبغب میں ہے
جو مزا جاناں کے غبغب میں نظر آیا مجھے
منظور ہے نظارۂ محبوب رب مجھے
منظورنظر دید رخ شاہد رب ہے
ہوئے گر یار سے اب کے ملاتی
تماشا تو اے چشم گریاں دکھا دے
کس کو کہوں میں حال دل زار ہائے ہائے
لکھ دو ابرو کی صنم تصویر اپنے ہاتھ سے
فتنہ قرباں ترے نرگس شہلا پر سے
جب وہ گلرو خرام کرتا ہے
فصل بہار ساقی مستاں بکام ہے
ناز خواہاں ہے ناز پر ا پنے
خط اب عارض پر نمودار ہوا چاہتا ہے
کیا کام کیا اے دل کسم حوصلہ تونے
خداوند مرا جب تک نہ دام دم سے دم ٹوٹے
یار آنے کی تمہاری انتظاری رات تھی
چاند سے رخسار پر گر زلف جاناں چھوڑ دے
گلروہوں گے ہونے سے گلستاں ہے تو ہٹڑی
کوٹڑی بھی سندھ میں وہ شہر ہے
جب تک کہ مرا رشتۂ جاں یار نہ ٹوٹے
ہمارے حق میں تو دل بھی بلا ہے
نرمیٔ جسم بتاں مخمل سے پوچھا چاہئے
دل ناداں میرا دور تر از دانائی
کیا کوئی چشم ستمگر کے طرف دیکھ سکے
کرنا ہے کپڑے سرخ مقرر نئے نئے
اس کے نا آنے کی جب خبر آگئی
خدارا دیکھ کر صنما ترے پا میں کڑے توڑے
چمن کوچۂ جاناں سے مگر آتی ہے
کیا کہوں میں کہ نظر میری جدھر پھرتی ہے
کہو اے زاہداں کیونکر کروں میں مئے سے مستوری
میرا دل محو عشق حسن محبوب حجازی ہے
تمنا ہے یہی اب تو خدا سے
دوستاں در رو ہواداری
قطعۂ تاریخ دیوان
ضمیمہ
AUTHORماتم فضل محمد
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER سندھی ادبی بورڈ، کراچی
AUTHORماتم فضل محمد
CONTRIBUTORانجمن ترقی اردو (ہند)، دہلی
PUBLISHER سندھی ادبی بورڈ، کراچی
سرورق
فہرست دیوان ماتم
عرض ناشر
پیش لفظ
فضل محمد ماتم
ردیف الف
عاشق ہوں میں کسی کے رخ بے نظیر کا
بہار آئی گلستاں میں ہے ہو سو شور بلبل کا
ابر باراں ہے نمونہ دیدۂ پر آب کا
احوال عاشقی کا میرے عام ہوگیا
رخ وگیسو سے کس کے کام رہا
مشکل عشق کو دل جب سے کہ آساں سمجھا
عشاق کو کچھ سوچ نہیں آدمی پن کا
چیے کہ زلف پریشاں سے سلسلہ ہوگا
میں نہ مہرووفا سے در گزرا
زلف سے جس کا سلسلہ ہوگا
زلف کا ہم نے سلسلہ چھوڑا
پھر آکے کوئی آتشیں چہرہ دکھا گیا
بعد مدت جو ملا آج مجھے وہ لالا
لب دلبر سے لذت ہے عجب دشنام کھانے کا
رکھتا ہے عشق میں ہر ایک مجھے خوار جدا
عاشق ہے جو تمہارے رخ سرخ رنگ کا
دل ناکام کام کرنا تھا
یار مجرا تو لے سلامی کا
رہوں مرہون منت خنجر مژگان قاتل کا
یاد آتا ہے زمانہ مجھے شیدائی کا
ہم سب انتظار آمد دلبر میں اختر ہا
اک رشک مہ کے گھر میں ہمارا گزار تھا
ہے ہے وہ دن کہ یار سے بوس وکنار تھا
کیا کروں میں بیاں جدائی کا
کسی محبوب گل رو سے لگا ہے عشق کیا دل کا
رنگ مجھ رخ سے عیاں ہے عشق کے آزار کا
دل ہے شیدا یار کے رخسار کا
گرچہ صورت میں ہے پہلے بتوالبشتر پیدا ہوا
جب سے دیکھا ہے ترے حسن کا پیارا چمکا
شوق ہے یار تیرے دیدن کا
یاد آتا ہے زمانہ مجھے سودا پن کا
کس کو کہوں میں حال دل زار تجھ سوا
کیا کہوں میں کس طرح دلبر سے دلبر لے گیا
کیا کہوں میں رات یارو یار بن کیونکر رہا
کریں کس سے بیاں ہم حالت رنج ومحن اپنا
کروں میں شکوۂ بیداد کیا چرخ ستمگر کا
جاں فزا دل سے ہوں میں اس مصرع استاد کا
ردیف ب
کون کہتا ہے تو ملو صاحب
آج گلشن سے نہیں آتی صدائے عندلیب
تجھ بن آتا ہی نہیں اے غیرت گلزار خواب
کیا کروں میں تجھ سوا اے یارخواب
اب تو للہ اے صنم رخسار سے الٹو نقاب
اب تو للہ اے صنم الٹو نقاب
ہم سدا ہیں عاشق محبوب رب
کیونکر کہے کوئی شہ بیداد گر ہیں آپ
ردیف پ
گرچہ انساں کے لئے ہے بہتر اے دلدار چپ
ردیف ت
کہاں کے ہم تھے کہاں کے تم تھے کہاں تو دیکھو
یار سنتا نہیں ہماری بات
کیا کہوں کیا ہے کیونکر ہے نشان کوئے دوست
آیا نہ میرا وہ مہ انور تمام رات
والفجر اے دوستاں ہے داستان روئے دوست
چبھائے ہے دل میں تاخار محبت
ازل سے ہوں میں قربان محبت
ردیف ٹ
آج تو سو مجھ سے اے جانی لپٹ
آپ کو عاشق بیدل سے نہ تو یار لپیٹ
الغیاث اے شاہ خوباں الغیاث
ردیف ث
نہیں ملتا ہے جو ہم سے ہمارا یار کیا باعث
صندلی رنگوں کی الفت گر ہے خفقاں کا علاج
ردیف ج
کیا کرے گا عاشقوں کا چارہ گر ناداں علاج
ردیف چ
گر مجھے سمجھے پری رو اپنی تسخیروں کے بیچ
گنتے ہیں ہر چند ہم کو اب تو دیوانوں کے بیچ
تند رستوں میں نہ بیماروں کے بیچ
پھر آئی موسم گل پھر چلی ہوائے قدح
ردیف ح
کیا کون کیوں کریں کسی کی مدح
راستی ہے رونق بازار صبح
ردیف خ
کیا کہوں کیا ہے میرا یار شوخ
جس طرح ہے دل جانانہ جفا سے گستاخ
الایا شاہ خوباں کیجئے شاد
ردیف د
میں مشت پر ہوں فقط چند استخواں صیاد
شیخ کو ہے دینداروں پر گھمنڈ
ردیف ڈ
حسن دو روزہ پہ مت کر اے گل احمر گھمنڈ
ردیف ذ
کتنے آخوند جی صاحب سے لکھائے تعویذ
اے دل زار لکھو جانب جاناں کاغذ
خنوبرویاں عشق سے ہیں بے خبر
ردیف ر
قیس گر ویراں بیاباں دیکھتا روتا ضرور
عاشق ہیں ہم تو یار تمہارے جمال پر
با وفا تھی اس قدر یا بیوفائی اس قدر
مت کھپا اے ناصح ناداں مرا سر زینہار
عندلیباں مژدہ پھر آئی بہار
یار جاتے ہو کہاں عاشق کو نالاں چھوڑ کر
ردیف ڑ
بسکہ پچھتائے گا اے دل کوچۂ جاناں کو چھوڑ
مجھے میخانہ میں دو دوستاں چھوڑ
ضید سے ناقوس زنار توڑ
بار من عشاق سے مت منہ کو موڑ
اے عزیزاں کیا کروں کس کو کہوں میں دھاڑ دھاڑ
زلف پری کا ہے مجھے سودا بمن ہنوز
ردیف ز
نہ ہوا تھا ہی بنا تختۂ گلزار ہنوز
دکھلائی نہ اےآتش دل کچھ اثر افسوس
ردیف س
یار اغیار مرا یار ہے افسوس افسوس
ہم کو دکھلایا خوش آوازی نے دیدار قفس
ردیف ش
وہ مرغ مقفس ہوں میں صیاد فراموش
عشاق کے دل کو نہ رکھو یار مشوش
عالم دنیا میں ہے جس طرح بدنام حریص
ردیف ص
جس پہ عاشق ہوں میں بصد اخلاص
ہم کو ہے کوچۂ سجن سے غرض
ردیف ص
نے سرو سے غرض ہے نہ گلنار سے غرض
تجھ لب کے آگے ذکر شکر ہے غلط غلط
ردیف ط
ہم کو شہر علم نبوی کے ہے در سے اختلاط
چھوڑ دے آج تو اے دلبر دلدار لحاظ
ردیف ظ
ہم تو ہیں یار ترے جور جفا سے محفوظ
یار کے دربار میں پاتی ہے ہر شب یار شمع
ردیف ع
پیدا کرے فروغ ہزاروں ہزار شمع
ردیف غ
ہے بدن سراسر سے لے تا پائے داغ
اے گل خوبی تو ہے سینگار باغ
ردیف ف
عاشقی ومفلسی ہے حیف حیف
پھر ہمارا آگیا دل لعل جاناں کی طرفہ
ردیف ق
آج کل ہے گرم بازاریٔ عشق
رات دن پڑھتا ہوں میں قرآن عشق
کوشش کریں گے عشق میں ہم دل سے جاں تلک
ردیف ک
دلا جو راہ جاناں میں ہوا خاک
تیرے غم سے ہوں میں اے سروچالاک
شعلوں سے محبت کی میری جاں میں لگی آگ
ردیف گ
پیدا کرے ہزار گل لالہ زار رنگ
عجب کچھ خوبرو ہیں دلربا لوگ
یاد آتا ہے جب زمان وصال
ردیف ل
گر دیکھ لے تجھے کبھی اے آرزوئے گل
ہزاراں شکر پھر آئی بہار غمزاد بلبل
ہاتھ جاتے ہٰں میرے سمت گریباں آجکل
ردیف م
رات دن صبح ومسا بوئے گل افشاں ہے نسیم
یار گرچاہتے ہیں ترک تو بادام سے دام
خالق نے خلق کی ہے ہماری برائے غم
کل قسم کھائی ہے باز آئے ہیں خونخواری سے ہم
دودمان درد کی شادی ہیں ہم
ردیف ن
مؤمناں ہوں میں خاکہائے حسن
بخدا خاصۂ خدا ہے حسن
تیرے عشاق تو فراواں ہیں
کیا کہیں ہم چنیں چناں چوں ہیں
یہ تمنا ہے عشق مولیٰ میں
گلرخوں میں وفا کی باس نہیں
نہ گلوں میں ہوں نہ خاروں میں
نے امیروں میں نے وزیروں میں
حال دل کا بیاں کروں نہ کروں
کون ہے وہ تجھ پہ جو شیدا نہیں
دکھائی دیتا ہے پردیس کی وطن تجھ بن
اگر اے دلربا دیکھیں ترا رخ اک نظر پریاں
گلشن دنیا میں ہیں اے دوست دلبر سیکروں
دل ناداں کو ہم ساتھ لئے پھرتے ہیں
دل چاک کئے الفت غنچہ دہنوں میں
لعل لب تو لعل بدخشاں سے کم نہیں
نہ ملا ہوں نہ مفتی ہوں نہ واعظ ہوں نہ قاضی ہوں
دل ہے دو معشوق سے مقصور کس کا ہو رہوں
دعا ہے رات دن میری یہ درگاہ الٰہی میں
جو مزا یارو بھرا ہے نالۂ شبگیر میں
جاؤں کوچہ سے ترے پر یار جا سکتا نہیں
پوچھتے ہو مجھ سے کیا اس مہ کی منزل کہاں
عشق کے ہوں میں دل طپیدوں میں
گرچہ دیندارو خدا حیدر نہیں
ردیف و
ولی کبریا حیدر ہے یارو
احوال یار سے مرا اے آشنا کہو
بر لاؤ اے کریم مرے دل کسی آرزو
آتی بہار مجھ کو ہے جنگل کی آرزو
مجھ کو ہے کوئے سجن کی آرزو
عید قربانی ہے قربانی کرو
دلبر مرا ہے خسرو شیریں لبان مندہ
ردیف ہ
ان روزوں تو دلدار کا دلدار ہے حقہ
کس لئے جاتا ہے مجھ سے یار روٹھ
خوش نہیں ہے دوستو زنہار جوٹھ
دلبر مرا ہے کشور خوبی کا بادشاہ
جب سے دیکھا ہے تمہارا روئے رخشاں آئینہ
ردیف ے
دل ہے فدائے حسن وجمال محمدی
ازل سے دوستوہوں میں تو دوستدار علی
یا رسول کریم ختم نبی
یاد تجھ کو نہاں عیاں ہے سبی
ہم احمد وحیدر کے دل وجاں سے ہیں بردے
خوباں جہاں ہیں ہمہ اے جاں ترے پردے
میرے مہرو کا وہ عالی مکاں ہے
کہوں میں کیا مکاں اس کا کہاں ہے
دیگر اے دل کوچۂ جاناں میں جانا چاہیئے
آشنا ہوں میں اس بت کے زمانہ چاہئے
پلا ساقی شراب ارغوانی
خدا کو ہے مسلم میزبانی
اب مہرباں مجھ پہ مرا گلعذار ہے
جس کو نصیب دولت دیدار یار ہے
اک رشک مہ کے گھر میں ہمارا گزار ہے
افسوس تو رقیب کا اے یار یار ہے
الٰہی تو حمایت کو ہماری
خدا میں مجھے مجھے امید واری
چمن میں آئی پھر باد بہاری
خدا نے تم کو دی لالہ عذاری
اے دل کرو و دفتر فگرات عقل ملے
بحمد اللہ بہار آئی گئی دے
ڈرتا ہوں خال گوشۂ ابروئے یار سے
مرتے ہیں زندہ تری رفتار سے
فرقت دلبر میں دل بیتاب ہے
حسن کو آب تاب باقی ہے
یار جو لذت تمہارے بوسۂ غبغب میں ہے
جو مزا جاناں کے غبغب میں نظر آیا مجھے
منظور ہے نظارۂ محبوب رب مجھے
منظورنظر دید رخ شاہد رب ہے
ہوئے گر یار سے اب کے ملاتی
تماشا تو اے چشم گریاں دکھا دے
کس کو کہوں میں حال دل زار ہائے ہائے
لکھ دو ابرو کی صنم تصویر اپنے ہاتھ سے
فتنہ قرباں ترے نرگس شہلا پر سے
جب وہ گلرو خرام کرتا ہے
فصل بہار ساقی مستاں بکام ہے
ناز خواہاں ہے ناز پر ا پنے
خط اب عارض پر نمودار ہوا چاہتا ہے
کیا کام کیا اے دل کسم حوصلہ تونے
خداوند مرا جب تک نہ دام دم سے دم ٹوٹے
یار آنے کی تمہاری انتظاری رات تھی
چاند سے رخسار پر گر زلف جاناں چھوڑ دے
گلروہوں گے ہونے سے گلستاں ہے تو ہٹڑی
کوٹڑی بھی سندھ میں وہ شہر ہے
جب تک کہ مرا رشتۂ جاں یار نہ ٹوٹے
ہمارے حق میں تو دل بھی بلا ہے
نرمیٔ جسم بتاں مخمل سے پوچھا چاہئے
دل ناداں میرا دور تر از دانائی
کیا کوئی چشم ستمگر کے طرف دیکھ سکے
کرنا ہے کپڑے سرخ مقرر نئے نئے
اس کے نا آنے کی جب خبر آگئی
خدارا دیکھ کر صنما ترے پا میں کڑے توڑے
چمن کوچۂ جاناں سے مگر آتی ہے
کیا کہوں میں کہ نظر میری جدھر پھرتی ہے
کہو اے زاہداں کیونکر کروں میں مئے سے مستوری
میرا دل محو عشق حسن محبوب حجازی ہے
تمنا ہے یہی اب تو خدا سے
دوستاں در رو ہواداری
قطعۂ تاریخ دیوان
ضمیمہ
Thanks, for your feedback
مطالعہ جاری رکھنے کے لیے برائے مہربانی کوڈ درج کیجیے۔ یہ کچھ سکیورٹی وجوہات سے ضروری ہے۔ اس تعاون کے لیے آپ کے شکر گزار ہوں گے۔